Tuesday, September 26, 2017

برما کی آگ اور ہمارے ملک کی سیاست،خدا خیر کرے!बर्मा की आग और हमारे देश की राजनीति! खुदा खैर करे Burma & our Politics! God save us all!


برما کی آگ اور ہمارے ملک کی سیاست،خدا خیر کرے!

عبد المعید ازہری

دن ڈھل چکا تھا۔ میں دفتر سے گھر کی طرف واپس آ رہا تھا۔سورج غروب ہو نے کے بعد شفق کی آخری مدھم سی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ میں اتنا تھکا ہوا تھا کہ کہیں دور کا شور، چیخ اور آہ فریاد کی صدائیں بھی سن کے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔جیسے جیسے میں گھر کے قریب ہو رہا تھا آواز بلند ہو رہی تھی۔ قریب کی بستی سے اٹھتا دھواں اور اس میں جلنے کی عجیب سی بدبو سے طبیعت مضطرب ہونے لگی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی لگا شاید پڑوس ہی میں کہیں آگ لگی ہو۔ اچانک سے میری دل کی دھڑکنین تیز ہو گئیں۔ پچھلے 20دنوں کے منظر ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے۔یہ اور بات ہے کہ اکثر حادثات کی منظر کشی موبائل سے ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آئی لوٹ مار اور قتل و غارت گری نے ایک سے زائد بار جذباتی بنا کر ہلاکت میں اضافہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد اس میڈیا نے آج ہمیں اتنا ہراساں کر دیا ہے کہ میں اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔اب تک نذر آتش ہونے والے محلوں ، قصبات اور علاقوں کی تعداد بیس سے اوپر ہو چکی ہے۔ یہ وہ فہرست ہے جو اس بار کی قیامت کے ہیں۔ اس سے پہلے کی قیامت کو ہم بھول چکے ہیں۔ان جلی ہوئی بستیوں میں بچوں کے سلگتے جسم، برہنہ عورتوں کے لہولہان بدن، مردوں کے کٹے ہوئے اعضاء اور بزرگوں کا خاک و خون میں مٹتا وجود ہے۔وہ منظر بھی خون بن کر آنکھوں سے بہنے لگا جب ہتھیار بند جتھا قریب کی بستی میں گھسا تھا۔گھر کو بند کر کے اس میں آگ لگا دی گئی۔ زندہ انسان چیختے رہے۔ آگ کے شعلے ان کی چیخوں سے اور بھڑکتے رہے۔جس نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی اسے واپس کاٹ کر اس میں پھینک دیا گیا۔اب میں سمچھ گیا تھا کہ اب تک میں جس حادثے کا انتظار کر رہا تھا شاید وہ وقت قریب آگیا ہے۔ہمت جواب دے چکی تھی۔ہاتھ پاؤں شل ہو گئے تھے۔ایسا لگا سامنے سے بھڑکتے ہوئے شعلے میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان شعلوں کے درمیان برچھیاں تلوارویں اور ترشول نظر آرہے تھے۔ ایک سرد سی لہر پورے وجود میں کسی بجلی کی مانند کوند گئی۔ لڑکھڑاکر شاہراہ سے نیچے گر گیا۔
ارد گرد کالی رات کے کسی سنسان علاقے کی مانند خاموش سناٹا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں شور کر رہی تھیں۔ انسانی لاشوں کے جلنے کی وجہ سے پوری فضاآلودہ اور پراگندہ ہو چکی تھی۔ صبح نمودار ہونے کو تھی۔پورا جسم کمزرو لگ رہا تھا۔ذرا ساآنکھ کھولنے کی ہمت کی تو ایک بزرگ بغل والی درخت سے ٹیک لگائے ملے۔ ان آنکھوں کے اشک خوشک ہوچکے تھے۔ پتلیوں میں ویرانی صاف جھلک رہی تھی۔میں نے نڈھال سی آواز میں کہادادا یہ سب کیا ہو رہا؟ یہ لوگ ہمارے اور ہمارے مذہب کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ کیا اب سمجھ لیا جائے کہ مسلمانوں کے جینے کاحق نہیں ہے؟یہ بدھسٹ مسلمانوں کے دشمن نہیں کیوں ہیں؟ آخرم ہم نے کیا بگاڑا ہے؟ ہمارا جرم کیا ہے؟ بزرگ کی بیزار آنکھیں یک لخت میری طرف اٹھیں اور کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔میرے بارہا جھنجھلاتے ہوئے سوال سے تنک آکر انہوں نے کہا۔یہ بدھسٹ نہیں ہیں۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔میں کچھ جواب دینے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا کہ یہ سب کالے سائے ہیں ۔ ان کا کوئی دھرم اور مسلک نہیں ہے۔یہ باغی ہیں۔ یہ باغیانہ فکر صرف اسی قوم میں نہیں ہے بلکہ آج تقریبا ہر مذہب کے پیروکاروں میں یہ فکر تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ وہ فکر ہے جو پوری دنیا کے مذہب کے خلاف کھڑی ہے۔نفس، ہوس، دولت،طاقت،عیش وعشرت اور آزادی کے نشے میں چور یہ فکرپوری دنیامیں ایک مذہب مخالف فکر کو کھڑی کر رہی ہے۔ان سب کے دین اور اس کی فکر کا سب بڑا ذریعہ آج کی سوشل میڈیا ہے۔ آج اس ذرائع سے جڑاہوا ۸۰ فیصد انسان اس ذرائع سے نشر کی جانے والی خبروں کی تصدیق نہیں کرتا۔ یہاں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ دین بھی لوگ یہیں سیکھنے لگے ہیں اور اس سے بغاوت بھی۔اس جال میں آج کا نوجوان پوری طرح گھر چکا ہے۔ وہ ایک ریموٹ کنٹرول کے سہارے ہے۔مجھے اس کی باتیں بور کر رہی تھیں۔ لیکن دل اتنا اچاٹ اور طبیعت اتنی چور ہو چکی تھی کہ تاریک وحشت سے بچنے کیلئے بس کسی کا ساتھ درکار تھا اور وہ بولتا ہوا ساتھ ہو تو زیادہ سکون بخش ہوتا۔انہوں نے کہا یہی فکر پورے عرب کو کھارہی ہے۔پچھلے دس برسوں میں بیس لاکھ سے زیادہ بے گناہ انسان مارا جا چکا ہے۔یہی حال تمہارے ملک ہندوستان پاکستان اور افغانستان کا بھی ہے۔ ایک لمبی اکھڑتی اور کپکپاتی ہوئی سانس لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے ان بدھسٹوں کو انسانی خدمات کی مثالیں قائم کرتے ہوئے۔انسان تو انسان کسی جانور کو بھی کوئی تکلیف پہنچ جائے تو چیخ اٹھتے تھے۔ لیکن آج وہ سب خاموش ہیں۔ ہو سکتا ہے مجبور ہوں جیسے ہم اس وقت خاموش اور مجبور تھے جب طالبان نے بدھسٹوں کے مذہبی مجسمے گرائے تھے۔ہم کچھ نہ کر سکے اور نہ ہو کچھ کہہ سکے۔پوری دنیا میں دہشت گرد مذہب کے نام پر دشہت گردی پھیلاتے رہے۔سارے مسلم ممالک خاموش رہے۔ ایک ایک کر کے جب وہ خود اس کا شکار ہونے لگے تو پڑوسی خاموش رہا۔ دعوت وتبلیغ کی ساری تنظیمیں خاموش رہیں۔یہاں بھی آئے تھے ہمیں دین سکھانے کے لئے۔ لیکن وہ تو ہمیں کچھ اور ہی سکھا گئے ۔ کچھ نوجوانوں کوبندوق دے گئے۔ آج پوری قوم مظلوم ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے پوچھ لیا کہ آخر یہ سب ہے کیا؟ کس کی کیا دل چسپی ہے؟ عالمی برادری کیوں خاموش ہے؟ میرے ملک کے وزیر اعظم کا دورا بھی ہوا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ بھی خاموش رہے۔ ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اب صحیح علم تو خدا ہی کو ہے البتہ اتنا تو طے ہے کہ اس برما سے سب کی اپنی اپنی سیاسی دلچسپیاں وابستہ ہیں۔یہاں تک کہ مارنے والوں کو بھی اب مذہبی جذبہ متاثر کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ انہیں بھی سیاست استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے بڑی گہری نظر میری آنکھوں میں ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کو خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور ہینفرے کے اقرار نامے کے متعلق کچھ معلومات ہے؟ میں نے غیر یقینی طورپر سر اوپر نیچے کر کے دائیں بائیں بھی ہلادیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ، نے یا یہودیوں نے بانٹو راج کرو کی سیاست کو سب سے پہلے مسلمانوں پر آزمایا۔ کافی محنت کے بعد وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ اس کا ایک کامیاب تجربہ افغانستان میں طالبان بنا کر کر چکے ہیں۔ اب جہاں کہیں بھی امریکہ کو جانا ہوتا ہے۔ وہاں دہشت گردی کے حملے اور فرقہ وارانہ فسادات اس محبوب ترین ذریعہ ہے۔ اس کے لئے ماحول سازی میں دعوت و تبلیغ کا بڑھیا استعمال ہوتا ہے۔
اطمئنان سے بیٹھ کر وہ اپنی ہی روانی میں کھو گئے اور لگا کہ کوئی کہانی سنا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کہیں سے کوئی خبر آئی کہ برما میں بھی تیل ملا ہے۔برما کی جگہ ایشیا میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے عرب ممالک میں سیریا اور ترکی ہے۔ہر آدمی اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔کیونکہ برما یعنی میانمار ASEANمتحدہ ممالک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چین اس کا سب سے بڑا حامی اور پیشوا بھی ہے۔ ملیشیا اور تھائی لینڈ سمیت اس اتحاد میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی میں بدھ مت کے ماننے والے اکثریت میں ہیں۔اسی بیچ چین کی طرف سے ایک پروجکٹ لانچ ہونے کی خبر بھی سامنے آئی کہ ان ممالک کو جوڑنے کیلئے وہ سمندر سے ایک راستہ بنائے گا۔ اب تو روس اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی دلچسپی ہونا لازمی ہے۔اس مدعے پر گفتگو پھر کبھی۔
میں جھٹ سے پوچھا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے ہمارے ملک ہندوستان کا اس کے کیا تعلق ہے۔ انہوں برجستہ کہا کہ جس ملک میں بھی مذہب کے خلاف باغیانہ فکر موجود ہے،ہر اس ملک کی دلچسپی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو بھی وہاں ظلم کا شکار کیا گیا ہے۔ بدھ مت کا آج کے نام نہاد ہندوتو سے بہت پرانا بیر اور دشمنی ہے۔یہ ملک ہند مخالف رہا ہے۔ اب ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ تم لوگ دلت مسلم اتحاد کی بھی باتیں کرنے لگے ہواور کچھ جگہوں پر اس کی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔یہاں کے دورے اور بدھسٹوں کو ہندوستان میں ملنے والی سہولتیں سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔چونکہ ہندوستان خود ASEANکا حصہ نہیں ہے۔اس لئے اس نے SAARC بنایا۔اب اگر مسلمان پلٹ کر وار کرتے ہیں، تو دونوں میں کشیدگی پھیلتی ہے۔ تو اس کا سیاسی اثر سب سے پہلے تو یہی ہوگا کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد کے امکانات فوری طورپر ختم ہو جائیں گے۔دسرا یہ کہ ہندی چینی بھائی بھائی کا ایک اور راستہ نکل آئے گا۔ انہوں نے ذرا لہجہ بدلتے ہوئے کہا کہ ویسے یوگی جی بھی یہاں آ چکے ہیں۔میں نے ایک گہری سانس لی۔ ابھی سانس پوری طرح چھوڑی بھی نہیں تھی کہ انہوں نے برجستہ کہا کہ اس طرح کے حادثات کے لئے تیار رہو۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہم نے کہا کوئی حل؟ ہنسنے لگے۔ اچانک سنجیدہ ہو کر کہنے لگے حل تو ہے لیکن ذرا مشکل ہے۔ جب تک لوگ سوشل میڈیا سے دین سیکھ کر سوشل میڈیا پر ہی دین کی حفاظت کرتے رہیں گے، جب تک مذہبی نااہلوں کی قیادت تشدد اور انتہا پسندی کے فروغ کا حصہ بنتی رہے گی اور جب تک ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بیٹھے اور بین المذاہب گفتگو سے دور ہوتے رہیں گے، ایسی تباہیوں سے کوئی نہیں روک سکتا۔ابھی اس پر میں کسی رد عمل کا اظہار کر پاتا کہ ایک تیز شور قریب ہی سے سنائی دیا ایسا لگا بس سر پر کوئی وار کرنے والا ہے۔ میں نے بزرگ کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہے تھے۔ دل کی تیز دھڑکنیں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔دھیرے دھیرے ان بزرگ کا چہرہ آنھوں سے دھندلہ ہو رہا تھا لیکن ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات کسی نشتر کی طرح چبھ رہی تھیں۔ ایسا لگا میں کسی گھنے اور تاریک جنگل میں پھنس گیا ہوں۔ چاروں طرف سے انجان اور غیر مرئی طاقتیں مجھے اندر سے ڈرا رہی تھیں۔ پسینہ سے پورا جسم طر ہو گیا تھا۔ایک عجیب سے بھنور میں قید ہو گیا۔ وہا ں سے نکلنے کی کوئی سبیل نکلتی نظر نہیں آرہی تھی۔ کسی مدد یا اس طرف سے گزرنے والے شخص کا بے صبری اور شدت سے انتظار کر رہا تھا۔ دوڑتے دوڑتے پر جواب دے گئے۔ ہر بار میں اپنے آپ کو اسی جگہ پاتا۔ تھک ہار کر غش کھاکر اسی درخت سے ٹکراکر اسی بزرگ کی گود میں گر گیا۔آنکھ کھلی تو دیکھا میری باہوں میں ان کا ہاتھ اور اس کی کمر ہے۔ جسم سے دونوں پیر الگ ہیں۔کرتا پورا سرخ ہے۔ آنکھیں بالکل دھنسی ہوئی ہیں۔ خون سوکھ کر کالا پڑ چکا تھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ میں عالم بے ہوشی میں اس سے باتیں کر رہا تھا۔کیونکہ ان کا خون ہوئے تو کافی عرصہ ہوئے معلوم ہوتا ہے۔ ذرا سا سنبھالا لے کر گھر کی طرف بے تہاشا بھاگا۔ پوری قوت سے بھاگا۔ لیکن پانچ سو میٹر کا راستہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی راستہ طویل کر رہا ہے کہ مجھے پکڑے ہوئے ہے اور آگے بڑھنے نہیں دے رہا ہے۔میں زور زور سے چلانے لگا۔پانی کے چھینٹیں منہ پر پڑے تو چاروں طرف میرے دوست مجھے نیم کھلی آنکوں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میرا پورا جسم تپ رہا تھا اور پسینے سے تر بتر تھا۔
آنکھیں کھلی تھیں لیکن ابھی بھی پوری طرح ہوش میں نہیں تھا۔مجھے ابھی بھی یاد آ رہا تھا کہ بزرگ کے ساتھ ہوئی گفتگو کے بعد میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و قومی صدر سید محمد اشرف کے کئی بیانوں کو کھنگال رہا تھا۔ جہاں انہوں نے کہا تھا کہ دوسروں کے گھر کی صفائی کی مہم سے پہلے اپنے گھر کی صفائی ضروری ہے۔ ہمارے مذہب کے نام پر بھی کچھ چند ایک سرپھرے اس مذہب مخالف فکر اور نظریے کا شکار ہو رہے ہیں۔جو فکر تبلیغ کے نام پر اٹھتی ہے اور ایک ظالم طاقت بن کر درگاہوں، خانقاہوں اور امام بارگاہوں تو توڑنے اور مسلمانوں ہی کو قتل کرنے لگتی ہے۔پوری دنیا میں دہشت و وحشت کا کاروبار کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مخالف ایک فضا قائم کی جاتی ہے۔ یہ فکر مذہبی تشدد پر آمادہ کرنے کے ساتھ رواداری ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔دھیرے دھیرے ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والوں کے بیچ نفرت یا کم از کم بے زاری کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔میرے دوست مسلسل مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے جنجھوڑا۔ میری آنکھیں پوری طرح سے کھل چکی تھیں۔ پورا جسم پسیے سے بھیگا ہوا تھا۔ سب کی سوالیہ نگاہیں میری طرف تھیں۔ میں نے کہا کہ بھائی ایک برا سپنا تھا۔ خدا کرے سچ نہ ہو۔
صبح کے اخبار میں روہنگیا سے جان بچا کر بھاگے مظلوم پناہ گزینوں کے متعلق حکومت وقت کا موقف دیکھ کر حیرانی تو نہیں ہوئی لیکن افسوس ضرور ہوا۔ یہ ہمارے گاندھی، آزاد، نیتا جی اور سردار کے خوابوں کا ملک تو نہیں ہے۔ ہمارے سوامی وویکا نند اور بابا بھیم راؤ کی فکر کے مخالف یہ بیان تھا کہ ان مظلوموں سء ملک کو خطرہ ہے۔انسان کے دل رکھنے والے انسان کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک کے ان مجاہدوں کے خوابوں کا ہندوستان بنائیں یا ملک کو اس ظالم فکر کے حوالے کر دیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Friday, September 15, 2017

برما کی سلگتی آگ اور عالمی سیاست کی دلچسپیاں बर्मा की सुलगती आग पर विश्व की राजनीति Geo Politics on Burma Killing


برما کی سلگتی آگ اور عالمی سیاست کی دلچسپیاں
عبدالمعید ازہری

مذہب کے نام پر ہونے والے مظاہم پر مذہبی نمائندوں اور رہنماؤں کی خاموشی سے مزید انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات پیدا ہوتے ہیں۔کیونکہ مذہب کے نام پر تشدد خود اس مذہب سے بغاوت ہے جو اس مذہب کی بنیادی تعلیمات کو چیلنج کرتی ہے۔تعلیمات کی توہین اور روایات کا مزاق اڑاتی ہے۔ ایسے میں اس کے لئے خود اسی مذہب کے ذمہ داروں کو آگے بڑھ کر مذہی افکار ونظریات کے تقدس کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔مذہب کے نام پر مضحکہ خیز بیانات کا سد بات کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد ہی دیگر قومیں یا کوئی دوسرا معاشرہ اس بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔دور حاضر میں مذہب کے نام پر انسانوں کی تباہی ہر مذہب کے ذمہ داروں پران کی اہلیت اور قابلیت کو لے کر ایک بڑا سوال ہے۔دنیا مین نازل یا رائج تما م مذاہب کا بنیادی اور مرکزی تصور انسان کی خدمت اور انسانیت کی حفاظت ہے۔یا تو اس کی تعلیمات کے فروغ میں کہیں کچھ کمی ہے۔ اس کی تبلیغ میں کچھ کجی اور کوتاہی ہے، یا دین سے دور کرنے والے محرکات دین کی طرف راغب کرنے والے کردار سے زیادہ دلچسپ اور دل فریب ہیں۔یہ بھی ممکن ہیکہ دین کے محافظوں نے باغیوں سے سوداکر لیا ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ انسان قتل ہو رہا ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے اور خود کو انسان کہنے والا سماج خاموش ہے۔
پاکستان، افغانستان، سیریا،عراق اور شام کی طرح نہ جانے کتنے ممالک اور وہاں کے لاکھوں انسانوں کا مذہب کے نام پر بہا دیا گیا۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں نے مذہب کی حفاظت کے نام پر دوسرے ہم مذہب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ سازش بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں ورغلایا گیا ہو، ان کے اہل خانہ کو اغوا کیا گیا ہو یا جرم پر آمادہ کرنے والے دیگر اسباب و ذرائع کا استعمال کیا گیا ہو۔ یہاں بھی نتیجہ تو یہی ہے کہ نشانہ لگانے والے اور اس کا ہدف بننے والے کا مذہب ایک ہے۔ پھر تو سوال ہر اس مذہبی اور تبلیغی تنظیم پر ہے کہ آخر ان کی تعلیمات کا اثر کہاں ہو رہا ہے۔ محنت کس پر ہو رہی ہے۔ اس کے کیا نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔تبلیغ کا دعوی تو بندوق چلانے والا اور خود کو بم سے اڑانے والا بھی کر رہا ہے۔دنیا کے درجنوں ممالک کی مانند ہمارا ملک بھی مذہبی تشدد زد سے نہیں بچ سکا۔ یا اس ملک میں بھی مذہبی منافرت کی سازش کی گئی اور وہ قدرے کامیاب بھی ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے جس قدر مذہبی تشدد کو فروغ ملا ہے۔اس میں عجیب بات یہ رہی ہے کہ تقریبا ہر مذہب کے پیروکاروں میں یکساں طور پر نفرت کو بڑھاوا ملا ہے۔انہیں دہائیوں میں ہندو آتنکواد اور مسلم انتہا پسندی کی اصطلاحوں کو نکسل واد اوار دہشت گردی سے زیادہ فروغ ملا۔ان تمام چیزوں کے پیچھے ایک ہی فکر کار فرما ہو تی ہے۔ وہ ہے جانے انجانے میں خدائی کا دعویٰ کرنا۔ اپنے اپنے خداؤں کی مملک اور ان کی بادشاہی کا انکار کرنا۔ اپنی تکنیکی ترقیوں کے آگے فطرت کی قدرت کا طابع کرنا۔تلخ پر حقیقت ہے۔
1984,92,93,2002 سے لے کر 2017تک کے خونی حادثات پر نظر دوڑائیں تو ایک بات صاف نظر آئی ہے کہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ہوڑ میں انسان اپنی فطرت اور دائرے کو بھول گیا۔ ایک دوسرے پر حکومت کرنے کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرنا ہی ایک راستہ بنا لیا۔ کسی انجمن کی قیادت کرنا مذہبی تصور تھا۔ اس کے خلاف ان پر حکومت کرنا اس کے خلاف ایک تصور پیدا کیا گیا۔اس کے لئے مذہب کو ٹھکرایا گیا۔ بلکہ اس کا بے استعمال اور استحصال کیا گیا۔ ایسے ایمان فروشوں کی ٹولیاں تیار کی گئیں جن کے دل کبھی بھی مذہبی نہ تھے۔ مادیت کی چکا چوند کے آگے انسانی اقدار کو گھٹیا کرنا ان کا کام ہو گیا۔ ایسا کسی ایک مذہب کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہ ایک آفاقی فکر تھی جو ہر معاشرے میں پائی گئی۔ تبھی کہیں ترشول اور کہیں تلوار نے مقابلے کئے۔ ٹوپی اور تلک آمنے سامنے ہوئے۔امن و محبت کی تعلیم دینے والے مذہبی رہنما نفرت پیدا کرنے لگے۔ رواداری کی بجائے معاشرے میں زہر گھولنے لگے۔ حکومت کے سائے میں اس فکر کو پناہ ملتی رہی۔ مذہبی قدار کا زوال ہوتا رہا۔اسلام کی جائے پیدائش عرب اپنی بنیادی مذہبی تعلیمات کا باغی بنا تو سناتن شکشا کا سب سے قدیم گہوارہندوستان اپنے سناتنی اصولوں کی دھجیاں اڑانے لگا۔ جب صحیح علم سے معاشرہ دور کر دیا گیا تو ان کی اپنی مفاد پرست باتیں ہی مذہبی فرمان ہو گئیں۔ایک طرف قرآن کی حفاظت او ر پیغمبر کی عصمت کے بدلے میں خون بہا تو دوسری طرف دیوی دیوتاؤں کے مجسموں پر انسانوں کی بلی دی گئی۔ گائے کے نام پر انسان ذبح کئے جانے لگے۔ ذبح کرنے والے میں سے 99% لوگوں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں خود کو اپنے مذہب کی تعلیمات معلوم نہیں۔ گائے میں عقیدت تو ہے کہ اس کی تاریخ سے نابلد ہیں۔
برما(میانمار) میں انسانیت سوز مظالب کے پیچھے کارفرما مذہبی تشدد کیا اپنی تعلیمات کو بھلا بیٹھی ہے؟ وہاں تو چرند و پرند اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی مارنے کی اجازت نہیں۔ مہاتما بدھ کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسی کسی بھی سرگرمی کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ خیراس میں مذہب کا استعمال ہے۔ اس کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔میری یہ تحریر بھی شاید کسی بدھ پرست تک نہ پہنچے۔ لیکن آ ج کی ٹکنالوجی کے زمانے امید تو کی جا سکتی ہے۔ حالات برما میں بھی دگرگوں نہیں ہیں۔ طالبان کے ذریعے توڑے گئے بدھ کے مجسموں کا یہ رد عمل تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اس رد عمل کو کب تک دہرایا جائے جائے گا۔ کس پر غصہ نکالا جائے گا۔ یوں تو ہر دہشت گردی کو جواز مل جائے گا۔ نکسل وادی ااپنی جگہ درست ہوں گے۔ دہشت گرد بھی غلط نہیں ہوں گے۔ یوں ہی آر ایس ایس، VHP اور گؤ رکشک دل سمیت دیگر انتہا پسند تحریکوں کو بھی جواز ملنا جانا غیر مناسب نہیں ہوگا۔مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والی انتہا پسندی خواہ کسی بھی ملک میں ہو اورکوئی قوم یا مذہب کے پیروکار اس میں ملوث ہوں، باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لے سکتے۔