Friday, December 4, 2015

یہ دنیا اگر مل بھی جاے تو کیا ہے यह दुनिया अगर मिल भी जाये तो क्या है. Then what if we get the world ?


यह दुनिया अगर मिल भी जाये तो क्या है. 
عبد المعید ازہری

معاش طلبی بھی ایک آزمائش ہے۔ جس میں انسان کبھی کامیاب ہوتا ہے۔ کبھی اسے ناکامیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔تمام مخلوقات کیلئے رزق کے اسباب مہیا کرنے والے نے ذرائع تو بنا دئے ہیں لیکن اس کی تلاش و جستجو خود انسان کی محنت و کاوش پر منحصر کر رکھا ہے ۔ اسی بنیاد پر توفیق میں کمی و زیادتی کے امکانات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔یہ اسی کا نظام ہے کہ معذوروں کیلئے رزق کاانتظام غیب سے کردیا ہے ۔صحیح سالم و صحت مند انسان یامخلوقات کیلئے ان کی محنت کو ذریعہ بنا کر یہ بات واضح کر دی کہ اگر چہ رزق سب کا متعین ہے لیکن اس کے لیے محنت ضروری ہے ۔تلاش رزق انسان کے اندر حیر ت انگریز تبدیلیا پیدا کرتا ہے۔اس دوران اسے قسم قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔ اپنائیت اور غیریت کے رشتوں کا قریب سے احساس ہوتا ہے ۔رشتوں کی اہمیت اور افادیت بھی معلوم ہوتی ہے ۔ضرورت پڑنے پر کام آنے والے غیر اور بے ضرورت اپنوں کی بھیڑ ہم پر ایک گہرا اثر چھوڑتی ہے ۔ وہیں قریبی رشتوں کی قربانیاں لاکھ جھگڑوں کے باوجود یہ احساس دلاتی ہیں کہ خون آخر خون ہوتاہے۔تلاش رزق کے ساتھ اگر توکل ہے تو رزق کا حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس میں سکون بھی نصیب ہوتا ہے ورنہ تمام تر اسباب موجود ہونے کے باوجود ایک طرح کی بے چینی گھر کئے ہوتی ہے۔ایسی صورت میں مال و دولت ، خون اور اولاد فتنہ کے باعث اور سبب بن جاتے ہیں۔ شاید اسی بات کا اشارہ قرآن پاک میں دیا گیا ہے ۔’’بے شک مال اور اولاد فتنہ ہے‘‘(القرآن)۔
والدین کی توانا زندگی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں صرف ہوجاتی ہے۔وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کے تصور میں یہی اولاد ان کیلئے آخری دنیاوی ذریعہ اور بڑھاپے کا سہارا ہوتے ہیں۔ورنہ وہ اپنی ساری توانائی اور کمائی اولاد پر ہی صرف نہ کرتے بلکہ اس میں سے کچھ سہارے پر موقوف بڑھاپے کی زندگی کے لئے بھی استعمال کرتے۔یہ محنت اور قربانی اولاد سے چھپی نہیں رہتی ۔ اسے اس با ت کا خوب احساس رہتا ہے ۔ وہ بھی جب اپنے پیروں پر کھڑاہوتا ہے تو وہی اقدامات کرتا ہے جو اس کے والدین نے کئے ہوتے ہیں۔اس کے سامنے بھی اولاد کی تعلیم و تربیت کا معاملہ در پیش ہوتا ہے۔ یہ تعلیم اسے اپنے والدین ہی سے ملتی ہے۔
آج کی اس ترقی یافتہ زندگی میں تلاش رزق کیلئے ہجرت تقریبا لازمی ہوگئی ہے ۔یہ دور حاضر کی ترقی اور تکنیک کی خوش نصیبی ہے کہ عقل کے استعمال نے محنت کم کر دیا ہے۔ قدیم زمانے کی ستم ظریفی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا جب کھیتوں میں مٹی توڑتے وقت ہاتھوں کے چھالے شام کو کھانے کے نوالے سے جلتے تھے۔اب ان چھولوں سے نجات مل چکی ہے ۔ لیکن ایسی نجات کا تصور شاید کسی نے کیا نہیں تھا ۔ کھیتی کسانی بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے ۔جس کی وجہ سے ہم معاشی بحران کاشکار ہوتے جا رہے ہیں۔ہماری آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے ۔ رزق کے ذرائع گھٹے جا رہے ہیں۔ بظاہر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی کمپنی یا فیکٹری میں کام کرکے کھیتی کے مقابلے زیادہ پیسہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ درست ہے ۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کوئی بھی شخص یا کمپنی کسی شخص کو اگر دس ہزار روپیہ دیتی ہے تو اس کے ذریعہ پندرہ سے بیس ہزار حاصل کرنے کے بعد ہی دیتی ہے ۔
کسانوں نے جب سے کھیت چھوڑ دیا ہماری معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ آبادی بڑھنے کے بعد بنجر زمین کو کھیتی کے لائق بنانے کی بجائے اس میں پکی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔جنگلات کی حفاظت کی جگہ انہیں ختم کیا جارہاہے ۔ فطرت کے ساتھ کھلی بٖغاوت کی جارہی ہے ۔ فطرت کی قدرت ہمیں بار بار آگاہ کرتی ہے ۔ نیپال کے زلزلوں سے لیکر اتراکھنڈ اور کشمیر کے سیلاب ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ اگر فطرت نے زمین پر کسی چیز کو باقی رکھا ہے تو اس میں کوئی حکمت مخفی ہے ۔ اس کے فوائد تلاش کرو نہ کہ اسے ختم کرنا شروع کردو۔
تلاش رزق میں ہجر ت نے گھریلو زندگی اور رشتوں کو کافی متاثر کیاہے ۔ایک طرف زندگی کے آخری پڑاؤ میں والدین اپنے بچوں کے سہارے سے محروم ہوتے ہیں تو وہیں دوسری طرف خود باہر رہنے والے لوگ بھی اپنے بچوں سے دور ہوتے ہیں۔ایک عجیب سی نا گفتہ ،ناشنیدہ اور نا فہمیدہ سی کیفیت ہوتی ہے ۔ کوئی کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتا۔کہنے کیلئے ہزاروں باتیں ہوتی ہیں۔لب کھلنے سے کتراتے ہیں ۔ من ہی من میں ایک گھٹن سی ہوتی ہے ۔ سارے اہل خانہ اسی میں جیتے ہیں۔ ایک دن اسی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں۔نہ اسباب و ذرائع کا پتہ لگا یا جاتا ہے ۔ نہ اس کے سد باب کیلئے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ۔ نہ اس کے حل کے لئے غور خوض کیا جاتا ہے ۔ سبھی لوگ ایک بے نس ، لاچار اور مجبور زندگی جئے جاتے ہیں۔جب کبھی سکوت کا یہ جمود ٹوٹتا ہے سمندر کی خاموش لہروں میں طغیانی موجیں نمودار ہوتی ہیں جو اپنی رفتار میں کئی رشتوں کو بہا لے جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ طوفانی موج سے قبل اسے روکنے کا انتظام کر لیا جائے ۔
انسان کی فطرت ہے وہ رشتوں کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا۔رشتے ہموار ہوں تو زندگی بڑی حسین لگتی ہے ۔ اگر انہیں رشتوں میں سوگواری آ جائے تو زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔ہر سر سبز و شادابی قربانی کا تقاضہ کرتی ہے ۔ بہار کی ہریالی کے پیچھے ایک ویرانہ اور پتجھڑ ہوتا ہے ۔صبح کا اجالا رات کی تاریکی سے نمودار ہوتاہے ۔انسانی رشتوں میں بڑی نزاکتیں ہوتی ہے ۔ انہیں نزاکتوں کی بنیاد پر ہی تو یہ رشتے بڑے لطف اندوز ہوتے ہیں۔انسان سب سے زیادہ تنہائی سے گھبراتا ہے ۔تنہائی انسان کی زندگی میں کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔جب تک انسان زندہ ہے رشتے زندہ ہوتے ہیں رشتوں کی زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو تنہائی کا شکار ہونے نہیں دیتی ۔نتہائی دور کرنے کے طریقے اور انداز جدا گانا ہوسکتے ہیں ۔ بعض اوقات تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن تنہا و اکیلا نہیں چھوڑتے ۔ اگر انسا ن تنہائی محسوس کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ رشتے زندگی سے ختم ہورہے ہیں۔
ایک گھر کی کیفیت بڑی عجیب ہے جو شاید گھر گھر کی ہوسکتی ہے ۔بڑھاپے کی جانب بڑھتے والدین زندگی کے آخری سفرمیں ہیں۔ یہ زندگی انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں گزار دی ۔اب جبکہ کہ سارے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے ہیں پھر بھی ان کی فکر ختم نہیں ہوئی ۔سب کی اچھے سے پرورش کی ۔ شادیاں بھی کردی ۔اب مزید محنت کی ہمت اور طاقت باقی نہ رہی۔جوانی تدریجا عیش، ذمہ داری اور سخت محنت میں گزاری ۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں بیماریوں کا گھیر لینا فطری ہے ۔بچوں کو والدین کی محنت کا سخت احساس ہے ۔ چونکہ عمر کا ایک حصہ تعلیم میں گزر چکاہے اسلئے کھیت کی محنت ان کے بس کی نہیں ۔کچھ تعلیم کے لئے ہمیشہ باہر رہے تو گاؤں میں رہنا ان کے لئے بھی ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ تلاش رزق میں ہجرت نے ان بچوں کو بھی آ گھیرا۔اب ہر بچے کو اس بات کا احساس ہے کہ ہمیں کچھ کرنا چاہئے ۔ بچے ہجرت میں والدین کے لئے آرام تلاش کر رہے ہیں ۔ والدین بچوں کی خوشی کیلئے انہیں گھر میں طلب نہیں کر رہے ہیں۔والدین روز حال خیریت کیلئے فون کرتے ہیں ۔ ہر بار وہ کہنا چاہتے ہیں کہ واپس آجاؤ ۔ ایک انجانے ڈر کی وجہ سے وہ خامو ش رہتے ہیں۔والدین فون رکھنے کے بعد کہتے ہونگے ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ‘ ان بچوں کے بچون کے بچے بھی یہی کہتے ہیں ۔ پردیس میں رہنے اور کمانے والے بچے بھی یہی دہراتے ہو نگے ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ‘۔بچوں کو والدین کی اس تنہائی کا احساس تو ہے لیکن ان کے خود کے بچے اب گاؤ ں کے عادی نہ رہے ان کی تعلیم کا تربیت کا سلسلہ وہیں شروع ہو گیا ۔ گاؤ تو چھٹیوں میں گھومنے کیلئے ایک جگہ بن گیا۔والدین بھی پچاس سے ساٹھ سال کی گاؤں کی زندگی گزارنے کے بعد شہر کے متمنی نہ ہوئے ۔ان کی کمزوری ان کی بیماری نہیں گھر کا ننہے بچوں کی چیخ و پکار سے خالی ہونا ہے ۔کوئی تو راستہ ہوگا جو رشتوں کی اس ویرانی کو بہاروں کی خوش خبری دے ۔
ایسا کیوں ہوتاہے کہ ہر والد کی زندگی سکون سے خالی ہوجاتی ہے ۔ نصف زندگی بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اسباب و ذرائع پیدا کرنے کی بے چینی اور آدھی اپنے سہارے کی جستجو کی بیچینی۔پیدا کرنے والے اس خالق کائنات نے ہمیں یوں ہی بے چین و بے سکون نہ چھوڑا ہوگا۔ ان مشکلات کا حل ضرور ہوگا ۔شاید وہ توکل ہم کھو چکے ہیں جو سکون و اطمنان کی ضمانت لیتا ہے ۔غور کریں کہ غور و فکر انسان اور مومن کی خصوصیت ہے ۔
ٌٌٌٌٌ*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com



@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment