قبروں پر عورتوں کی ’حاضری‘ حرام یا ’غیر شرعی عمل‘ ؟
عبدالمعید ازہری
آج کل درگاہ حاجی علیؓ پر عورتوں کی حاضری کو لیکر ایک بحث خواص سے لیکر عوام تک گرمجوشی کے ساتھ جاری ہے ۔ درگاہ حاجی علی ٹرسٹ نے ۴ سال قبل درگاہ کے مخصوص اور محدود علاقہ میں عورتوں کے داخلہ پر پا بندی عائد کردی تھی۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عورتوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا تھا ۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی عدالت کا فیصلہ آیا کہ عورتوں کے داخلے کے خلاف درگاہ حاجی علی ٹرسٹ کی جانب سے عائد پابندی غلط ہے ۔ عدالت کا ماننا ہے کہ اس کا سیدھا تعلق شریعت سے ہے۔ اگر شریعت میں واقعی عورتوں کے مزارات اور درگاہوں پر جانے کی ممانعت ہے، تو عورتوں پر پابندی عائد کی جائے گی ۔ورنہ ان کو پابند کیا جانا غیر قانونی ہوگا ۔ اس فیصلہ کے بعد علماء کے درمیان ایک الگ قسم کا ماحول بنتا نظر آ رہا ہے ۔علماء کا ایک طبقہ عدالت کے اس فیصلہ کی مذمت پر اتر آیا ہے۔ وہیں سنجیدہ طبقے میں عدالت کے اس فیصلہ پر واویلہ نہ مچانے کی ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔ عورتوں کے مزارات پرداخلہ کو لیکر ابھی بھی کشمکش بنی ہوئی ہے ۔ کئی دار الافتاء سے باقاعدہ فتوے صادر ہوچکے ہیں۔ کہ عورتوں کا درگاہوں میں داخل ہونا غیرشرعی عمل ہے ۔ گناہ ہے ۔ حرام ہے۔جبکہ وہیں کئی اسلامک اسکالر اور مفتیان کرام قبروں پر عورتوں کے جانے کو فی نفسہ جائز و مباح مانتے ہیں۔
اس موضوع پر اگر چہ آج کے علماء و مفتیان کرام کا اختلاف ہو۔ لیکن عورتوں کے حقوق کو لیکر ہمیشہ سے ہی مذہبی بحث ہوتی رہی ہیں۔ درگاہ حاجی علی سے قبل کچھ مندروں میں بھی عورتوں کے داخلے پر پابندی کا کیس سامنے آ چکا ہے۔ وہاں پر بھی قانونی چارہ جوئی سے اس پابندی کو ختم کیا گیا ہے ۔ اب اس کے بعد اس تنظیم نے حاجی علی درگاہ کے معاملے میں بھی اپنی دلچسپی دکھائی ۔ عدالتی کاروائی کے ذریعہ فیصلہ عورتوں کے حق میں آیا ہے ۔ حالانکہ عدالت نے صاف طور پر اس کا انکشاف کیا ہے کہ اگر مذہب عورتوں کو پابند کرتا ہے تو قانون اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا ۔ اگر درگاہ حاجی علی ٹرسٹ کا اپنا موقف ہے تو اسے قانونی طور پر عورتوں کے داخلے پر پابند ی عائد کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ یہ درگاہ بلا تفریق مذہب و ملت اور جنس و نسل سب کے لئے یکساں عقیدت گاہ ہے ۔ سبھی اپنی عقیدت کی بنیاد پر آتے ہیں۔ سب کو آنے اور اپنی عقیدتوں کے اظہار کرنے کا حق ہے ۔جب تک وہ کسی شرعی جرم کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔
قرآن و احادیث کے اقوال اور بیانات کو دیکھنے کے بعد اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ عورتوں کے درگاہوں یا مزارات پر جانے میں فی نفسہ کوئی ممانعت نہیں ۔کوئی بھی ایسی روایت صحیح طور پر نہیں ملتی جس میں عورتوں کے قبروں پرجانے کی ممانعت ملتی ہے۔ عورتوں کے مزارات یا درگاہوں پر حاضری سے منع کرنے والی جتنی بھی دلیلیں اور علتیں ہیں ان میں کافی حد تک مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔ یعنی وہ غیر شرعی اعمال و حرکات جن سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ ان حرکتوں کے ارتکاب کی وجہ سے یکساں حکم مرد اور عورت دونوں پر عائد ہوتے ہیں۔جن وجوہات کی بنیاد پر قبروں پر حاضری کی اجازت وارد ہوئی ہے ان میں مرد و زن دونوں شریک ہیں۔ وہ حکم کسی ایک جنس کے ساتھ مختص نہیں۔ لہٰذا کسی بھی حکم شرعی کو بلاضرورت تفریق کے ساتھ کسی خاص جنس کے ساتھ مختص کرنا روا نہیں۔