برما میں ہونے والے مظالم کے پیچھے کوئی چھوٹے موٹے حادثے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہاں جس طرح بدھ بھکشکوں کی اپنے مذہب سے بغاوت ہے وہیں تبلیغی کارستانیاں بھی ہیں۔لیکن یہ سب تو ایک دکھاوا ہے اس کے پیچھے کا بین الاقوامی کھیل کچھ اور ہی ہے۔ ورنہ عراق، افغانستان ، سیریا اور ترکی میں انسانی حقوق کی پاسداری اور حفاظت کے نام پر اقوام متحدہ یا بہ لفظ دیگر امریکہ اور اسرائیل کی دخل اندازی ہو جاتی ہے۔ UNO میں ایک ریژولیوشن یا قرارداد پاس ہے کہ کسی بھی ملک میں انسانی حقوق اور انسانیت کی حفاظت کے تئیں عالمی برادری دخل اندازی کرے گی۔جسے R2P کہتے ہیں۔ یعنی حفاظت کی ذمہ داری۔
ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ امریکہ برما میں کیوں پہنچنا چاہتا ہے؟ چین اور روس کی کیا دلچسپی ہے؟ ہندوستان کا اپنا سیاسی موقف کیا ہے۔ ASEAN میں شامل ممالک میں بدھ مت کی اکثریت ہے۔ چین اس کا سرفہرست حصہ دار ہے۔اس میں ہندوستان نہیں ہے۔ ہندوستان کے پاس اس کے مقابلے میں SAARC ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم مودی جی اور یو پی کے وزیر اعلی یوگی جی کا دورا اور دونوں ملکوں کے مابین مضبوط رشتوں کے لئے بات چیت ہوئی ہے۔ اس کی کوشش پاکستا ن بھی کر چکا ہے۔ برما کی سو چی کے گلے میں امن کا ہار پہنا کر ان کی خوشامد کی جا چکی ہے۔ امریکہ نے افغانستا ن میں طالبان کا تجربہ کے کسی بھی مسلم ملک یا مسلم بشند ممالک میں داخلہ کا راستا طے کر لیا ہے۔اس کا ایک اور کامیاب تجربہ خلافت عثمانیہ کے زوال میں کیا جا چکا ہے۔برما میں اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہاں بھی نتیجہ یہی ہے کہ سب کے اپنے اپنے سیاسی مفاد ہیں۔ لیکن مارے جانے والے انسان ہیں۔ مسلمان ہیں۔انسانوں سے ہمدردی رکھنے والے تمام تنظیموں اور انفرادی ذمہ داروں کی تباہ کن خاموشی اس تباہی کی آگ میں گھی ڈالنے سے کم نہیں ہے۔اپنے سیاسی مفاد کے چلتے کسی بھی ملک کے بنیادی اصول انسان او انسانیت کی حفاظت سے روگردانی بھی کسی دہشت گردی سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم ہے کہ بدھ مت کے لوگ اپنے مت کے باغیوں نے ہاتھوں سے مذہبی تلوار چھینیں۔ کیونکہ وہ تلوں سرحد پار کچھ سیاہ سفید تلواروں کو مدعو کر رہی ہیں۔کئی دہشت گرد تنظیموں کو برما کی حفاظت کا خیال آرہا ہے۔ اس خیال محض سے روح کانب رہی ہے۔ خدایا کہیں داخلی خانہ جنگی کے آثار تو نہیں ہیں۔ یاپھر برما کا قتم عام کسی جنگ کی تیاری اور یا ورک شاپ تو نہیں۔ جس کے شرارے ملک کے نہ جانے کتنے گوشوں کے جلانے کی طاق میں ہیں۔مدھم ہوا میں مسلسل مہکنے والی ان چنگاریوں کا ارادا نیک معلوم نہیں ہوتا۔ کئی آشیانے شعلوں کی زد میں ہیں۔ اس کے لئے کیا کرنا ہے، اس پر سب کو سوچنا ہوگا، مذہبی منافرت کے خلاف مذہبی ہم آہنگی کو کھڑا ہونا ہوگا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جہاد یا پھر قوم کی کسمپرسی کی ذمہ ادا کرنے والوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جانب سے شیئر کیا جانے والی کوئی بھی ویڈیو یا تصویر کتنی سچ ہے اور اس سے کتنا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کشمکش کے ماحول میں پہلی فرصت میں احتیاط کو لازم پکڑنا اولین ذمہ داری ہوگی۔بچا سکو تو بچا لو ورنہ راکھ میں چنگاریاں سرد ہونے کو بے تاب ہیں۔ خدا کرے یہ خیال محض ہو۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@