Wednesday, October 28, 2015

अमन की लिए जंग या जंग के लिए अमन का झांसा Peace for war or war for peace جنگ برائے امن یا امن برائے جنگ؟

अमन की लिए जंग या जंग के लिए अमन का झांसा 

Peace for war or war for peace
جنگ برائے امن یا امن برائے جنگ؟
عبدالمعید ازہری


پوری بیسویں صدی اس فکر کی تربیت میں گذر گئی کہ دو انسان بحیثیت انسان برا بر ہو نے کے ناطے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں ۔ اس کے تئیں کئی بین الاقوامی سمجھوتے ہو ئے ۔ کئی انقلابات آ ئے ۔انسان نے بہت ترقی کی۔ہمارے ملک کو بھی ایک صدی سے زائدغلامانہ زندگی سے نجات ملی ۔ سو سالہ جد و جہد کامیاب ہوئی لیکن اکیسویں صدی کی پہلی ہی دہائی میں اس بات کا واضح اشارہ دے دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے برابر نہیں ہو تاہے ۔ کچھ لوگ غلام ہو تے ہیں۔ کچھ کوحکمرانی ہی کے لئے پیدا کیا جا تا ہے ۔ انہیں دو فکروں کے آپسی تصادم میں بیس سے زائد ملک تباہ ہو گئے ۔ کئی لاکھ انسانوں کا بے مقصد خون ضائع ہوا ۔آج پوری دنیا امن کے لئے روزانہ تقریباًایک ہزار سے زائد اجلاس ، سیمینا ر ، بحث و مباحثہ منعقد کرتی ہے ۔ بڑے بڑے دستاویزوں پر مختلف ممالک کے آپسی معاہدوں پر دستخط ہو تے ہیں ۔ یہ ساری کی ساری تحریکیں اس لئے فیل ہو جا تی ہیں کیونکہ ان تمام تحریکوں کے پیچھے انہیں کی حمایت اور سر پرستی ہو تی ہے جو جنگ و جدال کے اسباب و وجوہات مہیا کراتے ہیں ۔ بڑا سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں اور کیسے کرتے ہیں؟ہم بڑی احسان مندی کے ساتھ ان کے ساتھ ہو لیتے ہیں ۔ جانے انجانے ہم سب اکیسویں صدی کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ امن پسند ترقی یافتہ جدید تکنیکی دور کا عجیب سا نعرہ ہے’’ جنگ برائے امن‘‘ قیام امن کے لئے جنگ ضروری ہے۔ امن کا یہ فلسلفہ سمجھ سے پرے ہے لیکن ہم اسے تسلیم اس لئے کرتے ہیں یا ہمیں کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ فلسلفہ ہمیں آج کے ترقی یافتہ اشخاص دے رہے ہیں ۔ جنگ خود ایک تباہی ہے ۔ امن کو غارت کرنے والی ہے۔اس میں ایک ظالم ہو تا ہے دوسرا مظلوم ہوتا ہے ۔ جنگ کے بعد ایک طویل مدت تک مجبوروں پر موقعہ پرستوں کا راج ہو تا ہے۔ ان حکام کا انتخاب بھی انہی جنگی سودا گروں کے ذریعے ہوتا ہے ۔دو باتیں ایک ساتھ عملی طور پر ابھر کر سامنے آ تی ہیں قیام امن کے لئے جنگ ضروری ہے ۔امن کی تحریک اس لئے چل رہی ہے چونکہ جنگ ہو تی ہے۔۱۔ جنگ برائے امن ۲۔ امن برائے جنگ ۔ ان دو فلسفوں میں دم توڑتی انسانیت اور بر سر عام بے گناہوں کا بہتا خون ایک مشکوک فریادی ہے سوال کرتا ہے کہ قیام امن کی یہ کیسی تحریک ہے جس میں انسان کے خون سے انسان کے قد کو بلند کرنے کی روایت عام کی جا رہی ہے ۔ قیام امن کے لئے مساوات شرط ہے۔ جب تک احساس برتری اور احساس کمتری جیسے افکار معاشرے میں پرورش پاتے رہیں گے، امن کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ انسان کو اس کے اصو ل ہی جوڑ کر رکھتے ہیں ۔ آج انسان خود اپنی سمجھ کھو چکا ہے ۔ انسانی رشتہ ٹوٹ گیا ہے ۔ اس کے اصول و ضوابط منتشر ہو گئے ۔ وہ اصول خواہ مذہبی ہوں یا سماجی ہوں ۔ معاشرتی قانون بھی مذہبی اصول و ضوابط کی ہی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے جسے اپنے وقت کے صاحب اقتدار نے اپنے طور پر تیا رکر لیا ۔ آ ج کوئی بھی اپنے مذہبی اصولوں کا پابند نظر نہیں آ تا ۔یہی وجہ ہے کہ سب پریشان ہیں ۔ ہمارے پاس وہ دھاگہ نہیں ہے جو مالا کی الگ الگ موتیوں کو ایک ساتھ پیرو دیتا ہو کہ اس میں اتنی طاقت ہو تی ہے کہ پنڈت کے گلے میں بھی ہو تا ہے اور ملا کے ہاتھوں میں بھی نظر آ تا ہے ۔مذہب ایک اصول سے بندھ کر زندگی گذارنے کوکہتے ہیں تاکہ آ پ کی اپنی آزاد زندگی میں کسی کا دخل نہ ہو ۔ جب اس دھا گے میں انسان بندھ جا تا ہے تو ذات برادی ، رنگ و نسل ،شکل وشباہت کا فرق ختم ہو جا تاہے ۔ ہم انسان کے اچھے اور برے کی پہچان اس بات سے ہو تی ہے کہ وہ اپنے حقوق ادا کرنے میں کیسا ہے جو اصول کا جتنا پابندھ وہ سب میں اتنا ہی عظیم ۔جب سب کو ایک دوسرے کا خیال رہتا ہے تو لوگ ایک دوسرے کی تکلیف کا باعث نہیں بنتے ۔یہ مسرت ہی نہیں بلکہ فخر کی بات ہے کہ ان اصولوں کی پابندی ہمار اوطن عزیز کئی صدیوں سے کرتا آ رہا ہے ۔ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب تمام ممالک کے لئے قابل رشک رہی ہے ۔ پچھلی ایک دو دہا ئی سے تہذیب و تمدن کی یہ قدیم عمارت ہلتی ہو ئی نظر آ رہی ہے ۔ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ دور جدید کو چند ماہر نفسیات ،شاطر دماغ والے مل کر کنٹرول کر رہے ہیں ۔
اس ماحول سازی میں دو باتیں اہم اور قابل غور ہیں:
آج تمام مذاہب اور ان کے اصولوں میں شک کی گنجا ئش پیدا کر دی گئی ہے ۔ایک شخص پر غیر وں کے مذاہب کے ساتھ ساتھ اپنا مذہب بھی مشکوک ہو گیا ہے ۔ مذہب اسلام جس کے قانونی کتاب کی ابتدا اس دعوے کے ساتھ ہو ئی کہ یہ ایسی قانونی کتاب ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجا ئش نہیں لیکن افسوس کہ پیغمبر اعظم، ان کے آل اصحاب اور صوفیائے کرام نے جن تعلیمات کی تبلیغ کی تھی، آج کی امت نے اسے فراموش کر دیا ۔کسی نے اپنے پیشوا سے اتنی محبت کی کہ خدا بنا دیا تو کسی نے گالی دینا مناسب سمجھا اور گالی کو شریعت میں داخل کر دیا ۔ کسی نے شرک و بدعات کا کاروبار شروع کر دیا ۔ ہر کسی پر شرک و بدعات کی مہر لگا کر اپنے کاروبار کو بڑھا تے گئے ۔ کسی نے فرائض و واجبات کو ترک کر کے مندو ب و مستحبات پر عمل کرنا زیادہ پسند کیا۔فروعیات کو فرض سمجھ کر اپنا لیا اور فرائض کو فراموش کر دیا ۔ ایسے میں عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی حیرت میں پڑ گئی کہ آخرایسے حالات میں کیا کیا جا ئے ۔ مذہب کے نام نہاد ٹھیکے داروں نے اپنے حرص وطمع ،نام و نمود ،دولت وشہرت اور بد عملیوں کی وجہ سے شک کی گنجا ئش کو پیدا کر دیا ۔ اسی شک کی وجہ سے نقصانات کی بھر مار ہو نے لگی ۔ایک دوسرے کا خیال ختم ہو گیا ۔’’ ہماری آزادی ہمارا حق‘‘ دوسروں کی آزاد ی میں دخل دینے لگا ۔ رنگ و نسل کا فساد شروع ہو گیا ۔ لڑائی جھگڑے کے لئے چھوٹی سے چھوٹی باتیں بڑی سے بڑی وجہیں بننے لگی۔ آ تے آتے آج مذہب بھی اس کی چپیٹ میں آ گیا اور مذہب کے نام پر ایسا خونی ماحول بننے لگا جس کی توقع کبھی نہیں کی گئی ۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ آزادی و ترقی کا ایسا نشہ پلایا گیا کہ رواں صدی کی نئی نسل نے تمام اصولوں اور تہذیبوں کو پس پشت ڈال دیا ۔