اس فرقہ بندی میں فائدہ کس کا ہے؟
عبد المعید ازہری
امت مسلمہ کا بکھرتا ہوا شیرازہ اور اس بکھراؤ پر نہ صرف فخر کرتے رہبران بلکہ اسے قرآن و احادیث کے ذریعہ کار خیر گرداننے والے چند زاہد خشک کی اس کج روی نے پستی، ذلت اور تباہی کے ایسے راستے کھول دئے ہیں جن کے بارے میں مجاہدین اسلام نے تو کم سے کم تصور نہیں کیا تھا۔ چند فتنہ پرور افکار نے اسلام کے تقدس اور تعلیم وحدت و اخوت کے فلک بوس قلعہ کو زمیں بوس کرنے کا منصوبہ بنایا۔کچھ نفس پرست نام نہاد منافق صفت مسلمانوں نے اپنے ایمان کا سودا کیا لیکن بعد میں اس منصوبے کو فروغ دینے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ علم و فکر سے عاری اور خالی مادیت پرست اور عالمی بحران کا شکار قوم مسلم نے اسے عبادت کی طرح فروغ دیا۔ پچھلے سو برسوں میں جتنا سرمایہ، علمی و فکر ی طاقت، بچا ہوا وجدان اس فرقہ پرستی اور گروہ بندی کو فروغ دینے میں صرف ہوا اگر اس کانصف یا پھر اس کا بھی نصف اس امت کی علمی و فکر ی تعمیر میں صرف ہوتا تو شرعی مسائل کی حکمت ودانائی سمجھانے کیلئے ہماری زبانیں دلائل و براہین سے قاصر نہ ہوتیں۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ آج ایک دس سال کے بچے کو قوم مسلم کے درمیان مذہبی شیرازہ بندی کا تو علم ہے لیکن اسی نوجوان سے جب لاکھوں ناظرین کی آنکھوں کے سامنے ٹی وی پر آنے والے نہایت ہی مشہور شوکون بنے گا کروڑ پتی میں یہ سوال ہوتا ہے کہ تمہارے نبی کے والد کا نام کیا ہے تو سر نیچے جھکا لیتا ہے۔ اس دن وہ سر ایک نوجوان کا نہیں جھکا تھا بلکہ پوری قوم اور اس کے رہبران کا جھکا تھا ۔کتنے فرقے ہیں، کس کا کیا عقیدہ ہے، کس گروہ نے کتنے مناظرے کئے ، جیتے اور دوسرے فریق کو کب کہاں اور کیسے چٹخنی دی، اس کی وہمی اور فریبی داستان تو زبانی مل جائے گی لیکن قوم مسلم کی فکری اور وجدانی حفاظت کیلئے پیغمبر اسلام کی سیرت کسی کو یاد نہیں۔ خود پیغمبراسلام نے واضح گالی دینے والے منافق کی قبر میں اپنی چادر پیش کر کے جو پیغام دیا وہ انہیں کی امت نے پس پشت ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شریعت نے ہمیں یہ تو بتا دیا کہ طلاق کی تین صورتیں ہیں۔ حلالہ ایک انتباہ اور گناہوں سے رروکنے کا ایک باندھ ہے۔ یہ عقیدہ تو ہے کہ اسلام کا ہر عمل اور اقدام کسی حکمت سے خالی نہیں۔ اور وہ حکمت بھی انسانی فلاح و بہبود سے پرے نہیں۔ لیکن ان حکمتوں کو سمجھانے والا کوئی وکیل نہیں ۔جو پوری دنیاکو نکاح و طلاق،فسخ و خلع اور حلالہ کے پیچھے اس حکمت کو واضح کر سکے ۔ جس میں نسل انسانی اور کرامت آدمیت کی ضمانت ہے۔یہ علمی و فکر بحران نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ اپنے ہی مسائل سمجھنے کیلئے ہمیں دوسروں کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔کیا کوئی ایسا مسئلہ ہے جس کا مکمل (بقدر انسانی)علم آج کی مسلم دانشوری بالخصوص علماء و مشائخ کے پاس ہو جو عالمی طور پر اس کی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ پیش کر سکیں۔ اسی جگہ اگر ایک دوسرے کے خلاف کوئی مسئلہ در پیش ہو تو تاریخیں مستند یاد نظر آتی ہیں۔ اگر وہ مسئلہ اپنوں کے درمیان رات کے جلسوں میں سنانا ہو تو سونے پر سہاگا۔
