Saturday, August 11, 2018

یورپ میں رومی کا فلسفہ यूरोप में रूमी का फलसफाRumi Philosophy in Europe

 یورپ میں رومی کا فلسفہ
 
عبد المعید ازہری
 
مولانا رومی ان اہم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہیں یورپ میں انسانی اور اخلاقی فلسفہ کے بطور سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ان کے اقوال اور حکمت پر مبنی واقعات و نصائح کا متعدد اور مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ صوفی زمانہ مولانا رومی لکھتے ہیں کہ سب کا رب ایک ہے۔وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر ان کے مفکرانہ جملے انسانی ذہن و عقل کو جھنجوڑتے ہیں۔مختلف خداؤوں میں بٹے انسانی سماج اپنے اس ایک رب، خالق و مالک اورپالن ہار سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے۔ جس نے اس ساری کائنات کو بنایا اور وہ اکیلا ہی ان سب کا مالک ہے۔کائنات کے ذرے ذرے میں اسی کے نور کا پرتو ہے۔ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سب سے پہلے خدا نے اپنے نور سے میرے نور کو بنایا اس کے بعد ساری کائنات کو تخلیق کیا، میں خدا کے نور سے ہوں۔رومی کا انسانی فلسفہ اور انسانیت اور ہمدردی کی حکمت انسان کے دلوں سے مذہب و فرقہ کے نام کی نفرت ختم کر کے ان میں انسانیت اور ایک ہی آدم و حواء کی اولاد کے ناطے محبت بھرنے کا کام کر رہی ہیں۔ کوئی ہے جو اس نظام ہستی کو چلا رہا ہے۔ سورج کو کب اور کہاں سے نکلنا ہے۔ چاند کو کب کتنا اور کہاں چمکنا ہے۔ بادل بارش کا دستور وغیرہ جو اتنی پابندی سے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ جو ان سب چیزورں کو کنٹرول کرتا ہے،وہی خدا ہے۔ وہ اپنی اس خدائی میں کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرتا۔ بارش کے پانی سے لے کر ہوا کے جھونکے تک، سورج کی گرمی سے لے کر بادل کے سائے تک کسی کے ساتھ بھی فرق و امتیاز نہیں کرتا۔اس کا پیمانہ تو انسان کی اپنی اچھی و بری نیت اور نیک و بد اعمال ہیں۔ رومی کا فلسفہ وحدت الوجود نہایت ہی گہرا ہے۔ یعنی یہ ایسی کتاب حکمت ہے جو بغیر عملی شرح کے سمجھی نہیں جا سکتی۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.co

Wednesday, August 8, 2018

پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آج کا مسلمانपैग़म्बर की शिक्षा और आज का मुस्लिम वर्ग Prophet Teachings and Today;'s Muslims

پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آج کا مسلمان
عبد المعید ازہری

خود احتسابی اور خود شناسی دو ایسے اعمال ہیں جو انسانی عروج و زوال اور اس کے نشیب و فراز طے کر سکتے ہیں۔ آج قوم مسلم میں ان دونوں صفات کی سخت ضرورت ہے۔تعلیمات نبوی کی روشنی میں قوم مسلم کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔آخر جس قوم کو خدا کریم نے خیر امت اور دوسروں کے لئے فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا ہو، وہ اپنا وقار اس حد تک کیسے کھو سکتی ہے۔خود پیغمبر اسلام نے اس قوم مسلم کے تعلق سے کئی فضیلتیں اور شرافتیں بیان کی ہیں۔پیغمبر اسلام کی پوری زندگی عبادت و ریاضت سے روحانیت کو مضبوط کرنے کے ساتھ خدمت خلق کے ذریعے ایک مخلوط اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل و ترویج میں گزری ہے۔آپ نے قومی یکجہتی اور بقائے باہم کی ہمہ جہت صورتوں کو تشکیل دینے اور انسان اور انسانیت پر مبنی معاشرے کو فروغ دینے کے لئے اپنی امت پر نہ صرف زور دیا بلکہ خود بھی اس میں پیش پیش رہے۔آج قوم مسلم کی معاشرتی خستہ حالی دعوت فکر دیتی ہے۔ جس قوم کی بنیاد ہی ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیناہو، اس کی خود کی سماجی صورت حال کی ابتری افسوس ناک ہے۔پیغمبر اسلام اور تعلیمات نبوی کے تعلق سے بلا تفریق مذہب و ملت دنیا کے ہر ترقی پسند، انسان دوست اور انسانیت کے ہمدردنے اپنے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خواہ وہ قوم مسلم اور اسلام کا شدید مد مقابل کیوں نہ رہا ہے، اس نے پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو پوری انسانیت کے لئے بہترین تعلیم و تربیت تصور کیا ہے۔
گزشتہ رمضان شریف کی مبارک باد دیتے ہوئے خود ہمارے ملک کے وزری اعظم نے ٹویٹ کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اس پاک اور با برکت مہینے کی مبارک باد دی اورپیغمبر اسلام کی تعلیمات کا ذکر کیا۔انہوں نے پیغمبر اسلام کی ان اعلی تعلیمات کا ذکر کیا جو کسی بھی مخلوط معاشرے کی بنیاد ہیں۔پیغمبر اسلام سے پوچھا گیا کہ اسلام میں کون سا عمل سب سے بہتر ہے آپ نے فرمایا ’کسی غریب اور ضرورت مند کی مدد کرنا اور سب سے خوش اخلاقی سے ملنا خواہ انہیں جانتے ہو یا نہیں‘۔ یہاں پیغمبر اسلام نے مذہب و قبیلہ اور ذات و برادری کا ذکر نہیں کیا۔آپ نے یہاں تک واضح کر دیا کہ خواہ آپ سامنے والے سے واقف ہوں یا نہ ہوں، اس سے حسن اخلا ق سے ساتھ پیش آنااسلام میں پسندیدہ عمل ہے۔ یوں ہی آ پ نے فرمایااپنی ضرورت سے زیادہ مال و اسباب کا صدقہ کر دیا کرو۔ اسے لوگوں کی بھلائی میں خرچ کیا کرو۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں تکبر اور حسد کو کبھی بھی جگہ نہیں ملی۔اور سادگی، نرم گفتاری اور مروت کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔آپ نے فرمایا کہ تکبر انسان کے شعور کو مار دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک اور بات کہی وہ یہ کہ ’آج پیغمبر اسلام کی ان تعلیمات کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے‘۔وزیر اعظم کے جملوں کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ بنوی تعلیمات قوم مسلم کے منتشر شیرازے کو سمیٹنے اور کھوئے ہوئے وقار کو واپس دلانے میں کارآمد ہو سکتی ہیں۔ اگر ہاں تو پھر کوتاہی اور دیری جرم عظیم ہوگا۔صرف اس لئے ان تعلیمات سے روگردانی نہیں کی جا سکتی کہ ان کی نشر و اشاعت کرنے والا کون ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ تعلیمات خود پیغمبر اسلام کی ہیں۔
آج ہمارا مسلم معاشرہ حالات زمانہ کی ستم ظریفی کا رونا رو کر اپنے آپ کو پس پشت ڈال لیتا ہے۔تعلیمی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو یہ کہہ کر دور کر لیتا ہے کہ ان کے ساتھ تعصب ہوتا ہے۔ یا پھر یہ بہانہ بناتا ہے کہ انہیں نوکری تو ملنی نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ قوم خود اس قدر ذہنی پستی کا شکار ہو چکی ہے کہ مثبت اور تعمیری و تخلیقی افکار و نظریات سے یکسر دوری بنا چکی ہے۔آج صحیح معنوں میں اس قوم مسلم کا اصل دشمن اس کی چھوٹی اور اوچھی سوچ ہے۔ اس فکر کو مضبوطی دینے والے سیاسی و مذہبی ٹھیکیدار ہیں۔باقی حالات زمانہ اور سیاسی سازشیں بعد میں آتی ہیں۔جس طرح سے انسا ن کے جسم کے اندر کسی بھی بیماری سے لڑنے کے لئے سب سے بڑی طاقت خود اس کی ہمت اور اس کا حوصلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کے اندر موجود دفاع کی قوت ہے۔ اس کے بعد ہی دواؤں کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر بیمار اپنی ہمت ہی کھو بیٹھے۔ اور اس کا حوصلہ پست ہو جائے۔ تو اس کی خود کی دفاع کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ اس پر اگر معالج اور ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ٹھیک نہیں ہو سکتے، تو اسے دنیا کی کوئی طاقت ٹھیک نہیں کر سکتی۔آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے۔چونکہ ان معالج کی خود کی دور کی بینائی صلب ہو چکی ہے۔حکمت و دانائی سے محروم ہیں اور حالات کو بھاننپے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔حکیم اگر نبض شناسی سے محروم جائے تو وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے مضر ہو جاتا ہے۔
ہمارے سامنے ہماری اسلامی تاریخ ہے۔ آج سے بدتر حالات تھے۔ خود پیغمبر اسلام کی زمین ان پر تنگ کر دی گئی تھی۔ جن حالات سے اولین دور کے مسلمان گزرے ہیں اس کی توہم پر ابھی تک جھلک بھی نہیں پہنچی۔لیکن انہوں نے اپنے مضبوط ارادوں اور بلند حوصلوں کی مدد سے ظلم کے ہر قعلے کو انصاف کے ہاتھوں تسخیر کیا۔ نفرت کی مضبوط سے مضبوط دیواروں کو محبت سے کرایا۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کا راستہ نہیں چھوڑا۔ حکمت و دانائی سے کام لیا۔ دور اندیشی کے حامل ہوئے۔ ہمیشہ خود احتسابی کرتے رہے۔وہم و گمان کے تیر نہیں چلائے بلکہ حقیقت کا اعتراف کیا۔خود کو ایک مثالی نمونہ بنایا۔ تب جا کر دوسروں سے توقع کی۔مروت، رحم دلی اور ہمدردی کی روایتوں کو فروغ دیا۔ انصاف کرنے میں تعصب نہیں برتا۔پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو مذہب و ملت سے منسوب نہیں کیا۔ بلکہ عبادتوں سے روح تقویت دینے کے ساتھ خدمت خلق ، ہمدردی و رواداری سے بہترین انسانی معاشرے کو تشکیل دیا اور اس کی ترویج اشاعت میں ایمانداری اور دیانت داری سے کام لیا۔وہ سرخ رو ہوئے۔ہم بھی ہو سکتے ہیں۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com