ان ماہرین نفسیات نے ہر جگہ ایک ہی کام کیا ۔کسی پر پیسہ اتنا آسان کر دیا کہ دولت کے نشے میں ذہن نے کام کرنا بند کر دیا اور کسی پر اتنا تنگ کر دیا کہ مجبوراًظالم و قاتل بن گیا ۔ جس کے پاس دولت و شہرت آ گئی اس کی فکر یہ ہو گئی کہ اس دولت وشہرت پر صرف اس کی محنت ہے ۔اور اس میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ اور حق نہیں ہے ۔صدقات وخیرات ، پاس پڑوس ، عزیز واقارب ورشتے دار وغیرہ کسی کا کائی حق نہیں ہے ۔ ساری دولت میری ہے ،میری محنت اور ہنر مندی کا نتیجہ ہے ۔ جو غریب رہ گئے ان کے دماغ میں یہ فکر ڈال دی گئی کہ جن دولت مندوں نے اپنے حصے میں دولت کا انبار جمع کر رکھا ہے وہ تمہارا حق ہے ، تمہارے حقوق کو تم سے چھین کر دولت جمع کی گئی ہے ۔ اب تمہیں اپنے حقوق کے لئے لڑنا ہوگا ۔ایک طرف غریب اپنے حقوق کے لئے دوسری طرف دولت مند اپنے سرمائے کی حفاظت کے لئے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے ۔
جنگ کے لئے عام طور پر ایک اشتعال انگیزی کی ضرورت ہو تی ہے ۔ جذبات کو بھڑکانے کے لئے کبھی کالے گورے کا فرق کبھی اونچی نیچی برادری میں امتیاز ، کبھی مذہب کی حفاظت کا ڈھونگ ،ضرورت کے حساب سے استعمال کیا جا تا ہے اور لوگ اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسے خونی کھیل کا حصہ بن جا تے ہیں جو لوگ ذرا سمجھدار ہو تے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے ایسے حادثات کراد ئے جا تے ہیں جس کے دیکھنے کے بعد وہ بے قابو ہو جا تا ہے ۔ 
اس کاایک آسان سا فلسلفہ ہے۔ آج کل گاؤں میں ایک چھوٹی سے بڑی تقریب میں آتش بازی کا فیشن عام ہو تا جا رہا ہے ۔بلکہ یوں کہے تو برا نہ ہوگا ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر آتش بازی کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جا تی ہے۔ گولا بارود کے جتنے بھی کاروباری ہیں وہ کب چاہیں گے کہ یہ رسم بند ہو جا ئے ۔ علماء فتویٰ لگا تے ہیں تو لگا تے رہیں۔ سماج کے ذمہ دار منع کر تے ہیں تو کرتے رہیں۔ یہ تو آتش و بارود کے لئے الگ الگ اسباب پیدا کر تے ہیں۔یہ پوری طاقت صرف کر دیتے ہیں ، طرح طرح کے حیلے بہا نے ہو تے ہیں ۔ ایک ہی لڑکا ہے اگرشادی میں آتش بازی کا اہتمام نہ کیا گیا تو لوگ کیا کہیں گے ۔ اب تھوڑی سی قیمت کے لئے اس تقریب کو بد مزا نہ کریں اور اگر پیسے کی قلت ہے تو مجھے پیسے نہ دینے مگر جشن دھوم دھام سے ہو ۔ پھر کیا مجبوراً یا مسروراًآتش بازی کا اہتما م کر دیا جا تا ہے ۔ خود علماء وذمہ داروں کی ذاتی زندگی میں نقص و عیب تلاش کر کے انہیں خاموش کرتے ہیں ۔ یہی حال ہتھیاروں کے ان کاروباریوں کا ہے ۔یہ کب چاہیں گے کہ جنگ کے حالات سدھر جا ئیں اور امن قائم ہو جا ئے یہ تو نئے نئے اسباب پیدا کر تے رہیں گے ۔چونکہ پوری دنیا میں ہتھیاروں کا کاروبار ہی سب سے زیادہ موثر ہے ۔ قاتل و مقتول دونوں ہی اس کے خریدا ر ہیں دونوں کو برابر اس کی ضرورت ہے ۔وہ تو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے تاکہ امن کی ہر تحریک ناکام ہو کر رہ جائیں ۔ان کے پاس اس بات کا یقینی علم ہو تا ہے کہ کس گروہ کے پاس کتنا ہتھیار ہے ۔ کس کو کب تباہ کیا جا سکتا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں اور آسانی سے اس کام کو انجام دیتے ہیں ۔
اس دہشت کے ماحول کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے یا تو تمام ممالک کو یکساں ہتھیار مہیا کرا ئے جا ئیں یا پھر تمام مہلک اور نسل کش ہتھیاروں کو تباہ کر دیا جا ئے اور اس کاروبار کو بند کر دیا جا ئے ۔تب قیام امن کے اسباب و وجوہات کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع بھی اپنے آپ پیدا ہو نے لگیں گے ۔
ان ماہر نفسیات اور جنگی ہتھیاروں کے کاروباریوں کی رسائی پوری دنیا میں ہر جگہ ہے وہ کسی تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ آئے دن نئی جنگ کے نئے اسباب پیدا کر تے رہتے ہیں ۔نئی تحریکیں ، نئے چہرے بھی بنتے رہتے ہیں ۔ حکومتوں کی تشکیل سے لے کر ان کا تختہ پلٹنے تک ہر جگہ ان کا عمل دخل ہو تا ہے ۔ آج تمام تر ممالک کی ضرورت بن چکے ہیں ۔جس ملک نے بھی ہمت دکھا ئی اور اپنی طاقت بنا ئی اسے یا تو تباہ کر دیا یا اپنے گروہ میں شامل کر لیا ۔چند معاہدے ہو تے ہیں اور اس ملک کی طاقت کو سائلینٹ موڈ پر رکھ دیا جا تا ہے ۔ جنگ کے اسباب پیدا کر نے میں دو چار برس سے لے کر بیس برس کا عرصہ لگ جا تا ہے لیکن انہیں وقت کی اس طوالت سے کوئی فر ق نہیں پڑتا کیونکہ اس لمبے عرصے کے باوجود کاروبار چلتا رہتا ہے ۔ان جنگوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دو ملکوں کی جنگ دونوں ہی ملکوں تک محدود نہیں ہو تی اس کے اثرات تو کئی ممالک میں ہو تے ہیں۔ دھیرے دھیرے اس ملک کی چنگاری دوسرے ملک میں آگ لگا تی ہے پھر ایک اور ملک میں اس طرح کا روبار چلتا رہتا ہے ۔ اس کاروبار میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہے صرف فائدہ ہی فائدہ ھوتا ہے ۔ افغانستان ،ٹیو نیشیا،لیبیا ، سیریا ،عراق ،یمن میں واقع جنگوں کے اثرات دیگر عرب و یوروپ ممالک کے ساتھ ہندوستان میں بھی نظر آ ئے ۔
شا م کی خانہ جنگی میں امریکہ نے مداخلت کی اور شام پر حملہ کرنا چاہا توروس(رشیا) نے سعودی عرب پر حملہ کی دھمکی دے دی ۔ ایران کی مضبوط ہو تی حالت اور حذب اللہ کے نام پر سعودیہ نے یمن پر حملہ کر دیا کہ یمن میں حو ثیوں کی مدد ایران کر رہا ہے اور ان سے حرم کو خطرہ ہے۔
پچھلے پانچ برس میں مصر کے جنگی وانقلابی حالت کے مناظر ہندوستانی اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ دہلی کے جنتر منتر کے ساتھ دے کر مقامات پر بھی نظر آئے ۔ القاعدہ کے اصولوں کے خلاف جب داعش نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تو القاعدہ نے اپنی ایک شاخ جنوب ایشیا میں قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ ایسے میں اسی علاقہ کی انصا رالتوحید نے داعش کی جماعت کا اعلان کر دیا ۔جنگ بظاہر دو ملکوں کے ما بین ہو تی ہے لیکن اس کے اثرات کئی ممالک پر ہو تے ۔ ایک لا بینگ سسٹم ہوتا ہے ۔ گروہ سازی یا اپنے حمایتی تیار کرنا یعنی ایسے افراد تیار کرنا جو ہماری بات اپنے اپنے ممالک میں کر سکیں ۔ 
اس گروہ سازی میں بھی وہی طریقہ اختیار کیا جا تا ہے ۔ اپنے قدیم روایت سے بغاوت کرنا ۔ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرکے ان کا استعمال کرنا ۔ ضرورتیں نہ ہوں تو ضرورتیں پیدا کرنا ۔ یہ ایسا حسین ،پر کشش اور دل فریب جال ہوتا ہے کہ پھنسنے والے کو قطعی اندازہ نہیں ہو تا ہے ۔ اسے تو ایسا محسو س ہوتا ہے کہ گو یا وہ اپنا فرض منصبی ادا کر رہا ہو ۔ ہر طرح کے لوگ اس دام فریب میں آ تے ہیں ۔ اقتدار کی ہو س میں سیا سی غدار ۔ نام و نمود کی لالچ میں مذہبی ٹھیکیدار ، دولت کے نشہ میں دھت صنعت کار ، تاجر سب کی آنکھوں میں الگ الگ حسین خواب ہوتا ہے ۔ انہیں جذباتی بنانے کے بھی تمام آلات واسباب موجود ہو تے ہیں ۔ 
