Wednesday, December 30, 2015

The light should continue یہ چراغ ہے تو جلا رہے

یہ چراغ ہے تو جلا رہے

یہ چراغ ہے تو جلا رہے
عبد المعید ازہری 
اکثر فلموں میں دکھا یا جا تا ہے کہ کہ کوئی تنہا پولیس افسر یا رٹائیرڈ فوجی اکیلے سماج کو بدلنے کی ٹھان لیتا ہے ۔ ایک دھن سی سوار ہو جا تی ہے ۔ اسے اس بات سے قطعی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کام اس کا ہے کہ نہیں ۔ اسے لگتا ہے کہ میں زندہ ہوںاور میری زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ میں برائی نہیں دیکھ سکتا ۔ پھر اسے قیمت بھی چکا نی پڑتی ہے ۔ مالی و جسمانی دونوں اعتبار سے اسے بھگتنا پڑتا ہے ۔ اہل و عیال ،اعزا واقارب کی جانب سے بھی اسے ذہنی طور پر زد و کوب کیا جا تا ہے لیکن ایک زد اور سند ہو تی ہے ۔ اس ضد کو الگ الگ فکر وذہن کے اعتبار سے الگ الگ نام دئے جا تے ہیں ۔ضد ،سنک، جنون ،پاگل پن یا پھر عزم مسمم وغیرہ ۔ ہر آدمی اپنے ذاتی نظریے اور زاویے سے اس فکر کو دیکھتا ہے اور اسے نام دیتا ہے ۔ تمام تر مشکلات کے با وجود آخر کا راس ضدی کو کامیا بی ملتی ہے ۔ ایک بھا ری قیمت چکانے کے بعد اسے اپنے جیسے کچھ سر فرے مل جا تے ہیں جو اس کے پا گل پن کو اپنی ذمہ داری سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ اس ذمہ داری کو بھی لوگ الگ الگ نام سے جا نتے ہیں ۔ قومی ، ملی ،سماجی یا پھر مذہبی ۔ طرح طرح کے فرض سے بھی تاویل کر تے ہیں لیکن انقلاب آ تا ہے ،سماج بدلتا ہے ، مردہ ضمیروں میں ایک جان پڑتی ہے ، مایوس زندگی کی تاریکیوں میں امید کی کرن چمکتی ہے ۔ 
یہ تو فلم تھی ۔ حقیقی زندگی میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ زمینی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ سارے کام مفاد پرستی پر مبنی ہو تے ہیں ۔ تمام تر ذمہ داریوں میں پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا جا تاہے ۔ اس موقع پرست ماحول کی تربیت یافتہ دنیا میں اگر کو ئی شخص کسی جنون کے ساتھ مل جا ئے اسے دنیا پاگل کہتی ہے ۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ فلموں کے ان کرداروں کو بھی پہلے سب نے پاگل ہی کہا تھا اور ان کرداروں کو سنیما گھروں کے ذریعہ منظر عام پر اس لئے لا یا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعہ پیسہ کمایا جا سکے ۔ وہ بھی ایک طرح کا مفاد پرستی پر موقوف ایک کا روبار تھا ۔ آج ہمارے سماج میں ایسے کردار اس لئے نہیں مل پاتے کیو نکہ ایسے لوگوں کو دریافت کر نے سے کسی کو کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہو تا ۔ ہاں ملک و ملت کا فائدہ ہو تا ہے تو اس سے اس خود غرض سماج کو کیا لینا دینا ۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسے کچھ بے نام سے شخص ہیں جو ایک ضد اور جنون کے ساتھ زندگی جیتے ہیں ۔ بہت کچھ ہار چکے ہو تے ہیں ۔ جسم تھک کر لاغر ہو چکا ہو تا ہے ، سا نسیں کمزور ہوں ، اب وہ توانائی نہیں رہی جو اس جنون کو پوری شدت کے ساتھ محسوس کرایا جا سکے لیکن حوصلہ اب بھی قوی ، توانا اور جوان ہے بلکہ عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ جنون دل بہ دن جوان ہو تا جا رہا ہے ۔ 
