Wednesday, December 30, 2015

New Generation's Responsibility नए युग में युवाओं की ज़िम्मेदारी دور حاضر میں نئی نسل کی ذمہ داری

دور حاضر میں نئی نسل کی ذمہ داری


دور حاضر میں نئی نسل کی ذمہ داری
عبد المعید ازہری

کسی بھی قوم کے نوجوان اس قوم کے مستقبل کی ضمانت ہو تے ہیں ۔ قوم کی ترقی اور تنزلی کا دارو مدار اور انحصار اسی نوجوان نسل پر ہوتا ہے ۔ یہ نوجوان قوم کا اثاثہ اور سرمایہ ہو تے ہیں۔ان کا رخ اگر صحیح سمت کی جانب ہوجائے تو قوم کا مستقبل روشن و تابناک ہوگا اور اگر اس قوم کو ایسے رہنما مل گئے جنہوں نے ان کو غلط سمت پر ڈال دیا تو اس قوم کو تباہ و برباد ہو نے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کسی بھی پلان یا تجویز کو عملی انجام دینے کے لئے عمومی طور پر تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پلان ،پروگرام یا خاکہ ، دوسرا وسائل وزرائع اور مالی تعاون اور تیسرا اسے عملی جامہ پہنانے والے افراد ۔ پلاننگ میں عام طور سے اھیڑ عمر کے لوگ ہو تے ہیں ۔ چالیس سے پچاس سال کی درمیانی عمر انسان کی سب سے پختہ اور بہترین عمر ہو تی ہے ۔ علم و تجربہ دور بینی اور دو ر اندیشی بالکل عروج پر ہوتا ہے ۔ صبر و استقامت پائے کا ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر تعلیمی بیدار ی مہم ۔ جب ملک تعلیمی میدان میں پیچھے ہو نے لگا تو قوم کے ذمہ دار طبقہ نے حکومت کے ذریعے تعلیمی بیداری کا پروگرام تیار کیا ۔تعلیمی پسماندگی کے اسباب و وجوہات تلاش کئے۔ان خامیوں اور کمیوں کے تدارک کے لئے ایک مستقل لائحہ عمل تیا کیا ۔ صنعت کاروں نے اپنا مالی تعاون پیش کیا او ر اس لائحہ عمل کو عملی اقدام کی منزل تک پہنچانے کیلئے وسائل و ذرائع کی سہولیات مہیا کرائی تاکہ یہ منصوبہ آسانی سے عام لوگوں تک رسائی حاصل کر سکے۔عوام تک اس پروگرام کو گھر گھر پہونچا نے کے لئے قوم کے نوجوان اپنے گھروں سے باہر نکلے کیونکہ یہ کام انہیں نوجوانوں کا تھا ۔نئی نسل کو نئی نسل ہی آسانی سے بیدار کر سکتی ہے ۔اس تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی سب سے بڑ ی وجوہات میں سے ایک بے حسی اور عدم بے داری ہے ۔ لوگ اپنے حقوق تک سے واقف نہیں ۔لہٰذا اس تعلیمی بیداری مہم کے ذریعہ عوام الناس تک ان کے حقوق کے ساتھ تعلیم کی اہمیت ، تعلیم حاصل کرنے کیلئے ان کو دی گئی سہولیات سے اس نئی نسل نے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔
نوجوان کی ضرورت ہر محکمہ میں ہے کیونکہ نئے زمانے میں نئی نسل کے ذہنوں کے قریب ہونا سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ ورنہ تجویز کار اور عمل درآمد عملہ کے درمیان فکر میں ہم آہنگی نہیں ہو پاتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چالیس سے پچاس برس کا ادھیڑ عمر کا شخص جس کو لا شعوری اور غیر ذمہ دارانہ عمل تصور کرتا ہے نئی نسل اسے نئے زمانے کی کامیابی اور ترقی سمجھتا ہے ۔ قوم کا نوجوان ایک ہوا کی مانند ہو تا ہے اور ہوا کی خصوصیت ہے کہ ہوا جس رخ پر چلے گی اپنے پیچھے اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہو ئی چلے گی ۔ اس ہوا پر کنٹرول رکھنا بڑوں اور قوم کے ذمہ داروں کا کام ہے کہ ہوا کی سستی میں بھی نقصان ہے اور یہی ہوا اگر طوفان بن جا ئے تو بھی ہلاکت اور بربادی ہے ۔اب قوم کے ذمہ داروں اور رہنماؤں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ نئی نسل کی یہ ہوا کس رخ پر اور کس انداز میں چلے ۔ 
نئی نسل اپنے اکابرین کے افکار کے ساتھ پرورش پاتی ہے ۔ آباء واجداد سے جو فکروراثت میں ملتی ہے اس کے اثرات نئی نسل میں موجود ہوتے ہیں ۔ لیکن اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ اسی وقت پہنا پاتا ہے جب نیا دور، نئی فکر نئے، وسائل وذرائع اکابرین کی فکر کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں یعنی دونوں فکریں میل کھا تی ہیں ۔ اگر افکار میں دور حاضر کے تقاضوں کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو اس پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اسے نئے دور کی کامیابی سے جوڑنا اور بھی مشکل ترین ہو تا ہے ۔ 
ہر دور میں کامیابی کے معنی بدلتے ہیں ۔ دور حاضر میں بھی کامیابی نے اپنے معانی، اپنے اسباب اور اپنی نشانیاں خود مرتب کی ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دولت و شہرت ہر دور میں کامیابی کی علامت سمجھی گئی ہے ۔ دولت و شہرت کے آسمان کا سفر کرنے والا مسافر اپنے ماضی کے تمام عیوب اور نقوص سے خالی و عاری ہو جا تا ہے ۔ دنیا اس کے ماضی کو بھلا دیتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے ماضی کی زندگی سے یہ غفلت وقتی ہوتی ہے ۔ جیسے ہی دولت و شہرت کے بادل حقیقت کے سورج سے چھٹتا ہے اس کی تپش سے لوگوں کو آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ ایک دہائی تک مسلسل محنت و مشقت سے کامیابی کی بلندی پر پہونچنے والا شخص لمحوں میں زمیں بوس ہو جا تا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انٹر پاس بغیر ڈگری کا ایک شخص بی ٹیک پاس انجینئر کے ساتھ بی پی یو اور کال سینٹر میں نوکری کرتا ہے ۔ دونوں میں کامیاب کون؟ ایک لحاظ سے دونوں کامیاب ہیں کیونکہ دولت بھی ہے ، زندگی کے تمام تر عیش و آرام اور سہولیات بھی مہیا ہیں ۔ لیکن دونوں ناکام بھی ہیں کہ بنا ڈگری ،علم ،تجربہ اور فکرو دور اندیشی سے کمائی گئی دولت کا استعمال ملک و ملت کی ترقی میں ہونا مشکل ہے اورایک تکنیکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صرف دولت کا حصول بے سود ہے ۔ 
ہر قوم کی نئی نسل میں وہ قوت اور جذبہ ہو تا ہے جو کسی بھی تاریخ کو اپنے ہاتھ سے لکھنے کے لئے کافی ہو تا ہے ۔ قوم کے ذمہ دار اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لیں تو یہی قوم اپنے نوجوانوں کے کندھے پر سوار ہو کر ہر آگ کا دریا اور طوفانوں کا سفر طے کر نے میں کامیاب نظر آئے گی ۔ اور اگر قوم کے ذمہ دار نا اہل ہوں ،غیر ذمہ دار ہوں ،بے حس اور مردہ ضمیری سے جیتے ہوں تو پھر وہ قوم اپنے ہی نوجوانوں کے ہاتھ ایسی تباہی دیکھے گی جس کی اس نے کبھی توقع نہ کی ہوگی ۔ یہ نوجوان کی اہمیت اور خصوصیت ہے ۔
جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر نیو کلیر بم دھماکہ میں ملوث دو افراد انیس سال کے نوجوان تھے ۔ ان کا استعمال بڑی آسانی سے کیا گیا ۔ بڑی سوچی سمجھی سازش کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو ترقی اور کامیابی کے جھوٹے خواب دکھا کر اس کا م کو انجام دیا گیا ۔انہیں اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہوا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔ پورا ملک آنے والی نسلوں کے ساتھ تباہی و بربادی کی آگ میں کود چکا تھا ۔ 
