چلو اچھا ہوا چہرے بے نقاب ہو گئے
ایودھیا میں متنازع زمین پر بابری مسجد کے ایک طویل مدتی جھگڑے کو آخر کار عدالت عظمیٰ نے حل کر دیا۔ تین ججوں کے مشترکہ اور متفقہ فیصلے پر قانونی اور تکنیکی بحث جاری ہے۔ مسلمانوں کے اکثریتی طبقہ نے ہندوستانی عدلیہ پر یقین جتاتے ہوئے فیصلے کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ جس طرح سے فیصلہ سے پہلے عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اس پر عمل پیرا ہو کر ہندوستان کے بہترین شہری ہونے کی مثال قائم کی ہے۔
فیصلہ سے پہلے بھی عدالت کے فیصلے کی پیشین گوئی نہیں کی اور نہ ہی اپنی کوئی منشاء ظاہر کی۔ یہ کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے عدلیہ پر آنکھ بند کر کے یقین رکھنے کی اعلی مثال ہے۔ اب یہ عدالتوں کے اوپر ہے کہ فیصلہ کس طرح کریں۔ کم از کم اس حل کے بعد اس کی توقع کی جا رہی ہے کہ انسانی جان و مال کے مزید ضیاع کو بچا لیا گیا ہے۔ورنہ کسی اور صورت میں نتیجے کافی نقصان دہ ہو سکتے تھے۔وہیں اس حل نے مسلم قیادتوں پر بھی ایک گہرا اور تشویس ناک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ جس پر آواز کی امید پچھلی دو دہائیوں سے محسوس کی جا رہی تھی، عوام و خواص نے اس پر کھل کر بات کرنا شروع کر دیا ہے۔خود ساختہ مسلم قیادت کے حساب کتاب وقت آ گیا ہے۔ کبھی بھی کسی سے بھی کسی بھی قیمت پر قوم مسلم کا سودا کرنے والی سیاسی، سماجی و مذہبی مسلم قیادت کو اب
حساب دینا ہوگا۔ قیادت کے اعلان سے پہلے انہیں سو بار سوچنے کے علاوہ قوم کے تئیں جواب دہی کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔
ایودھیا تنازع کے بعد جس طرح سیکڑوں برسوں کی نام نہاد اور خودمختار مسلم قیادت کی دعوے دار مسلم تنظیموں جمیعت علماء ہند، جمیعت اہل حدیث اور جماعت اسلامی ہند کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈاور صوفی ڈیلیگیشن پر عوامی احتجاجی رد عمل کا اظہار ہوا ہے وہ قابل غور ہے۔ تین طلاق، کشمیر اور ایودھیا کے معاملوں نے مسلم قیادت کی ناکامی، نا اہلی اور خود غرضی کے ساتھ ساتھ سودے بازی
کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔مسلم قیادت کے نام پر دین اور ضمیر بیچنے والے ہر سفید چہرے کے کالے کارنامے لوگوں کے سامنے آ گئے۔ ملک گیر سطح پر ایسے میر جعفروں پر قد غن لگانے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔اب سے کسی بھی ریاکار قوم فروش قائد کی زبان عوام کی رائے نہیں ہوگی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ معاملوں میں کی جانے والی کاروائیاں خیر اندیش رہی ہیں۔سیاست کے گلیاروں میں بکنے والی داڑھی، ٹوپی، کرتا جبہ و دستار کا یہ کاروبار بند ہونے کی کگار پر آ چکا ہے۔وقت و حالات کے لحاظ سے مذہبی ٹھیکیداری کے بدلتے
چہروں کی رو نمائی ہو چکی ہے۔تین طلاق بل کے وقت بھی کم و بیش یہی حالات رہے ہیں۔بل سے پہلے ہی ان نام نہاد تنظیموں کی جانب سے سودا ہو چکا تھا۔ ایسے ہی کشمیر کے معاملوں میں کالے کارناموں کی طویل فہرست اور نفس پرستی پر خود غرضی نے جبہ و دستار کو بیچ دیا۔بابری مسجد کا سودا تو برسوں پرانا ہے۔ مقدمہ کی پیروی سے لے کر عدالت کے باہر آپسی صلح سمجھوتہ کی کوشش اور اس کے بعد عقیدت کے نام پر زمین وقف کردینے کی گزارشات نے مل کر ایودھیا تنازعہ کا یہ حل نکالا ہے۔اس پہلے بھی ندوہ اور ندوی کردار مسجد سے دست برداری کا رہا
ہے اور آج بھی وہی ہے۔مدنی خاندان کی مذہبی ٹھیکیداری نے بھی طلاق، کشمیر اور بابری مسجد معاملے اپنا رخ واضح کر دیا۔
یوروپین ممالک کے پارلیامانی اراکین کے وفد میں سے کم سے کم کسی ایک میں تو ہمت ہوئی جس نے حق و انصاف کی بات کی ورنہ اندرون ملک کے صوفی ڈیلیگیشن نے تو آنکھوں پر پٹی ہی باندھ لی تھی جہاں روشن اندھیرے کے سوا کچھ دکھا ہی نہیں۔
ہماری بحث اس سے نہین ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم مسائل پر حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے۔ طلاق، کشمیر اور ایودھیا کا جو حل نکلا وہ کتنا درست یا غلط ہے۔
یوروپین ممالک کے پارلیامانی اراکین کے وفد میں سے کم سے کم کسی ایک میں تو ہمت ہوئی جس نے حق و انصاف کی بات کی ورنہ اندرون ملک کے صوفی ڈیلیگیشن نے تو آنکھوں پر پٹی ہی باندھ لی تھی جہاں روشن اندھیرے کے سوا کچھ دکھا ہی نہیں۔
ہماری بحث اس سے نہین ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم مسائل پر حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے۔ طلاق، کشمیر اور ایودھیا کا جو حل نکلا وہ کتنا درست یا غلط ہے۔
ہماری گفتگو تو ان تمام مسائل میں مسلم قیادت کی حصہ داری سے ہے۔تینوں ہی مسئلوں میں آنے والے نتیجوں کے لئے مثبت زمین ہموار کرنے میں اس کلرجی کا کتنا رول رہا ہے۔حالانکہ کی بکی ہوئی زبانوں کی زہریلی بیان بازی ابھی جاری ہے جس سے تفریق و تقسیم کی دیوار مزید مضبوط ہورہی ہے اور سیکولر افکار و نظریات کو چوٹ لگا رہی ہیں۔لیکن شاید یہ بجھتے ہوئے چراغوں کی آخری لو ہیں۔اس طرح کے عوامی رد عمل کی توقع تو شاید مدنی فیملی ندوی برادری اہلی حدیث اور جماعت اسلامی کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ کے نمائندہ ٹھیکیداروں نے
نہ کی ہوگی۔اس میں بڑی بات یہ ہوئی کہ کسی بھی گروپ کی نقاب کشائی کا فریضہ اسی گروہ سے وابستہ غیرت مند افراد نے کیا ہے۔ اگر
ایسا نہ ہوتا تو شاید شرم و حیا، غیرت و حمیت سے عاری یہ بے ضمیر رہزن اسے مسلکی افتراق و اختلاف کی نذر کر دیتے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ و القاب عوامی رد عمل میں اظہار کئے جانے والے لہجوں سے کہیں کم ہیں۔مزید یہ کہ یہ ذاتی نہیں ہیں۔کسی فرد واحد کی مخالفت نہیں بلکہ ان اقدامات سے اختلاف ہے جس نے قوم کو بے
بسی اور بے چارگی کے اس دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔اب جب کہ حالات و ضروریات کے چہرے سے بناوٹی گرد چھٹ چکی ہے۔یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آج کی مذہبی، سیاسی اور سماجی نام نہاد مسلم قیادت کے خلاف بلند ہونے والی ان غیرت مند آوازوں کو ایک تحریک کی شکل دی جائے۔جہاں لوگوں کو پیچھے کھڑا رکھنے کی بجائے ان کو ساتھ رکھ کر چلنے پر زور ہو۔کسی بھی نمائندہ آواز کو اس وقت تک عوامی رائے بننے سے روکا جائے جب تک عوام سے رجوع نہ کر لیا جائے۔سیاست کے بازار میں کاروبار کرنے والی مذہبی ٹھیکیداری پرمکمل لگام لگائی جائے۔جواب دہی کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ٹوپی اور ٹائی کی مشترکہ کوششوں سے عوام بیداری کی مہم چلائی جائے۔اپنی ناکامی کا ٹھیکرا کسی ایک فرد یا جماعت پر پھوڑنے چلن بند ہو۔

No comments:
Post a Comment