Thursday, August 25, 2016

शरीअत में तबीअत की बेजा दख़ल अंदाजी شریعت میں طبیعت کی بے جا دخل اندازی

طبیعت کے بھنور میں ڈوبتی شریعت کی کشتی
عبدالمعید ازہری

شریعت کے نام پر طبیعت اور نفس پروری آج سماجی، سیاسی اور مذہبی رویہ بنتا جا رہا ہے ۔شریعت کو شرعی تقاضوں کے مطابق پڑھنے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے مذہب کو اپنے لئے استعمال کرنے ،مرضی کے مطابق تاویلات کے راستے تلاش کرنے اور اپنے موقف کومضبوطی سے ثابت کر نے کی نفس پرست روش نے امت مسلمہ کو تباہی و بربادی کے دہا نے پر لا کھڑ ا کر دیا ہے ۔’جو ہم نے پڑھا وہی شریعت ، جوہم نے کہا وہی شرعی حکم ،جو راستہ ہم نے اختیار کیا وہی صراط مستقیم‘ جیسے مزاج نے حقیقی اسلام کے صاف چہرے پر وہم و گمان اور جھوٹی من گڑھنت روایتوں کی ایسی گرد ڈال دی ہے جو صاف ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔دن بہ دن اسلام کے نام پر نئے نئے موقف اور گروہ وجود میں آرہے ہیں۔ ہر فرقہ و گروہ اپنے آپ کے قرآن و سنت کے مطابق گردان رہا ہے ۔اپنے اپنے مفروضات کو شرعی حیثیت تصور کرنے والوں کی جماعت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ وہ بیماری ہے جس میں امت کا علم و حکمت سے آراستہ و پیراستہ طبقہ گرفتار ہوتا جا رہا ہے ۔پڑھے لکھے ہونے کا دعوی کرنے والوں ہی میں یہ کیفیات ظاہر ہو رہی ہیں جو امت مسلمہ کے لئے ناسور بنتی جا رہی ہیں۔
اس انانیت نے جہاں ایک طرف مذہب کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کر دیا ہے وہیں انسان کی عقل سلیم پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیاہے ۔آج دنیا کا برے سے برا کام مذہب کی آڑ میں کیا جا رہا ہے ۔ مسجدیں عبادت و ریاضت اور نفس و روح کی پاکیزگی سے زیادہ اقتدار و سیاست کی جرح اور بحث کرنے کا مقام بنتی جا رہی ہیں۔ دور نبی میں بھی مسجد کو مجلس کیلئے استعمال کیاگیا لیکن اس دور کی پاکیزہ نفسوں نے انسان کی تعمیر و ترقی کیلئے اس پاک مقام کا انتخاب کیا تھا کہ اس جگہ انسان نیک دلی سے داخل ہوتاہے ۔نظریاتی اختلاف ہوں یا سیاسی و سماجی رسہ کشی ہر جگہ زبر دستی مذہب کو داخل کر دیا جاتا ہے ۔بڑ ی بے باکی سے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں میرا اپنا کوئی مفاد شامل نہیں ہے۔ میں تو دین کی خدمت کیلئے ایسا کر رہا ہوں۔اس کردار کش رویے کی وجہ سے دین کی آمد کا مقصد ہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ ہر شخص اپنے اعتبار سے اس کا بجا و بے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے ۔
اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جتنے بھی فرقے اور گروہ ہیں سب اپنے آپ کو اسلام کا مبلغ بتاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر موجود یہ گروہ بندیاں ایک دوسرے کے ساتھ خود مذہب اسلام کو نقصان پہنچانے کا کام کر رہی ہیں۔ہر کس و ناکس اپنے آپ کو سچا اسلام کا مبلغ بتا کر لوگوں میں اپنی دکان چلا رہا ہے ۔ان ناہلوں کی اقتدار کی ہوس سے اسلام آج خود بے بس نظر آتا ہے ۔اسلام نے جن رویوں سے منع کیا تھا آج اس کو پوری سدت کے ساتھ برتا جا رہا ہے ۔ اسلام نے انانیت کو سختی سے منع کیا جس سے کبر و غرور پیدا ہوتا ہے ۔جو انسان کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے ۔ آج اس کا عام چلن ہے۔لوگوں نے جانے انجانے میں پیغمبری کا دعویٰ کر دیا ۔ کسی کی تعظیم میں اتنا غلو کر دیا کہ اسے بنوی مدارج و صفات تک پہنچا دیا اور کسی کو اتنا ذلیل کیا کہ انسانی شرافت پر شیطانی عنصر کو فوقیت دے دی ۔ یہ سب دین کی کم علمی اور روایات کی روح سے ناواقفی کا نتیجہ ہے ۔ اسلام میں کچھ بھی عقل و خرد کے خلاف نہیں۔ ہر عبادت اور اس کی ہر روایت کسی نہ کسی حکمت سے منسوب ہیں ۔ کوئی بھی عمل اور فکر کسی حکمت سے خالی نہیں ۔ کبھی ہمیں سمجھ میں آتا ہے اور کبھی نہیں آتا ۔ جو ہمیں سمجھ نہ آئے اسے ہم یک لخت ٹھکر دیتے ہیں۔نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کی گہرائی میں جا کر حکمت کو تلاش کرتے ہیں۔ کسی سے اس کی وضاحت بھی دریافت نہیں کرتے۔ جبکہ قرآن کریم خود اعلانیہ کہتا ہے کہ کسی کا بھی علم حتمی، آخری اور یقینی نہیں ۔ ہر علم والے کے اوپر ایک اس سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ جو معلوم ہوجائے اسے برتواور مزید علم کی تلاش کرتے رہو۔ پیغمبر اسلام نے بھی فرمایا کہ ماں کی گود سے لیکر قبر تک علم حاصل کرتے رہو۔
مذہب اسلام کی خصوصیات میں ایک ’قبولیت ‘ ہے ۔ جو آج کے مسلم معاشرے سے غائب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ بالخصوص پڑھے لکھے ،رہنما اور ذمہ دار معاشرے میں اس کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے ۔ ایک مسجد سے لیکر ایک مدرسہ ، درسگاہ ، خانقاہ ،درگاہ اور ممبر رسول پرکسی دوسرے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسرے کی تنقیص و تنقید ہماری فطرت بن چکی ہے ۔اسلا می تعلیمات و ارشادات کی بنیاد پر مراتب مرتب کرنے کی بجائے ذاتی تشخص کو بنیاد بنانا ہی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، جسے بڑی بے باکی سے برتا جارہاہے ۔ہماری درسگاہیں اور اسٹیج سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ہماری تحریر و تقریر کو خود ہمارے افکارو نظریات اور اعمال و کردار غلط ثابت کرتے ہیں۔ایسا کون سا غیر انسانی عمل ہے جو آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے نہ کر رہے ہوں ۔ جو نہیں کر رہے ہیں تو کم سے کم اسے برداشت کر رہے ہیں۔اسلام کے نام پر پوری دنیا میں پھیل رہی انتہا پسندی آج خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے عذاب بن چکی ہے ۔ یہ ہماری کوتاہی ، خامشی اور نظر اندازی کا انتیجہ ہے ۔