آج پوری دنیا میں ترقی کے معنیٰ بدل گئے ہیں اور یہ نت نئے بدلاؤ نئی نسل کے دل و دماغ میں ایسا زہر بھر رہے ہیں جس سے یہ نئی نسل ہر قدیم روایت اور تہذیب فکر و عمل سے باغی نظر آتی ہے ۔دور حاضر کی بد عنوان سیاست نے معاشرہ کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ۔پیسے اور پاور کی چاہت نے انسان کی عقل کو ماؤف کر دیا۔نفرت و تشدد کے سودا گروں نے نئی نسل کو فکری طور پر مفلوج کر دیا ہے ۔اس فکر نے دولت و شہرت کواتنا آسان کر دیا کہ ہنر مندی او ر عقل و دانشوری از خود ضائع ہونے پر مجبورہو گئی ۔ ملک و ملت کے تئیں فکر اور اسے ترقی سے ہمکنار کرنے کی کوشش و کاوش بے سود اور بے وقوفانہ عمل قرار پاگیا ۔ انسانی ہمدردی اخوت و بھائی چارگی ، رشتوں و اقدار کی پاسداری جیسی روایتیں بے بنیاد ،بے حس اور بے معنی الفاظ محض بن کر رہ گئے ۔یہ نوجوان نسل آج پیسہ اور پاور کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات ،مذہبی منافرت پر مبنی واردات ، قتل وغارت گری ، لوٹ مار ہر جگہ یہ نسل نظر آتی ہے ۔ذات برادری ،فرقہ و مسلک ،مذہب وملت کے نام پر بہکنے کو تیار ہیں ۔ 
اکیسویں صدی بے مقصد اور محض نام نہا د کی آزادانہ زندگی گذارنے والے نو جوانوں کے لئے قہر ہے جس نے ان نوجوانوں کے ساتھ ملک و ملت کو بھی بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ دورحاضر کی بدعنوان سیاست ایسے نوجوانوں کو آلۂ کار بنا کر اپنے ذاتی اور سیاسی مفا د کے لئے بے جا استعمال کر رہی ہے ۔ہر انتخاب میں نوجوانوں کے نام پر ایک شور اٹھتا ہے اور پھر نوجوانوں کا استعمال ہی نہیں بلکہ استحصال بھی ہوتا ہے ۔ بغیر منزل کے رواں دواں یہ نئی نسل دولت و شہرت تو حاصل کر لیتی ہے لیکن مستقبل کی روشن حویلی کے سارے چراغ بدلے میں گل کر دئے جا تے ہیں ۔
تاریخ اس بات کا خلاصہ کر تی ہے کہ جس قوم نے جب بھی ترقی اور کامیابی کے منازل طے کئے ہیں ہر دو میں اسے ایسے نوجوان ملے ہیں جنہوں نے اپنی نوجوانی کو صحیح سمت دے کر انقلاب برپا کیا اور آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور مثال بن گئے ۔ بودھ سماج کے مذہبی رہنما مہاتما بدھ ،جین سماج کے مہاویر سوامی ہوں ، سمراٹ اشوک یا پھر سناتن دھر م کے مانے جا نے والے اوتار مریادہ پر شوتم رام یا مہابھارت میں کوروں کے خلاف پانڈو کے ارجن کو جنگ و زندگی کی سیکھ دینے والے کرشن ہوں یا پورے مہابھارت میں اکلوتی حیثیت رکھنے والے ابھی منیو ہوں ۔ ان سب کے پیچھے ایک تاریخ ہے جنہوں نے اپنی جو ش وجذبہ سے پر نوجوان زندگی کو صحیح رخ دیا اور انقلابی شخصیتوں میں ان کا شمار ہوا ۔ 
تاریخ اسلام نے بھی پیغمبر اعظم ﷺ کی نوجوانی کے واقعات دل کھول کر بیان کئے ہیں ۔ پچیس سال کی عمر میں انسانی اقدار ،عادات واطوار کے تمام مراحل طے کر لئے ۔ اخلاقی تہذیب میں بے مثل، محنت وتجارت میں لا ثانی ،کردار و گفتا ر میں بے جوڑ ،سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں کا مکمل احسا س اور اس کے تئیں مسلسل کوشش و خدمت ۔،مذہبی رہنمائی میں یکتا ،حقوق انسانی سے بیدار نظر آتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام نے قوم کے نوجوانوں کو بے راہ روی سے نکال کر نیک اور صحیح سمت کی جانب گامزن کیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی سب سے بدو ،جاہل و ظالم اور غیر مہذب قوم رہنمائی کے جوہر سے آراستہ و پیراستہ ہو گئی اور اسلام جیسے نظام حیات کو پوری دنیا میں پہنچا دیا ۔ چند برسوں ہی میں یہ قوم پیغام حیا ت کو لے کر حجاز کی وادیوں اور عرب کے صحراؤں کو پیچھے چھوڑتے ہو ئے پوری دنیا میں اپنی نمائندگی کا احساس دلا تی ہوئی نظر آئی ۔یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا نے اسلام کے فلسفہ حیات کا مطالعہ کیا اور اس سے اپنی زندگی کی سمتوں کا تعین کیا ۔
ہر دور میں ایسے نوجوانوں کی سرداری اور سپہ سالاری رہی جنہوں نے اسلام کے نظام حیات اور پیغام عمل کو ساری انسانیت کے لئے عام کر دیا اور پوری دنیا کو انسانیت ، اخوت،محبت اور مذہبی ہم آہنگی کا ایسا سبق دیا جو آج تک کسی نظام میں نظر نہیں آئی ۔سترہ سال کے محمد بن قاسم کی بہادری اور جاں بازی کے قصے تاریخ نے اپنے سینے میں بڑی ہی قدر اور عزت کے ساتھ محفوظ رکھا ہے ۔وہیں طارق بن زیاد کے جو ش وجذبے کو آج تک تاریخ بھلا نہ سکی ۔ ان جیسے کئی نوجوانوں کے تاریخی کارنامے موجود ہیں جن کو پڑھ کر آج بھی قوم کا نوجوان جوش وجذبہ
سے لبریز ہو جا تا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ آج کی نئی نسل تاریخ سے دور ہوتی جا رہی ہے جس سے صحیح سمت میں زندگی کا بہاؤ مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے کیونکہ ہر نوجوان کے پیچھے خلیفہ ابن عبدالملک،، موسیٰ بن نصیر ،صلاح الدین ایوبی ،خالد بن ولید جیسے لوگوں کی تربیت اور سرپرستی کار فرما رہی ۔ ان نامور، دور اندیش، عاقبت شناس ،ذہن ساز ،سپہ سالاروں نے نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت دی جس سے ان کی فکر میں وسعت کے ساتھ دلوں میں جذبۂ ایثار واخوت پیدا ہوا اور اپنی زندگی کو ایسے رخ پر ڈال دیا جس کی منزل صرف کامیابی اور ترقی ہے ۔
سناتن دھرم کے سب سے بڑے نمائندے سوامی وویکا نند نے کہا تھا کہ اگر مجھے سو نوجوان مل جا ئیں تو پوری دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہوں ۔ گاندھی جی کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر مجھے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں بہتّر ساتھیوں کا ساتھ مل جا تا تو ہندوستان کو ایک سال میں آزاد کرا دیتا ۔ نئی نسل کے بارے میں پیغمبر اعظم ﷺ کے کئی ارشادات موجودہیں۔آپ نے بتایا کہ قوم کا نوجوان قوم کا مستقبل اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ۔دہلی میں واقع ہونے والا ہیبت ناک واقعہ دور حاضر میں نوجوانوں کے کردار کی مثال ہے ۔جب ایک لڑکی کے ساتھ وحشانہ عصمت دری کا واقعہ پیش آیا تو دہلی کے ساتھ ملک کے تمام نوجوانوں میں بیداری کا احساس پیدا ہوا ۔ دہلی نے اس سے پہلے اپنی تنگ و دراز گلیوں میں نئی نسل کے اس جذبے کو محسوس نہیں کیا تھا ۔ انڈیا گیٹ اور جنتر منتر کے میدان آج بھی ان کے جذبے کی دھمک کو محسوس کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان بیداری کا احساس لے کر جب سڑکوں پر نظر آئے تو زمانے نے کروٹ لی اور ایک انقلاب دیکھنے کو ملا ۔ایسے کئی واقعات ہماری نظروں کے سامنے ہے جو ہم سے بار بار ہماری ذمہ داری کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ ہمارے مردہ ضمیروں میں جان پھونکنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کرتے ہیں اور عبرت ناک واقعات ہمیں بار بارغور وفکر کرنے کے لئے اکساتے ہیں ۔زمانہ انتظار میں ہے ۔ اکیسویں صدی کا نوجوان کب کروٹ لے گا ۔رواں صدی کی دوسری دہائی ظلمت و تاریکی میں ختم ہو نے کو ہے ۔
نوجوانو! ہوش میں آؤ اپنے آپ کو پہچانو ، اپنی اہلیت اور قابلیت کا صحیح استعمال کرو ، ملک و ملت کے تم پر کئی احسان ہے ۔تمام فرائض کو دیانت داری سے ادا کرو ورنہ آنے والی نسل تمہیں معاف نہیں کرے گی ۔***

Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob:09582859385 E-Mail: abdulmoid07@gmail.com








http://bhindibazaar.asia/%D8%AF%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%A7%D8%B6%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%86%D8%A6%DB%8C-%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%B0%D9%85%DB%81-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C/

The rally and the Celebration on the occasion holy birthday of our Prophet pbuh جلوس و جشن عید میلاد النبیﷺ کی روایت شریعت کی روشنی میں


جلوس و جشن عید میلاد النبیﷺ کی روایت شریعت کی روشنی میں


جلوس و جشن عید میلاد النبیﷺ کی روایت شریعت کی روشنی میں
عبد المعید ازہر
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول یا ربیع النور باقی مہینوں سے قدرے ممتاز ہے اور اس کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے کیونکہ اسی بابرکت مہینہ میں حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت و رہبری کے لئے بھیجا۔اللہ تعا لیٰ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ہر ظاہر و مخفی شئی کا اسے علم ہے ۔اللہ اپنے بندوں کے ارادوں تک کا علم رکھتاہے ۔ یہ رب ہی ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے ۔ اللہ اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی ایک عادت کریمہ ہے کی جب اسے اپنے کسی بندے کا عمل یا اس کی عبادت یا عبادت کا کوئی خاص طریقہ پسند آ جاتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنا دیتا ہے ۔نماز اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عبادت ہے ،اسے بھی اپنے مخصوص بندوں کی یادوں سے بری نہیں رکھا نماز کے طریقوں میں اس رکعت کے اعداد شمار میں اپنے محبوب بندوں کی اداؤں کا لحاظ رکھا۔فجر سے لیکر عشا تک کی رکعتوں کو اپنے چند نبیوں کی جانب سے ادا کی گئی سکران نعمت کے سجدوں کے قیامت تک کے لئے امت محمدیہ کے فرض عبادتوں میں زندہ رکھ کر اپنی محبت اور رضا اظہار فرمایا۔ ایسے ہی حج کے مہینہ میں جتنے بھی ارکان حج ہیں تقریبا ہر رکن کسی نہ کسی کی یادگار کو زندہ و جاوید کئے ہوئے اور ان یادگار کی بقا کو رب نے اپنی عبادت سے تعبیر کیا ہے ۔ان واقعات سے ایک بات کا انکشاف ہوتاہے کہ رب کے نزدیک نسبتوں کا بڑا احترام ہے ۔صفا و مروہ ہو منا و مزدلفہ ہو یا پھر مقام ابراہیم سب کی اہمیت ان کی نسبت سے بڑھ گئی۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے بھی کہا تھا کہ ائے حجر اسود حقیقت میں تو ایک پتھر ہی تو جس کسی بھی قسم کے نفع و نقصان سے پرے ہے پھر میں تمہیں اس لئے بوسہ دیتا ہو ں تمہیں میرے نبی ﷺ نے چوما ہے۔
ایک عام فہم انسان کے ذہن میںایک سوال آتاہے یا پھر ڈال دیا جاتا ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیںکہ یہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو اتنے اہتمام کے ساتھ جلوس نکلتا ہے ،ہر گلی محلہ مسجد و مدرسہ سجایا جاتا ہے، صدقات و خیرات، اوراد و وظائف کی کثرت ہوتی ہے ،لوگ خوش ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ، ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ایسا تو پہلے نہیں تھا ۔ یہ تاریخ کئی صحابہ کے دور میںآئی، کئی بزرگوں کے سامنے سے گذری لیکن انہوں نے ایسا اہتمام نہیں کیا ۔تو اب یہ نئی چیز کیوںشروع کی گئی ؟
جواب تو بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں نے نہیں کیا کیا انہوں نے یا کسی اور نے کبھی منع کیا ہے ۔کسی نے منع نہیں کیا ۔ ہاں طریقہ الگ ہو سکتا ہے لیکن خوشیاں سبھی نے منائی ہیں۔قرآن پاک میں کسی بھی عمل کے ایجاب حرمت کے بارے میں ارشاد گرامی ’’ ما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہو‘‘ (القرآن)اور رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جا ؤ (ترجمہ)۔حدیث پا ک میں ہے کہ اللہ نے جو تمہارے لئے کتاب میں حلا ل کر دیا وہ حلال اور جسے حرام کردیا وہ حرام اور جس کے بارے میں خاموش رہا اس میں تمہارے لئے عفو ہے یعنی وہ تم پر چھوڑ دیا ۔قرآن میں بھی ہے ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ان کا حال کیا ہے جو ہم سے پہلے اس دنیا سے چلے گئے یعنی صحابہ کے وہ اصحاب جو اس دنیا سے کفر کی حالت میں گئے ۔بعض اہل عرب از راہ مزاق بھی پوچھتے تھے کہ قرآن میں ا سکا بھی ذکر ہے کہ نہیں ایا وہ ابھی کس حالت میں ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ اور ایسی چیزوں کے بارے میںسوال سے پرہیز کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائے تو تم کو تکلیف پہونچے‘‘ (ترجمہ القرآن)اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا ذکر رب نے نہیں کیا اس مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کے علم میں ہی نہیں۔ان ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی صحابی یا بزرگ کا ترک عمل باعث حرمت نہیںہوتا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ واما بنعمت ربک فحدث‘‘(القرآن)اور اپنے رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو (ترجمہ)چرچا اور تذکرہ کا تقا ضہ ہے کہ عوام الناس میں اس کا اعلان کی جائے ۔جس نعمت کا چرچا کیا جانا ہے اس کے بارے میں رب فرماتا ہے ’’لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا‘‘(القرآن )بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو بھیج کر مؤمنین پر منت و احسان فرمایا ہے (ترجمہ)۔بنی کی بعثت مؤمنین پر احسان اور منت ہے تو اس شکریہ لا زم ہے جس کا میلاد النبی ﷺکے موقعہ پر ذکر کیا جاتاہے ۔
لفظ عید اور خوشی دونوںکے بارے میں قرآن میں ذکر موجود ہے ۔بنی اسرائیل پر جب اللہ تعالیٰ نے من سلوہ کا خوان نازل فرمایا اس وقت حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی ’’ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عیدا لاولنا و آخرنا‘‘ (القرآن)اے ہمارے رب ہمارے لئے آسمان سے اپنی نعمت کا ایک خوان نازل فرما جو ہمارے لئے عید ہوگی بلکہ ہمارے اگلے پچھلے سب کے لئے عید ہوگی(ترجمہ)۔ جب آسمان سے من و سلوہ کا خوا ن نازل ہو اور وہ عید اور خوشی کا باعث ہو جاتا ہے اس سے بڑھ کر تو نبی ﷺ کی ذات اور ان کی بعثت ہے کی ساری نعمتیں انہیں کے صدقہ میں بنائی گئی ہے بلکہ انہیں کے لئے بنائی گئی ہے حدیث قدسی ہے ’’ لو لاک لما خلقت الدنیا ‘‘، لولا ک لما خلقت الافلاک ‘‘(الحدیث)ائے محمد اگر تمہیں پیدا کرنا نہ ہوتا تو نہ دنیا بناتا اور نہ ہو یہ آسمان بناتا (ترجمہ)۔ایک جگہ تو یہ بھی فرمایا کہ ائے محبوب اگر تمہیں پیدا کرنا مقصود نہ ہو تا تو میں اپنی ربوبیت کا اظہار تک نہ کرتا ۔قرآن کی کئی آیات کریمہ ہیں جو نبی ﷺ کی عظمت و توقیر اور ان کی بعثت کی اہمیت و فضیلت کو ظاہر  کرتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو اس لئے بھیجا تاکہ لوگوں کو ایک خدا معرفت حاصل ہو سکے ، تاکہ لوگوں کہ کفر کے اندھیرے سے نکال کر ایمان کے اجالے میں لا کھڑا کر دیں،تاکہ دم توڑتی انسانیت کو پھر سے زندگی مل جائے ، تاکہ دنیا میں امن و سکون قائم ہو جائے ۔تو یقینا نبی ﷺ کی بعثت کا دن مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے ۔قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ فلیفرحوا کا لفظ مذکو ر ہے جس کا مطلب ہے کہ تو پھر خوشیاں مناؤ۔
پھر نبی ﷺ کے یوم میلاد پر خوشی منانے میں حرج کیا ہے ۔ اس ذ کر سے ان کی یاد زندہ ان کی نسبتیں زندہ ہے ان کی تاریخ زندہ ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا دور اس دور نبی سے کافی دور اور بعید ہے جیسے جیسے ہم اس دور سے دور ہوتے جاررہے ہیں ان کی تاریخیں ہم بھولتے جا رہے ہیں ۔ ہمارے گھر ان کے تذکروں سے خالی ان اصحاب کے مجاہدانہ کارناموںسے ہمارے بچے بے خبر ہوتے جارہے ۔ہم ہماری ہی روایتوں سے دور اور اپنی آثار سے نابلد ہوتے جارہے جو ہماری تباہی کا باعث بھی ہے ۔
اس عید میلاد النبی کے موقعہ پر اگر پوری دنیا کو امن و سکون کا پیغام دیا جاتا ہے اور انسانیت کا جلوس سے تعبیر کیا جاتا ہے لوگ محبتوں کا خراج عقیدت پیش کرتے ہے اور تقریبا پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں اسے نہایت ہی تزک احتشام سے مناتے ہیں سعودی عرب کے علاوہ دنیا کی اکثر مسلم ممالک اس دن کو قومی تعطیل کا درجہ دیتے ہیں تاکہ سبھی آسانی سے منا سکیں یہاں تک کہ کئی غیر مسلم ملک بھی اس میں یقین رکھتے ہیں اور مثال کے طور پر ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس دن قومی تعطیل ہوتی ہے ۔ یہ خوشیوں کا دن ہے یہ عید کا دن ہے اور یہ انسانیت کا دن ہے اس دن کو ہمیں ہر حال میں منانا چاہئے اور ایک نئے عزم کے ساتھ آگے کی شرعات کرنی چاہئے ۔اس پورے مہینہ خوب درود پڑھو ، خوب تلاوت کا ، بیماروں کی تیمارداری کروں یتیموں کے سروں پر ہاتھ رکھو، گلی محلوں کو صاف رکھو ، لوگوں میں خوشیاں بانٹوں اور پوری دنیا کو بتاؤ کہ یہ وہ دن ہے جب پوری دنیا کے لئے رحمت بن کر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ اس خاکدان گیتی پر تشریف لائے جسے ساری دنیا ادب سر تسلیم کو خم کرتے ہوئے محسن انسانیت کے نام سے جانتی اور مانتی ہے ۔وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (القران)۔نسبتوں کا احترام آثار کی حفاظت کا درس ہمیں قرآن ہی سے ملتا ہے ۔ اپنے بزرگوں کو یاد کرنا اور انہیں یاد رکھنا ہماری روایت رہی ہے ۔ اور پھر آپ ﷺ کی ذات اور کمالا کا تذکرہ ، ان کی یادگار کی حظاظت تو عین ایمان اسلام کی حفاظت جیسی ہے ۔
حضرت محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مہاجر مکی جیسے بے شمار بزگان دین ہیں جنہوں نے باقائدہ اس کے بارے میں لکھا ہے اور قرآن و حدیث کے ساتھ صحابہ و بزرگان دین کی روایت کاحوالہ دیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک مرتبہ خود رسول گرامی وقار نے اپنے میلاد پر دعوت کھلائی ہے ۔صحابہ نے بھی اپنی روایت کے مطابق آپ کے حسب نسب کا تذکرہ کیا ہے ۔اس کے علاوہ عام پر علماء اس واقعہ کی روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے وقت ولادت باسعادت آپ کی والدہ ماجدہ کو آسمان میں میں نور نکہت کی عجیب سی انجمن دکھائی پڑی ، فرشتوں کی آمد ہوئی ، آپ کی آمد کی بشارت تو آپ کی کئی مرتبہ دی گئی ، اس نور کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کے محلات بھی نظر 
آئے ۔آپ ﷺ کی آمد کی بشار ت ہر نبی نے د ی جس کا خلاصہ کئی راہبوں اور موحدوں نے کیا۔


http://srinagartoday.net/%D8%AC%D9%84%D9%88%D8%B3-%D9%88-%D8%AC%D8%B4%D9%86-%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D9%85%DB%8C%D9%84%D8%A7%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%A8%DB%8C%EF%B7%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D8%B4%D8%B1/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