آخر یہ امت اس فکری پستی سے کب باہر نکلے گی۔ سارا وقار تو تار تار ہو چکا ہے۔ اب کس کا انتظار ہے۔ دین کی حفاظت کے نام پر اٹھائے گئے جہالت بھرے اقدام نے مظلوموں کی آواز کو مجرم بنا دیا۔ایک طرف دین کی حفاظت کے نام پر بے گناہوں کا قتل و خون اور معصوموں کی غارت گری نے دین کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کر دیا۔ دوسری طرف دین کے نام پر دین کے جبرا بہتر ٹکرے کرنے والوں نے ان سوالوں کو زبان دے دی۔ یہ بات ان لوگوں کو سمجھ میں کب آئے گی کہ دین کو خطرہ یا اس سے دشمنی کب نہیں تھی۔ہر دور میں ایسے لوگ آئے ہیں جنہوں نے دین کے روشن چراغ کو بجھانے کی کوشش کی۔ لیکن ناکامی تقدیر بن گئی۔ قرآن میں جب اس بات کی واضح صراحت ہے کہ اسے نازل کرنے والا خود خالق کائنات اور اور اس کا محافظ بھی وہی۔ از ازل تا ابدوہی اس کا محافظ ہے۔ تو دین کو کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ دین کو آج سب سے زیادہ نقصان اس کے دین داروں سے ہی ہو رہا ہے۔آج امت مسلمہ کا زمین بوس وقاردیکھیں۔ ہزاروں ٹکڑوں میں بکھری صفیں ملاحظہ کریں۔افسوس و الم سے سینہ چاک ہو جائے گا اس واقفیت پر کہ یہ سب دین کے نام پر ہوا۔ بلکہ اس کی حفاظت کے نام پر یہ سب تماشہ ہوا۔ جانے انجانے لوگ خدائی کا دعوی کر بیٹھے۔ کفر و شرک، بدعت و گستاخی کا کاروبار کرنے لگے اور اس پر دین کی حفاظت، قرآن و احادیث سے اس کی بے جا اور غلط تفسیر سے اپنی ہی قوم کو دھوکہ دینے کا دھندہ شروع کر دیا۔ اس کے خریدار بنائے گئے۔ اسے مفت اور نفس و ہوس کے ساتھ مادیت کی دلچسپی سے فروغ بھی ملتا رہا۔ نتیجہ سامنے ہے۔علم اٹھتا گیا، فکر مرتی گئی۔ تقریبا دوسو برسوں کی اس مدت میں جب روحانیت کو قوم مسلم کے قلوب و اذہان میں پناہ نہیں ملی تو دین کی رہنمائی کے نام اور سوداگر پیدا ہونے لگے۔ بعض کی محرومیت اتنی زیادہ شدید ہو گئی کہ دلالی پر اتر آئے۔ہزاروں دوکانیں رنگ برنگی آرائش و زیبائش کے ساتھ جنت بیچنے لگیں۔ کسی نے چلے سے بیچا توکسی نے دست بوسی سے ۔کسی نے گالی اور پیغمبری میں نقص نکالنے سے۔ سب کا اتحاد اس بات پر تھا کہ ان میں کسی کے ساتھ بھی ہو جاؤ خالی مت رہو۔ تعلیم و تعمیر کی طرف جانے کو سب نے گناہ عظیم قرار دیا۔ اتحاد اور ہمدردی سے بچنے کی سب نے تلقین کی۔ہم اچھے اور باقی سب برے ہیں کا درس سبھی خام خوا ہوں شرگاہوں اور پر فتن درس گاہوں نے مل کر دیا۔دین کی سودے بازی میں ہوڑ لگ گئی۔عزت، غیرت اور ایمان سب کچھ ختم کر دیا۔
امید ابھی باقی ہے۔ہر طلوع ہونے والا سورج غروب ہوتا ہے۔ ایک نیا سورج پھر سے نکلتا ہے۔ ضوفشانی ہوتی ہے۔نور پھیلتاہے۔ ضرورت ایک ایسے معاشرے کی ہے جہاں دین کی حفاظت خود کی ذات ، اخلاق و اعمال اور کردار و افکار سے ہو۔ جہاں دینداری ٹھیکے داری سے نہیں سیرت نبوی سے طے کی جائے۔ جہاں حلف الفضول، میثاق مدینہ،بیعت رضوان،ایک منافق کے ساتھ نبوی سلوک اور قرآنی ارشاد کی روشنی میں ایک کلمہ کی طرف دعوت قوم کی رہنمائی کرے۔جہاں شرافت چولے لباس وضع قطع سے نہیں بلکہ علم،فکر، وجدان اور سیرت سے قربت کی بنیاد پر ہو۔وہم وگمان کی دنیا سے باہر نکل حقیقت کی زمین پر کھلی آنکھوں سے قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ جھوٹے اور تقریر فروش تاجر صفت مبلغین سے دین سیکھنے کی بجائے قرآن اور حدیث اور بالخصوص سیرت کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے آج بھی صوفیاء کی تعلمات رہنمائی کر رہی ہیں۔
