Monday, October 24, 2016

ایسے ہوتے ہیں محمد ؐ کے گھرانے والے ऐसे होते हैं मुहम्मद के घराने वाले

ایسے ہوتے ہیں محمد ؐ کے گھرانے والے 

عبدالمعید ازہری

داستان کربلا تاریخ کے صفحات میں وہ باب ہے جو ہر سال نیا بلکہ بہر آن جدا گانہ انکشاف پیدا کرتا ہے ۔ کربلا کے مسافر جب مدینہ کو الوداع کہہ رہے تھے تو کیا ان کے وہم و گمان یا فکر و خیال میں یہ بات تھی کہ منزل مقصود تک پہونچنے سے پہلے ہی انہیں ایک سنسان صحرا میں گھیر لیا جا ئے گا اور پھر ایک قلب چاک دل دہلانے والا سانحہ رونما ہو گا ۔ قافلہ کے سردار حضرت امام حسین علیہ السلام نے ماں کی مزارِ انوار کو بوسہ دیا ، آنسوؤں کا نظرانہ پیش کر کے رخصت کی اجازت ما نگی ۔ پھر نانا کے روضۂ اطہر پر گئے ،کئے ہو ئے وعدے کو وفا کر نے کے لئے ،قوت وہمت کی دعا لی ، نم آنکھوں سے الوداع کہا اور کربلا کے ان مسافروں نے مدینہ چھوڑ دیا ۔ چھ ماہ کا معصوم علی اصغر ، کمسن بی بی سکینہ ، ایک جوان بیٹا علی اکبر ، بھائی حسن کی نشانی قاسم ، بھائی عباس علمبردار سائے کی طرح ہمیشہ جان نثار کرنے والی بہن زینب ، ان کے دو شہزادے عون ومحمد،تخت وتاج اور عیش و عشرت کو اہل بیت پر قربان کرنے والی بیوی شہر بانو اور چند محافظ مسافر تھے ۔ جو کوفہ جا رہے تھے ۔ آج تک ایسی کوئی تاریخ نہیں ملی جو یہ بتا سکے کہ ایک فوج نے جب کسی دوسری فوج پر حملہ کیا ہو ، اس کا مقابلہ کیا ہو ، یا اس کی جانب کوچ کیا ہو ، اس کے پاس ایسے افراد پر مشتمل فوج رہی ہو ۔ ان مسافروں کو منزل پر پہونچنے سے پہلے گھیر لیا گیا ۔ظلم و زیادتی کی گئی ، چاہنے والوں کو زد و کوب کیا گیا ،ستایا گیا ، پانی بند کیا گیا ، بد سلوکی کی گئی ، اور دوسری طرف صرف دفاع اور صبر کیا گیا ۔ یہ کیسی جنگ تھی ؟
کم سے کم ایک فوج دوسرے فوج سے ایسے تو جنگ نہیں کرتی ۔ اگر یہ دو شہزادوں کی جنگ تھی تو ایک طرف تیر و تلوار تو دوسری طرف فقط تسبیح و اذکار ، ایک طرف ظلم تو دوسری طرف صبر ، ایک طرف مصلح لشکر تو دوسری طرف بیوی بچے اور اہل و عیال ۔ یہ کس طرح شہزادوں کی جنگ تھی ؔ ؟تاریخ شاہد ہے یہ جنگ کبھی تھی ہی نہیں ۔ کیونکہ جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں جو یہاں قطعی نہیں تھے ۔ زبردستی ا سے جنگ کانام دیا گیا ۔یہ ظلم و زیادتی پیسے اور طاقت کے نشے کا کھیل تھا ۔ قیادت کے ذریعے دینی امامت کو چھیننے کا یہ حملہ تھا ۔ ساری طاقت ، دولت اس لئے یکجا صرف ہو رہی تھی تاکہ اس جھوٹی قیادت کے ذریعے دین کی امامت حاصل کر لی جا ئے ۔ ورنہ ایک اکیلے امام حسین علیہ السلام کے لئے مدینہ سے مکہ ، مکہ سے کوفہ تک کا پیچھا نہیں کیا جا تا ۔ یہ بات یزید کو بھی معلوم تھی کہ پیسہ اور طاقت کے باوجود اسے وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں تھا جو ایک امام و خلیفہ کو حاصل ہو نا چاہئے تھا ۔ ایک امام حسین ہی تھے جن کی بیعت اسے وہ مقام دلا سکتی تھی جس کی وہ خواہش کرتا تھا ۔ کہیں نہ کہیں تاریخ کے دبے صفحات میں ہی صحیح یزید کو بھی اس بات کا اعتراف تھا کہ خلافت کے صحیح حقدار وہ خود نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام کا اعجاز تھا کہ پہلے ہی دن اعلان کر دیا کہ ہاتھ نہیں دوں گا ۔ پوری طاقت صرف ہو گئی ، خیمے جلائے گئے ، لاشیں خاک و خون میں لت ہو ئیں ، ظلم و جبر کا قیامت خیز بازار گرم ہو ا ، ادھر سب کچھ ہو تا رہا اور امام آخر تک کہتے رہے سر دے دوں گا پر ہا تھ نہ دوں گا ۔ یہ دشمن کیا جھوٹی طاقت و دولت کے ذریعہ اختیار کی بات کریں گے ۔ امام کا اختیار تو یہ تھا کہ جب یزیدی لشکر شام کی جا نب واپس لوٹا تو امام کا سر لے کر گیا ہاتھ پھر بھی نہ پا سکا ۔ جب سر جسم میں تھا جب بھی نہ جھکا اور جب جدا ہوا تو اور بلند ہو گیا ، دشمنوں کے نیزے کے اوپر اور سب سے آگے ، گویا کہہ رہا ہو ، میں نبی کا نواسہ ہوں میرے اختیار کے آگے تو تم بھی مجبور ہو ، میں کل بھی امام تھا اور آج بھی تمہاری امامت کر رہا ہوں ۔ سر دادنہ داد دست در دست یزید، حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین 
ٍ جب لوگوں نے امام کو پانی کے لئے مجبور ، بے بس و لا چار لکھا اور بیان کیا تو بڑی حیرت ہو ئی کہ جس کے دادا کی ایڑیوں کی رگڑ سے آبِ زمزم کا چشمہ جاری ہو گیا ، جن کی اولاد میں یہ قدرت پا ئی گئی کہ ایک کا سے میں پورے انا ساگر کو بھر دیا ، وہ مجبور کیسے ہو سکتے ہیں ۔تاریخ نے اس فکر کی پوری قوت کے ساتھ تائید کی کہ انہیں تو شہید ہو نا تھا ورنہ یہ وہ شہزادے ہیں ابھی کمسنی کا عالم ہے اور جنت سے جوڑے آ رہے ہیں ۔ دو شہزادوں کے درمیان تحریری مقابلے کا فیصلہ نہ خاتون جنت کر رہی ہیں نہ باب العلم کر رہے ہیں اور نہ ساری دنیا میں رب کے عدل و انصاف کو عام کرنے والے پیغمبر اعظم کر رہے ہیں ۔ بلکہ خود رب تعالیٰ جبرئیل امین کے ذریعے اپنی حکمت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ ابھی اپنی کم عمری کے عالم میں ہیں اور جنتی نوجوانوں کی سرداری دے دی گئی ، جن کی بے چینی سے یہ کائنات بے چین ہو جا ئے ، جن کے رونے سے رب کو جلال آ جا ئے وہ بھلا کیسے مجبور ہو سکتے ہیں ۔ دونوں عالم کا بوجھ اٹھانے والے کندھے جن کی سواری بنے ، جن کے بارے میں نبیﷺ نے یہ فرمایا ہو کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، وہ مجبور کیسے ہو سکتا ہے ۔ وہ تو صبر و استقامت کا ایک عظیم امتحان تھا ۔ امتحاں پیاس کا دینا تھا وگرنہ اصغر ایڑیا ں تم بھی رگڑتے تو نکلتا پانی۔
ولادت سے لے کر کربلا تک امام کا اعجاز سر چڑھ کر بولتا رہا ۔ یہ امام کا اعجاز ہی تھا کہ جب تک امام شہید نہ ہو ئے تھے سب جامِ شہادت نوش کر رہے تھے ، جوان بیٹا علی اکبر قربان ہوا ، بہن زینب نے اپنے لا لوں عون و محمد کا نظرانہ امام کو پیش کیا ، بھائی حسن کی نشانی اپنے بابا سے جا ملی ، بھائی عباس بابا جان کے پاس چلے گئے ۔ ایک قیامت سی برپا ہو ئی لیکن جب اللہ کے یہ خا ص پسندیدہ منتخب امام اپنے وعدے پر کھرا اترا، جام شہادت کو اپنے گلے سے اتارا ،اور نو ر کی یہ شعاع اپنے نور سے جا ملی پھر ا س کے بعد کوئی شہید نہ ہوا ، نہ معصوم سکینہ کے اوپر تلوار اٹھی ، نہ بہن زینب پر تیر چلے اور نہ ہی عابد بیمار کو زد و کوب کیا گیا ۔ہاں ظلم ہوا اور اتنا ہوا کہ آسمان کو رونا آ گیا ۔ امام زین العابدین مسلسل کربلا کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے یہ اعجاز امام حسین نہیں تھا تو اور کیا تھا کہ جس فوج یزید نے چھ ماہ کے معصوم علی اصغر کے خشک گلے میں تیر پیوست کر دیا ہو آج تنے تنہا امام زین العابدین کی کھلی خلافت اور جھوٹی قیادت سے بغاوت کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے ۔ امام حسین کے بارے میں ولادت ہی کے وقت سے یہ معلوم پڑ گیا تھا کہ اس نور کو شہادت کے مقام پر فائز ہو نا ہے ۔ سبھی جا نتے تھے یہاں تک کہ ایک بار مولائے کائنات مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا گزرسر زمین کربلا سے ہوا تو عجیب سی بوئے ظلم و جفا آئی ۔ رک کر پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے، لوگوں نے بتایا یہ کربلا ہے ۔ آپ سواری سے اترے اور رونے لگے خوب روئے ، زاروقطار روئے ، رو رو کر پورے کربلا کا چکر لگا کراپنے ساتھیوں کو بتا نے لگے کہ یہ دیکھو یہاں میرے بچوں کو گھیرا جا ئے گا ، یہاں میرے گھر کی شہزادیوں کا خیمہ لگے گا ، یہاں میرے عباس کے بازو قلم ہوں گے ، عون و محمد ، قاسم واکبر یہاں شہید ہو ں گے ۔ اور یہاں میرے لخت جگر حسین کا سر سجدۂ شکر میں جھکے گا اور ظالموں کا خنجر میرے لال کے نازک گلے پر چلے گا ۔ سب کو پتہ تھا کہ حسین علیہ السلام کربلا جا ئیں گے اور ان کو وہاں شہید کیا جا ئے گا ۔ نانا ، بابا ، ماں ، بھائی سب یہ بات جانتے تھے کہ امام کے ساتھ کیا ہوگا ، پھر بھی کسی نے روکا نہیں ، سب نے اس یقین پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا کہ یہ تو رب کی مرضی ہے ، اس کا حکم اور حسن انتخاب ہے ۔
بعد میں بھی گھر والوں نے منع نہیں کیا ، اصحاب کرام نے منع کیا کہ کوفہ والے اعتبار کے قابل نہیں ، لیکن جب قافلہ روانہ ہوا تو معصوم سکینہ نے بھی ضد نہیں کی کہ باب وہاں مت چلو لو گ ستائیں گے ، پانی کا قطرہ بھی نہ دیں گے ،بہن زینب نے بھی اعتراض نہ کیا کہ بھیا کوفہ کا ارادہ ترک کر دو ، ہم اسلام کی مقدس شہزادیوں کے ساتھ نا روا سلوک کیا جا ئے گا ، ہماری چادریں چھین لی جا ئیں گی ، جوان علی اکبر خوفزدہ نہ ہو ئے ، بہن زینب نے اپنے شوہر سے اجازت لے لی اور سفر میں اپنے بچوں کو ساتھ لے لیا ، اس کی فکر کئے بغیر کہ کیا ہو گا ۔امام کا یہی کہنا تھا کہ کوفہ والوں نے ہزاروں خط لکھے ہیں ۔ ہر خط میں انہوں نے ہمیں دعوت دی اور دین کے لئے اس مشکل گھڑی میں ہماری امداد چا ہی ہے ۔ اصحاب اقربا کے زور دینے پر مسلم بن عقیل کو بھیجا ، انہوں نے بھی یہی کہا ہے ، کوفہ والوں نے اپنے خطوط میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہمارے عقیدوں کی حفاظت کے لئے اگر آپ نہ آئے تو کل قیامت کے دن تمہارا دامن پکڑیں گے اور نبی سے فریاد کریں گے کہ ہم نے دین اور عقیدے کی حفاظت کے تئیں مدد چاہی تھی اور یہ حفاظت کے لئے مدینہ سے کو فہ نہ آئے ۔
جب بات دین کی حفاظت کی ہو اور ہم نے وعدہ بھی کر لیا ہے تو ہم ضرور جا ئیں گے ۔ایک وعدہ جو کوفہ والوں سے کیا ، ایک وعدہ جو رب سے کیا ، ایک وعدہ جو نانا جان سے کیا کہ آج ہمارے لئے سجدہ طویل کیا گیا ہے ، دین کو قیامت تک کے لئے طویل کردوں گا ۔ ایک وعدہ نبھانے کے لئے اتنی قربانیاں دی ہیں حسین اعظم نے ۔ حسین جیسا شہید اعظم جہاں میں کوئی ہوا نہیں ہے چھری کے نیچے گلا ہے لیکن کسی سے کوئی گلا نہیں ۔ 
اس ایک وعدے کو نبھانے کے لئے پورا کنبہ تیار ہے ، دین کی حفاظت کے لئے بچے ، جوان ، مرد و عورت سبھی کا ایک سا جذبہ ہے ۔ پورے خاندان اور کنبے کا ایک ہی نعرہ ہے کہ جان جائے تو جائے پر دین محمد کو آنچ نہ آ ئے ۔ جس نے نا نا کا وعدہ وفا کر دیا ،گھر کا گھر سب سپرد خدا کر دیا جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا ،اس حسین بن حیدر پر لاکھوں سلام
Abdul Moid Azhari abdulmoid07@gmail.com 09582859385














No comments:

Post a Comment