۔۔۔اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کروऔर अपने रब की नेमत का खूब खूब चर्चा करो And Remember the blessings of The Alimighty


۔۔۔اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو

और अपने रब की नेमत का खूब खूब चर्चा करो 
And Remember the blessings of The Alimighty

۔۔۔اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو
عبدالمعید ازہری
خدا کابنایاہوا نظام پوری کائنات اور جملہ مخلوقات کے لئے جامع اور کافی ہے۔قانون الٰہی قیامت تک بلکہ اس کے بعد بھی جب تک رب کی مشیئت ہو ، جاری و ساری رہے گا۔تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ رب کے بنائے ہوئے نظام اور قانون کو مانیں اور اس پر عمل کریں۔اس سے مخالفت نجات کا راستہ نہیں۔اللہ تعالی ساری کائنات اور جملہ مخلوقات کا خالق ہے ۔ اللہ ہی قادر مطلق اور علم حق و یقین کا مالک ہے ۔جو عمل ضروری تھا یعنی جن کے ترک پر نقصان تھا اسے لازم و ضروری قرار دے دیا۔جن اعمال سے نقص تھا ان سے منع کر دیا۔اس فرض وحرام کے درمیان اکثر اعمال حلال و مباح کے ہیں جنہیں رب نے انسان کے صواب دید پر چھوڑ دیا۔کوئی بھی مسلمان ان اعمال کی فرضیت اور حرمت پر سوال نہیں کر سکتا جو رب کریم کی جانب سے قرار شدہ ہیں۔ باقی مسائل میں حالات و ضروریات کے پیش نظر عمل ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے خود اس ضابطہ پر عمل کیا اور صحابہ کرام نے ان کی اتباع کی اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا۔اب ان اعمال کے بارے میں سوال بدستور باقی ہے جن کے بارے میں کچھ حکم نہیں کہ جائز ہے یاجائز نہیں ہے ؟شروع ہی سے علماء و فقہاء کا عمل رہا ہے کہ جس کو اللہ نے حرام نہیں کہا اسے کسی نے حرام نہیں کیا اور جسے اللہ نے واجب و ضروری نہیں کیا اسے واجب و ضروری نہیں کیا۔ ایسے اعمال لوگوں پر ترک تھے چاہے تو کریں چاہے تو نہ کریں جسے ہم فقہ کی اصطلاح میں جائز مباح اور حلال کہتے ہیں۔کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ قانون الٰہی میں دخل اندازی کرے کیوں کہ ایسی صورت میں یاتو وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ قانون الٰہی ناکافی اور نامکمل ہے یا پھر کچھ احکام پر حکم لگا نا رہ گیا تھا اور خدائی کا یہ دعوی کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔رسول اللہ ﷺ کی شان یہ ہے کہ وہ جس کا م کو انجام دیں وہ سنت ہے اور اس پر عمل باعث ثواب ہے البتہ اس کو منع نہ کیا ہو جیسے تعدد ازواج وغیرہ ۔ ایسے ہی صحابہ کا عمل ہے کیوں کہ ان کے بارے میں رسول اللہﷺ کا قول ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کر لوگے ہدایت پر رہوگے ۔شریعت میں یہ گنجائش تو ہے کہ ان اصحاب کا عمل باعث نجات و ثواب ہو لیکن ترک عمل میں ایسا نہیں یعنی جو عمل رسول اللہﷺنے یا انکے صحابہ نے نہ کیا ہو وہ عمل حرام یا ناجائز ہو جائے ایسا نہیں۔اذان رب کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے اس کے بارے میں علماء کے اقوال ہیں کہ آپ ﷺ نے اذان نہیں دی ۔ جب کہ دس برس سے زائد کا عرصہ ایسا رہا جب نماز کی فرضیت کا حکم آ چکا تھا اذان کے اوقات آئے پر آپ نے نہ دی لیکن آپ کے ترک کی وجہ سے حرام نہیں ہوا ۔صحابہ نے خوب اذانیں دیں۔ ایسے ہی قرآن کے نزول کا سلسلہ آپ کے ظاہری حیات پر ہی منتہی ہو گیا تھا آپ نے اسے یکجا نہ کیا پھر بھی اس کا یکجا کرنا حرام نہ ہو ا کیوں کہ بعد میں یہ عمل کیا گیا۔ نماز جمعہ میں رسول سے لیکر حضرت عمر تک کسی نے دو اذانیں نہ کیں لیکن حضرت عثمان نے ایساکیا اور وہ عمل حرام نہ ہوا۔اب ہر انسان اپنی موجودہ زندگی کے اعمال کا جائزہ لے خواہ وہ خالص دینی ہو یا سیاسی و سماجی اور محاسبہ کرے کہ ایسے کتنے اعمال وہ کرتا ہے اور اس انداز سے کرتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ نے کیا تھا ۔اس محاسبہ کے بعد اندازہ ہوگا کہ کسی کا ترک عمل اگر سبب حرام ہوتا تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ارشاد فرمایا :’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘اور اپنے رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو(ترجمہ)اب انسان کیا پوری مخلوق کا تمام تر وجود نعمت ہے تو کس نعمت کا ذکر و تذکرہ کرے ۔قرآن ہی میں اللہ تعالی نے فرمایا : ’’لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا‘‘اور ضرور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں رسولﷺ کی بعثت فرمائی(بھیجا) (ترجمہ)۔ ایک جگہ اور رب فرماتا ہے : ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘اور ہم نے تمہارے لئے تمہارے ذکر کو بلند کر دیا۔جس کی بعثت کا ذکر رب کر رہا ہو اور اسے احسان اور منت قرار دے رہا ہو سارے مؤمنین کیلئے پھر اس کے ذکر کو خود بھی بلند کیاہو تو یہ ہمارے لئے تو باعث فخر ہے کہ اس کا چرچا کریں، خوشیاں منائیں ۔ اور ذکر وتذکرہ ،چرچا ایک دو میں نہیں بلکہ عوام میں ہوتا ہے ۔ تو پوری اجتماعیت کے ساتھ ذکر کرو۔ چونکہ کوئی خاص طریقہ مذکور ومطلوب نہیں تو جو بھی طریقہ کسی اسلامی اصول کے خلاف نہ ہو درست ہے ۔ کھڑے ہو کر بیٹھ کر ، مسجد میں ، محلہ میں ایک میں ، ہزارمیں درود و سلام اور ذکر و اوراد کے ساتھ ان کا چرچا کرو۔پوری دنیا کو بتاؤ کہ ہم خوش ہیں کیونکہ ہم مؤمن ہیں آج وہ دن ہے جس دن ہم پر انعام ہو ا کہ ہم ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے محسن آج ہی کے دن مبعوث ہوئے ۔
ہر دور میں اپنے اپنے طریقہ سے اس نعمت کا تذکرہ ہوا ہے خود سرکا ر نے بھی اپنے تذکرہ کیا ہے ۔
امت مسلمہ کے ساتھ یہ ایک المیہ ہے کہ لازم پر عمل اور حرام کے ترک کی دعوت کی بجائے کچھ لوگوں نے حلال و مباح کو واجب و حرام کی قید میں ڈال کر خدائی کا دعوہ کرنے کا شوق پال رکھا ہے۔اس سے ہماری قوم پسماندگی در پسماندگی کی جانب رواں دواں ہو کر مزید مسائل سے دو چارہو رہی ہے۔انسانیت کے ناطے بھی کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا ۔ اغیار کو دعوت کا طریقہ قرآ ن نے بتایا : ’’ادعو الی سبیل ربک بالحکمۃ ولاموعظۃ الحسنۃ و جادلھم باللتی ھی احسن‘‘اور اللہ کی جانب لوگوں کو حکمت سے دعوت دو اور خوبصورت وعظ و نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو نہایت ہی مہذب انداز میں (ترجمہ)۔ قرآن کی یہ آیت ہمیں دعوت تبلیغ اصلاح و تنبیہ کا طریقہ بتا رہی ہے ۔ پہلے تو حکمت کا استعمال کرو، پھر اچھے انداز میں وعظ نصیحت کے ذریعہ اصلاحی باتیں کرو اور اگر پھر ضرورت پڑے گفتگو کرنے کی تو نہایت ہی احسن طریقہ استعمال کرو۔کسی بھی مسائل پر گفتگو کرنے والے قرآن کے اس انداز کو ضرور ملاحظہ کریں اور اگر سمجھ نہ آئے تو اس کا عملی نمونہ نبی ﷺ کی ذات میں دیکھ لیں کیوں کہ ان کے انداز گفتگو کے بارے میں قرآن کہتا ہے : ’’و انک لعلی خلق عظیم ‘‘اور بے شک آپ خلق عظیم کے ساتھ آئے(ترجمہ)۔ ہر ایسی اصلاح سے گریز کریں جس سے بجائے نفع کے ،مزید نقصان ہو جب تک اس کی اشد ضرورت نہ ہو
http://srinagartoday.net/%DB%94%DB%94%DB%94%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%D8%A8-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B9%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AE%D9%88%D8%A8-%D8%AE%D9%88%D8%A8-%DA%86%D8%B1%DA%86%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D9%88/

Selection of the Holy Family of Prophet pbuh to protect The Holy Quran قرآن کی حفاظت اور اہل بیت کا انتخاب क़ुरान की हिफाज़त में अहले बैत का चयन