کسی کی تحقیر یا تعظیم میں جھوٹی روایت گڑھنے والے دین فروش مقررین نے ایک ایسے دین کو فروغ دینے کی روش قائم کر دی ہے جہاں اصل دین کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ شخصی مدح سرائی نے خدا کی حمد کو پرانے بوسیدہ اوراق میں ڈال دیا۔ نعت گوئی کو مناظرہ کی شکل دے دی۔ بادشاہوں اور امیروں کی شان میں پڑھے جانے والے قصیدوں کو منقبت کا نام دے کر ذاتی مدح سرائی میں اس قدر غلو کر جاتے ہیں کہ کب صاحب مدح کو انسانیت سے خارج کر نوری مخلوق بنا دیتے ہیں خبر ہی نہیں ہوتی۔یہ صرف اسلئے کیونکہ جہالت نے اتنی سختی سے قدم پکڑ لئے ہیں کہ لا علمی علم اور لادینی دین تصور ہونے لگا ہے۔
اکیسویں صدی کا نوجوان اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ وقت و حالات کی نازکی سے واقف ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت یسے اقدام کی ضرورت ہے۔ عقیدت کی پر فریب منڈی میں اگر یوں ہی بک گئے تو کل کیا منہ دکھائیں گے۔ کب تک پردے ڈالنے کا کام کرتے رہیں گے۔ جب حق واضح ہو گیاتو زبان کی خاموشی ظلم ہے۔ اس کی اتباع اس سے بڑا ظلم ہے۔ سب اپنے اپنے نہاخانوں میں بیٹھے کسی بڑے انقلاب کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ کس مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔کربلا کے مجاہد اعظم کا قول اگر کانوں تک پہنچے تو اپنی سرگوشی کو آواز دو کسی کا انتظار کرنے کی بجائے کسی کا انتظار ختم کرو۔وہ آواز تھی کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے قربانیاں اتنی زیادہ دینی ہوں گی۔
آج کی فرقہ بندی نے تو اصل مسئلہ ہی کہیں دفن کر دیا۔اچھے اور سچے لوگوں کی جد جہد کو یکسر فراموشی ان کے نصیبے میں ڈال دی گئی۔ہر گروہ کے اپنے لوگ بھی اصل مسئلے سے واقف نہیں۔جنہیں علم ہی نہیں انہیں بھی ٹھیلے میں رکھ کر ایک رنگ دے دیا گیا اور اس کی ایک قیمت طے کر دی گئی۔اس گروہ بندی سے ان نام نہاد زر پرست لوگوں کا وقتی فائدہ تو ہوا لیکن نقصان اور خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
سب اسی بات کا انتظار کر رہے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ سبھی اسی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس آفاقی بات کو بھول کر کہ سبھی ذمہ دار ہیں اور ان سے ان کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ پوری دنیا کیا کر رہی تھی یہ سوال نہیں ہونا ہے۔ ایسے میں ہر منفر د شخص کیا کر رہا تھا سوال یہ ہونا ہے۔
طے یہ کرنا ہے کہ خاموش رہ کر ظلم کا ساتھ دینا ہے یا بول کر اپنے آپ کو الگ کرنا ہے۔ دل میں برا جان کر بولنے پر قادر ہوتے ہوئے خاموشی اور بڑی تباہی
کو دعوت دے رہی ہے۔
یہ میری سوچ اور فکر ہے۔ عقیدہ نہیں ۔غلط ہوں تو اصلاح درکار ہے۔ صحیح ہوتو بھی اصلاح ہی مقصوف ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