مذہبی ٹھیکیداروں نے مذہب کو ایسے کٹگھرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے جس میں ہر قسم کے سوالات اور توہمات کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔مذہبی رہنماؤ ں کی کم علمی ، کم دور اندیشی ، حکمت و تدبر سے نا واقفی نے اسلام کو سوالوں کے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ جس بات کا علم نہیں اس میں بھی جبرا اپنی رائے ٹھوسنا ہمیشہ نقصان دہ رہا ہے۔ آج مسلم معاشرہ اس کو جھیل رہا ہے ۔جہاں ایک طرف یہ سچائی ہے کہ اسلام ایک پاک وپاکیزہ اور تمام عیوب سے منزہ مذہب ہے۔ وہیں اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس صفائی اور پاکیزگی کا علم خود مسلم رہنماؤ کو نہیں ۔اسلام کی محدود واقفیت نے مسلمانوں کے دفاعی حالت میں پہنچا دیا ہے ۔مذہبی ٹھیکیداروں نے اسلام پر ایسی اجارہ داری کر رکھی ہے جس کو کسی ادارے سے کوئی علمی سند حاصل نہ ہو اسے اسلامی جانکار ماننے سے یکسر انکار کر دیا جاتا ہے ۔ پورا ٹھیکیدار گروہ اس کے خلاف ہوجاتاہے ۔اس پر کوئی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتا ہے کہ اس نے کہا کیا ہے ۔اس اجارہ داری نے اسلام کو محدود کر دیا ۔
مذہب اسلام مکمل دین فطرت ہے ۔ کوئی بھی عبادت یاعمل فطری مفاد سے خالی و عاری نہیں۔ ہر عبادت کا مقصد خدا اور بندے کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے ۔ خالق ارض و سماں یہ کہتا ہے کہ اس آسمان اور زمین کی تخلیق میں غور کرو۔اپنے آس پاس کائنات کی آرائش میں قدرت کے کرشمے موجود ہیں۔ ہر شئی کو اپنی محدود عقل و خرد سے سمجھنے کی کوشش نے نہ صرف علم کو محدود کر دیا بلکہ توفیق کو بھی سمیٹ دیا ہے ۔ اسلام صرف قرآن و حدیث کی قانونی چارہ جوئی نہیں بلکہ مکمل نظام حیات ہے ۔ کسی بھی طرح کا کبر و غرور انسان کو توڑ دیتا ہے ۔ مذہب جو اس نقص و عیب سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے اگر اسی کے نام پر حسد و تکبر کا کاروبار ہونے لگے تو لوگ بھروسہ کس پرکریں۔ آج مسلمانوں کی اس شبیہ سے لوگ متنفر ہو رہے ہیں۔انہیں اسلام تو پسند ہے لیکن اس کی نمائندگی کرنے والے مسلمان اور مسلم رہنما پسند نہیں۔ اسلام کو خود مسلمانوں نے ہائی جیک کر لیا ہے ۔
اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی سازشیں اور چالبازیاں پہلے نہیں ہوئی ہیں۔ یہ معاملہ شروع ہی سے درپیش ہوتا آیا ہے ۔ اس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ پیغمبر اعظم کے مبارک دور سے لیکر خلفاء ، ائمہ اور ملوکی دور تک اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس کے لئے دور اندیشی اور علم و اعتماد کی اشدضرورت ہے ۔صوفیا کرام نے اپنے مجاہدے ، علم اور اعتماد کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن سے شر و فساد نے خود اپنا راستہ بدل لیا ہے ۔ کبھی کبھی اعتماد اور خدا پر بھروسہ کی ایسی مثال ملتی ہے جو یقیناًقابل رشک ہے ۔ عرب کے ریگستان میں جہاں دور دور تک پانی اور سبزہ کا نام و نشان نہیں تھا ایسے شام کو ان بزرگوں نے مٹکے کا پانی اس اعتماد پر انڈیل دیا کہ وہ رزاق ہے ۔ ہمیں رزق ضرور دیگا۔اس کی مرضی کے بنا ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ جس طرح گہرے سمندر کے بیچ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں کو رزق دیتا ہے ۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور چٹانوں کے بیچ بسنے والے جانوروں کو بھی رزق پہنچاتا ہے ۔ تو ہمیں بھی وہ رزق ضرور دیگا ۔ جس نے حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا ۔ جس نے حضرت ابراہیم ؑ کو دہکتے ہوئے آگ سے محفوظ رکھا ۔ جس نے حضڑت اسمٰعیل ؑ کو تیز چھری کی دھار سے مامون کیا وہ ہمیں رزق ضرور دیگا ۔
دین عاجزی و انکساری کی تعلیم دیتاہے ۔ بڑے بڑے خدائی کے دعویدار آج تاریخ کے صفحات سے مٹ گئے ۔ دین میں کسی کی اجارہ داری نہیں۔ جتنا علم دیا گایا اسے توفیق سمجھ کر شکر بجا لاکر خدمت خلق میں صرف کرنا چاہئے نہ ۔ مفروضات کی کشتی میں سوار ہو کر وہم و گمان کے دریا میں غوطہ زنی توفیق ختم کرتی ہے ۔ اپنے علم اور تحریر کی ریاست پر گھمنڈ اچھا نہیں ۔ دین میں دست درازی تباہی کے سوا کچھ نہین دیگا ۔دین جس انداز سے پھیلایا گیا اسی انداز میں برتنے کی ضرورت ہے ۔ پچھلے آٹھ سو سال سے غریب نوازاور دیگر صوفیا کے ذریعے پھیلائے گئے اسلام کو اسی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی تاریخ اور روایت پر حملہ کر کے اور ان کی خدمات کو مجروح کر کے ہم خود اپنی سند کو مجروح کرتے ہیں۔
صوفیا کی تاریخ و روایت سے وابستہ علماء ، ائمہ اور عوام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے اور اسے نبھانے کی ضرورت ہے ۔ آج کے دور میں تکنیکی ترقیات نے کافی آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ دین میں دست درازی کرنے والوں کی پہچان مشکل نہیں ۔ مسجد کے ممبر رسول سے لیکر عوامی جلسے کا ممبر ہر جگہ اس کی بے حرمتی کرنے ولاے لوگ موجود ہیں۔ جو مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ روایت کو نظر انداز کردے اور اچانک سے تمام امت مسلمہ کی قیادت سیادت کا ڈھونگ رچائے ایسے لوگوں کے خلاف آواز اٹھا نا اب ضروری ہو گیا ہے ۔ جس رویات اور عقیدت کو نہ ہم نے کبھی مانا اور نہ ہی کبھی ہمارے آباء و اجداد نے کبھی اس کا تذکرہ کیا اسے زبر دستی ہم پر تھوپنے والوں کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
وہ زبان جس میں محبت نہ ہو ، وہ قلم جس میں تعمیر نہ ہو ، وہ تحریر جو صرف تخریب کے لئے ہو ،وہ وفکر جو انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہو اس کو متحد ہوکر بند کیا جانا چاہے ورنہ ہماری یہ پس وپیش کی کیفیت ہمارے خود کے خرمن کو جلا دیگی ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Tuesday, August 23, 2016