Selection of the Holy Family of Prophet pbuh to protect The Holy Quran

قرآن کی حفاظت اور اہل بیت کا انتخاب

क़ुरान की हिफाज़त में अहले बैत का चयन 


عبد المعید ازہری
اللہ رب العزت نے انسان کی فلاح بہبود کیلئے طرح طرح کے نظام بنائے ۔چونکہ انسان کی تخلیق ہی اس واسطے ہوئی کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ۔اللہ نے اپنی قربت کیلئے امتحان اور آزامائش کا پیمانہ بنایا کہ جو رب کی قربت چاہتاہے اسے ان راستوں سے گذرنا ہوگا ۔یہ نظام قدرت از اول رہا کہ نور کے سامنے ظلمت اور حق کے سامنے باطل ایمان کے سامنے کفر کی مانند رہا تاکہ روشنی کی اہمیت اندھیرا دیکھ کر محسوس ہوتی رہے۔
اندھیرے اجالے کا یہ سفر روز اول سے ہی چلا آرہا ہے ۔ اہل ایمان پر اس کی تفریق ہمیشہ سے واضح رہی ہے۔اللہ رب العزت نے حق و باطل کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کیلئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ انتظام کیا ہے ۔ اس کیلئے مخصوص نشانی اور علامت کو منتخب کیا۔ اسی سلسلے کی بقا کی خاطر کئی وقفوں میں انبیاو و رسل کی تشریف آوری کا اور ان کے ساتھ قانون کی کتابوں کی آمد کا تسلسل برقرار رہا۔ایک نبی کے بعد دوسرا نبی، ایک کتاب کے دوسری کتاب اور یکے بعد دیگرے ضرورت کے مطابق رب کی جانب سے ہدایات وپیغامات نازل ہوتے رہے تاکہ بندہ خدا کسی بھی طرح سے اپنے خالق و مالک اور حقیقی پالنہار سے دوری اور محرومی کو اختیار نہ کر سکے ۔ نبیوں رسولوں کتابوں اور صحیفوں کا یہ سلسلہ ہمارے آخری نبی محمد صلعم پر منتہی ہو گیا ۔ اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی کتاب۔ ہمارے رسول آخری اور ہمارا قرآن آخری ہے ۔
نبوت کا سلسلہ منتہی ہو گیا اس کا مطلب یہ ہرگذ نہیںکہ رشد وہدایت کا سلسلہ ختم ہو گیا کیوں کہ وہ بڑا عادل بادشاہ ہے ۔ احکم الحاکمین ہے ۔ اس آخری بنی کے رشد ہدایت کی میعاد و تاثیر کو قیامت تک کیلئے دراز کر دیا۔ وہ نور ہدایت 63 برسوں تک بشری لباس اور اس کے تقاضوں میں رہا ۔ اس کے بعد اس کے فیض سے اس نور کی تجلی خلافت کی شکل میں رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔نبی نے اپنی بشری زندگی میں اس کے واضح اشارے کر دئے تھے ۔
تبلیغ دین کے تئیں خلافت کے نظام کو قائم کیا گیا۔ لیکن نبی نے اپنی طرف سے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔نہ ہی کوئی حکم خدا وندی آیا ۔ یکے بعد دیگرے صواب دید اور آراء اصحاب کے ذریعہ ذمہ داروں کا انتخاب ہوتا رہا ۔لوگ تائید کرتے رہے ۔ دین اسلام عام ہوتا رہا ۔یہاں تک کہ کونے کونے میں پہنچ گیا ۔
ایک وقت ایسا آیا جب دعوت و تبلیغ کی بجائے اس کی حفاظت کرنے کی نوبت آ گئی ۔ جب قرآن کے احکام اور اسلام کے اصول محفوظ ہی نہ ہوں گے تو کیسی دعوت اور کیسی تبلیغ ہوگی ۔
ایک بار جب روئے زمین اللہ کو معبود کہنے سے خالی ہونے لگی تھی ۔راہ حق و صداقت کے سارے راستے مخفی ہونے لگے تھے ۔ تو اس ظلمت کے خاتمے کیلئے نور محمدی کو مبعوث کیا تھا۔ تاکہ وہ لوگوں کو اس ظلمت کدہ سے نکال کر پھر سے ہدایت کے راہ پر لا کھڑا کریں۔
آ ج پھر ضرورت پڑی کہ قرآنی اصول کو خطرہ لاحق ہو گیا ۔ قانوں الٰہی کے سامنے علم بغاوت بلند ہو گیا۔اہل ایمان کا دین اسلام پر قائم رہنا مشکل نظر آنے لگا ۔یعنی خود دین ہی مشکل اور خطرہ میں پڑ گیا۔ تو اسی نور حبیب کو نور نظر کا انتخاب کیا گیا ۔
یہ انتخاب کوئی اچانک نہیںتھاکہ وقت کی ضرورت ہے ۔ یہ تو طے تھا ۔اس انتخاب میں رب قدیر کے کئی جلوے انکشاف کے منتظر تھے ۔ذبح خلیل کے ادھورے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونا تھا ۔ اللہ تعالی نے حضرات ذبیح خلیل کو بلند سے بلند مقامات عطا کئے۔رب کے ایک امتحان کو پورا کرنے کی کسک کہیں نہ کہیں تھی جو پائے تکمیل تک پہنچنی تھی ۔ اللہ نے اپنے حبیب کی ہر خواہش کواپنی رضا کا درجہ دیا ۔یہاں تک کہ اپنی معرفت کو اپنے حبیب کی معرفت پر موقوف کر دیا ۔ اس حبیب نے تمنا کی تھی کہ میں میدان کارزار میں شہید کیا جاؤ پھر زندہ کیا جاؤ ں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کیا جاؤں۔یہ انتخاب اسی آرزو کی تکمیل ہے۔
اللہ تعالی نے دین کی تبلیغ کیلئے کسی کا انتخاب نہیںکیا لیکن جب اس کی حفاظت کی بات آئی تو اپنے حبیب کی زبانی اعلان کرا دیا۔اے لوگوں ایسا بھی دور آئے گا جب حق و باطل کے درمیان فرق مٹ جائے ۔ کوئی حد امتیاز باقی نظر نہ آئے تو اہل بیت کو دیکھ لینا وہ کس طرف ہیں۔ وہ جدھر ہوں ادھر ہو جا نا کیوںکہ وہی صحیح راستہ ہوگا ۔کیونکہ اہل بیت وہ ہیں جن کواللہ نے خوب خوب پاک کر رکھا ہے ۔ اب ان میں وہ کیفیت پید ہو گئی ہے کہ وہ خود دوسروں کو پاک کر سکتی ہیں۔
ان اہل بیت اطہار اور نفوس قدسیہ میں سے ایک وہ ہے جس کی رضا میں رب کی خوشی ہے ’’خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم ،خدا چاہتا ہے رضائے محمد‘‘، اور قرآن بھی اعلان کرتا ہے ’’ اور فرما دیجئے اے محبوب کہ اگر تم اللہ کو محبوب رکھنا چاہتے ہو تو میری (نبی کی)اتباع کرو اللہ تمہیں محبوب رکھے گا (القرآن)۔اس کی جملہ ملکیت میںنبی کو تصرف حاصل ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریںاس سے بعض آجاؤ (القرآن)۔ دوسرے وہ ہیں جن کے بارے میں نبی نے غدیر کے موقعہ پر فرمایا کہ جن کا میں مولیٰ ان کا علی مولیٰ۔ان کی عبادت اور اس میں احسان(دین کا ایک اہم رکن)کی عملی تفسیر اس سے بہتر کہا ں ملے گی کہ جب مولائے کائنات کو ایک جنگ میں تیر لگا ، وہ اتنا کاری تھا کہ محض چھونے سے مولیٰ علی ؓ کراہ اٹھتے تھے ۔ حکیم کو مشورہ دیا گیا کہ اب ایک ہی صورت ہے کہ جب یہ نماز میں ہوں تو تیر باہر نکالنا۔ تاریخ نے اس حیرت انگیز کارنامے کو اپنے سینہ میں خاص جگہ دی جب دوران نماز وہ مہلک اور کاری تیر جب نکالا گیا تو مولیٰ علی کو خبر تک نہ ہوئی۔تیسری وہ خاتون ہیں جو یہ شکایت کرتی ہیں اے مولیٰ تونے رات کو اتنی چھوٹی کیوں میری گفتگوادھوری رہ جاتی۔ عبادت مکمل نہیں ہوتی کہ صبح نمودار ہو جاتی ہے۔ایک وہ شہزادے ہیں جن کو خود مصطفیٰ کی شبیہ اور ان کا جمال دیا گیا۔امت کو انتشار سے بچانے کے لئے تخت خلافت کو ٹھوکر ماردی ۔ دوسرے شہزادے کیلئے اللہ کی خاطر کئے گئے سجدے کو طوالت دی گئی وہ بھی کوئی اور انہیں خود پیغمبر اعظم نے ایسا کیا۔
یہ وہ خاندان اہل بیت ہے جس کے بارے میں نبی نے فرمایا اے رب یہ میرے اہل و عیال ہیں میرے خاندان ہیں۔ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ تو بھی ان سے محبت رکھ۔اور ان سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت کریں۔ اور ان پر غضب ہو گا جو ان سے منہ پھیرے گا۔ ان سے بغض و عناد رکھے گا ۔اے لوگوں جب تم پر ایمان و کفرمیں کا فرق مٹ جائے ، ظلمت و تاریکی میں تفریق نہ کر سکو ۔ایسے میں تمہاری رشد ہدایت کیلئے تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک قرآن دوسرے اہل بیت ۔ کچھ روایات میں اہل بیت کی جگہ سنت کا لفظ آیا ہے۔
یعنی جہاں قرآن ہوگا وہاں اہل بیت ہونگے اور جہاں اہل بیت ہونگے وہاں قرآن ہوگا ۔جس طرح میری سنت نے قرآن سمجھنے میں تمہاری رہنمائی کی ہے اسی طرح یہ اہل بیت تمہاری رہنمائی کریں گے ۔قرآن و سنت کا عملی نمونہ اور تفسیر اہل بیت اطہار ہیں۔
abdulmoid07@gmail.com