سیاست سے لے کر قیادت و تجارت تک تکنیک سے لے کر تجربہ و تخلیق تک ہر شعبہ میں ایسے ضدی ہیں ۔ زندگی کو قریب سے دیکھ کر آئینے میں اتارنے والا شعبہ ادب بھی اس سے خالی نہیں ۔ پھر چاہے منظور شاعری ،نثریہ افسانہ نگاری یا جمہوریت کا چو تھا ستون صحافت ہوں ۔ ادب زندگی کا ایک بہت وسیع شعبہ ہے ۔ الگ الگ زبانیں ، الگ تہذیب اور روایتیں ہیں ۔ اردو ادب بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ دور حاضر میں اردو زبان کے تئیں بڑے احتجاج اور مظاہرے پیش کر کے اس زبان کی بطور حفاظت کی لڑائی لڑی جا رہی ہے ۔ ایک عجیب سا معرکہ ہے جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ۔ اس احتجاج کے ذریعہ کبھی یہ بتا نے کی کو کشش کی جا تی ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے پھر دوسرا بیان ہو تا ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان ہے ۔ یہی بات بتانے کے لئے ہزاروں سیمینار ،اجلاس ،نشست ،مشاعرے اور محفلوں کا انعقاد ہو تا ہے ۔ان تمام اہتمامات کے ذریعہ یہ بتا نے کی کوشش کی جا تی ہے کہ اردو کا استحصال ہو رہا ہے اور اس زبان کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ روزانہ اردو اخبارات اس خبر کے ساتھ بازار میں گشت کر تے ہیں ۔ ایک عجیب سا شور ہے کہ اردو ختم ہو رہی ہے اور مسلمانوں سے ان کا حق چھینا جا رہا ہے ۔ اردو زبان کی لڑائی مسلمانوں کے حقوق تک کیسے پہنچی اور اس کی لڑائی ایسے لوگوں کے ذریعے جن کا خود اردو سے یا اسلام سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ۔ سمجھ سے پرے ہے ۔ ایسے ماحول میں ایک ایسا شخص ہے جو اپنی عمر کے تیس سال اردو صحافت میں گذار چکا ہے ، سینکڑوں سیاسی و سماجی مضامین لکھے ہیں ۔وقت کی نبض کو اپنے ہاتھوں میں لے کر زمانے کی رفتا ر میں اس نے اپنا قلم رکھا ہے ۔اس قلم کی سیا ہی کا رنگ آج بھی اتنا گہرا ہے جو پینتیس بر س پہلے تھا ۔ اس کے ہم عصر کے علاوہ معاصرین اساتذہ میں بھی اس کے قلمی جو ہر کا ایسا رعب ہے کہ اس کی تحریر میں کلام کرنے سے لوگ کترا تے ہیں ۔ اس کی جرات اور بے باکی سے لو گ اکثر مرعوب ہو تے ہیں ۔ شاعری میں ایسی دسترس مہارت ہے کہ اوصاف سخن کی ادنیٰ سی گستاخی اس پر بار گراں گذرتی ہے اور اس کلام کی سماعت کسی نشتر کی ما نند اس کو چبھتی ہے ۔ افسانہ نگار ی میں بھی اس کا ثانی نہیں ۔نظم و نثر دونوں میں اس کے شاہکار موجود ہیں ۔ بڑے بڑے ادیب زانوئے تلمذ طے کر تے ہیں ۔ ہم عصر میں بے جوڑ اور عصر حاضر میں یکتا ادیب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ دوران تحریر مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کی کہیں میں ضرورت سے زیادہ قصیدہ خوانی تو نہیں کر رہا لیکن جب اس کی زندگی کے چند اوراق کو پلٹ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ مجھ جیسے شخٰص کی قلم کی رسائی حقِ بیان ادا کرنے سے قاصر ہے ۔پھر بھی کو شش اس لئے کی ہے کہ شاید قلم کی سیا ہی میں دل کی کیفیت کا نقص اور عکس نظر آ جا ئے ۔ آج کی صحافت میں وہ جرات اور بے باکی نہ رہی جو مولوی محمد باقر کی ۶۷ کاپیوں میں تھی جس نے ۶۷ برطانوی اخباروں کی چولیں ایسی ہلائی کہ انگریز مولوی محمد باقر کو سزائے موت دینے پر بضد ہو گئے ۔ آج کے اس غیر آزادانہ ماحول میں بھی بے داغ سفید قمیص کے ساتھ صحافت کے پینتیس سال گذارنا اپنے آپ میں ایک کمال ہے ۔ اس کے تئیں وقت کے تاجوروں کی تیز نگاہوں کا سامنا کیا ، ان گنت زربوں کو برداشت کیا ۔ زندگی کے سوکھے اور گرمی کی شدت اور اس کی تپش کو برداشت کیا لیکن اپنی ماں سے کئے گئے وعدے سے منھ نہ پھیرا کہ حرام کی کمائی کو زندگی کا حصہ نہیں بننے دیں گے ۔ یہ جناب اپنی شاعری کی ابتدا کا واقعہ سنا تے ہیں جو بڑی عجیب اور حیرت انگیز ہے ۔ کئی مہینوں تک ان کے استاذ نے روزانہ اشعار کے کاغذات کو پھا ڑ کر ردی میں پھینک دیتے تھے ۔ اس پر ان کا تسلسل واقعی حیرت انگیر ہے ۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی کہ استاذ محترم نے کہا کہ کم سے کم ایک ہزار اشعار یاد کر کے آ ئو تب شاعری سیکھنا ۔ اس سختی میں استاذ کی تربیت حاصل کرنا کمال کی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عصر احباب محفل اور مشاعر ے میں ان کی داد کو شعر کی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔ ان کی حق گوئی اور بے با کی عالم یہ ہے کہ اکثر شعرا ء محافل میں اپنے اشعار کے لئے داد کی امید ان سے نہیں کر تے کیونکہ عیب دار کلام کو برداشت کرنا ان کی ضد سے باہر ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص ارد و کو یا تو اپنی ماں سمجھتا ہے یا اولا د کہ جس طرح اولاد ماں کو تکلیف میں دیکھ کر جذباتی ہو اٹھتا ہے اور ماں اپنی اولاد کو دیکھ کر آپا کھو دیتی ہے اسی طریقے سے یہ کلام میں ادنیٰ سی بھی خرابی کو برداشت نہیں کر پاتے ہیں ۔ وہ سخن وری میں نقص و عیب کی تکلیف سے کانپ اٹھتے ہیں ۔یہ جنگل میں جلتے ہو ئے وہ الائو ہیں جن کی روشنی میں کئیوں کو راستہ ملتا ہے ،کئیوں کو امید کا سہارا ملتا ہے لیکن جس نے بھی اسے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی وہ جل گیا ۔ اس آگ کی یہ خصوصیت رہی کہ جس نے اس آگ کی روشنی کو دل میں محسوس کیا اس کا دل روشن ہو گیا ۔ جس نے اس کی حرارت کو دل پر محسوس کیا اس کا دل جل گیا ۔ جس نے اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اس کا ہاتھ جل اٹھا ۔ مسلسل کئی برسوں سے اپنی حلال کمائی کا ایک حصہ اردو کی بوسیدہ عمارت کو تعمیر کرنے میں صرف کر رہے ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ اردو ادب کی عمارت زمیں بوس ہو چکی ہے ۔ یہ ان کا جنون ہے کہ اس کھنڈر سے شیش محل کے آثار کو سجو نے کی کو شش کر رہے ہیں ۔ یہ ان کی سنک ہی ہے کہ اپنے کئی محسن رفیق عزیز واقارب کو اردو ادب کے لئے کھو دیا ۔ان کا ما ننا ہے کہ ان کی دوستی اردو ادب کے راستے سے ہو کر گذرتی ہے جو اردو کا نہیں وہ ان کا نہیں ۔ اردو ان کی نظر میں صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب ہے ، ایک حسن ادب ہے ، ایک اعلیٰ تہذیب کے اظہار کے لئے منتخب خوبصورت الفاظ کے مجموعے کو اردو کہتے ہیں ۔ اردو ایک شائستہ زبان ہیجسے ہندوستان کا ہر مہذب انسان بولتا ہے ۔ جسے تہذیب سے محبت ہے وہ اردو کا قدردان ہے ۔ اردو کی زبانی جنگ تہذیب سے نا واقف لوگ اپنی روٹی سیکنے کے لئے لڑ رہے ہیں ۔ جب کہ ان کی ذات و صفات سے اردو کا دور کا رشتہ نہیں جو تہذیب کو زندہ نہ رکھ سکے ۔ جرات و بے باکی حفا ظت نہ کر سکے ، جو تعظیم و تکریم کی قدر نہ کر سکے وہ اردو داں یا اردو کا محافظ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اردو تہذیب و شرافت کے اعلیٰ معیار کا نام ہے ۔ اردو ایسی واحد زبان ہے جس میں گالی نہیں ہے ، جس نے دو سگی بہنوں کے الگ الگ شو ہروں کے آپسی رشتے کو ہمزلف سے تعبیر کیا ہے اور یہ اس زبان کی یکتائی ہے ۔ انسانی رشتوں کے احترام میں دنیا کی کو ئی زبان اردو کے برابر کھڑی ہو نے کے لائق نہیں ۔یہ اردو زبان کا اپنا کمال ہے جس نے ساس ، خوش دامن ،آپ اور ہمزلف جیسے الفاظ کے ذریعے اپنی تہذیب کی اعلیٰ معیاری کا ثبوت دیا ۔ بیوی یا شوہر کی ماں کو ساس کے لفظ سے تعبیر کیا ایسا ادب دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ملتا ۔ خوش دامن اپنے آپ میں ایک ادب آرا ہے ۔ ہمزلف ایسے دو شوہروں کے آپسی رشتے کا نام ہے جو دو سگی بہنوں سے منسلک ہوں ۔ یہ دونوں شوہر الگ رنگ ، الگ زبان ، الگ ملک ، الگ تہذیب ، الگ قدو قامت اور بے شمار فرق ان کے آپس میں ہونے کے باوجود اردو نے ان کے رشتے کو ہم زلف سے تعبیر کیا ۔ تہذیب و تمدن اور دوریوں کی تمام دیواروں کو منہدم کر کے اردو نے اس رشتے کے تعبیر میں اپنا ادب پارا پیش کیا ۔’آپ ‘واحد اردو زبان کی دین ہے ۔ اس کی بھی مثال کسی اور زبان میں نہیں ۔ جب ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کا معمر شخص ایک دس سال کے ننہے شہزادے سے آپ کہہ کر اس کے والدین کی خیریت دریافت کرتا ہے ۔ یہ تہذیت کسی اور زبان میں نہیں جب عمر میں بڑا اپنے چھوٹے کو آپ سے مخاطب کرتا ہے ۔ یہ اردو زبان کی تہذیب کی معراج ہیکہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ قیامت تک کے لئے ابدی اور ثرمدی ہو گیا ۔اس نعرہ کے خالق کو لوگ بھول گئے لیکن اس زبان اور اس کی کشش کو لوگ فراموش نہ کر سکے ۔
اردو سے محبت تہذیب کی محبت سے ہے ۔ انسانی رشتوں کے احترام سے ہے ۔شائستہ زندگی کی حسن ادائگی سے ہے ۔آ ج اردو کی تعمیر و ترقی کے لئے کئی وسائل و ذرائع موجود ہیں لیکن اردو ادب کا معیار گرتا جا رہا ہے ۔ اردو اکیڈمی ، قومی کاؤنسل جسیے ادارے تو قائم ہیں لیکن تہذیب کی دیوار منہدم ہو رہی ہے ۔ اس کی تعمیر نو کے لئے ضرور ت ہے ایسے ہی ایک ضدی اور جنونی شخص کیجو صحافت ، شاعری اور فسانہ نگاری تینوں شعبوں میں یکساں عبور رکھتا ہے۔ دور حاضر کے ماہرین ادب فخر سے اشہر ہاشمی سے جانتے اور مانتے ہیں۔ مجھے امید ہی نہیں یقین ہے کہ دور حاضر کے تہذیب پر چھائے نقص و عیب کے بادل اس کے عزم و استقلال سے چھٹیں گے۔ان کے جنون کو اپنی ذمہ داری سمجھنے والے چند افراد ہر کونے سے نکلیںگے ۔یہ تما م چنگاریاں آپس میں ملیں گی۔قوم ملت پر چھائی بے حسی کے جمود کو اپنی گرمی سے پھگلائیں گے ۔ بد دیانتی اور بد عنوانی کے تما م نشیمن کو جلاکر خاکستر کر دیں گے ۔اردو کی زمیں بوس عمارت کے کھنڈرات سے شیش محلوں کے آثار خوبصورتی سے یکجا کر کے ایک نئے محل کو تعمیر کریں گے۔ایک بار پھر سے شائستہ نزاکتوں سے محروم زندگی اور انسانی رشتوں کے احتران سے ناواقف روایتوں کو جلا ملے گی ۔ انسان تہذیب و ادب اور شرافت و ثقافت کے اسی پیکر کو دیکھ سکیں گے جب اپنی عمر سے بڑے لوگ بچوں کو آپ کہہ کر
پکاریں گے۔ بچے بڑوں کی اس شفقت کو زندگی میں اپنا کر کبھی کسی کی توہین نہ کرنے کا عزم کریں گے ۔ انسانی اقدار کی پاسداری ہوگی ۔
جنون کی مدھم ہوتی اس لو کو سرد نہ ہونے دو !آؤ ہر شعبہ زندگی میں ایک اشہر ہاشمی تلاش کرتے ہیں اور لو کو آئش فشاں بنا تے ہیں ۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا معاشرہ ایسی بد تہذیبی کا شکار ہوگا جس میں تما م رشتے اور ان کا احترام جل کر خاک ہو جائے گا ۔
یہ تحریر ذرا روایت سے ہٹ کر لکھی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بڑی شخصیت جب گذر جاتی ہے تب ہم اس کے بارے میں اظہار خیا ل کرتے ہیں ۔ اس کی قدر و منزلت کے چرچے ہوتے ہیں۔ آخر اس کی زندگی ہی میں ہم کیوں نہیں بتا پاتے کہ ہم تمہاری تخلیقی صلاحیتوں سے کتنا متاثر ہیں۔ یہ تحریر اسی کی ایک کوشش ہے ۔
http://baseeratonline.com/4525

No comments:

Post a Comment