Sunday, October 30, 2016

زندہ ہے یا مار دیا گیا، نجیب کہاں ہے ؟ जिंदा है या मार दिया गया नजीब कहाँ है? Is He Alive or has been Murdered? Where is Najeeb?


 زندہ ہے یا مار دیا گیا، نجیب کہاں ہے ؟ 
طلاق سے وقت ملے تواک نظر ادھر بھی 



عبدالمعید ازہری
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ملک کی عظیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ۔ اس کی علمی لیاقت و صلاحیت کے ستارے پوری دنیامیں روشن ہیں ۔اس عظیم یونیورسٹی کو لوگ جمہوریت کا آئینہ بھی کہتے ہیں ۔ اس کی عملی تصویریں ہمیں گاہے بہ گاہے وقت بے وقت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ علم و فن کی درسگاہ میں ،علوم فنون میں مہارت کے ساتھ ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بننے کی بھی تعلیم ،علم کے اس مرکز کو منفرد کر دیتاہے ۔یہ یونیورسٹی مختلف زبانوں پر عبور کے ساتھ سیاسی شعور کیلئے بھی جانی جاتی ہے ۔ کسی بھی حق تلفی اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی ایک طویل تاریخ اس علم کے مرکز کے نام ہے ۔ ملک کے کسی بھی کونے میں انسانیت کے خلاف ہونے والے حادثات کیلئے اس جگہ سے آواز ضرور اٹھائی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جے این یو کیمپس میں کبھی بھی فرقہ واریت کی چنگاری کو ہوا نہیں ملی ۔ یہ کیمپس ملک کے اس نقشہ اور خواب کا پتہ دیتا ہے جسے ہمارے اکابرین نے دیکھا تھا ۔کہ’ ملک کا ہر باشندہ ایک دوسرے کا ہمدرد اور بہی خواہ ہو‘۔اس کیمپس کے امن پسند جمہوری آسمان پر کبھی بھی فرقہ پرستی اورمذہبی تشدد کے بادلوں کا سایہ نہیں پڑا ۔ کوششیں تو کی گئیں لیکن انسان دوستی کی تیز ہواؤں نے ہمیشہ ان کالے بادل کے سایوں کو دور رکھا ۔ ۲۰۱۴ کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ہواؤں نے رخ بدلا ۔ کیمپس کی تاریخ میں وہ سب ہونے لگا جس کی کبھی امید نہیں کی گئی تھی ۔اپنی علمی اہلیت اور ہنر مندیوں کیلئے پوری دنیامیں ایک خاص جگہ بنانے والا یہ ادارہ راتوں رات فرقہ واریت کی سیاہ سرخیوں میں آ گیا ۔ مہینوں احتجاجات ہوئے ۔ اس کیمپس سے اٹھنے والی آوازوں کو مذہب اور برادری کی نظر سے دیکھا گیا ۔ ملک کی سالمیت کے لئے ہمیشہ اٹھنے والی آوازوں پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا ۔ پہلی بار تاریخ پر سیاہی پوتی گئی ۔ پہلی بار کیمپس کی تاریخ میں ایسے ابواب کا اضافہ ہوا جس نے ماضی کی بنیادوں کو ہلا ڈالا ۔آزادی کی مثال قائم کر چکا کیمپس پہلی بار اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہاہے ۔
جے این یو کے رات کا جشن کوئی نئی بات نہیں ۔ لیکن ایک رات کئی مہینوں کا ماتم لانے والی ہے کسے پتہ تھا ۔کنہیا ، عمر خالد اور ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کھیلی گئی سیاسی کا ڈرامہ پوری دنیا نے دیکھا ۔ سیاست خود بھی حیران تھی میں کہاں پھنس گئی ۔ ایسی ہی ایک رات ۱۴ اکتوبر کی تھی ۔ جب جے این کا ایک طالب علم بری طرح سے زخمی کیا جاتا ہے ۔ اسے لہو لہان کرکے وارڈن اور گارڈ کے سامنے مارنے کی دھمکی دک جاتی ہے ۔ ۱۵ اکتوبر کو دن کے اجالے میں اسے غائب کر دیا جاتا ہے ۔ کس نے کیا ؟کیوں کیا ؟ نجیب کہاں ہے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ۔جے این یو کی امن پسند فضا میں نفرت کا زہر گھولنے والے اس حادثے نے کیمپس کی تاریخ میں کچھ ایسے ابواب کا اضافہ کر دیا ہے جو برسوں تک زخم دیتے رہیں گے ۔جے این یو ذمہ داروں کی خاموشی اسے اور دردناک اور خطرناک بناتی جا رہی ہے ۔ کیونکہ جس دن نجیب واپس آئے گا ۔ وہ کچھ ایسے انکشاف کر سکتا ہے جس کچھ لوگوں کے پپروں کے نیچے سے زمین یا کرسی کھسک سکتی ہے ۔نجیب کی پر اسرار گمشدگی ہر ایک کو شک کے کٹگھرے میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے ۔ 