غربت کا حل خود مسلمانوں کے پاس موجود


غربت کا حل خود مسلمانوں کے پاس موجود


عبد المعید ازہری
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایک عظیم انقلاب کا نام ہے۔ یہ دنیا کا وہ نظام ہے جس نے تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا۔نفرتوں کے ویرانوں میں محبتوں کی بہاریں اور ظلم و جبر کے مقابل صبر و استقامت کے ساتھ عدل انصاف کا قیام اسلام ہی کا خاصہ ہے۔یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ جس ایک بدوقوم کو پوری دنیا کا رہنما بنا دیا۔آج مسلمان غربت کا شکار ہے ۔کسمپرسی اور پسماندگی کی زندگی جینے پر مجبور ہے ۔مسلمان خود بھی اس حالت زار کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے پا س اس ذلت سے نجات پانے کا ذریعہ موجود ہے ۔اس غربت اور مفلسی کا حل خود مسلمانوں کے پاس موجود ہے البتہ وہ خود اس پر عمل کر کے اپنے حالات درست کرنے کی کوشش نہ کریں تو یہ اور بات ہے ۔ مذہب اسلام نے مسلمانوں کی حالت زار کو درست کر نے کے لئے زکوٰۃ ، صدقات وخیرات جیسے نظام دئے ہیں ۔ یہ نظام سوائے مذہب اسلام کے کہیں اور موجود نہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جس پر اگر دیانتدری سے عمل کیا جا ئے تو مسلمان خود اپنی ہی نہیں بلکہ دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کر نے کے لائق ہو سکتا ہے ۔
زکوٰۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جس کی اپنی اہمیت اور فضیلت ہے ، زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کی کتا ب میں حکم دیا ہے ۔ قرآن نے زکوٰۃ کی فرضیت کو بڑے واضح اور صریح انداز میں بیان کیا ہے ۔ واضح رہے زکوٰۃ سب پر فرض نہیں صرف مالک نصاب اور صاحب حیثیت پر فرض ہے ۔ یعنی اپنی ضروریات اور اخراجات سے زائد مال میں سے غریبوں اور حاجت مندوں کا حصہ معین کر کے اسے ادا کرنا۔ یہیں پر یہ بھی واضح رہے کہ زکوٰۃ غریبوں پر احسان نہیں بلکہ خود اپنے اوپر احسان ہے کیوں کہ اگر زکوٰۃ ادا نہ کی اور وہ مال خود کھا لیا تو اس کا نقصان دنیا وآخرت میں اسے خود اٹھا نا پڑے گا۔ کیونکہ زکوٰۃ صاحب مال کی دولت میں ضرورت مندوں کا حصہ اور حق ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے سارے بندوں کا رزق معین کر رکھا ہے اور سب کے رزق کے الگ الگ اسباب وذرائع وضع کئے ہیں۔ اور اس کے لئے مختلف مقامات بھی منتخب کئے ہیں۔ ایک ضرورت مند کا رزق کسی کی دولت میں زکوٰۃ کی صورت میں اللہ نے معین کر رکھا ہے تو اس ضرورت مند کو اس کے رزق سے محروم کرنا گناہ اور خود کی محرومی ہے ۔ کیونکہ یہ تو صاحب مال کی خوش نصیبی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے رزق کا ذریعہ بن رہا ہے اور یہ انتخاب خود رب کریم نے فرمایا ہے ۔
زکوٰۃ کا معنیٰ تزکیہ یعنی پاکی ہے کسی چیز کو پاک صاف کرنا اسی سے تزکیہ نفس کا جملہ استعمال کیا جا تا ہے یعنی نفس کو تمام تر آلودگیوں سے پاک صاف کرنا ۔ زکوٰۃ صرف انسان کے مال ہی کو نہیں بلکہ نفس کو بھی پاک صاف کر تا ہے ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال کسی آفت ناگہانی سے محفوظ ہو جا تا ہے ۔ کیونکہ اب وہ رزق حلال جائز اور حق مال ہو گیا اور مال کی حفاظت کا یقین صاحب مال کو ذہنی پریشانیوں سے بھی نجات دلا تا ہے ۔ جب تجارت و محنت سے حاصل شدہ مال میں سے غیروں کے رزق تقسیم کر دئے جا تے ہیں تو روح اور نفس کو مزید تازگی حاصل ہو تی ہے ۔ اور اس کی صفائی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کئی جگہ زکوٰۃ کی فرضیت اور اہمیت کو بار بار یاد دلایا اور اسے نماز جیسے اہم فریضے کے ساتھ جوڑ کر ذہنوں پر زور دیا کہ جیسے نماز کی فرضیت ہے ویسے ہی صاحب نصاب کے لئے زکوٰۃ کی اہمیت ہے ۔ قرآنی آیات کے ساتھ رسول گرامی ﷺ کے ارشادات میں بھی زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا ذکر ملتا ہے ۔ بلکہ اس کی ادائیگی پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ ایک سے زائد موقعوں پر زکوٰۃ کے نظام کو سختی اور پابندی کے ساتھ نافذ کرنے کی روایتیں ملتی ہیں ۔ رسول گرامی وقارﷺ کی ذات اور ان کے ارشادات ان کے ذریعے نافذ احکامات کی اہمیت اور اس پر عمل کی پابندی صحابہ کرام سے زیادہ کون کر سکتا ہے ۔ صحابہ کرام کو پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات پر اتنا بھروسہ تھا کہ اگر اس وقت عام انسان کے لئے عجیب و غریب بات بھی نبی کی ذات سے منسوب ہو کر پہنچتی تو بغیر کسی حیل وحجت کے وہ تسلیم کر لیا کر تے تھے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص رات کے کسی پہر میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ وہاں سے ساتوں آسمان کا سفر طے کر کے رب سے ملاقات اور بات کرے پھر اس کے بعد ساتوں آسمانوں پر یکے بعد دیگرے اتر کر بارہا رب سے ملاقات کر کے اسی پہر واپس بھی آ جا ئے حضرت ابو بکر صدیق نے دریافت کیا کہ یہ بات کون کہہ رہا ہے جب انہیں بتا یا گیا کہ یہ عجیب بات تمہارے نبی حضرت محمد ﷺ کہہ رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو سچ کہہ رہے ہیں ۔ وہیں سے ان کا لقب صدیق اکبر ہو گیا۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ صحابہ کو اپنے نبی کے ذریعے نافذ کئے گئے ہر احکامات پر کتنا اعتماد تھا ۔ انہیں کے دور خلافت میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور اس کی ادائیگی بند کر دی تھی تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا خدا کی قسم اگر کوئی شخص نبی کے زمانے میں ایک اونٹ کے نکیل کی رسی بھی زکوٰۃ کے طور پر ادا کر رہا تھا تو اس سے وصول کی جا ئے گی ۔ یہاں تک کہ اس زکوٰۃ کے نفاذ کے لئے با قاعدہ جنگ ہو ئی کیونکہ انہیں اس زکوٰۃ کی اہمیت کا اندا زہ تھا اور اس سے بھی زیادہ انہیں یقین اس بات کا تھا کہ اگر نبی نے کسی نظام کو قائم کیا ہے تو یقیناوہ ضروری اور ہمارے لئے نفع بخش ہو گا۔اور زکوٰۃ کا نظام تو کوئی معمولی نعمت نہیں بلکہ اس میں تو مسلمانوں کی تنگ دستی کا ایسا حل موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی نظام میں موجود نہیں ہے ۔
اگر ہم ہندوستا ن میں موجود مسلمانوں کی بات کریں تو ایک اندازے کے مطابق یہاں تقریباً 20؍کروڑ مسلمان ہیں اور ان میں سے دس فیصد کم و بیش صاحب حیثیت اور مالک نصاب ہیں اگر وہ اپنی زکوٰۃ کی صحیح ادائیگی کریں اور اسے صحیح جگہ اور مستحق لوگوں تک پہنچائیں تو کم سے کم دس فیصد یا اس سے زائد لوگوں کی کفالت ہوگی پھر دوسرے تیسرے سال صاحب نصا ب میں اضافہ ہوگا اور ضرورت مندوں کی کفالت میں بھی البتہ ضرورت مندوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی اور دیکھتے ہی دیکھتے صدی کی دوسری دہائی مسلمانوں کی بالا دستی فرحت و شادمانی کا مزدہ لے کر آ ئے گی سب کچھ ہمارے پاس ہو سکتا ہے اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، اسپتال اور دیگر ہر وہ ذرائع جو ہمیں کامیاب سے کامیاب تر کر سکتے ہیں ۔ پھر تاریخ کے افق پر ایسا سورج طلوع ہو نے میں دیر نہیں ہو گی جس کی روشنی میں ساری قومیں اس قوم مسلم کے نقش قدم پر چلیں گی جیسا کہ اب تک دوسری قوموں نے ہماری تاریخ سے تجربہ حاصل کیا اور آج ترقی یافتہ قوم بن کر ہمیں پر حکمرانی کر تی ہوئی نظر آ ر ہی ہیں ۔
یہ نظام سننے میں جتنا آسان اور فائدے مند لگتا ہے اس پر عمل اتنا ہی مشکل ہے لیکن یہ مشکلیں انہیں کے لئے ہیں جو اسلامی رواداری اور انسانی ہمدردی سے دور ہو گئے ہیں۔ مساوات اور اخوت پر سے ایمان اٹھ چکا ہے ۔ مزاج پرسی کی روایتوں کو فراموش کر دیا ہے ۔ اس نظام کے نفاذ کے لئے بس خالص اور پختہ ایمان کی ضرورت ہے اور اخلاق و کردار کی بلندی کی ضرورت ہے جو ہمیں ہماری تاریخ سے ملتا ہے ۔

Madaris Today: Moving on misguided path....

