Monday, October 24, 2016

تین طلاق پر حکومت کا حلف نامہतीन तलाक़ पर सरकार का हलफ़नामा Govt. Stand on Triple Talaq


تین طلاق پر حکومت کا حلف نامہ 

عبد المعیدازہری


تین طلاق پر حکومت کا حلف نامہ ہندوستان کے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ آنے والے ۲۰۱۷ کے انتخابات میں مسلمانوں کو خوفزدہ و حراساں کر کے ۲۰۱۴ کی طرح مذہبی ووٹ کو اکٹھا کرنے کی سازش معلوم ہوتی ہے ۔اس سے پہلے شاہ بانو کیس میں بھی مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی ختم کرنے کو کوشش کی تھی ۔ اب اس بار پھر سے ہندوستانی آئین کو نظر انداز کیا جا رہاہے ۔ تین طلاق کی وجہ سے ہونے والی دشواریوں کا جائزہ لینے کے لئے مسلمانوں کے پاس مسلم پرسنل لا ء بورڈ ہے ۔ اس کے ذریعہ اگر کچھ لا پرواہی ہو رہی ہے ۔ مسائل کو صحیح طریقے سے لوگوں تک نہیں پہنچائے جا رہے ہیں تو اس کے مسلمانوں کے مذہبی اورفقہی پیشوا ہیں ۔ مسئلے کی سنگینی کے سمجھتے ہوئے اس پر کچھ لائحہ عمل تیار کریں گے ۔لیکناس طرح سے حکومت کی جبری دخل اندازی اور تین طلاق کے شرعی قانون کے خلاف حلف نامہ مسلمانوں کے لئے قطعی نا قابل برداشت ہے ۔ ہندوستانی قانون میں یقین رکھنے والے ہندوستانیوں کے لئے بھی یہ آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ آج مسلمانوں کی قانونی آزادی کو ختم کرنے کا مسئلہ ہے کل کسی اور اقلیتی قوم کی مذہبی تشخص پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے موجودہ حکومت کو ملک کے آئین سے کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے ۔تین طلاق کے مدعے کو سامنے رکھ کر وہ یکساں سول کوڈ کو نافظ کرنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے ۔ آخر حکومت کو تانا شاہی ہی کرنی ہے تو پھر ادھر ادھر کے بہانے تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ سیدھے قانون بنا دے ۔ اعلان کر دے کہ اب سے کسی کو بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں ہوگی ۔ یہ کسی اور طرح کے حقوق اور آزادی کاتصور کیا جا سکتا ہے ۔
۲۰۱۷ کے انتخابات کی تیاری دلتوں پر مظالم کے ذریعہ شروع ہو گئی ۔ گؤ رکشاکے نام پر دلتوں اور مسلمانوں کا بے دریغ قتل اور انسانیت سوز مظالم نے یہ واضح کر دیاہے کہ حکومت کے غنڈ موجودہ سرکار کو جمہوری سرکار ماننے کیلئے تیار نہیں۔ مرکزی حکومت کی بین الاقوامی پالیسیوں ملک کا داخلی نظام بالکل درہم برہم ہو گیا ہے ۔جو جسے چاہتا ہے گالی دے دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے مار دیتا ۔ اس کے بعد جھوٹے وعدوں کا ایک طلسمی مرہم رکھ دیا جاتا ہے ۔ ملک کی جمہوریت کو جتنا خطرہ بلکہ نقصان آج ہو رہا ہے اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ملک کے آئین پر کبھی اس طرح بے دریغ حملہ نہیں کیا گیا ۔افسوس آج کی سیاسی جماعتوں کا ذہنی توازن نہ جانے کو ن لوگ سنوارتے ہیں۔ جنہیں انتخاب کی پالیسی میں فرقہ وارانہ فسادات، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ، کسی ذات یا برادری والے کو ذلیل و رسوا کرنا ، کھلے عام لوٹ مار، غنڈہ گردی قتل و فساد کرنا جیسے طریقے سجھائے جار ہے ہیں۔ جسیے جیسے امریکہ اور اسرائیلسے دوستی بڑھتی جا رہی ہے ۔ ہمارے ملک کا رخ کچھ اچھی اور خوش آئند سمت نہیں ہے ۔خون اور درد کی سیاست کم سے ہندوستانی مٹی میں تو نہیں تھا ۔ اس مٹی کو خونی بنانے میں انسانیت کے قتل عام سے ملک کے تہذیب و وقار سے جو کھلواڑ کیا گیا ہے اس کی بھرپائی کوئی کرے گا؟۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
