یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
عبد المعید ازہری
وزیر اعظم کا ہندوستانی مسلم خواتین کے متعلق دیا گیا بیان مسلم تنظیموں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے ۔ایک طرف ملک کے مکھیا صدر جمہوریہ عالی جناب پرنب مکھرجی نجی مذہبی معاملات میں دخل اندازی کے خلاف ہیں تو دوسری طرف ملک کے وزیر اعظم کو اکیسویں صدی میں مسلم خواتین کے ساتھ ہورہے مظالم کا خیال آیا ۔وہ بھی اس لئے کیونکہ انہیں تین طلاق دیا جا رہا ہے ۔ یوں تو ملک کی ہر خواتین کے حقوق کو ان تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن صرف مسلم خواتین کے ساتھ حکومت کی ہمدردی وہ بھی صرف طلاق کے مسئلے میں حیران کن بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔ مسلم خواتین کے دیگر مسائل پر حکومت کی نظر اب تک نہیں پڑ ی ۔ ملک کی خواتین کی عصمت محفوظ نہیں ۔ ہر فرقہ واران فسادات میں ان ساتھ عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ کوٹھے آباد ہو رہے ہیں۔ لڑکیوں کی تسکری ہورہی ہے ۔ لیکن اس کی فکر کر نے کی بجائے حکومت ہندوستان کی مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی ہے ۔ یونی فارم سول کوڈ کا سیاسی ڈرامہ اس کے بعد تین طلاق کے خلاف حکومت کا حلف نامہ ۲۰۱۷ کا انتخابی مدعی کے سوا کچھ نہیں۔ نہ تو حکومت اس کی حامل ہے کہ وہ مختلف قوموں کو دئے گئے ان کے مذہبی حقوق کو ختم کر دے اور نہ ہی ان مخصوص حقوق میں یکساں سول کوڈ کی کوئی گنجائش ہے ۔ یہ بات حکومت تو اچھی طرح سمجھ رہی ہے لیکن آنے والے انتخاب کا سیاسی مہرہ بننے والی مسلم تنظیموں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ۔ملک کے بکھرتے امن امان کے داغ کو چھپانے کیلئے یہ ایک گمراہ کن منسوبہ ہے ۔ ملک کے داخلی حالات میں پھیلے انتشار سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ایک منہاج انصاری جیل ہی میں ما ر مار کر ما ر دیا جاتا ہے ۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ایک تصویر نشر کی تھی ۔ ایسی سیکڑوں اشتعال انگیز تصاویر ، بیانات اور ویڈیوروزانہ کہیں نہ کہیں دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا ایک طالب علم ’نجیب پچھلے دس سے زائد دنوں سے لا پتہ ہے لیکن حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ۔اس طرح کے کیسوں سے توجہ ہٹانے کا بہترین ذریعہ ہے کہ ایک قوم کو مذہبی جذبات میں الجھا دیا جائے ۔ اس کے بعد دوسری قوم رد عمل میں اپنے آپ مشتعل ہو جائے گی ۔ اس کے بعد وہی ہوگا جس کیلئے یہ پلان تیا ر کیا گیا تھا ۔جرم کو جرم کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے اسے ذات، دھرم ،مذہب اور رنگ و نسل سے دیکھنا ہماری محرومی کے سوا کچھ نہیں۔
وزیر اعظم ہند نے اپنے بیان میں کہا کہ’ اگر کوئی ہندو عورت اپنے پیٹ میں بچے کو مارتی ہے تواسے بھی سزا دی جائے گی اور اگر کسی مسلم عورت کے ساتھ تین طلاق کے ذریعہ زیادتی گئی تو اسے بھی معاف نہیں کیا جائے گا ۔ ہمارے ملک کا آئین سب کو برابر کا حق دیتا ہے ۔ دھرم کی بنیاد پرکسی بھی برادری کی زیادتی کو قبول نہیں کیا جائے گا‘ ۔ جو آئین سب کو برابری کا حق دیتا ہے وہی آئین مسلم سمیت کئی سو قوموں اور برادریوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی آزادی دیتا ہے۔ ۔