۲۰ طلبہ کی چشم دید گواہی سے تقریبا ۱۰ حملہ آوروں کی پہچان بھی ہو گئی ہے ۔ لیکن ان کے خلاف اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئیْ ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق خود نجیب ہی کو ذمہ دار اور قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ جب طلبہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملنا چاہتے ہیں ۲۴ گھنٹے دروازے پر ان کا انتظار کرتے ہیں تو طلبہ سے مل کر ان ہمت بندھانے اور انہیں تحفظ کا بھروسہ دلانے کی بجائے چیٹنگ چیٹنگ کھیل رہے ہیں۔ دسیوں ٹویٹ کر کے لوگوں کو باخبر کر رہے ہیں کہ دروازے پر ایک ڈرامہ ہو رہا ہے ۔یہ طلبہ کے ساتھ بھدا مزاق نہیں تو اور کیا ہے ۔ کیمپس کے اندار طلبہ کی حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے ۔ یہی واقعہ جب پچھلے دنوں کنہیا کمار اور خالد عمر کے ساتھ ہوا تھا تو شکایت ملتے ہی دونوں کے خلاف کاروائی شروع ہو گئی تھی۔ تحقیق و تفتیش کا معاملہ تو بعد میں شروع ہو ا تھا ۔ لیکن تحریری شکایت اور چشم دید گواہی کے با وجود اے بی وی پی کے ان کارندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ آخر کیوں ؟
کیا اسے بھگوا تشدد ، تعصب ، انتہا پسند ی اور دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا؟
انسانیت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اگر اس میں کو ئی داخلی شمولیت نہیں تو یونیورسٹی کو سخت اقدام لینے کی ضرورت ہے ۔ خود اے بی وی پی کو بھی آگے آنا چاہئے ۔ کیونکہ یہ سیاست نہیں بلکہ جے این یو کے ایک طالب علم کی زندگی کا سوال ہے ۔ صرف جے این یو کے ایک طالب علم نہیں بلکہ کسی بھی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہر طالب علم کے تحفظ کا سوال ہے ۔جہوریت اور اسانیت میں یقین رکھنے والے کسی بھی انسان کی ٹوٹتی آس کا سوال ہے ۔ جے این یو وہ کیمپس ہے جو ملک کو مستقبل دیتا ہے ۔ ملک کے دھندھلاتے مستقبل کا سوال ہے ۔ اس میں جمہوریت کو تربیت ملتی ہے ۔ دم توڑتی جمہوریت کی اکھڑتی اور ٹوٹتی سانوں کو بچانے کا سوال ہے ۔
نہیں معلوم نجیب کو کیا ہوا۔ اسے اغوا کیا گیا ، مار دیا گیا ، غائب کر دیا گیا یا اور کیا سلوک کیا گیا ۔اگر اس کا جواب نہیں ملا تو کسی بھی اسکول کالج اور یونیورسٹی کے کسی بھی طالب علم کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے ۔ جب ملک کا مستقبل سنوارنے والی درسگاہیں محفوظ نہیں تو تعمیر وترقی کی راہیں مسدود ہونے سے کون روک سکتا ہے ۔ آج نجیب کی ماں کے آنسو سوکھے ہیں۔ کل کسی اور ماں کا سہارا چھن جائے گا ۔ کسی اور بہن کا آسرا ٹوٹ جائے گا ۔ 
جے این یو طلبہ کے جوش اور ہمت کو سلام ہے جنہوں نے اب تک ہمت نہیں ہاری ۔ اس معاملے کو فرقہ واریت کی نذر کرنے کی بجائے اسے زندہ رکھا ۔ اپنی تاریخ کو بچانے کیلئے جد جہد کر رہے ہیں۔ روزانہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ملک کا مستقبل ہیں۔ ہمیں اپنی جھوٹی سیاست کے لئے قربان نہ کرو ۔ جب بیٹے نہیں رہیں گے تو دولت کس کے لئے کماؤگے ۔طلاق سے فرصت مل جائے تو ایک نظر اس پر بھی ڈال دیجئے ۔
جے این یو کے طلبہ تو اپنا کام کر رہے ہیں ۔ آپ کیا کر رہے ہیں؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
#JusticeForNajeeb #BringBackNajeeb #WeAreNajeeb #jnu #JNU #JNUSU #Student

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment