मौत की सजा देश और धर्म की द्रष्टि में
Death penalty in the light of Law Religion and the Nation
سزائے موت :ملک و مذہب کے آئینے میں
عبد المعید ازہری
یعقوب میمن کی پھانسی دنیا میں پہلی پھانسی نہیں اور نہ ہی کسی مسلمان کو دی جا نے والی پہلی سزا ئے موت ہے ۔یعقوب میمن سے پہلے بھی کئی لو گوں کو پھانسی کی سزا ہو ئی لیکن اس سزا نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا،جس کا رخ طے کرنا مشکل ہے ۔ عام آدمی سے لے کر عدلیہ کے اعلیٰ حکام تک اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔استعفا سے لیکر سخت تنقید تک کا ملا جلا اثر دیکھنے کو ملا۔ اس سزا میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں شور مچا ہوا ہے ۔کوئی سزا کو سیاسی جماعتوں کا انتخابی مہرہ بتا رہا ہے تو کوئی اسے مذہبی تعصب کا رنگ دے رہا ہے ۔ اگر یہ سزا مذہبی تعصب کی بنیاد پرہو ئی تو اس کے خلاف دوسرے مذہب کے لو گ آواز کیوں بلند کر رہے ہیں اور اگر یہ کسی خاص سیاسی جماعت کی گھناؤنی سازش ہے تو پھر ایک ہی جماعت میں دو الگ الگ نظرئے کیوں ہیں۔اگر یہ موجودہ حکومت کی کارستانی ہے تو یعقوب میمن کو خود سپرد گی کئے بائیس سال ہوگئے۔ کس نے اس سے وعدہ کیا تھا؟۔ معاہدہ کے وہ کاغذات کہا ں ہیں؟۔ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے معاملہ زیادہ باعث فکر ہوجا تا ہے ۔ اس مسئلہ کو مذہب اور سیاست سے تھوڑا اٹھ کر کسی اور زاوئے سے دیکھنا ہو گا ۔ عدالت عظمی سے دئے گئے فیصلہ اور صدر جمہوریہ کے سامنے رحم کی عرضی مسترد ہونے کے بعد پھانسی تو ہو گئی ۔ یعقوب میمن کی جانب سے عدالت میں بحث کرنے والا وکیل کیس ہار گیا لیکن اس کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک تو یہ بات ہو رہی تھی کہ یعقوب میمن کے مجرم ہو نے اور اسے سزائے موت دینے کے معاملے سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ اگر اس نے جانیں لی ہیں تو اسے اس کی سزا ملنی ہی چا ہئے ۔عدالت عظمی کے سابق جج مارکنڈ ے کاٹجونے ایک بڑا بیان دیا جس نے ایک نئی بحث کا آغاز کردیاہے جس پر اہل علم و دانش غور کرنے پر مجبور ہیں۔ صدر جمہوریہ کی جانب سیرحم کی درخواست مستر د ہونے کے فورا بعد عدالت کے فیصلے کو لیکر کاٹجو نے کہا کہ عدالت کے پاس ایسے ٹھوس ثبوت نہیں تھے جس کی بنیاد پر یعقوب میمن کو پھانسی دی جا تی ۔یہ فیصلہ مضحکہ خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ نے کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔یہ بیانات اس لئے اہم ہیں کہ بیان دینے والے سڑک پر چلتے عام آدمی نہیں۔ انہیں قانون ،نظام اور سیاست کی خوب سمجھ ہے۔بلا تفریق مذہب و سیاست کئی اہم لوگوں نے یعقو ب میمن کی پھانسی کی سزا کو معاف کرانے کیلئے صدر جمہوریہ کو خط لکھا۔کے چندرو ، پانا چندر جین سمیت ہائی کورٹ کے 8ریٹایرڈجج ،رام جیٹھ ملانی ، شتروگھن سنہا ، منی شنکر ایر ،سمیت8اراکین پارلیمنٹ ،مہیش بھٹ ، نصیر الدین شاہ ،آنند پٹوردھن سمیت 10سے زائد فلمی دنیا کے اداکار اور فلم ساز،وکیل،پروفیسر،ڈاکٹر،بزنس مین،جرنلسٹ،سوشل اکٹویسٹ اور اسد الدین اویسی، اروند کیجریوال، ڈی راجہ ،سیتارام ییجوری،تشار گاندھی، ممتا بنرجی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے اہم ذمہ دار اس جاں بخشی کی عرضی پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس سزا کو معاف کرانے کیلئے دہل ، ممبئی گجرات اور جنوب ہند سمیت پورے ہندوستان سے لوگوں نے آواز اٹھائی ۔یہ اپنے آپ اس سزا کو کئی سوالوں کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے ۔
سزائے موت سب سے بڑی سزا ہے ۔ یہ سزا کسی ایسے بڑے جرم کے بدلے دی جا تی ہے جس کی معافی ممکن نہ ہو۔ موت کی سزا ہر آسمانی وغیر آسمانی مذہب نے جائز کی ۔وقت وحالات کے پیش نظر کچھ نظریات میں تبدیلی بھی آئی ہے ۔ ہندوستان کے دو بڑے مذہب سنا تن(ہندو) اور اسلام دونوں میں اس سزا کے ثبوت ملتے ہیں۔ ہندو دھرم کے اعتبار سے مہا بھارت کو اس مذہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے ان کے بھگوان کرشن کا سندیش لوگوں تک پہنچتا ہے۔ جب ارجن نے جنگ سے انکار کر دیا تو کرشن نے جنگ اور قتل کی وکالت کی، پھر جنگ ہو ئی ۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی واقعات ہیں۔ مذہب اسلام میں بھی سزائے موت کا تصور موجود ہے۔کسی شخص کو جان بوجھ کر بغیر کسی جرم کے قتل کرنا سزائے موت کا باعث ہے ۔ زانی اور آبرو ریزی کے مجرم کی سزا موت ہے۔ دین سے پھر جانے کی سزا موت ہے اور زمین میں فساد پھیلانے کی سزاموت ہے ۔ یہ چار اہم حالات ہیں جن میں مجرم کو سزائے موت دی جا تی ہے ۔ قصاص کی صورت میں کسی شخص کے قتل پر مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے معافی کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے بلکہ معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ۔ باقی حالات میں ایسا معاملہ نہیں ہے ۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے میں قتل کا اثر ایک ذات یا پھر ایک خاندان پر ہو تا ہے باقی میں اس کا اثر پوری قوم پر ہو تا ہے ۔ ایک معاشرہ اس کا شکارہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس جرم کا اثر انفرادی ہو اس کیلئے معافی کی گنجائش تو نکل آتی ہے لیکن جس جرم کا اثر اجتماعی ہو اس کی معافی نا ممکن ہے ۔
سزائیں اس لئے دی جا تی ہیں تاکہ اس سے جرم کی بیماری کا علاج کیا جا سکے لیکن اگر کوئی سزا جرم کا باعث بن جا ئے تو وہ سزا بھی جرم ہے ۔ یعقوب میمن کی سزا کے ساتھ بھی شاید یہی معاملہ ہے ۔ سزاؤں سے جرم کو روکا جا سکتا ہے کئی لوگوں کی جان بھی بچا ئی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک نے بھی اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص قتل نا حق کے بدلے موت کی سزا طلب کرنا ہے تو اس موت سے ہزاروں قتل کا ارادہ رکھنے والے لوگ خوف کی وجہ سے قتل کا ارادہ ترک کر دیں گے۔ تو خود بھی بچیں گے اور جن کے قتل کا ارادہ تھا ان کی جا نیں بھی محفوظ ہو جا ئیں گی ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ تحقیق و تفتیش کی سیکڑوں ائجنسیاں ہونے کے باوجود مجرم کی شناخت نہیں ہو پاتی۔پولس کی اتنی بڑی تعداد اور اس کیلئے تمام سہولیات مہیا ہونے کے باوجود مجرم ہماری گرفت سے آزاد کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ اس سے جرم کوشہ ملتی ہے۔ مجرم کو حوصلہ ملتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی طاقت بڑھتی جا تی ہے اور ہمارا نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں جا تا جب کسی عورت کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ اس کی عصمت لٹتی ہے۔ ہمارا قانون سزا دینا تو چاہتا ہے مگر دے نہیں پاتا۔یعقوب میمن کی پھانسی کے بعدآوازیں اس لئے نہیں اٹھی ہیں کہ وہ بے گناہ تھا۔ اپنے خلاف سارے ثبوب تو خود اسی نے مہیا کرا ئے تھے۔ ممبئی کے مسلسل تیرہ بم دھماکوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے ثبوت بائیس سال پہلے وہ خود لے کر پاکستان سے آیاتھا اورثبوتوں کے ساتھ خود سپردگی کی تھی ۔یہ ایک مزید حیران کن بات ہے کہ ایک مجرم خود واردات کے ثبوت دیتا ہے ۔ظاہر ہے اس کیلئے اسے مائل کیا گیا۔ خود تحقیقات سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے اس عمل کیلئے inducement بہلانے پھسلانے کا استعمال کیا ہے ۔