صراط مستقیم سے دور ہوتے مدارس

عبد المعید ازہری
ہر فکر و عمل کے کئی اچھے برے طریقے ہوتے ہیں۔منز ل تک وہی راستہ پہنچتا ہے جوسیدھا اور مستقیم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔صراط مستقیم یعنی سیدھا ، مستقل اور استقامت والا راستہ۔
ہندوستان کی تحریک آزادی سے لے کر دور حاضر کے جدید تقاضوںتک قوم مسلم کی اصلاح میں علماء مدارس کا اہم کردار رہا ہے۔1857کی تحریک جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے علامہ فضل حق خیرآبادی ایک صوفی عالم دین اور چشتی سلسلے کے شیخ تھے ۔ہندوستان کی آزادی میں ہزاروں علماء کرام نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں گراں قدر قربانیاں پیش کیں۔درختوں پر لٹکے ہو ئے ہزاروں علماء کرام کے سر ان علماء کی جا نب سے پیش کی گئی قربانیوں کا واضع ثبوت ہیں ۔ مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ اپنے طلباء کو وطن سے محبت کا درس دیا ۔ غلامی کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا سبق پڑھایا ۔ معاشرتی اور سیاسی فتنوں کے سد باب کے لئے بھی مدارس اسلامیہ ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب اور اس کی ثقافت کو ہاتھوں سے نہ جا نے دیا ۔ آج پورا ملک جس گنگا جمنی تہذیب پر ناز کرتا ہے اور پوری دنیا جس مذہبی ہم آہنگی پر رشک کرتی ہے وہ علمائے دین و صوفیائے کرام کی دین ہے ۔ ہر دور میں معاشرتی تہذیب کو پراگندہ کرنے کے لئے مختلف قسم کے فتنوں نے سر اٹھایا لیکن ہر دور میں ایسے ذمہ دار علماء رہے ہیںجنہوں نے بر وقت ان تمام فتنوں کا پرزور سد باب کیا ۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ایسے ہزاروں علماء و مدارس کے نام سنہرے الفاظ میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی بے لوث اور ذمہ دارانہ خدمات کی بنا ء پر تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ و جاوید کر رکھا ہے ۔انہوں نے زندگی کے ہر شعبوں میں نمایا خدمات انجام دیں ۔ یہ علمائے اسلام و مدارس اسلامیہ کا شاندار قابل فخر اور رشک آفریں ماضی ہے جس کے نقوش آج تک اپنے اثرات مرتب کر تے ہو ئے نظر آ رہے ہیں اور قوم و ملت کی اصلاح میں اپنی اہمیت کو درج کرا رہے ہیں ۔ قوم و ملت آ ج بھی ان کے علمی و روحانی ورثے سے فیض حاصل کر رہی ہے لیکن افسوس دور حاضر میں مدارس اور علمائے مدارس کا کردار اس کھنڈر کی مانند ہو گیا ہے جن کے آثار شیش محلوں کا پتہ دیتے ہیں۔مدارس کے قیام کے اولین مقاصد میں یہ تھا کہ قرب وجوار کے لوگ ایک جگہ اکٹھا ہو کر تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی تربیت بھی کی جا سکے ۔ دور حاضر کے مدارس میں روزانہ تعلیم و تربیت اور ضروری مسائل سے واقفیت کے علاوہ با قاعدہ طلبہ کو مدرسہ میں مقیم رکھ کر ان کی مکمل تربیت ہو تی ہے ، انہیں داعی مبلغ ،امام خطیب بنا کر فارغ کیا جا تا ہے۔ مکتب سے لے کر مدرسہ دارالعلوم ، جامعہ تک ہندوستان میں آج کئی ہزار مدارس ہیں جن میں کثیر تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اس شاندار ماضی کا بگڑا ہوا حال آج تاریک مستقبل سے خوف زدہ کر رہا ہے اور دعوت غور وفکر دے رہا ہے ۔
دور حاضر کے مدارس کا حال یہ ہے کہ جس علاقہ میں مدرسہ واقع ہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں اس علاقہ کے لوگ پیش پیش رہتے ۔ معاون و مددگار رہتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس علاقہ کے لوگ ہی اس سے بیزار ،غیر مطمئن بلکہ متنفر نظر آتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ مدرسہ کے قیام میں انہوں نے کوئی حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے اپنی زمین دی ، سرمایہ دیا ، جسمانی محنت و کاوش سے امداد کی ۔ جب پودے فصل بہاربن کر چھانے لگے تو اس کی پر لطف بہاروں سے مالی اور باغباں ہی محروم نظر آتے ہیں ۔ آئے دن کمیٹی کا جھگڑا، علاقہ کے سرمایہ دار اور مدرسہ کے اساتذہ کے درمیان نااتفاقیوں کے واقعات سے اہل علاقہ چائے خانہ پر بیٹھ کر چسکیوں میں لطف لیتے ہیںاور سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اگلے دن کچھ اور ٹائم پاس مسالہ ملے گا ۔ اب چراغ تلے اندھیرے کو کون دور کر سکتا ہے لیکن ایسے چراغ تلے اندھیرا کی توقع لوگ کم کرتے ہیں ۔
ماضی کی تاریخ میں ایسے بہت سارے علماء کرام ہیں جنہوں نے اپنے مادر علمی کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنی شہر ت و قابلیت کا حصہ دار بنایا ۔ آج مدارس کے اساتذہ اور طلبہ میں کہیں نہ کہیں اس ربط باہم کی کمی نظر آتی ہے ۔ طالب علم فراغت کے بعد ایسی آزادی محسوس کرتا ہے مانو کسی قید با مشقت سے رہائی حاصل ہوئی ہے۔ اپنے اساتذہ اور مدرسہ سے بیزار نظر آتا ہے ۔ اساتذہ کی قربانیاں ضائع ہو تی ہیں۔ آج کے دور میں بھی ہمارے اساتذہ کی تنخواہ یومیہ محنت کرنے والے مزدور سے بھی کم ہوتی ہیں ۔ دوسرے دفتروں میں کام کرنے والوں کی نسبت ان کے لئے سہولیات بھی مہیا نہیں ہوتی ۔
پانچ سے دس سال تک جن اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کرتا ہے فارغ ہونے کے بعد کبھی بھی پلٹ کر اپنے اساتذہ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتا ہے ۔ میں نے تو نظریں چراتے ہو ئے دیکھا ہے کہ کہیں ملاقات نہ کر نی پڑ جا ئے ۔ مدارس اور اساتذہ کے تئیں اتنی بیزاری باعث افسوس ہے ۔ رواں صدی کے مدارس کی جو صورت حال ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگا نا قطعی مشکل نہیں ہے ۔ آج کے مدارس ایسے امام و خطیب ، داعی ومبلغ دینے سے قاصر ہیں جو قوم و ملت کے لئے مصلح اور مفید ہوں بلکہ ان سے نقصان زیادہ ہورہے ہیں ۔
مقاصد سے دور ہونے کے اسباب و وجوہات:
مدارس کے گرتے معیار کے کئی اسباب ہیں، عام طور پر مدارس کا رخ ایسے طلبہ کرتے ہیں جو ذہنی طور پر کمزور ہو تے ہیں ۔ والدین اپنے ان بچوں کو مدارس میں مقیم کر دیتے ہیں جن پر ان کا اختیار نہیں ہوتا ۔پڑھائی لکھائی میں ان کا جی نہیں لگتا ہے۔ ان کی شرارتوں سے اہل خانہ کے ساتھ پاس پڑوس بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی تربیت ایک چلینج ہے ۔ ایسے میں اگر ذی صلاحیت عالم فارغ ہو کر نکلتا ہے تو یہ واقعی قابل تحسین خدمت ہے ۔
مدارس کاموجودہ نظام دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناکا فی ہے۔ رواں صدی کی پچھلی دہائی اس کمی کے تدارک کے لئے تیار ہو ئی ہے ورنہ آج بھی سو سال قدیم منطق ، فلسفہ ہماری درسگاہوں کے موضوع اورموا د ہیں ۔ مدارس کے نظام میں تقابلی ذوق وشوق کافقدان نظر آتا ہے ۔ تقابل ادیان ومذاہب ہو یا تقابل تہذیب وثقافت، عصری ضرورتوں کو پورا کرنے والے مواد ہمارے تعلیمی نظام سے غائب ہیں ۔ نئی نسل میں نئے دور کے شبہات کے ازالہ کے تئیں ان کی ذہنیت کے مطابق جواب نہیں ہے ۔ آج کا سامع قدیم انداز بیاں سے نا آشنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل ہمارے مدارس اور قدیم طرز کے علماء وخطباء سے اجتناب کرتی نظر آ تی ہے ۔ ایسے میں ا ن کو بہکانا اور گمراہ کرنا آسان ہو جا تا ہے ۔ آج ہماری قوم مسلم کے دس فیصد سے بھی کم لوگ مدارس ومساجد ،امام و خطیب سے منسوب و مربوط ہیں ۔ تو علماء مدارس وخطباء مساجد کی تمام تر محنتیں اور کا وشیں قوم کے صرف دس فیصد لوگوں پر صرف ہو تی ہیں تو باقی کی اصلاح کو ن کرے گا ؟ یہ بڑا سوال ہے ۔