ان مشکلوں سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ تاریخی اور حقیقی روایتوں سے بغاوت نہ کریں ۔ ضرورت کی تکمیل کے لئے حالات سے سمجھوتہ نہ کریں ۔ حقوق انسانی کو پاما ل نہ ہو نے دیں ۔ اس کے لئے اصولوں کی پابندی ضروری ہے ۔ یعنی مذہب کی رسی کو پکڑنا ضروری ہے ۔ پوری دنیا میں قیام امن کا ایک فارمولا پیغمبر اعظم نے دے دیا جس پر عمل کر کے پوری دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔ پیغمبر اعظم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ۔ اس مضمون پر اور بھی ارشادات موجود ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کا خیال رکھے ۔ یہ ارشاد پوری دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد فا رمولا اس لئے ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں کہا کہ مسلمان پڑوسی کا خیال رکھو ۔ پڑوسی مذہب و ملت کی قید سے بالکل آزاد ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے ارشاد میں کہا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ۔ پوری دنیا کو انسانی مساوات کی تعلیم کے ساتھ دعوت فکر پیش کرنے والا جملہ اور قانون ہے ۔ جب انسانی مساوات کی فکر پیدا ہو گی تو لوگ حقوق کی ادائیگی کریں گے اور اس میں احسان نہیں جتا ئیں گے بلکہ ذمہ داری سمجھ کر ادا کریں گے ۔ اب انہیں دو جملوں کی اگر وضاحت کر دی جا ئے تو فارمولہ واضح ہو جا تا ہے ۔ پڑوس کے تعلق کے اہل علم نے الگ الگ آراء قائم کی ہیں ۔ کسی نے دائیں بائیں ،آگے پیچھے کو پڑوس کہا۔ کسی نے چاروں طرف چالیس مکانات کو پڑوس کہا ہے۔ اس فرمان میں ایک خصوصیت اور بھی ہے وہ یہ کہ کسی پڑوسی کوخاص نہیں کیا بلکہ عام خطاب ہے کہ ہر پڑوسی اپنے پڑوسی کا خیا ل رکھے ۔ اس کو ہم اس طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک گھر کے پڑوسی چند گھر ہیں جو مل کر ایک محلہ بنتا ہے۔ چند محلے ایک دوسرے کے پڑوسی ہو کر ایک گاؤں ، ایک گاؤں کے دوسرے چند گاؤں پڑوسی ہو ئے تو ایک بلاک بنا ۔ چند بلاک مل کر ایک ضلع ، چند اضلاع مل کر ایک ریاست ، چند ریاستیں جمع ہو کر ایک ملک اور تمام ممالک ایک دوسرے کے پڑوسی ہو تے ہوئے ایک دنیا بنتی ہے جو ایک گھر یا ایک گاؤں کے ما نند ہے ۔ 
اس سے واضح ہوا کہ پوری دنیا میں امن قائم کرنا کتنا آسان ہے ۔ اور ہم سب مل کر ایک قدم بڑھا ئیں ، امن و سکون کی طرف۔ ہم سب اپنے اطراف کا خیال رکھیں ۔ پوری دنیا میں امن قائم ہو جا ئے گا ۔ اس کی شروعات ہم ہی کریں تاکہ آنے والی نسلیں اس بنیاد پر ایک عمارت تعمیر کر سکیں ۔ ورنہ وہ ہم پر لعن و طعن کر نے میں کو ئی ہچک محسوس نہیں کر یں گے ۔ ایک وفقہ کی زندگی ہے آؤ کچھ کر جا ئیں کیا پتہ کل ہو نہ ہو ۔
*****
ٓٓAbdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 09582859385
Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

No comments:

Post a Comment