امام و خطیب نے مل کر دین کو کاروبار بنا دیا
عبد ا لمعید ازہری
اسلامی نظام حیات و نظم و نسق میں امامت اور خطابت دو سب سے اہم منصب ہیں۔ تبلیغ دین اور قرآنی و نبوی اسلوب زندگی کی تبلیغ کے یہ دو اہم مبلغ ہیں۔محلے کی چھوٹی سی مسجد سے لے کر جامع مسجد اور ملکی سطح کی مرکزی مسجد تک کے اماموں کا انتخاب نہایت ہی ایمانداری و دیانت داری طلب امرہے۔حالات حاضرہ پر باریک نظر، دور اندیشی اور حکمت عملی کے ساتھ زبان و بیان پر مضبوط پکڑ،وقتی تقاضوں سے واقفیت،سیاسی و سماجی آزمائشوں سے نمٹنے کا ہنر، خوش اخلاقی و خوش الہانی سے دلوں پر اثر اندازی کی قوت اور دین کی صحیح سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد ہی کسی مسجد کا امام ہو سکتا ہے۔ ورنہ دنیا داری کا سمندر جدید مسائل کے طوفان کی آڑ میں دین کی کشتی کو بڑی آسانی سے غرقآب کر دے گا۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ سب بڑی نا اہلی کا خطاب انہیں دونوں شعبوں کو جاتا ہے۔ جس مولوی کو کوئی بھی ڈھنک کا کام نہیں ملتا وہ یا تو امام ہو جاتا ہے یا خطیب ہو جاتا ہے۔اپنی کم علمی اور نا اہلی چھپانے کے لئے فریب کاری کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ عقیدے گڑھے جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی ہونے لگتی ہے۔ قوم میں تفریق و تقسیم شروع ہو جاتی ہے۔راز افشاء ہونے پر ندامت و پشیمانی سے بچنے کے لئے پہلے اپنے حامی تیار کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے ان افراد کے ہر کالے سفید کو شریعت کی بے جا تاویل کی ہری جھنڈی دکھاتے ہیں۔ مسجد کے ممبر سے لے جلسے کے ممبر تک؛ جنہیں یہ ممبر رسول کہتے ہیں، قوم کو جھوٹ سننے اور بولنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ گالی گلوچ، دھوکہ فریب، عیاری مکاری کی کھلے عام تعلیم دی جاتی ہے۔سچ بولنے، سمجھنے والے کو گستاخ بنا کر ذلیل یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
انہیں ممبروں سے قوم کی آنکھوں سے رسول کے دین کی پٹی اتار کر زر پرست علما و مشائخ کے دین کا پٹہ ان کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔انہیں ممبروں سے کفر کے فارم بھرے جاتے ہیں اور جنت کا ریزرویشن بھی کیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی من مانی تاویل و بے جا توضیح بڑی بے باکی سے ہوتی ہے۔ کل تک جرح و تعدیل کے محدثین اور تاریخ نویسوں نے اس بات کا خلاصہ کیا کہ مستشرقین نے ہزاروں کی تعداد میں موضوع حدیثیں گڑھیں اور کتب احادیث میں شامل کردیں۔ لیکن آج تو ان مستشرقین کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ کام خود آج کے نئے دین کا امام و خطیب کر لیتا ہے۔ جو خود کو نبیوں کا وارث بھی کہتا پھرتا ہے۔ایک تو قوم کے اندر زیادہ تر اختلافات فروعی ہیں۔ دوسرے جہاں علمی اختلاف کے ساتھ مدلل اور سنجیدہ بحث و مکالمہ سے مسائل حل ہو سکتے ہیں یہ نئے دین کا ایجنٹ اسے عقیدے کی طرح پیش کر کے اس کا اتنا چرچا کرتے ہیں اور اپنے نجی قرآن و حدیث سے ایسی بکواس دلیلیں دیتے ہیں کہ کراہیت کا مسئلہ بھی شرک تک پہنچ جاتا ہے۔یہ بیماری کسی ایک فرقے، گروہ یا جماعت کی نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی صورت حال ہے۔تبلیغ دین کے نام پر آج کی تجارتی تقریروں نے ممبر رسول کی اس قدر توہین کی ہے کہ بعض مقامات پر تو یہود وکفار کو بھی شرم آ جائے۔ با ضابطہ کھلے عام اسٹیج سے یعنی ممبر رسول سے ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں اور اس پر نعرہ تکبیر و رسالت زندہ باد پائندہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