बढ़ती हिंसा, Frustration और नकारात्मक सोच के लिए ज़िम्मेदार कौन ?

धरती माँ की गोद में ही हो रहा है माताओं का अपमान
नारी समाज के प्रति बढती हिंसा और नकारात्मक सोच के लिए ज़िम्मेदार कौन ?
[ अब्दुल मोइद अज़हरी ]

आज हमारा देश हताशा और निराशा के ऐसे दो राहे पर खड़ा है जिस के आगे खंदक है और पीछे खाई है। महंगाई की मार ने वैसे भी ग़रीबों के जीवन में ज़हर घोल दिया है। ऊपर से बढ़ती बेरोज़गारी एक आम आदमी के जीवन को पानी से भी सस्ता करने पर तुली हुई है। ऐसे में किसानों की आत्महत्याएं अब लोगों के लिए आम बात लगने लगी है। समाज का हर वर्ग ठगा सा लग रहा है। उसे लगता है कि रक्षक ही भक्षक बन जाएँ तो फरियाद किस से की जाये। हिंदुस्तानी समाज की मौजूदा स्थिति यही है कि “ एक दो ज़ख्म नहीं जिस्म है सारा छलनी! दर्द बेचारा परेशां है कहाँ से उठे!! कुछ दिनों पहले बुलंद शहर की हाई वे 91 पर माँ बेटी के साथ हुए सामूहिक बलात्कार की घटना ने शर्मिंदगी और बेबसी की सारी हदों को तोड़ दी। बाप बेटे को बांध कर सामूहिक बलात्कार और उस के बाद लूटपात उन मुजरिमों की हिम्मत और निडरता को ऐसे दर्शाती है मानों उन्हें लगता है कि इस देश में मुजरिमों के साथ कुछ होने वाला नहीं है। सामूहिक बलात्कार, हत्या और लूट पात का यह हादसा पहला और नया नहीं है। इस से पहले भी दिल दहलाने वाले हादसे हो चुके हैं। भारत के इतिहास में होने वाले कुछ यादगार धरनों में से एक धरना राजधानी दिल्ली में निर्भय हत्या और बलात्कार मामले में हुआ था। उस के बाद बहुत कुछ हुआ। लेकिन सोच और व्यवस्था नहीं बदली। औरत कल भी बे बस थी और आज तक बे बस है। एक वक़्त था जब सती प्रथा की परंपरा में औरतों का शोषण होता था। उसे बंद किया गया। कन्या भ्रूण हत्या की नैतिक परम्परा शुरू की गयी। उस में बदलाव आया तो दहेज़ हत्या और बलात्कार के रास्ते खुलते चले गए। परम्पराएँ बदलीं। न सोच बदली और न ही व्यवस्था। औरत के एक रूप को पूजने के बाद उसी रूप का बलात्कार एक ऐसी मानसिकता है जो सब कुछ ख़त्म कर देती है। बेटी बचाओ बेटी पढ़ो जैस सैकड़ो स्कीमें भारत की बेटियों को बचाने में नाकाम हैं। बेटियों के साथ ऐसी बर्बरता और दुर्व्यवहार करने वाले कैसे भूल जाते हैं जब खुद उनके घर में बहु और बेटी होती है। बहु बेटियों के साथ ऐसा सुलूक करने वाले सुन्दर बहु का सपना कैसे देख सकते हैं। आंकड़े के मुताबिक १०% केस ही पुलिस और अदालतों तक पहुच पाते हैं उस के बावजूद सिर्फ 2013 की एक रिपोर्ट के अनुसार लगभग 33700 बलात्कार के केस दर्ज किये गए। प्रत्येक दिन लगभग 93 बलात्कार की घटनाएँ होती है। हर आधे गहनते में भारत की बेटी का बलत्कार होता है। 2014 में मध्य प्रदेश में रोज़ाना 13 केस बलात्कार के दर्ज किये गए। नेशनल क्राइम रिकॉर्ड ब्यूरो के अनुसार 2013 में 4335 रेप केस मध्य प्रदेश में दर्ज किया गए। जो उस वर्ष का सब से बड़ा रिकॉर्ड था। 3063 महाराष्ट्र और 3285 राजस्थान के बाद 3050 उत्तर प्रदेश चौथे नंबर पर था। अपहरण के 9,737 और दहेज़ हत्या के 2,335 केसों के साथ उत्तर प्रदेश अपराध के शीर्ष पर था। मई 2014 में बदायूं जिला के कतरा गावं में दो लड़कियों के साथ सामूहिक बलात्कार के बाद उनकी हत्या के हादसे ने दिल दहला दिया था। बलात्कार की संख्या और उनका प्रतिशत प्रति दिन बढ़ता जा रहा है। हर सांप्रदायिक दंगों में दंगाइयों को बहु बेटिओं की इज्ज़त इनाम में दे दी जाती है। 1947 की जंगे आज़ादी के बाद बटवारे के समय कई हज़ार बेटिओं को हवास का निशाना बनाया गया। 2002 को भारत की बेटिओं के आंसुओं ने भारत माता के दिल को चीर कर रख दिया। मुज़फ्फर नगर के दंगों में भी यही बेटियां जलीं तपी और तारतार हुयीं। यह कौन सी मर्दान्गी है जो हमेशा औरतों पर दिखाई जाती है। राजनैतिक समर्थन और विरोध की में भड़के सांप्रदायिक दंगों की आग में बेक़सूर औरतें जलती हैं
यह वो आंकडे हैं जिन की शिकायत दर्ज की गयी है। आधे से ज्यादा तो थाने तक पहुँच ही नहीं पाते। उस के बाद आधे ऐसे होते हैं जिन की शिकायत ही दर्ज नहीं हो पाती है। जिन की फरियाद थाने तक पहुँचती है उन में से आधे ही अदालत तक पहुँचते हैं। एक दुखद वास्तविकता से पूरा भारत इंकार नहीं कर सकता कि कितने लोगों को सज़ा होती है या अब तक हुई है।
बलात्कार के मामले में एक रिपोर्ट यह भी है कि बलात्कार और छेड़खानी से पीड़ित महिलाओं में से ज़्यादा संख्या गरीब और दलित महिलाओं की है। उस से भी ज्यादा दुखद यह है कि 90% से ज्यादा बलात्कारी पीड़ित के जानने वाले होते हैं।बलात्कार से पीड़ित एक साल की बच्ची से लेकर 70 वर्ष की व्रधा तक होती है। शहर से लेकर गावं तक हर जगह यह विष फैला हुआ है जो भारतीय समाज के दामन को रोज़ दागदार करता है। महिला शशक्तिकरण, महिला विकाश और महिला अधिकार की सैकड़ों योजनाओं और उन पर गर्म राजनीति के बावजूद इस महिला समाज का उद्धार संभव होता नज़र नहीं आ रहा है। इस महिला वर्ग का शोषण हर वर्ग ने किया है। राजनैतिक, व्यवसायिक यहाँ तक की धार्मिक दुकानों पर भी इस महिला की इज्ज़त को बेंचा गया। हर रिश्ता शर्मसार हुआ है। माँ बेटे, बाप बेटी और भाई बहन के पाक रिश्तों को भी सरे बाज़ार तारतार किया गया। किस से फरियाद की जाये और किस की शिकायत की जाये।
आँखों पर मजबूरी और बे बसी की पट्टी बांधकर हमारी सरकारें बूढी माओं, जवान बहु बेटिओं और मासूम बच्चियों को सिसकती और बिलकती आहें न सुन सकीं। महिला अधिकार पर भाषण देने वालों की भी ऑंखें 2,3 और 5 साल की मासूम बच्चियों तक नहीं पहुँचीं और न ही उन्हें 50,60 और 70 साल की माओं के हवा में उड़ते आंचल नज़र आये। आखिर भारत की यह बहु बेटियां कब तक अपनी जान माल और इज्ज़त आबरू को लुटाती रहेंगी? और सरकारी बेबसी और मजबूरी की बदौलत सीना चौड़ा कर के ये भेडिये और दरिन्दे कब तक भारत माता के आंचल पर हाथ डालते रहेंगे? इन के अच्छे दिन कब आएंगे और सब के साथ इन का विकास कब होगा? 56 इंच के चौड़े सीने तक क्या इन की फरियाद पहुँच पायेगी? पूरा सरकारी तंत्र और कानून व्यवस्था महिलाओं को उनका अधिकार दिलाने और न्याय दिलाने में विफल नज़र आता है। ऐसा लगता है की यह पूरा तंत्र और व्यवस्था माफियाओं के हाथ की कठपुतली बन कर रह गया है।
सरकार के साथ इस समाज को क्या कहा जाये। आखिर यह जुर्म पलता तो इसी समाज में है। यह एक मानसिक बीमारी है। समाज के पास इस का इलाज रहा है। इतनी बेबसी और मजबूरी पहले नहीं थी।
इस पुरुष प्रधान समाज में औरतों की स्थिति जानवरों की भांति हो गयी है। महिलाओं को अपने अधीन रखने की सोच और मानसिकता औरतों के विरुद्ध बढ़ते अपराध का मुख्य कारण हैं। भारतीय संस्कृति जहाँ एक तरफ माँ के अलग अलग रूप की पूजा और अर्चना करती है। लक्ष्मी, सरस्वती और दुर्गा समेत कई देवियाँ हैं जिन्हें पूजा जाता है। गाय के साथ इस धरती को भी माता कह कर सम्मान दिया जाता है। बड़े गर्व से भारतीय अपनी मात्र भूमि को भारत माता कह कर गौरव महसूस करता है। वहीँ दूसरी तरफ माताओं का चीर हरण भी होता है। दूसरों के आँचल में हाथ डाल कर अपनी सीता को अग्नि परीक्षा के लिए मजबूर किया जाता है। इस दोगले चरित्र ने माता शब्द को भी अपमानित कर दिया है।
सरकारी तंत्र की विफलता के साथ सामाजिक प्रकिर्या भी असहाय नज़र आ रही है। हमारा समाज भी इस अपराध को झेलने लगा है। उसकी ख़ामोशी समर्थन का कम कर रही है। हर दर्द का इलाज समाज के पास होता है। पीड़ित महिलाओं और लड़कियों की हर आस टूट जाती है। हर लम्हा और हर वक़्त उन्हें एक लड़ाई लड़नी पड़ती है। लेकिन समाज की सकारात्मक सोच उसे लड़ने का सहस देती है। जीने की उम्मीद देती है। जब समाज उसे अपनाता है तो उस के अन्दर जीने का सहस पैदा होता है। अपराध और अपराधी से लड़ने के लिए अपने आप को तैयार कर लेती है। लेकिन जब यही समाज अपनी नकारात्मक सोच की वजह से उसको अपनाने से इंकार कर देता है तो बार बार उस दर्द को महसूस करती है। एक बार तो उस के साथ हादसा हुआ है। लेकिन समाज का यह रवैया उसे हर रोज़ मारता है और सज़ा देता है। पीड़ित होने की सज़ा देता है। लेकिन यही समाज उस अपराधी के साथ क्या करता है? उस अपराधी को हर हल में अपनाता है।
अगर समाज का यह रवैया ना बदला तो सरकारी तंत्र और न्याय व्यवस्था के सुधरने के बावजूद औरतों का शोषण होता रहेगा। औरतों के विरुद्ध हो रहे अपराध के खिलाफ समाज को कड़े फैसले लेने होंगे। अपराधी का समाजी बहिष्कार आवश्यक है। हर तरह का बायकाट हो। पीड़ित का साथ भी दिया जाये। उसे अपराधी की नज़र से ना देखा जाये।
औरतों प्रति बढ़ते इस शोषण के पीछे खुद महिलाओं का भी हाथ होता है। देह व्यापार से लेकर बलत्कार की कई घटनाओं ने इस बात की पुष्टि की है। अभी हाल ही में आगरा की एक मार्किट में अश्लील वीडियो की सीडियों का बड़ा खुलासा हुआ है। 50रु से लेकर 150रु तक की सीडी मार्किट में उपलब्ध थी। यह ऍम ऍम एस की विडिओ मोबाइल से बनायीं गयी थी। यह घटना सरकार की नियत के साथ समाज की मानसिक बीमारी को प्रकाशित करती है। हमारी सरकार इस मार्किट को सीज़ कर एक उन विडिओ के आधार पर मुजरिमों को पकड़ने में दिलचस्पी क्यूँ नहीं दिखा रही है, यह एक बड़ा सवाल है। उस के साथ ही यह विडिओ बनाए वाले लोगों की मानसिकता भी एक सवाल खड़ा करती है की आखिर हम कहाँ खड़े है। हम खुद अपने आप पर ज़ुल्म कर रहे हैं। आधुनिक तकनीक तरक्की के लिए था इसे तो हम ने जुर्म के लिए प्रयोग करना शुरू कर दिया। ज़रूरत से ज़्यादा आसानी मुश्किलें कड़ी कर देती है। यह तकनीक ऐसे लोगों के हाथों में चली गयी है जो इस के लिए तैयार नहीं थे।
रक्षा बंधन के दिन जब भाई अपनी बहन को कुछ मांगने के लिए कहे तो हर बहन यह वचन मांगे कि जितना ख़याल तुम हमारा रखते हो और जिस नज़र से हमें देखते हो उसी नज़र से हर लड़की को देखना। हर माँ अपने बेटे से यही मांगे कि मेरा आदर और मेरा सम्मान हर औरत के सम्मान में है। औरत के विरुद्ध बढ़ते अपराध के खिलाफ अब खुद औरतों को खड़ा होना होगा। बेटे, पति और भाई की मोह माया में आकर जुर्म को बर्दाश्त करने की बजाये उस का विरोध करें।
कोई भी समाज बिना माँ के अधुरा है। उन्हें अपनी इस महत्वता को समझना होगा और समाज में अपनी हैसियत बताने के साथ मनवानी होगी। घर हर व्यक्ति की ज़रूरत है। अपराध का विरोध जब घर से होने लगेगा तो उसे कहीं भी जगह नहीं मिलेगी।

Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 9582859385
Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child, Save the World---@@

Thursday, August 18, 2016

रक्षा बंधन का उपहार: ‘हर बहन की सुरक्षा’

रक्षा बंधन का उपहार: ‘हर बहन की सुरक्षा’
[ अब्दुल मोइद अज़हरी ]

ईश्वर ने जब इस स्रष्टि की रचना की तो इस में बसने वाले प्राणी यानि मनुष्यों को अलग अलग जान जातियों में बनाया फिर उन से मानव जाति विकास होता रहा उसे विभिन्न क़बीलो और गिरोहों में भी बाँट दिया ताकि एक दूसरे को पहचान सकें मानव जाति को रिश्तों और कर्तव्यों की डोरी से बांध दिया मिटटी से बने मनुष्य की फ़ितरत में गलतियाँ और त्रुटियाँ हैं इसी लिए कई तरह के रिश्तों से जोड़ दिया एक दूसरे का ख़याल मान सम्मान और अपने कर्तव्यों का पालन करना अनिवार्य कर दिया धर्म ने इस का रास्ता दिखाया एक समाज की स्थापना हुई समाज में कुछ ऐसे रीति रिवाज और परम्पराओं को शुरू किया गया जो समय समय पर मनुष्य को उस के कर्तव्य याद दिलाते रहें मानव जाति को उस के जीवन उद्देश्य से भटकने न दे उन्ही परम्पराओं में से एक रिवाज रक्षा बंधन का है
रक्षा बंधन भारतीय संस्कृति का एक बहुमूल्य पर्व है जिसे बड़ा ध्यान पूर्वक माना और मनाया जाता है इस त्यौहार को एक बहन अपने भाई के हाथों में राखी बांधती है उसे मिठाई खिलाती है बदले में भाई उसे एक उपहार देता है इस तरह यह पर्व मनाया जाता है यूँ तो देखने में यह त्यौहार अत्यंत सरल दिखता है परन्तु इस की गहराई सामाजिक मूल्यों, मानवता और मनुष्यता के गहरे समंदर को जा छूती है जिस तरह हमारा समाज ऊँच नीच, अमीर गरीब, सादगी और चका चौंध में बटा हुआ है उसी तरह इस पर्व को मनाने के तरीके भी अलग और जुदा हैं एक मामूली से धागे को बांध कर भी यह त्यौहार मनाया जाता है और महंगे से महंगे यहाँ तक कि सोने के धागे से भी राखी बाँधी जाती है बहन के सर पर श्रधा और उदार मन से हाथ रख देना भी उपहार होता है और सोने चांदी एवं हीरे जवाहरात की सप्रेम भेंट भी तोहफे में दी जाती है नेता, अभिनेता, साधू, संत, फकीर सभी इस इस बंधन में आस्था रखते हैं निभाते कितने हैं यह एक अलग प्रश्न है
रक्षा बंधन को बहनों का त्यौहार कहा जाता है इस में दो शब्द हैं ‘रक्षा’ और ‘बंधन’ यह दोनों शब्द इस त्यौहार की परिभाषा बताते हैं एक बहन अपने भाई के हाथ में धागा बांध कर उसकी आरती उतारती है ईश्वर से प्रार्थना करती है कि उसके भाई की हर मुसीबत में रक्षा हो उस के बाद भाई अपने बहन की रक्षा और सुरक्षा की सौगंध लेता है जब बहन के सर पर हाथ रखता है तो इस इरादे से रखता है कि हर हाल में बहन की रक्षा करेगा उसे कभी दुखी नहीं होने देगा उस की आँखों से आंसू नहीं बहेंगे वैसे भी समाज में भाई बहन का रिश्ता माँ के बाद सब से अहम् माना जाता है समयानुसार समाज के बदलते रवैये ने हमेशा महिलाओं का शोषण किया है रास्ते और तरीके बदलते चले गए आज तक वही हो रहा है एक औरत की लड़ाई माँ के पेट से शुरू होती हैफ़िर जीवन भर उस का युद्ध चलता रहता है अगर किसी की ज़िद या जागरूकता के कारण बेटी ने जनम ले लिया तो उस की सिक्षा के लिए फिर से संघर्ष होता है शादी के बाद ससुराल में वो संघर्ष चलता रहता है एक लड़की की शादी के बाद या शादी के समय उसी घर का लड़का ज़िम्मेदार हो जाता है यह बंधन उस नाज़ुक रिश्ते को भी मज़बूत करता है कि शादी के बाद लड़की बिलकुल पराई नहीं हो गयी है उसका रिश्ता अभी भी बाकी है
इस त्यौहार में भाई अपनी बहन की इच्छा पूरी करने की कोशिश करता है भाई अपनी बहन को मन चाहा उपहार भी देने की कोशिश करता है यह त्यौहार महिलाओं के प्रति पुरुष प्रधान की सोच बदल सकता है। इस के ज़रिये  महिलाओं के प्रति बढ़ते शोषण को भी रोका जा सकता हैयह संभव है जब भाई अपनी बहन के सर पर हाथ रखे तो हर बहन उपहार में एक ही चीज़ की मांग करे ‘समाज की हर बहन की रक्षा’ हर बहन अपने भाइयों से यह वचन और सौगंध ले कि अगर मेरी रक्षा और सुरक्षा चाहते हो तो हर लड़की में मुझे देख लिया करो किसी भी लड़की की तरफ गलत निगाह उठाने से पहले एक बार सोच लेना की तुम्हारी भी एक बहन है जिस पर गलत निगाह डाल रहे हो उस का भी कोई भाई होगा एक बार यह ज़रूर सोच लेना कि अगर यही गलत निगाह मेरी तरफ कोई उठाये तो तुम्हे कैसा लगेगा मेरी रक्षा और सुरक्षा दूसरों की बहन बेटियों के साथ किये गए अछे व्यवहार में हैभाई की तरफ से बहन को यह तोहफा एक नए समाज को जनम देगा
