اردو زبان اور صحافت کا گرتا معیار! ذمہ دار کون؟
عبد المعید ازہری
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی زبان کا فروغ در اصل تہذیب و تمدن تاریخ و روایات کا فروغ ہے۔ کسی کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے زبان ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ کسی کے دل تک رسائی کیلئے مہذب انداز، پاکیزہ گفتگو، شیریں اور معنی خیز الفاظ، لہجے میں نرمی اور شائستگی، کے ساتھ حسن اخلاق اور دل کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اوصاف و آداب کے مجموعہ کو اردو زبان کہتے ہیں۔اردو کی شیریں بیانی اور دل فریبی کے سبھی قائل ہیں۔ اس زبان کے حسن کیلئے یہ کافی ہے کہ اس زبان نے انسانیت اور تہذیب مخالف الفاظ کو اپنے مجموعے میں جگہ نہیں دی یعنی اس میں گالی گلوچ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اس زبان کی انفرادی حیثیت بھی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے گالی دینا نہیں سکھایا۔ دوسری بڑی بات اس زبان کی یہ ہے کہ اس کی تاثیر کا حلقہ مذہب و ملک کی قید سے آزاد رہا ہے۔ ایک صوفی درویش کے گھر کی پروردہ اور تربیت یافتہ زبان انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کی آواز بن گئی۔ مذہب و برادری کی پرواہ کئے گئے ہر ایک نے اس زبان کو گلے لگایا۔
آج اس زبان کی زبوں حالی نے اس زبان کی تاریخ کو شرم سار کیا ہے۔ کبھی اسے مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا گیا تو کبھی علاقائی کم ظرفی کا شکار کیا گیا۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ لوگوں نے اس زبان کو نظر انداز کر دیا۔ زبانیں آتی ہیں جاتی ہیں۔ یوں ہی آتی جاتی رہیں گی۔ لوگوں نے زبان کی روح کو مجروح کر دیا۔ زبان کے نام پر تہذیب فنا ہو گئی۔ تمدن لٹ گیا۔ تاریخ و روایات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا سرمایا وراثت سے جاتا رہا۔ اردو زبان کیلئے زبانی جنگ لڑنے والے اور گھڑیالی آنسو بہانے والوں نے زمین و آسمان ایک کردئے۔ سیکڑوں، ہزاروں مظاہرے اور احتجاج ہوئے۔ سودے ہوئے۔ زبان کو نفع و نقصان کے ترازو میں سیاست کے نذر کیا گیا۔ وہی لوگ اس زبان کی آبرو ریزی کرتے رہے، جن کے ہاتھوں میں ریا کاری کے احتجاجی تختے اور زبان پر مکر و فریب سے پر الفاظ تھے۔ اردو زبان کے فروغ کے نام پر ہر ایک فرد اس کی سودے بازی کرتا رہا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود اردو زبان کے کیلئے جہاد کا نام دینے والے دہشت گردوں نے زبانی جمع خرچ کے ذریعے صرف زبان کی بات کہی اس کی تہذیب و تاریخ اور ثقافت و روایت کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ اس کی ایک شرم ناک وجہ یہ بھی ہے خود ان خود نما مجاہدوں کو اس کے بارے میں علم نہیں۔ وہ خود اس زبان کی شیرینی اور شائستگی سے نا واقف ہیں۔ جتنے لوگوں کو اس زبان کی زبوں حالی کا درد ہے، اگر وہ خود ہی اپنے محدود حلقوں میں اس زبان کی اہمیت و افادیت پر یقین کرتے ہوئے خود ہی اس کی زندگی کو پروان چڑھاتے تو آج اس زبان کے ہاتھ میں فریادی کشکول نہیں ہوتا۔
دور حاضر میں مسلمانوں کی ذہنی وفکری معذوری میں اس بات کا بھی بڑا رول ہے کہ مسلمان بھی اس زبان سے دور ہو گیا۔ اگر چہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ اس زبان اور کی شیرینی نے اسلام سے قربت کے بعد اپنی مقبولیت ، افادیت اور تاثیرمیں اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تہذیب و تعلیم کو بڑی خوبی سے فروغ دینے لگے۔لیکن اس تہذیب کی اسلام سے دوری نے اس قوم کو ذہنی و فکر طور پر لا شعوری کی منزل میں پہنچا دیا۔ کیونکہ اس ترک تہذیب کے بعد اس کا کوئی متبادل تلاش کر سکی۔گزشتہ برس کے 2014 اور 2016کے انتخابات نے اس بات کا واضح ثبوت دے دیا ہے۔ یہ نتیجہ صرف اردو کی وجہ سے یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن اس میں اردو کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے یہ بات یقینی ہے۔کیونکہ اردو کو ایک مربی کی حیثیت حاصل ہے۔ ذہن و فکر کی بالیدگی اور شعور کی وارفتگی دوراندیشی اور حکمت عملی کی تعبیروں سے وابستہ ہیں۔ زبان اور ادب انسان کی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ ’’نہ تھا دل میں تو آیا کیوں زباں پر‘‘کا مصرعہ بڑے ہی پر تباک انداز میں اس ضابطے کی وضاحت کرتے ہیں۔
اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرے؟
حالانکہ کہ یہ ایک مستقل موضوع ہے جو وقت طلب کے ساتھ ساتھ فکر طلب بھی ہے۔پچھلے اسمبلی اور پارلیامانی انتخابات کے نتیجے دیکھنے کے دو نظریے ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوری نظام کو چیلنج دینے والی طاقت 31فیصد ہندوستانیوں کے ساتھ ملک پر قابض ہیں اور اپنے خوابوں کے شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔اس کے بر عکس 69فیصد رائے دہندگان اگر چہ اس قابض فکر کے مخالف تھے لیکن وہ اس قدر بکھرے اور الجھے ہوئے تھے کہ ریت کی طرح بکھر گئے۔اس پر تفصیلی گفتگو اور تحریر درکار ہے جو پھر کبھی ہوگی۔
فی الحال اردو کے فروغ میں کوشش کرنے والوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو احتجاج کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں دوسرے وہ اپنے آپ کو مٹا کر اس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ وقت کی مار ہی ہے کہ آج اردو جن مسیحاؤں کی وجہ سے زندہ ہے ان کا نام و نشان تک نہیں ہے۔بلکہ انہیں بے وقوف بھی سمجھا جاتا ہے۔اس وقت دو جگہوں اور وجہوں سے اردو نام زندہے۔ایک مدرسہ دوسرا اخبار۔اردو اخباروں نے اپنا وقار اور معیار کھو دیا۔ مدرسوں میں اردو تو لیکن زبان نہیں ہے۔اردو اخباروں میں بس اردو رسم الخط باقی ہے۔ اس زبان کا معیار اس کا اپنا بیانیہ اس کے اصول اس کی اپنی تاثیر سب کچھ تقریبا ختم ہے۔ اردو اخباروں میں صحافتی اخلاقیات تو شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ایک اندازے کے مطابق صرف دہلی ہی میں 150 سے زائد اخبار RNIمیں مندرج ہیں۔ جن میں سے بمشکل تمام 20اخبار نکلتے ہیں۔ان میں سے 15سے زیادہ اخباری اپنی غیر جانب داری اور سچ گوئی کھو چکے ہیں۔ کچھ اخبار مذہبی اور مسلکی تعصب کا شکار ہوگئے۔ یہ ان کی مجبوری ہے یا تجارت، کہنامشکل ہے۔ایک اخبار ایسا ہے جو کبھی کبھی یہ احساس دلاتا ہے کہ اردو زندہ ہے۔ صحافت باقی ہے۔ اس تک پہنچے کی کوشش کی۔ اس کا مدیر کوئی نامعلوم شخص نہیں۔ 35برسوں کا صحافتی اور اردو ادب کا تجربہ رکھتا ہے۔اخبار کے معیار اور صحافتی اخلاقیات کی تحفظ کے تئیں اس نے بہت کچھ گنوا دیا ہے۔ اردو دنیا میں اس کا نام دونوں ہی طریقے سے لیا جاتا ہے۔ لیکن شدت سے لوگ ان کا نام لیتے ہیں۔ جنہیں اردو زبان اور صحافت کی پرکھ ہے وہ اس کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ جنہیں بس تجارت کر کے پیٹ پالنا ہے وہ تھوڑا تکلیف سے لیتے ہیں۔ ان سے ہوئی گفتگو کے دوران یہ واضح ہوا کہ ان کا یہ اخبار واحد ایسا اخبار ہے جس میں روزانہ 180خبریں چھپتی ہیں۔ پہلے یہ 6صفحات پر مشتمل تھا۔ پر صفحہ پر خبریں۔ اب یہ 8 صفحات کا رنگین اخبار ہے کہ جس کے خبروں کی تعداد 200سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا پہلا صفحہ خود 6 سے 8صوبوں کی اہم خبروں پر مشتمل ہونے کے ساتھ اس کی سرخیوں کا جواب نہیں۔ چار لائن کی لیڈ خبر اسی طرح اس کے بعد کی سرخی بھی چار لائنوں پر مشتمل ہوتی ہے۔8صفحات پر مشتمل ہر صفحہ کا نام ق سے شروع ہوتا ہے کیوں کہ اخبار کا نام ’’قاصد‘‘ ہے۔اس کے مدیر جناب اشہر ہاشمی ہیں۔
اس اخبار کی حالت بھی بالکل اردو کی طرح ہے۔ کیونکہ جب اردو بکی نہیں تو اسے توڑ دیا گیا۔ یہ اخبار بکا نہیں تو مفلوک اور مظلوم بنانے کی اپنی ہی اردو برادری نے کوشش کی۔
یہ حال ہے اردو اور اردوبازوں کا۔
اردو صرف زبان نہیں بلکہ حق کی آواز رہی ہے۔ انگریزوں کو اس کی تاثیر کا کافی علم تھا۔ دستی صحافت کی ایک ایک تحریر دل اور کلیجے پر ایسے وار کرتی تھی کہ راتوں کی نیدیں حرام ہو جاتی تھیں۔ آزاد، موہانی اور باقر جیسے اردو کے مسیحاؤں نے اس کی تاثیر کو پہچانا اور اس کا استعمال کیا۔ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑی۔ لیکن یہ آواز کبھی دبی نہیں کبھی بکی نہیں۔ اردو کو صرف اردو ہی زندہ کر سکتی۔ یعنی تہذیب، رواداری، محبت اور یکجہتی کی فضائیں جہاں قائم ہوگی، اردووہاں پائی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں کے اخلاق و کردا ر کا فطری اور طبعی بیانیہ اسی زبان میں رہا۔اردو، ہندوستان اور تصوف ملک کی اس وراثت کے امین ہیں جس کے لئے ملک پر ساری دنیا رشک کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@Gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raeba rely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid0 7
Instagram: instagram.com/moid_abdul/