تین طلاق کے تعلق سے عدلیہ میں دیا گیا بیان اور فیصلہ بھی باعث تعجب اور حیرت انگیز ہے ۔جب معاملہ کسی طلاق یا اس کے نفاذ کا تھا ہی نہیں تو آخر جبرا کسی کے مسئلے میں تین طلاق کے تعلق سے فیصلہ داخل کرنے کے پیچھے کیا منشا ہو سکتی ہے ۔؟ کس کی ہو سکتی ہے؟ ۔ملک کے آئین کی طرف سے دی جانے والی مذہبی آزادی کی بنیاد پر قائم مسلم پرسنل لاء بورڈ سے نہ تو ملک کا کوئی نقصان ہے اور نہ ہی کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی خطرہ ہے ۔ توآخراسے نشانہ بنا کر کون کسے خوش کرنا چاہتاہے اور اس کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ۔ ہر بار کسی خاص موقعہ پر بالخصوص انتخابی موسم میں بڑے بڑے احتجاج کے حالات کیوں پیدا کر دئے جاتے ہیں؟۔اب اس مسئلے کو لیکر ایک بڑا ہنگامہ اور احتجاج ہوگا۔ اس کا سب اپنے اپنے اعتبار سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے ۔موجودہ حکومت بھی اسے بھنانے کیلئے پھر پورکوشش کرے گی۔ اپوزیشن بھی اس موقعہ کا فائدہ اٹھائے گی ۔ مسلم اور دیگر لیڈر بھی اس میں اپنی روٹی سیکیں گے ۔ بس دن بھر میں دو وقت کی روٹی کمانے والی عوام ہے جس کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں۔ ایس کہا یہ تمہارے حق کی لڑائی ہے با ہر نکلو۔ وہ نکل گئے ۔ اسکی محنت سے ملنے والے فوائد کے سبھی حصہ دار بن جائیں گے ۔ بس اسی کو کچھ نہیں ملے گا ۔ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر کہنے والے بھی اس میں پیچھے نہیں ہوں گے ۔وہ بھی اسی خانے میں آتے ہیں۔ آخر ایسے حالات کیوں بننے دیتے ہیں۔ صحیح طریقے سے مسئلے کو سمجھایا اور پہنچایا کیوں نہیں جاتا ۔ جب پانی سر سے اوپر اٹھ جاتا ہے تو نیند سے بے دار ہوتے ہیں۔اس تین طلاق سے پہلے ابھی درگاہ حاجی علی پر عورتوں کی حاضری کا مسئلہ بھی تھا ۔ سجا ہوا اسٹیج مل جائے تو کرسیاں توڑ دیں گے ۔ گھڑیالی آنسون بھی نکل آئیں گے ۔ فتوے تو ایسے نکلیں گے جیسے شرعی حقوق لے کر بیٹھے ہوں۔ جوں کہہ دیں وہی شریعت ہے ۔ لیکن عوامی مسائل کو سمجھنے اسے حل کرنے کیلئے کسی بھی طرح کی مشقت اٹھانے میں دل کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔
تین طلاق ہو یا ایک طلاق ہو ۔ طلاق کے بارے میں پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہئے کہ یہ کوئی ڈیوٹی ، فرض یا ذمہ داری نہیں ہے جسے ہر حال میں ادا ہی کرنی ہے ۔ شریعت انسانی زندگی کو آسان کرنے کیلئے ہوتی ہے اسے اور مشکل کرنا اس مقصد قطعی نہیں ۔ اسے نافذ کرنے والے یا اس کی نشر و اشاعت والے اسے مشکل بنا دیں تو اور بات ہے ۔ جیسے اسلام کے قانوں اور مسلمانوں کے کردار میں زمین و آسمان کا فرق آگیا ہے ۔یہ وقت ہے کہ اپنے آپ کو ذمہ دار کہنے والے او ر خود مسلم پرسنل لاء اپنے اپنے کردار کے بارے میں سوچے ۔ غور فکر کرے ۔ اپنی اہلیت، صلاحیت اور لیاقت کے بارے میں جانچ کرے ۔تین طلاق سے تین واقع ہوگی یا ایک ہوگی یہ خالص مذہبی مسئلہ ہے ۔ اس میں حکومت یا کسی بھی سیاست کی دخل اندازی کی قطعی ضرورت نہیں۔یہ قانون اسلئے نہیں بنائے گئے کہ اس قانون کی وجہ سے اس پر عمل واجب ہے ۔ قانون انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی میں توازن قائم کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ افراط و تفریط سے محفوظ کرنے کیلئے نظام بنائے جاتے ہیں۔ سب کو اس کا حق ملے ۔ کسی کا حق نہ مارا جائے ۔ کسی بھی طرح کی ظلم و زیادتی یہ ہو ۔