سب سے پہلے اس بات کا خلاصہ ضروری ہے کہ مزارات اور قبروں پر حاضری شریعت میں فقہی نقطہ نظر سے محض جائز یا مستحب ہے ۔جس طرح اسے حرام کہنا غلط ہے اسی طرح اسے واجب یاضروری قرار دینا یا سمجھنا بھی درست نہیں۔پیغمبر اسلام علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا ، اب تم ان کی زیاعت کیا کرو‘‘ ۔ ان کی علت اور غرض و غایت کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا چونکہ قبروں پر حاضر ہونے سے آخرت کی یاد آتی ہے ۔ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ایک دن اس دار فانی کو کوچ کر جانا ہے ۔ سب کچھ یہیں رہ جائے گا ۔ ایک سے ایک اہل دولت و ثروت اور شہرت یافتہ انسان دو غز زمین کے نیچے ہیں۔کبر و نخوت، حرص وطمع ، غرور و تکبر، دھوکہ و فریب اور ہر طرح کی عیاری و مکاری کا نشہ اس زمین کے نیچے دفن ہو چکا ہے۔ اسلئے اعمال کو درست کرکے زندگی بسر کرنی ہے ۔اور آخرت کی تیاری کرنی ہے ۔اسی کے ساتھ جو اولیاء اللہ ہیں ۔ان کی درگاہوں پر حاضری سے بھی رب کی نعمت اور اس کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ رب کی رضا میں زندگی گذارنے والے کو رب تعالیٰ کبھی بے نام نہیں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کے اس دوست کی قبر پر ہزاروں لوگ ہمہ وقت کلمہ ،درود ، تسبیح تحلیل اور قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ ہمہ وقت رحمت الہٰی کا نزول ہوتا ہے ۔ اس سے خدا پر یقین اور اس کی رحمتوں پر اعتقاد مزید مضبوط ہوجاتاہے ۔ رحمت کی برسات کی چھینٹوں سے دلوں کو اطمئنان نصیب ہوتا ہے ۔
عورتیں پہلے مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھا کرتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے دور میں مسجدوں میں عورتوں کے نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ کیونکہ اس دور تک فتنہ شروع ہوچکا تھا ۔ عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی وجہ سے فتنے جنم لینے لگے تھے۔ اس لئے عورتوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کیلئے یہ فیصلہ لیا گیا تھا ۔اسی پر قیاس کرتے ہوئے مرد و عورت کے اختلاط سے پیدا ہونے والے فتنوں کی وجہ سے عورتوں کا مزارات پر جانا منع کر دیا گیا ۔لیکن دقت اس وقت ہوئی جب یہ پابندی مکمل طریقے عائد کر دی گئی ۔صرف مزاروں پر حاضری ہی کو مذکورو مرکوز کیا گیا ۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں پر عورت اور مرد کا اختلاط ہوتا ہے۔ وہاں کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہوئی ۔ بسوں میں ، ٹرینوں ، اسپتالوں ، اسکولوں،بازاروں کے علاوہ بہت سی جگہ ہیں جہاں یہ اختلاط پایا جاتا ہے ۔ لیکن اس پر کسی کا کوئی موقف فتوے کی شکل میں سر منظر نہیں۔صرف درگاہوں اور مزاروں کے داخلے کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی یہ سمجھ سے باہر ہے ۔