آئین کے ایک دفعہ کے استعمال کیلئے کسی دوسرے دفعہ کو توڑنا انصاف نہیں ۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ٹکراتے ۔سچ تو یہ کہ مسلم خواتین کے حجاب کے مسئلے کو لیکر بھی ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے ۔اگر مسلم خواتین کو تین طلاق سے آزادی د لا دی جائے تو کیا یہ بات یقینی طورپر کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے کسی معاملے میں زیادتی نہیں ہوگی ۔ ہر مذہب اور برادری میں شادی بیاہ ، طلاق اور علاحدگی کے الگ الگ طریقے، رسم و رواج اور قانون ہوتے ہیں ۔ اگر انہیں کسی ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش کی گئی تو ایک بھی دانہ دوسرے سے میل نہیں کھائے گا ۔اتحاد تو نہیں ہو گا البتہ ایک دوسرے سے تصادم کے موقعے اور زیادہ پیدا ہو جائیں گے ۔ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ہر گھنٹے ایک سے زائد ملک کی بیٹی اپنی عصمت کا تماشہ دیکھتی ہے ۔ اس ذلت سے انہیں نجات دلانے کیلئے حکومت کے پاس کوئی سخت اقدام ہے؟ ۔ اسے لاگو کرانے کیلئے کوئی آئینی حلف نامہ ہے کہ نہیں ؟ ایسی ہزاروں
لڑکیاں ہے جن کے اوپر تیزاب پھینک کر ان کی زندگی تباہ کر دی گئی ۔ ان پر ہوئی زیادتی کی روکتھام کیلئے قانون کو عمل میں لانے کیلئے کوئی سخت اقدام کیوں نہیں کئے جا رہے ؟ کیا ملک میں صرف مسلم خواتین کے ساتھ ہی زیادتی ہو رہی ہے ۔ تین طلاق کے ذریعہ ہی ناانصافی سمجھ میں آ رہی ہے ؟
ایسے خالص مذہبی نازک معاملات کو سیاسی مہرہ بنانا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے ۔ ملک میں عورتوں کے ہو رہے مسلسل استحصال کے بارے میں سوچنے کی بجائے تین طلاق میں حکومت الجھ کر رہ گئی ہے ۔ عورتوں کے زندہ ما ردئے جانے سے تو بہتر ہے کہ اسے تین طلاق کے ذریعہ مشکلات اور مصیبتوں سے نجات دلایا جا سکے ۔ اس وقت حکومت کی منشاء صاف ہے کہ وہ آنے والے سال کے شروع مہینے کے اسمبلی انتخاب کی تیاری کر رہی ہے ۔اے ملک کی تعمیر و ترقی کی بجائے آئین میں رد بدل میں دلچسپی ہے ۔اگر واقعی وزیر اعظم مسلم عورتوں کے ساتھ ہمدردی کرناچاہتے تو تین طلاق کے ساتھ ان کے دیگر حقوق کی بات بھی کرتے ۔ یکساں سول کوڈ کیلئے صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے پیچھے کی سیاست خود سیاست کی توہین ہے۔ یکساں سول کوڈ یا کسی آئین سے کسی مسلمان کو کوئی انکار نہیں ۔لیکن آئین ہی نے جو حقوق ملک کی مختلف برادریوں کو دئے ہیں اسے اپنانا بھی غلط نہیں۔شاید حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ کچھ الگ کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کے جنون میں کسی ایسے نتیجے کی طرف جا رہے ہیں جو ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑی رکاوٹ ہوگی ۔ اسلئے نہیں کہ مسلمان بغاوت پر اتر آئے گا اور قتل و غارت گری اور تشدد کے واقعات ہونگے ۔ مسلمانوں نے اب سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے ۔لیکن ملک کی ترقی ملک کے ہر شہری کی ترقی میں ہے ۔ خالص مذہبی معاملات میں پورا سسٹم اتنا الجھ جائے گا کہ اندازہ بھی لگانا مشکل ہے ۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو کب کا ہو گیا ہوتا ۔ اس سے پہلے بھی ایسے حالات بنے ہیں ۔ لیکن عافیت ، عقلمندی، دور اندیشی،فلاح و کامیابی اسی ہے کہ اسے جوں کا توں رکھا جائے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