طلاق کی طرح شریعت کا ایک مسئلہ نکا ح کا بھی ہے ۔ شریعت کہتی ہے کہ سماج میں زنا جیسے گھناؤنے جرم سے بچنا چاہتے ہو تو نکاح کو عام اور آسان کر دو۔قانون تو یہ ہے لیکن اس پر عمل کتنے لوگ کرتے ہیں۔ آج ہر سماج میں نکاح کو لیکر جو ہوڑ مچی ہوئی ہے اس سے اندازہ لگا جا سکتا ہے کہ لو گ قانون کا کتنا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قانون ہی کو بدل دو۔ تین طلاق سے تین ہی واقع ہونا یا پھر حلالہ جیسی سزا کو ٹھیک سے سمجھ اس کے صحیح نفاذ کی ضرورت ہے ۔ 
دو انسانوں کے درمیان نکاح سے ہونے والے رشتوں میں کبھی کبھار درار پڑجاتی ہے ۔ان رشتوں کو بحال کرنے کیلئے گھر والوں کی کوشش ہو ۔ بات نہ بننے پر دونوں گھر والے اور کچھ خاص رشتہ دار اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں۔یہاں پر بھی بات نہ بننے پر کچھ با اثر لوگوں کو شامل کیا جائے ۔ اسکے بعد ایک طلاق دی جائے تاکہ تھوڑاسا الگ رہ کر رشتوں کی اہمیت وضروت پر غور فکر کیا جائے ۔ مدت گزر جانے کے بعد اگر پھربھی بات نہیں بنتی تو دوسری طلاق اس کے بعد تیسری طلاق دی جاتی ہے ۔ یہ تو عام حالات میں ہوتاہے ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ رشتو تان زیادہ بگڑ جاتے ہیں کہ اب ایک پل بھی رہنا مشکل ہو جاتاہے ۔ یہ دونوں کے لئے مشکل ہوتاہے ۔ اب ایسے میں اگر تین مہینہ کا وقت گزارنا پڑے تویہ ان پر اور مشکل ڈالناہو گا ۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہناہی نہیں چاہتے اسی لئے تو یہ نوبت آئی ہے اب اگر قانونا انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رکھا جائے تو ان کی ذہنی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ایسے خاص ،اہم اور بالکل نادر موقعہ پر تین طلاق کو ایک ہی بیٹھک میں دے کر دونوں کوفارغ کر نے کا قانون ہے ۔اسی دن سے دونوں اپنی اپنی زندگی جئیں۔ دونوں کے راستے الگ ہو گئے ۔ حلالہ کسی پر فرض واجب یا مستحب نہیں ۔ یہ صرف اسلئے ہے کہ لوگوں میں طلاق کا رجحان نہ بڑھے ۔ حلالہ کے بارے میں سوچ کرہی طلاق دینے کا ارادہ ترک کردیں۔کسی غصہ ، مزاق یا پھر کسی غیر ضروری حالت کی وجہ سے رشتوں کو ختم کرنے کا کھیل نہ شروع ہو جائے ۔ اسلئے اس طرح کے قانون بنائے گئے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرے تو اسے سدھارنے کی بجائے قانون ہی کو ختم کرنے کی بات کرنا عقل مندی تو نہیں ہے ۔
طلاق کو جائز کرتے ہوئے شریعت نے اسے سخت ناپسند کیا ہے ۔تین طلاق کو ایک ہی بیٹھک میں دینے کو بھی منع کیا گیا ہے ۔ بلکہ جرمانہ اور تادیبی سزائیں بھی دی گئی ہیں۔حکومت اگر واقعی میں نیک نیتی سے ملک کے ہر باشندے کے ساتھ اچھا سلوک چاہتی ہے تو قانون کے نفاذ میں دلچسپی دکھائے نہ کہ قانون کے ساتھ غیر قانونی برتاؤ کرنے کی جسارت کرے ۔نکاح طلاق اور دیگر قانون انسانی سماجی کی بہتری کیلئے ہی ہیں۔ اس میں غور فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بہتر نفاذ کا طریقہ تلاش کرنا چاہئے نہ کہ اس پر سیاست کر کے انسانی سماجی کے لئے تباہی و بربادی کے راتے کھولنے چاہئیں ۔
*****
#TripleTalaq #UniformCivilCode #MuslimPersonalLaw #IslamicLaw #WomenInIslam #Divorce #Marriage #LawCommisionOnMuslimPersonalLaw 

Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contacat: 9582859385

Like Me On:

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@





No comments:

Post a Comment