عورتوں کے مسجد میں داخلے کی ایک علت اور دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ فتنے کے شبہات کی بنیاد پر مسجد میں عورت کا داخل ہونا اور ساتھ میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ۔ جبکہ نماز فرض ہے ۔ لہٰذا مزاروں پر حاضری دینا بھی غیر شرعی ہے ۔ کچھ مقامات پر تو اس بات کی بھی وضاحت صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ عورت جب مزار پر جانے کا اراداہ کرتی ہے ۔ اس کے گھر سے نکلنے سے لیکر واپس گھر آنے تک اللہ ، اسکے رسول اور تمام فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔حالانکہ دونوں جگوہں میں حاضری کی نوعیت مختلف ہے ۔دونوں میں کئی بڑے فرق ہیں جو اسلام میں نہ صرف عورتوں کے مقام کو بلند کرتے ہیں بلکہ حکمت و دانائی کا بھی پتہ دیتے ہیں۔قبروں ، مزاروں ، درگاہوں اور مسجد میں داخل ہو نے میں کچھ واضح فرق ہے ۔ مسجد نماز کیلئے ہے ۔ جماعت کے ساتھ نماز کیلئے مسجد کو افضل بتایا گیا ۔ اس کے پیچھے کئی مقاصد اور مفادات ہیں۔ان میں سے ایک دوسرے کی خبرگیری اور حالات سے واقفیت بھی ۔ مشکل کن حالات سے نمٹنے ، مصائب کے حل و تدارک کیلئے تدبیر و سورت نکالنے کا بھی مقصد جماعت میں پوشیدہ ہے ۔جن کا سیدھا تعلق مردوں سے ہے ۔نماز کو گھر میں بھی پڑھنے کی اجازت ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ گھروں کو قبرستان نہ بنایا جائے ۔ یعنی گھروں میں بھی نمازیں قائم کی جائیں۔
نماز کی طرح قبروں کا مسئلہ نہیں ۔ قبروں پر جانے کے پیچھے جو مقصد ہے وہ وہیں جاکر حل ہوگا ۔ اسے گھر میں نہیں حاصل کر سکتے ۔ نماز کیلئے مسجد میں عورتوں کو نہ جانے دینے کے پیچھے عورتوں ہی کی حفاظت مقصود تھی ۔ پانچوں وقت ہر روز نماز پڑھنے کے بعد ان ایام حیض میں عورتوں کی مسجد میں غیر حاضری باعث شرم ہوگی جن میں ان پر نماز فرض نہیں ۔ مسجد کے ہر نمازی پر یہ واضح ہو جائے گا ۔ جس سے عورت کی لاج اور عزت میں قدرے کوفت لاحق ہو جائے گی ۔ قبروں پر جانے میں یہ معاملہ نہیں۔کیونکہ وہاں کبھی کبھی جانا ہوتا ہے ۔پھر جب پیغمبر اعظم علیہ السلام نے زیارت قبور سے پابندی ہٹائی تھی تو اس میں کسی خاص جنس کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ سب کے لئے اجازت تھی ۔ قبروں پر جانے کی جو پابندی تھی اس کی وجہ بھی دوسری تھی ۔اختلاط مرد و زن نہیں تھی۔ ایام جاہلیت میں جب عورتیں قبروں پر جاتی تھیں تو اپنوں کی قبر دیکھ کر اپنے بال نوچنے لگتی تھیں اور بسا اوقات اپنے کپڑے بھی پھاڑنے لگتی تھیں۔ غیروں کی قبروں پر خاص طورپرکسی دشمن کی قبروں پر لعنتی اشعار بھی لکھا کرتی تھیں ۔جس کے سبب بڑا فتنہ ہوتا تھا ۔ لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا تھا ۔ اسی وجہ سے منع کیا گیا تھا ۔ جب تعلیم و تربیت کر دی تو سبھی کو اجازت دے دی کہ اس سے آخرت کی یاد آئے گی ۔برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی اور تقوی کا راستہ اپنایا جائے گا۔انسان کے حقوق پامال نہیں ہوں گے۔
آج بھی حرم کعبہ میں عورت مرد ایک ساتھ طواف کرتے ہیں۔ دیگر ارکان بھی ایک ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اختلاط بھی ہوتا ہے۔ اسکے با وجود منع نہیں ۔اس میں ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کعبہ ہو یا روضہ رسول ﷺ ان پاک جگہوں پر نیت میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ اس لئے یہاں درست ہے ۔ یا پھر ان جگہوں پر عورت اپنے محرم کے ساتھ ہوتی ہے ۔اسلئے اجازت ہے ۔ اس لحاظ سے دیگر مقامات پر اگر نیت میں پاکیزگی ہو تو حاضری درست ہوگی ۔ قبروں پر حاضری کے وقت ایک عجیب سا کیفیت ہوتی ہے ۔ اس وقت دنیا بڑی بے معنی لگتی ہے ۔ لوگ موت اور آخرت سے بڑا قریب ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی فتنہ کے بارے میں تصور نہیں کر پاتے ۔اسی طرح کسی ولی کی درگاہ پر ایک الگ طرح کا کیف ہوتا ہے ۔ ایسی جگہوں پر پہنچ کر نیت میں پاکیزگی اولیں شرطوں میں سے ہے ۔ اس کے با وجود بھی اگر فتنہ گری ہوتی ہے تو وہ کہیں بھی ہو سکتی ہے ۔ گھر میں، محلے میں ،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ہو سکتا ہے ۔اس کی وجہ سے کسی جگہ آنے جانے پر پابندی لگانے سے اس کا حل نہیں۔ اس کا تعلق تعلیم اور تربیت سے ہے۔ اسی طرح اگر عورتیں اپنے محرموں کے ساتھ قبروں اور درگاہوں پر حاضری دیتی ہیں تو ازروئے شرع جائز ہوگا ۔ ان کے نزدیک بھی جنہوں نے پابندیاں عائد کی ہیں۔ کیونکہ جب علت ختم ہو گئی تو حکم بھی ساقط ہو جائے گا۔
در اصل عورت کی جسمانی نزاکت کے ساتھ اس کے مسائل بھی بڑے نازک ہیں ۔ اس کی نزاکت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب اسے جہالت کی زبان اور نااہلوں کا بیان مل جاتا ہے ۔ دور اندیشی سے ناواقف لوگ جب حقوق کو بیان کرتے ہیں تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔نکاح ، طلاق، اسکول، کالج اور بازاروں میں آمد و رفت،پردہ ، حجاب ، لباس، کسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھناجیسے مسائل اسی سے متعلق اور منسوب ہیں۔ عورتوں کے انسانی رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے فطرت، نفسیات اور ماحولیا ت کا علم ہو نا بے حد ضروری اور لازم ہے ۔اس کے بغیر حقوق انسانی سمجھنا قدرے مشکل ہوگا ۔سمجھانا اور بھی مشکل ہوگا ۔افسوس آج ان رشتوں پر بات کرنے والے اسکالرس اور مفتیان کرام میں یہ علوم مفقود نظر آتے ہیں۔ ماخذ و مراجع ، دلائل و علل میں تحقیق و تخریج کی بجائے صرف نقل کرنے اور کسی بھی وقت اور حالات کے فتوے ذکر کردینے بھر میں دل چسپی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں حقوق نسواں کی بات تو سبھی کرتے ہیں لیکن اس کے لئے کوئی اطمئنان بخش متفق علیہ موقف اب تک تیار نہ ہو سکا ۔اس میں عورتوں کا بھی کافی دخل ہے ۔ عورتوں کے حققوق کے لئے لڑنے والی عورتوں کو بھی اس کی سمجھ ضروری ہے ۔ایک عورت کی فطرت ،ساخت اور بناوٹ کے واقف ہونے کے باوجودعورت سیاسی کھیل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی لڑائی بس ایک دکھاوا رہ جاتا ہے ۔مذہب اسلام نے صرف عورتوں کو ان کے حقوق دئے جانے کا دعوی ہی نہیں کیا ہے ۔ اس نے عملی طور پر کر کے دکھایاہے ۔عورت کی ہر شکل وسورت کو اس نے اس کا معیار اور مقام دیا ہے ۔
عورتوں کے تعلق سے مذہب اسلام کا موقف ہمیشہ سے مردوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہونے دینے کا رہا ہے ۔ اسی لئے عورتوں کو مردوں کی حفاظت میں رکھا ہے ۔ ان کی جان ، مال ، عزت و آبروکی حفاظت مردوں کی ذمہ داری ہے ۔ یہ مردوں پر عورتوں کے حقوق میں سے ہے۔ بازار ، اسکول کالج سے لیکر ہر جگہ اسکی حفاظت مردوں کے ذمہ ہے ۔ اس سے ایک مرد انکار نہیں کر سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بازار میں خرید و فروخت ہو یادیگر ضرورتیں ہو ں اس کے لئے مردوں کو ذمہ داربنایا ہے کہ عورتوں کی ہر ضرورت کو پوری کرنا مردوں ہی کی ذمہ داری ہے ۔اپنی بیوی سے بھی زبردستی نہ کپڑے دھلائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کھانا پکوایا جا سکتا ہے ۔ایک مرد کو عورتوں کے تئیں اتنی ذمہ داریوں میں باندھا گیاہے کہ وہ اسکے حقوق کے استحصال کے بارے میں سوچ نہ سکے ۔عورتوں کے پردے کے ساتھ مردوں کے بھی پردے کا حکم دیا ۔ خلاف ورزی کرنے پردونوں سزا کے مستحق ہیں۔معاملہ اس وقت مشکل کن سورت اختیا رکر لیتا ہے جب سہولت قید و بند لگنے لگتی ہے ۔مردوں پر عورتوں کی ذمہ داری اس کے ساتھ ظلم سے تعبیر کیا جانے لگتا ہے ۔وہیں سے ایسے فتنوں کا جنم ہوتا ہے ۔ اسکے بعد کم علمی ، کج فہمی ، نا عاقبت اندیشی جیسے صفات مسئلے کو اور سنگین کر دیتے ہیں۔اس سے ان کا کاروبار چمک جاتا جو عورتوں کی نمائش کی تجارت کرتے ہیں۔
مسجدوں کے ساتھ درگاہوں پر بھی عورتوں کے جانے کی وہی سورت ہے ۔ اگر وہ علتیں جن کی وجہ سے منع کیا گیا ہے وہ نہیں پائی جاتی ہیں تو بے شک عورتوں کے قبروں پر جانے میں کوئی قباحت نہیں۔درگاہوں پر جاتے وقت کی دھکہ مکی ، درگاہ کے اندر کی بھیڑ اور ازدہام، ایک عورت کی بے پر دگی کو نہیں روک سکتی ۔ وہ مردوں کے ساتھ مس ہوگی ۔ جو مردوں اور عوتوں دونوں کے لئے باعث گناہ ہیں۔جہاں تک تعلق غیر شرعی عمل کا ہے تو اس کا تعلق کسی خاص جنس سے نہیں ۔ جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوگا ۔ ہو گنہ گار ہوگا ۔ بے پردگی ، اختلاط اور فتنے کا شبہ جیسے وجوہات اگر ختم ہوجاتے ہیں تو عورتوں کے مزاروں کا قبروں پر جانے میں کوئی قباحت نہیں۔یہ چیزیں جہاں بھی پائی جائیں گی ، وہاںیہی حکم نافظ ہوگا ۔ وہ کسی مزار ، قبر یا درگاہ کیلئے مخصوص نہیں۔گھر کے اندر گھر کے باہر ، اسکول ،بازار ، اسپتال ہر جگہ کا ایک ہی حکم ہے جب تک کوئی معقول عذر نہ ہو ۔
کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں پر عورتوں کے آنے جانے اور زیارت و تلاوت کے لئے جگہ مخصوص ہیں۔ ایسی سورت میں بلا کسی تکلف اور حرج کے عورت حاضری دے اور جائز شرعی رسوم ادا کرے ۔ عبادت و تلاوت کرے ۔کسی محرم کے ساتھ جائے یا جو بھی اس طرح کی سور ت پید اکر دے جس میں ایک عورت کی عزت اور پردگی محفوظ رہے ۔
علتوں کا علاج کیا جانا ضروری ہے ۔ اس کی وجہ سے جائز کو حرام قرار دینا حل نہیں۔ آج فقہی مسائل اورماخذ کی نااہلی اس عروج پر بڑھ گئی ہے کہ فقہی احکام صرف دوسورتوں میں سمٹ گئی ہے ۔ حرام اور حلال۔ اس کے علاوہ واجب،جائز ، مباح، مستحب ، مکروہ اور خلاف ادب اور خلاف اولیٰ جیسے احکام نافذ ہی نہیں ہوتے ۔دور حاضر کے پیشہ ور مفتیوں نے افتاء کا مزاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔حکمت ، دانائی ،سوجھ بوجھ سے کوسوں دور ہیں۔ صرف گروہ بندیاں رہ گئی ہیں۔ اسی فرقہ پرستی کی بنیاد پر فتوے بنائے جاتے ہیں اور ان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کارکردگی کا اسلام کی شبیہ پر کیااثر پڑتا ہے اس بارے میں سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں۔ایک ہی مسئلے پر تین مختلف موقف اور فتوے مل جاتے ہیں۔ تطبیق کیلئے کوئی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔تحقیق کی ضرورت نہیں۔ کسی نے اگر ماخذ اور مراجع کی طرف رجوع کرنے کوکوشش کی تو وہ کافر اور غدار بنا دیا جاتا ہے۔ علم، تحقیق اور افتاء کا یہ معیار آج کے صاحبان علم نے بنا کر دکھ دیا ہے ۔ خداخیر کرے!
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@


No comments:
Post a Comment