مدارس کے نظام کی یہ بھی کمی ہے کہ فراغت کے بعد امامت اور خطابت اور تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے یکساں تعلیم اور مواد ہیں۔ ایسے میں کتنے لوگ ہیں جو صحیح طور پر امامت کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ۔ اس دور میں امامت ایک ایسا منصب ہے جس کا سب سے زیا دہ غلط استعمال ہو تا ہے ۔ دیگر شعبوں میں ناکام لوگ آخر میں امامت کو اختیار کرلیتے ہیں جو کہ سب سے اہم اور نازک شعبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امامت مسجد میں پانچ وقت کی نماز وں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ مسجد کے باہرقوم کے معاملات کیسے ہوں ،کس سے ہوں، ان کی معاشرت ،گھر کا ماحول ،باہر کا معاملہ کیسا ہو، اس کا امام صاحب سے کو ئی تعلق نہیں ۔ تیمار داری ،مزاج پرسی جیسی روایتیں ختم ہو گئیں ۔ امامت کے انتخابات کا بھی برا حال ہے۔ ایک صاحب کا فون آیا کہ ہمارے یہاں مسجد میں ایک امام کی ضرورت ہے ۔ اس کی صلاحیت اور درکار اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آواز اچھی ہو ،نعت پڑھتا ہو اور تقریر اچھی کرتا ہو ، دیکھنے میں اچھا، قابل اور پڑھا لکھا ہو اور تنخواہ کی فکر نہ کریں ہم اسے دو ہزار روپئے تک دینے کو تیار ہیں ۔ اس بات سے آئمہ حضرات کے تعلق سے ان کی ذہنیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ مسجد کا امام کم پرسنل سکریٹری زیادہ ہو جا تا ہے ۔ یہ کس کی کمی اور نا اہلی ہے اس پر بحث مشکل ہے لیکن قوم مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
آج کے تقریر فروش خطبا کا بھی یہی حال ہے ، تقریر اور خطبات کے نام پر کاروبار ہو تا ہے۔ تعلیم کے نام پر صفر ہیں ۔ دوران تعلیم اسے ایسی تربیت نہیںملتی ۔ذمہ داریوں سے دور آسانیوں کی تلاش میں ایسے بن جاتے ہیں اس کے بعد آنے والی نسل کی نمایاں کامیابی دیکھ کر ان کی راہ پکڑ لیتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ اچھے علماء کی تقریروں سے لوگ اجتناب کرتے ہیں ۔ مدارس میں کتابی تعلیم توکافی ہوتی ہے لیکن اس کا عملی تجربہ نہیں ہوتاہے ۔داخلہ سے لے کر فراغت تک وہ قوانین پڑھتا ۔تھیوری میں مہارت تک حاصل کرلیتا ہے لیکن ؤ آخر تک عملی تجربہ سے محروم و ناواقف رہتاہے ۔ ان تمام علوم و فنون ،لیاقت وصلاحیت کا استعمال کیسے کیا جا ئے اس کی عملی تربیت ہمارے مدرسوں سے ندارد ہے ۔ ایک کے بعد دوسری اس کے بعد تیسری نسل یکے بعد دیگر ے ایسے ہی بنا پریکٹکل کے گذر رہی ہے ۔بڑی تعدا د میں علما ء فارغ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا عملی کردار قوم کے سامنے نہیں آ پا تا ہے ۔
آج مدارس چندے کے نام پر ہر زیب و نازیب حرکت کرنے پر آمادہ ہیں۔ہر طرح کے عطیات،خیرات ،زکوٰۃ، فطرات سے مدرسوں کے پیٹ بھرے جا تے ہیں ۔ چندہ حاصل کرنے کے نت نئے حربے استعما ل کئے جا تے ہیں ۔ جھوٹ ،فریب ،دھوکہ سے بھی گریز نہیں ہو تا ہے ۔ اسی چکر میں تائید کرنے والوں کی بے جا قصیدہ خوانی اور مخالف کی بے مخالفت ہمارے خطابات کے موضوع ہو گئے ۔ حرام میں تاویل ،حلال کیلئے گنجائش کے ذریعہ شرعی معاملات میں بھی چھیڑ چھاڑ سے پرہیز نہیں کیا جا تا ہے ۔
حل و تدارک کے وسائل وذرائع۔
مذکورہ بالا نقوص وعیوب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔طلبہ اپنے اہداف کا تعین کر لیں ۔ اپنے اندر کی صلاحیتوں اور ذوق و شوق سے آگاہ ہو کر فن کا انتخاب کریں ۔ اور اپنی پوری توانائی اسے حاصل کرنے پر صرف کر دیں ۔
دور حاضر کے تناظر میں تعلیم و تربیت کا سمت متعین کریں ۔ اسلام ایسا آفاقی نظام ہے جو ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ ترقی یافتہ تکنیکی دورجدید میں اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کا خاص ہنر حاصل کریں۔ہر علم سیکھنے کے بعد اس پر عملی تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر مدرسوں میں دو بڑی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ایک ریع الاول اوردوسری شعبان کے بعد ۔ ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کے اندر دلچسپی پیدا کی جا ئے۔ چھٹیوں کے اوقات کو تجربہ کے طور پر اپنے اپنے علاقوں میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس سے دو بڑے فائدے ہو ں گے ۔ عملی تجربہ ہو گا اور جس علاقہ میں تجربہ ہوگا لوگ مستفید ہوں گے ۔ طلبہ کی قدر و منزلت میں اضافہ کے ساتھ ان کی ذاتی اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
تقریباً ہر مدرسے کا نظام ہے کہ جمعرات کو آدھا دن پڑھا کر ایک چھوٹی سی بزم کا انعقاد کرتے ہیں ۔ ان میں طلبہ اپنی علمی صلاحیتوں کا عملی تجربہ کرتے ہیں ۔ اس دن کو اس علاقہ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں جس میں مدرسہ واقع ہو ۔ دعوت و تبلیغ کے لئے ہر ہفتہ یا پندرہ دن میں یا مہینہ میں ایک بار ایک محلہ کا انتخاب ہو جا ئے ، وہاں دعوت و تبلیغ اور اصلاح کے فرائض انجام دئے جا ئیں ۔ طلبہ میں عملی تجربہ کے ساتھ علاقہ کے لوگ مستفید ہوں گے ، مدرسہ ، طلبہ اور اساتذہ سے انسیت ہوگی۔ اور چراغ تلے روشنی بھی باقی رہے گی ۔
طلبہ اپنے اساتذہ سے اس لئے بیزار ہو جا تے ہیں کہ فن اور مادہ کو منتخب کرنے کا حق انہیں نہیں دیا جا تا ۔ جس میدان میں طلبہ کی ذاتی دلچسپی ہے اس کو وہ اختیار نہیں کرپاتے ۔ زیر درس ایسے مواد پڑھتے ہیں جس میں ان کی قطعی دلچسپی نہیں ہو تی ہے ۔ ایسے میں اساتذہ لاکھ کوششوں کے باوجود طلبہ کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاتے ۔ اور آخر میں ان کی بیزاری کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ طلبہ کو ان کے پسندیدہ فن اور میدان کو اختیار کرنے دیں۔ اس سے طلبہ میں دلچسپی پیدا ہو گی ، محنت کریں گے ، اساتذہ کو کم محنت کرنی پڑے گی ۔ نتیجہ میں کم محنت کے باوجود طلبہ زندگی بھر اپنے اساتذہ کے احسان مند رہیں گے ۔ اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج جو استاذ ہے وہ بھی کبھی طالب علم تھے ۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا ۔ ان کے اختیار ی مضمون سے ان کو الگ رکھاگیا ہوگا۔ آج موقعہ ہے۔ اپنے طلبہ کو ان کے پسندیدہ میدان میں جینے دیں ۔ اس کے پیچھے آج آپ بھی بیس سال پرانی خواہش کو زندہ کریں ۔ اپنے طلبہ میں اس زندگی کو محسوس کریں کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ والداگر کوئی کام بچپن میں کسی وجہ سے نہیں کرپاتا تو اس کام کو اپنی اولاد کے ذریعہ کرتا ہے ۔وہ اپنے کھوئے ہو ئے ماضی کو مستقبل میں جیتے ہیں ۔ پھر استاذ کو تو باپ کے اوپر درجہ دیا گیا ہے ۔ ذریعہ معاش کی پریشانی کا حل بھی انہیںطریقوں میں موجود ہے ۔ کیونکہ تدریس وتربیت ،دعوت وتبلیغ عبادت ہے۔ کار عظیم ہے۔ ان کے لئے اخلاص اورجہدمسلسل درکار ہے ۔ در پیش مشکلات میں صبر کا مظاہرہ رضائے الٰہی کے دروازے کھولتا ہے ۔
آج ان فارغین مدارس پر دہری ذمہ داری عائد ہو تی ہے جو مدرسے کے بعد عصری درس گاہ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا تعلیم حاصل کر کے کہیں کو ئی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ دریا کا وہ پانی ہے جو دونوں کناروں سے جا ملتا ہے ۔ انہیں دور حاضر کی سمجھ ہے ۔ اس کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں ۔ روزانہ رواں دور کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا مدارس کے طلبہ کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کے منازل کے تئیں راستے ہموار کر نا انہیں کا کام ہے ۔ اپنے اکابرین کی باتوں کو اور ان کی خدمات کو دور حاضر کے تناظر میں پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسے افراد تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے جو اسلام کے آفاقی پیغام محدود کرنے کے بجائے اسے اور وسعت دیں اور فراخ دلی سے پیغام عام ا ورآسان کریں ۔ ورنہ اکابرین کی جن خاموشیوں کو ہم ادب سے کو ستے ہیں ۔ آنے والی نسل ہمیں معزرت کا موقعہ نہیں دے گی اور کسی بھی طرح کے ادب کاپاس ولحاظ نہیں ہوگا۔غور و فکر کریں اسی میں ہر مشکل کا حل ہے۔
http://srinagartoday.net/%D8%B5%D8%B1%D8%A7%D8%B7-%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%82%DB%8C%D9%85-%D8%B3%DB%92-%D8%AF%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%88%D8%AA%DB%92-%D9%85%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%B3/