انصاف پسند ہندوستانی برادری کی ناراضگی اس واسطے ہے کہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی ۔ اس نے حکومت، قانون اور عدلیہ کی مدد کی ۔تحقیقات و تفتیش کو تکمیل تک پہنچانے کے اسباب مہیا کئے ۔اگر اسٹیٹ یا ایجنسی نے اس سے سزا میں نرمی برتنے کا وعدہ کیا تھا تو وعدہ پورا ہونا چاہئے تھا۔ بدیہی لگتا ہے کہ میمن نے اپنا مقدمہ اس بنیاد پر بائیس سال کی قید و بند کی زندگی میں بھی مضبوطی سے نہیں لڑا اور نہ ہی کسی نے اس کی رہا ئی کی اپیل کی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کے ساتھ نرمی برتی جا ئے گی ۔اس نے سارا وقت اسی امید میں گزار دیا کہ ایجنسی اس کی سزا کم کرا دیگی یا کم سے کم سزا میں نرمی برتی جائے گی۔ سی بی آئی کے سابق چیف اور را کے سابق چیف نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس کو بہلایا گیا تھا ۔ اس نے اپنی جان پر کھیل کر آڈیو ویڈیو ثبوت فراہم کئے جن کی بدولت اس بات ثابت ہو سکی کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ تھا۔
مدعا یہ نہیں کہ یعقوب میمن گنہ گار تھا یا بے قصور ۔ مدعا یہ ہے کہ اس سزا میں عجلت کے مظاہرہ کیلئے قانونی ضابطوں کو توڑا گیا ۔کسی کو یہ حق کہا ں سے حاصل ہو گیا کہ وہ قانون شکنی کرنے پر آمادہ ہو جائے ۔اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سزا کیا ہے اور وہ کون دے گا؟سوال اور بھی ہیں۔یعقوب میمن کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اس نے اپنے خود سپرد ی کی تھی ۔عدالت سے پھانسی دلانے میں ایجنسی نے عجلت سے کام لیا ۔ اس عجلت میں اصولوں اور ضابطوں کو بڑی بے باکی سے توڑا گیا ۔ بلا تفریق مذہب و ملت ہر میدان فکر و عمل سے پورے ہندوستان بھر سے معافی کی آواز اٹھائی گئی ۔ اسے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے غداری سے جوڑ دیا ۔صدر جمہوریہ کے پاس سے عرضی رحم کے مسترد ہونے کے بعد مجرم کو چودہ ۱۴ دن کی قانونی مہلت ملتی ہے ۔ اس قانون کی لا پروائی سے دھجیاں اڑائی گئیں۔بائیس سال(عمر قید کے برابر یا اس سے زیادہ) کی سزا قیدکاٹ لینے کے بعد پھر پھانسی دی گئی ۔کیوں؟افضل گرو کو پھانسی د ے کر تب کی حکمران جماعت نے اپنی سیاسی کمزوری کا ثبوت دیا تھا تو یعقوب میمن کو پھانسی دیکر موجودہ حکومت اپنا ہندوتوا متعصب اور فرقہ پرست چہرہ سخت ہوتا دکھانا چاہتی ہے ۔یہ سراسر سیاسی دہشت گردی ہے ۔راجیو گاندی کے قاتل اب تک زندہ ہیں۔ بے انت سنگھ کے قاتل سانسیں لے رہے ہیں۔انہیں سزا کب ملے گی؟کیا حکومت پھانسی کی سزا دے کر ہندوستان کے تمام پشیمان مجرموں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کی ایجنسی کے ساتھ عدلیہ پر بھی اجارہ داری ممکن ہے ۔
عدالت نے یعقوب میمن کو مجرم قرار دیا، سب نے اسے مجرم تسلیم کر لیا۔بائیس سال تک سلاخوں کے پیچھے رہا ۔کسی نے کبھی اس کی رہائی کی اپیل نہیں کی۔جرم کسی مذہب قوم یا ذات برادری کی خصوصیت نہیں ۔ کسی سے بھی ہوسکتا ہے ۔ مجرم کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ جرم ایک بیماری ہے ۔ بیماری نام ، مذہب یا ذات پوچھ کر نہیں آتی۔ جرم کسی اقلیت یا اکثریت کا بھی خاصہ نہیں۔ اسی طرح سزا بھی کسی قوم ، مذہب یا ذات ، اقلیت یا اکثریت کے ساتھ خاص نہیں کہ جرم اقلیت کرے اور اس کی سزا اکثریت کو ملے یا اکثریت طبقہ کا جرم اس کا حق ہے ۔ اقلیت طبقہ کی سزا اس کا حق ہے۔جب جرم کسی کے ساتھ نہیں تو سزا کسی کے ساتھ خاص کرنا بڑا جرم ہے ۔انصاف پسندوں اور جمہوریت نوازوں کوتکلیف اور احتجاج تو صرف اس بات پرہے کہ ہندوستان کا عدل کا نظام کسی بھی طرح کے تعصب کی نذر نہ ہو پا ئے کیونکہ مجرم صرف مجرم ہو تا ہے ۔ نہ ہندو نہ مسلمان ،نہ ہی کسی ذات اور برادری کا ۔ ۔یہی وجہ ہے کہ مجرم وہ بھی ہیں جنہوں نے ہندوستانی قانون اور عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی، نظام عدل و انصاف کے تقدس کو پامال کرنے کیا،اس کی صداقت اور بھروسے کو توڑا ۔قانون کے نام پر جھوٹا وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کر کے پوری دنیا و خاص طور سے جرم کی دنیا میں بسنے والوں کو یہ پیغام دے دیا کہ پھر سے ہمارے جھانسے میں مت آنا ،ہماری مدد کرنے کی غلطی نہ کرنا ۔ مجرم ہو ایک بار جرم کر لیا ہے تو اب جرم کرتے رہو ۔ سدھرنے یا پشیمان ہونے یا قومی دھارے میں لوٹ کر آنے کیلئے خود سپردگی کی کو شش کروگے تو تختہ دار پر لٹکا دئے جا ؤ گے ۔احتجاج اس بات پر ہے کہ گجرات فسادات کو گودھرا کا ری ایکشن کہہ کر ممبئی بلاسٹ کو بابری مسجد کی شہادت کا تاثر نہ بننے دیا جائے ۔ایک ری ایکشن پر سزائے مو ت تو دوسرے پر رتبہ اور عہدہ کا انعام ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ ہندوستان کی روایت کے خلاف ہے ۔ اسکے آئین کے تقدس کے خلاف ہے ۔
سزا ایک علاج ہے ۔ لیکن افسوس آج سزا خود بیمار ہو تی جا رہی ہے ۔ جب عدل وانصاف پر کسی کی ذاتی سرمایہ داری ہونے لگتی ہے تو فیصلے متعصب ہو جا تے ہیں ۔ سزا ومعافی کو نفع ونقصان کے ترازو میں تولا جا تا ہے ۔ یہ ہماری سیاست کی ناکامی ہے یا عدلیہ کی مجبوری ،عوام کا بھروسہ بہر حال ٹوٹ رہا ہے اور جس ملک کے باشندے اس ملک میں نافذ عدل وانصاف پر اعتماد کھو دیتے ہیں تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہو نے لگتا ہے ۔۱۹۹۳میں یہ خوفناک دھماکے ہوئے جن کی ہولناکی کا احساس اب تک ہے ۔بیسوں سال گزر جانے کے بعد فیصلہ اپنے آپ میں ایک سوال پیدا کر دیتا ہے کہ ایک جرم کی کھوج بین، تحقیق و تفتیش میں کتنا وقت لگتا ہے ۔ ایسے میں مجرم کیلئے بھی آسانی ہو جا تی ہے ۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۹۲ تک کے گنہ گاروں کو سزا کم ملی ۔ ۱۹۹۳ کے بعد کے کسی مجرم کو سزا ملتی ہے اور کوئی کھلے عام گھوم رہا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟کہیں یہ سیاست اور قانون کے ساتھ عدلیہ کو بھی مذہبی تعصب کا شکار بنانے کی کوشش تو نہیں ۔اب تو اکثر مظلوم اس دنیا سے بھی جا چکے اور بہت سے مجرم بھی گذر گئے لیکن ایک سوال چھوڑ کر گئے کہ ہمیں انصاف کب ملے گا۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو سزا کب ملے گی ؟۔
دوسروں کے علاوہ سابق یونین منسٹر ششی تھرور،ورون گاندھی اور کنی موزی سمیت کئی اہم افراد نے پھانسی کی سزا کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ شسی تھرور کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا کو مطلقاََ بند کر دینا چاہئے خواہ مجر م دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو۔ اسے آخری سانس تک سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔
ٌٌ*****Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com


No comments:
Post a Comment