बाद नज़र उठने ही वाली थी किसी की जानिब ! अपनी बेटी का ख़याल आया तो दिल कांप गया !!
यह एक सच्चाई है कि महिलाएं खुद अपनी शक्ति और अधिकार से वंचित इस लिए हैं क्यूंकि उन्हें अपनी शक्ति का ज्ञान ही नहीं है और न ही वो उसे प्रयोग कर पा रही हैं बिना महिला के यह दुनिया अधूरी है यह समाज और समाज के बनाये नियम कानून सब व्यर्थ है यह एक ऐसी वास्तविकता है जिस से कोई भी इंकार नहीं कर सकता उस के बावजूद मह्लिलाओं के प्रति बढ़ता शोषण और उत्पीड़न निंदनीय और अफसोसनाक है महिलाओं को सब से पहले खुद अपनी पहचान करनी होगी एक महिला को दूसरी महिला के लिए लड़ना और खड़ा होना होगा माँ, बीवी, बहन और बेटी सब को इस के लिए न सिर्फ जागरूक होगा होगा बल्कि वचन बद्ध हो कर लड़ना होगा जब तक एक महिला खुद दूसरी महिला के समर्थन में सामने नहीं आयेगी महिलाओं का बहिष्कार और उन के प्रति अन्याय बढ़ता ही रहेगा
रक्षा बंधन सिर्फ एक धागा बांध कर मिठाई खिला देने या महंगे उपहार देने का नाम नहीं है यह महिलाओं के प्रति सम्मान का पर्व है महिलाएं समाज की मान मर्यादा इज्ज़त और सम्मान है उन के साथ दुर्व्यवहार समाज की इज्ज़त पर हमला है यह त्यौहार हमें उसी वचन की तरफ ले जाता है हर साल हमारा ध्यान हमारे उस कर्तव्य की ओर आकर्षित करता है महिलाओं का सम्मान उन पर अहसान नहीं उन का हक़ है और हमारा कर्तव्य है अगर हम एक तरफ अपनी बहन को उस की रक्षा और सुरक्षा का आश्वासन देते हैं और दूसरी ओर किसी दूसरी बहन की इज्जत हमारी हवास का शिकार बने तो ऐसे त्यौहार और उस में किये गए वादों का न कोई अर्थ है और न ही कोई मोल है सब ढोंग है और दिखावा है। किसी के ज़ख्मों पर चाहत की पट्टी बांध देना इस नाटक से कहीं बढ़ कर है।
रक्षा बंधन जहाँ एक तरफ भाई बहन के रिश्ते में मिठास भरता है वहीँ दूसरी तरफ पुरुष और स्त्री के रिश्ते को सम्मान भी देता है हम ऐसे दौर से गुज़र रहे हैं जिस में सरे रिश्ते अपनी महत्वता खो रहे हैं बाप बेटी और माँ बेटे के रिश्तों को भी हवस की आग जला रही है ऐसे में इस तरह की परम्पराओं का मोल बढ़ जाता है इस त्यौहार को रीति रिवाज से ज़्यादा उसे अपने जीवन में बरतने की आवश्यकता है भाई बहन का रिश्ता बड़ा नाज़ुक और पवित्र है इस की पवित्रता की सुगंध को बचाए रखने के लिए ऐसे त्योहारों और परम्पराओं सामाजिक और नैतिक स्वीकृति देना ज़रूरी है धर्म के साथ जुड़ी परम्पराएँ और रीति रिवाज समाज की भलाई के लिए होती हैं हर संस्कृति में एक सीख होती है एक मकसद और उद्देश्य होता है उस मकसद को समझना आवश्यक है बिना कारण और मूल्य समझे कोई भी रीति रिवाज परंपरा और धार्मिक प्रकिर्या व्यर्थ होती है सब का मकसद मानव सेवा है अगर हमारी पूजा, अर्चना, रीति रिवाज या किसी परंपरा से मानव हित नहीं हो रहा तो हमें समझ लेना चाहिए कि हम से कोई चूक हो रही है हम ईश्वर की मंशा के विरुद्ध हैं। ईश्वर की मंशा के विरुद्ध किया गया कार्य कभी भी लाभदायक नहीं होता। हमें उस की कीमत चुकानी पड़ती है।
रक्षा बंधन जैसे पवित्र पर्व में हम रिश्तों की गरिमा को समझें। अपनी बहनों को ऐसा उपहार दें जिस से समाज की हर बहन आप पर गर्व करे। आप की बहन समाज में सर ऊँचा कर के चले। समाज का हर भाई आप की बहन को सम्मान देने में गर्व महसूस करे। सोचिये, खुद बदलिए। बदलाव अपने आप आयेगा। देर न करें। बहुत देर हो जाएगी।

Abdul Moid Azhari (Amethi) contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com

Wednesday, August 17, 2016

मेरे सपनों का हिंदुस्तान 'A dream of my INDIA'

मेरे सपनों का हिंदुस्तान
[ अब्दुल मोइद अज़हरी ]

जिस तरह ईद से पहले की चाँद रात का एक अलग अर्थ, जश्न और माहौल होता है उसी तरह स्वतंत्रता दिवस से पहले की रात भी करवटों और तरह तरह के अभ्यास में गुज़रती है। 1857 से लेकर 1947 तक का आज़ादी का सफ़र और आज़ादी के बाद का संविधान हमारे देश को एक नई दिशा देता है। 90 साल का सपना था। जिस में बलिदान ही बलिदान है। जाति और धर्म के भेदभाव से परे एक ऐसा सपना जिस के लिए सब कुछ कुर्बान कर देने को मान करे। क़ुरबानी दी गयी। आज आज़ादी का जश्न मनाया गया। देश के उस वीर सपूतों के बलिदान को याद करते करते ऑंखें नाम हो गयीं। मस्तिष्क में एक प्रश्न उत्पन्न हो गया जो अब तक बेचैन किये हुए है। बापू, नेहरु, आजाद ने हमारे लिए एक सपना देखा था। क्या हम ने उसे साकार किया ? उस शहीदों के सपनों का हिंदुस्तान कहाँ है ?
भारत एक मात्र ऐसा देश है जहाँ एक से अधिक धर्म और समुदाय के लोग न सिर्फ एक साथ रहते हैं बल्कि अपने धर्म और आस्था अनुसार उन्हें इबादत का अधिकार है ऐसा देश जहाँ एक साथ मंदिर और शिवालों से पूजा अर्चना के सुर गूंजते हैं मस्जिदों से अज़ान की आवाज़ पर बन्दे कम काज छोड़ कर इबादत के लिए घरों और दुकानों से बहार निकल आते हैं गुरुद्वारों और गिरजा घरों में भी ईश्वर की वंदना की जाती है अपने धर्म और आस्था के प्रचार की पूरी आज़ादी है जाति, धर्म और समुदाय में बटा यह देश विश्व भर में अपनी अनेकता में एकता के लिए विख्यात और प्रसिद्ध है विश्व भर में इस देश की संस्कृति लोगों के आकर्षण का विषय बना हुआ है इस देश के राज्य किसी जाति, धर्म, समुदाय, अल्पसंख्यक, बहुसंख्यक, पिछड़ा वर्ग, दलित और अनुसूचित जाति के आधार पर नहीं बने हैं
भारत का संविधान सभी नागरिकों के लिए एक समान है नवम्बर 1949 को ही संविधान के पहले पन्ने पर यह बात लिख दी गयी कि भारत एक समाजवाद, धर्म निरपेक्ष, लोकतान्त्रिक गणराज्य है जहाँ हर नागरिक को सामाजिक, आर्थिक एवं राजनैतिक न्याय मिलेगा सोच, विचार, आस्था, धर्म और इबादत की पूरी आज़ादी होगी स्थिति और अवसर में बराबर की भागीदारी होगी राष्ट्र और व्यक्तिगत गरिमा का सम्पूर्ण सम्मान किया जायेगा भारत की अखंडता और भाईचारा को बनाये रखना हर नागरिक की नैतिक ज़िम्मेदारी होगीयह संविधान 26 नवम्बर 1949 को विधान सभा में पेश किया गया और 26 जनवरी 1950 को इसे लागू किया गयातब से आज तक इस संविधान की रक्षा और सुरक्षा की जा रही है यह संविधान ही है जो तमाम हिन्दुस्तानियों को अलग धर्म, जाति, आस्था और समुदाय के बावजूद एक धागे में पिरोये हुए है
देश को आजाद हुए 70 वर्ष हो गए आज हमें अपनी स्थिति देखने की आवश्यकता है देश का संविधान सुरक्षित है और उस सही उपयोग हो रहा है, इस पर हर नागरिक की नज़र होनी ज़रूरी है क्यूंकि इस संविधान के प्रति हम सभी वचन वद्ध हैं देश के संविधान और उस की गरिमा को बचाने के लिए हर तरह की क़ुरबानी से गुज़रना हर भारतीय पर फर्ज़ है यही देश प्रेम और देश भक्ति है आने वाले 15 अगस्त को पूरा हिंदुस्तान आज़ादी के जश्न में डूबे तो इस बात का अहसास हो कि जिस भारत का सपना 1857 में देखा गया। जिस के लिए हजारों हिन्दुस्तानियों ने अपने लहू का बलिदान दिया 90 साल तक जिस सपने को जान माल इज्ज़त की क़ुरबानी दे कर सजो कर रखा गया था उसका महल अगस्त 1947 में तैयार हुआ फिर उसी सपने का हिंदुस्तान 26 नवम्बर 1950 को सच किया गया
यह वो सपना है जिस के लिए माओं ने बेटों की, बहनों ने भाइयों की और देश ने अपने सपूतों की बड़ी क़ुरबानी दी है यह सपना हमारे लिए और हमारे बाद आने वालों के लिए देखा गया था हमारी ज़िम्मेदारी है की हम देखें कि देश के उन वीर जवानों और सपूतों के सपनों का हिंदुस्तान हम तक कैसे पहुंचा है और हमें कैसे उसे आगे पहुँचाना है आज के हालात देखते हुए यह कहना मुश्किल है कि उनका सपना सच हुआ है धर्म और समुदाय के बीच बढती हिंसक दूरियां नेहरु, गाँधी और आजाद के सपनों को चूर चूर करती नज़र आ रही हैं जिस अखंडता और अनेकता में एकता के लिए हमारा देश विश्व भर में जाना जाता था आज उस की चादर हवा में उडती नज़र आ रही है न तो बराबरी है और न ही न्याय है न भाईचारा है और न ही किसी की आस्था धर्म की गरिमा का सम्मान है भारत की सफ़ेद धरती पर  राजनीति, न्याय व्यवस्था और सामाजिक रवैये का यही कला सच है
एक तरफ सरकारी तंत्र फेल हो गया दूसरी तरफ समाज मानसिक रूप से बीमार हो गया। समाज का मानसिक स्तर इतना गिर गया है सब से बड़ा मुजरिम खुद समाज मालूम होता है।
हर आदमी सुधर और बदलाव चाहता है। लेकिन खुद कोई न तो प्रयास करना चाहता है और न ही शुरुआत करना चाहता है। सब एक ही समस्या का शिकार हैं। बिल्ली के गले में घंटी कौन बांधे? सब एक दूसरे पर इलज़ाम रख कर अपने आप को तसल्ली दे रहे हैं। आज हमारा समाज तीन मुख्य समस्याओं से जूझ रहा है। लोग क्या कहेंगे?, कोई आगे नहीं आता है हम अकेले क्या कर लेंगे? सब लोग तो करते हैं एक हम ही तो ऐसा नहीं कर रहे हैं।
किसी भी समाजी काम को करने के लिए ही यह ख्याल आता है की लोग क्या कहेंगे। अपने फायदा के लिए कभी नहीं सोचते। ऐसा देखा जाता है कि गाड़ी पर बैठे हुए लोग खिड़की से थूक देते हैं या फ़िर किसी ऐसी जगह थूकते या कचड़ा फेंकते जहाँ ऐसा करना मना होता है। जब कोई टोकता है तो हमारा जवाब होता है को सभी तो यही करते हैं। आज तक हमें सह समझ नहीं आया की यह ‘लोग’ कौन होते हैं। यह किस प्रजाति के होते हैं और कहाँ से आते हैं। एक आसान सी बात समझ में नहीं आती है कि इस समाज की शुरुआत ‘मैं’ से होती है। ‘मैं’ के बाद ‘तुम’ और उसके बाद ‘वह’ और लोग होते हैं। हमारा हाल बिलकुल उल्टा है जब हम समाजी बदलाव की बात करते हैं तो उसकी शुरुआत ‘लोग’ से होती है लेकिन जब फायदा लेना हो तो उस में ‘लोग’ तो होते ही नहीं। ‘मैं’ से शुरू होता है और उसी पर ख़त्म भी हो जाता है।
‘अकेला चना भाड़ नहीं फोड़ता’ यह कहावत हम ने सुनी है। जब भी हम पर कोई ज़िम्मेदारी आती है तो हम यही कहावत सुना देते हैं। जबकि हमें खुद पता होता है कि यह भी कई बार सच हुआ है। इतिहास के पन्ने गवाह हैं। में अकेला ही चला था जानिबे मंजिल मगर, लोग साथ आते गए और कारवां बनता गया!!
ऐसी सैकड़ो कहानिया हैं जिन्हों ने इतिहास के माथे पर अपनी कहानी की लकीरें खीँच राखी हैं। एक अकेली सुहास्नी मिस्त्री ने ऐसे बड़े अस्पताल का सपना देख लिया जिस में गरीबों के लिए मुफ्त इलाज हो सके। खुद सहस्नी जी कचड़े से जुटे चप्पल उठा कर बेंचती थी और खुद के बेटे को अनाथ आश्रम में भेज रखा था। गुजरात के सांप्रदायिक हिंसे और भूकंप के बाद लोगों की उम्मीद टूट चुकी थी लेकिन कुछ ऐसे भी लोग थे जिनकी हिम्मत जिंदा थी उन्हें लगता था कि यह मेरा काम है और मुझे ही करना है। प्रज्वला नाम की एक NGO ने देह व्यापार में फँसी महिलाओं और बच्चियों को निकलने की ठान ली। फ़िर तरह के अत्याचार सहने के बावजूद वो कर दिखाया जो हम इस लिए नहीं सोचते की यह अकेले का काम नहीं। ऐसे अनगिनत उदाहरण हैं। कोई भी काम पहाड़ खोदने जैसे नहीं होता। बस आप का इरादा पहाड़ जैसा मज़बूत होना चाहिए। दशरथ मांझी की दास्तान उन लोगों के लिए उदाहरण हैं जिन्हें लगता है कि यह पहाड़ खोदने जैसा हैं और पहाड़ तो खोदा नहीं जा सकता। दशरथ मांझी ने अकेले ही अपने मज़बूत इरादे से पहाड़ का सीना भी चीर दिया।
दर असल यह सब इस बात पर निर्भर करता है कि हम कैसा हिंदुस्तान देखना चाहते हैं। खुद के पक्के मकान बन जाने से फूस की झोपड़ी के असर से बच नहीं सकते। समाज का एक वर्ग अगर पीड़ित है उसे दो वक़्त की रोटी भी अगर मुश्किल से मिलती हैं तो इस का मतलब यह नहीं है कि इस में समाज के दुसरे वर्ग का कोई रोल नहीं। अगर किसी की रिपोर्ट सिर्फ इसलिए नहीं लिखी जाती कि वो गरीब है या किसी बड़े खिलाफ FIR है। एक आदमी अस्पताल की चौखट पर इसलिए दम तोड़ देता है की उस के पास इलाज के पैसे नहीं हैं। खेत के किनारे लगे पेड़ से किसान इस लिए आत्महत्या क्या लेता है कि उस के पास क़र्ज़ चुकाने लिए पूंजी नहीं है। उम्र के जिस पडाव पर हाथों में किताबे होनी चाहिए थीं उस में जूठे बर्तन, सब्जी का थैला, बकरी हांकने के लिए छड़ी, लोगों की गलियां सुनने के लिए कान होते हैं।
आज हर स्तर पर सुधार और बदलाव की आवश्यकता है। शिक्षा हो समाज हो या फ़िर सरकार सब बीमार हो गए हैं। रोटी कपडा और मकान देने में नाकाम सरकारें इस पर गौर करें। समाज अपने रवैये के बारे में मंथन करें। अपनी महत्वता को पहचाने। अपनी ताक़त का प्रयोग करें। एक दूसरे का सहारा बनें।
क्या यह बात यकीन के साथ कही जा सकती है कि भ्रष्टाचार, अत्याचार और अन्याय के विरुद्ध आवाज़ उठाने वाले खुद किसी भी तरह के मामले में लिप्त नहीं हैं। हमारे देश की राजनैतिक श्रेणी में ऐसे सैकड़ों लोग हैं जो अपने जुर्मों को छुपाने या उस से बचने के लिए राजनीति में आ गए। हमारी राजनैतिक प्रणाली ने न सिर्फ उन्हें गोद ले लिया बल्कि चोर उचक्कों बदमाशों और क़ातिलों को मसीहा बना दिया। किसी बहार के शैतान से लड़ने से पहले अन्दर के शैतान को हराना बहुत ज़रूरी है। भ्रष्टाचार हमारी रगों का खून बनता जा रहा है। अगर वाकई देश को हर तरह के भरष्टाचार से मुक्त देखना और बापू, नेहरु और आजाद के सपनों को साकार करना है तो बच्चों की A,B,C,D में भ्रष्टाचार के विरुद्ध नफरत का पाठ पढ़ना होगा। खुद की गलती को स्वीकार करना होगा। हमें खुद सुधारना होगा। हम सुधरे जग सुधरेगा।

Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com