ان اماموں اور خطیبوں نے جن مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے وہاں کا نصاب تعلیم پچھلی نصف صدی سے تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اس نصاب میں حالات حاضرہ کے جدید تقاضوں کا مقابلہ کرنے، ان سے نمٹنے یا انہیں سمجھنے بھر کے لئے بھی کوئی مواد نہیں ہے۔ یہ مدارس قوم کے زکوٰۃ پر قائم کئے گئے ایسے ادارے جہاں قوم کے غریب بچوں کے پیٹ یتیموں کی طرح بھرے جاتے ہیں تاکہ زکوٰتی چندے کی آمد کا سلسلہ جاری رہے اور صاحب مدارس کے عمارتیں بلند اور خوبصورت ہوتی رہیں۔برساتی مینڈکوں کی طرح مدارس کی کثرت نے مدارس کے پاکیزہ نظام کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہے کہ اب ان سے گھٹن ہوتی ہے۔آج سے تین سے پانچ صدی قبل جب دور دور تک مدرسے نہیں تھے۔ ملک بھر میں گنتی کے مدرسے ہوتے تھے۔ لیکن دین دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ ملک بھر میں دو چند عالموں نے دین کی تبلیغ کر دی۔ آج کیا وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں علما مدارس سے فارغ ہوتے ہیں اور دین سے بیزاری، نفرت اور دوری بڑھتی جا رہی ہے۔قوم کا اخلاقی معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔دینی اعتبار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ جتنے زیادہ مدارس، جتنے زیادہ علما اتنے زیادہ فساد اور اتنے ہی زیادہ فتنے۔کسی بھی طرح کے فتنے پر ذمہ داروں کی خاموشی بھی فتنے کو بڑھاتی ہے۔
مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد روزی روٹی کی تلاش میں علمی نااہلی سامنے آئی تو یا کسی مسجد کا امام بن کر دینی تجارت شروع کردی، یا مقرر بن کر قرآن وحدیث کی فروخت میں لگ گیا۔تیسرا کام یہ ہے کہ مدرسہ کھول لیا۔ ایک ہی گاؤں میں چار مدرسے ہو گئے۔ جھگڑا تو ہونا ہی ہے۔ جو گاؤں ایک مدرسہ پال رہا تھا اس پر چار مدرسوں کی ذمہ داری آ گئی۔رقم بٹ گئی۔ زیادہ رقم کی طلب نے ایک دوسرے کا ایسا حریف بنایا کہ تہمت بازی اور الزام تراشی شروع ہو گئی۔ایک گاؤں ایک مدرسے پر متحد تھا۔ چار مدرسوں نے اسے چار خانوں میں تقسیم کر دیا۔ چونکہ علم نہیں تو تعلیم کے نام پر دھوکہ ہی دے سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان جاہل لوگوں نے عالم بنانے شروع کر دئے۔ایسے ہی آج کئی پشتیں قوم کے بچوں کا عالم بنا رہی ہیں۔مسجد کے امام کا نفس اتنا موٹا ہو گیا کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی قیمات پاتا ہے اس لیئے مکتب قائم نہیں کرے گا۔ اصلاح و تربیت کی نشستیں قائم نہیں کرے گا۔
مسجدوں سے مکاتب کا غائب ہونا اور کرانہ کی دکانوں کی طرح مدرسوں کا قائم ہونا قوم کے ذہنوں کو مفلوج کر رہے ہیں۔ذہنی، فکری اپاہج پن سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس قیادت کو جہالت کے اسی پرانے تابوت میں قید کرکے مستقل الوداع کی کیل ٹھونک دی جائے۔
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment