طبیعت کے بھنور میں ڈوبتی شریعت کی کشتی
عبدالمعید ازہریشریعت کے نام پر طبیعت اور نفس پروری آج سماجی، سیاسی اور مذہبی رویہ بنتا جا رہا ہے ۔شریعت کو شرعی تقاضوں کے مطابق پڑھنے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے مذہب کو اپنے لئے استعمال کرنے ،مرضی کے مطابق تاویلات کے راستے تلاش کرنے اور اپنے موقف کومضبوطی سے ثابت کر نے کی نفس پرست روش نے امت مسلمہ کو تباہی و بربادی کے دہا نے پر لا کھڑ ا کر دیا ہے ۔’جو ہم نے پڑھا وہی شریعت ، جوہم نے کہا وہی شرعی حکم ،جو راستہ ہم نے اختیار کیا وہی صراط مستقیم‘ جیسے مزاج نے حقیقی اسلام کے صاف چہرے پر وہم و گمان اور جھوٹی من گڑھنت روایتوں کی ایسی گرد ڈال دی ہے جو صاف ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔دن بہ دن اسلام کے نام پر نئے نئے موقف اور گروہ وجود میں آرہے ہیں۔ ہر فرقہ و گروہ اپنے آپ کے قرآن و سنت کے مطابق گردان رہا ہے ۔اپنے اپنے مفروضات کو شرعی حیثیت تصور کرنے والوں کی جماعت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ وہ بیماری ہے جس میں امت کا علم و حکمت سے آراستہ و پیراستہ طبقہ گرفتار ہوتا جا رہا ہے ۔پڑھے لکھے ہونے کا دعوی کرنے والوں ہی میں یہ کیفیات ظاہر ہو رہی ہیں جو امت مسلمہ کے لئے ناسور بنتی جا رہی ہیں۔
اس انانیت نے جہاں ایک طرف مذہب کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کر دیا ہے وہیں انسان کی عقل سلیم پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیاہے ۔آج دنیا کا برے سے برا کام مذہب کی آڑ میں کیا جا رہا ہے ۔ مسجدیں عبادت و ریاضت اور نفس و روح کی پاکیزگی سے زیادہ اقتدار و سیاست کی جرح اور بحث کرنے کا مقام بنتی جا رہی ہیں۔ دور نبی میں بھی مسجد کو مجلس کیلئے استعمال کیاگیا لیکن اس دور کی پاکیزہ نفسوں نے انسان کی تعمیر و ترقی کیلئے اس پاک مقام کا انتخاب کیا تھا کہ اس جگہ انسان نیک دلی سے داخل ہوتاہے ۔نظریاتی اختلاف ہوں یا سیاسی و سماجی رسہ کشی ہر جگہ زبر دستی مذہب کو داخل کر دیا جاتا ہے ۔بڑ ی بے باکی سے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں میرا اپنا کوئی مفاد شامل نہیں ہے۔ میں تو دین کی خدمت کیلئے ایسا کر رہا ہوں۔اس کردار کش رویے کی وجہ سے دین کی آمد کا مقصد ہی فوت ہوتا جارہا ہے ۔ ہر شخص اپنے اعتبار سے اس کا بجا و بے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے ۔
اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جتنے بھی فرقے اور گروہ ہیں سب اپنے آپ کو اسلام کا مبلغ بتاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر موجود یہ گروہ بندیاں ایک دوسرے کے ساتھ خود مذہب اسلام کو نقصان پہنچانے کا کام کر رہی ہیں۔ہر کس و ناکس اپنے آپ کو سچا اسلام کا مبلغ بتا کر لوگوں میں اپنی دکان چلا رہا ہے ۔ان ناہلوں کی اقتدار کی ہوس سے اسلام آج خود بے بس نظر آتا ہے ۔اسلام نے جن رویوں سے منع کیا تھا آج اس کو پوری سدت کے ساتھ برتا جا رہا ہے ۔ اسلام نے انانیت کو سختی سے منع کیا جس سے کبر و غرور پیدا ہوتا ہے ۔جو انسان کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے ۔ آج اس کا عام چلن ہے۔لوگوں نے جانے انجانے میں پیغمبری کا دعویٰ کر دیا ۔ کسی کی تعظیم میں اتنا غلو کر دیا کہ اسے بنوی مدارج و صفات تک پہنچا دیا اور کسی کو اتنا ذلیل کیا کہ انسانی شرافت پر شیطانی عنصر کو فوقیت دے دی ۔ یہ سب دین کی کم علمی اور روایات کی روح سے ناواقفی کا نتیجہ ہے ۔ اسلام میں کچھ بھی عقل و خرد کے خلاف نہیں۔ ہر عبادت اور اس کی ہر روایت کسی نہ کسی حکمت سے منسوب ہیں ۔ کوئی بھی عمل اور فکر کسی حکمت سے خالی نہیں ۔ کبھی ہمیں سمجھ میں آتا ہے اور کبھی نہیں آتا ۔ جو ہمیں سمجھ نہ آئے اسے ہم یک لخت ٹھکر دیتے ہیں۔نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کی گہرائی میں جا کر حکمت کو تلاش کرتے ہیں۔ کسی سے اس کی وضاحت بھی دریافت نہیں کرتے۔ جبکہ قرآن کریم خود اعلانیہ کہتا ہے کہ کسی کا بھی علم حتمی، آخری اور یقینی نہیں ۔ ہر علم والے کے اوپر ایک اس سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ جو معلوم ہوجائے اسے برتواور مزید علم کی تلاش کرتے رہو۔ پیغمبر اسلام نے بھی فرمایا کہ ماں کی گود سے لیکر قبر تک علم حاصل کرتے رہو۔
مذہب اسلام کی خصوصیات میں ایک ’قبولیت ‘ ہے ۔ جو آج کے مسلم معاشرے سے غائب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ بالخصوص پڑھے لکھے ،رہنما اور ذمہ دار معاشرے میں اس کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے ۔ ایک مسجد سے لیکر ایک مدرسہ ، درسگاہ ، خانقاہ ،درگاہ اور ممبر رسول پرکسی دوسرے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسرے کی تنقیص و تنقید ہماری فطرت بن چکی ہے ۔اسلا می تعلیمات و ارشادات کی بنیاد پر مراتب مرتب کرنے کی بجائے ذاتی تشخص کو بنیاد بنانا ہی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، جسے بڑی بے باکی سے برتا جارہاہے ۔ہماری درسگاہیں اور اسٹیج سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ہماری تحریر و تقریر کو خود ہمارے افکارو نظریات اور اعمال و کردار غلط ثابت کرتے ہیں۔ایسا کون سا غیر انسانی عمل ہے جو آج اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے نہ کر رہے ہوں ۔ جو نہیں کر رہے ہیں تو کم سے کم اسے برداشت کر رہے ہیں۔اسلام کے نام پر پوری دنیا میں پھیل رہی انتہا پسندی آج خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے عذاب بن چکی ہے ۔ یہ ہماری کوتاہی ، خامشی اور نظر اندازی کا انتیجہ ہے ۔
مذہبی ٹھیکیداروں نے مذہب کو ایسے کٹگھرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے جس میں ہر قسم کے سوالات اور توہمات کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔مذہبی رہنماؤ ں کی کم علمی ، کم دور اندیشی ، حکمت و تدبر سے نا واقفی نے اسلام کو سوالوں کے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ جس بات کا علم نہیں اس میں بھی جبرا اپنی رائے ٹھوسنا ہمیشہ نقصان دہ رہا ہے۔ آج مسلم معاشرہ اس کو جھیل رہا ہے ۔جہاں ایک طرف یہ سچائی ہے کہ اسلام ایک پاک وپاکیزہ اور تمام عیوب سے منزہ مذہب ہے۔ وہیں اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس صفائی اور پاکیزگی کا علم خود مسلم رہنماؤ کو نہیں ۔اسلام کی محدود واقفیت نے مسلمانوں کے دفاعی حالت میں پہنچا دیا ہے ۔مذہبی ٹھیکیداروں نے اسلام پر ایسی اجارہ داری کر رکھی ہے جس کو کسی ادارے سے کوئی علمی سند حاصل نہ ہو اسے اسلامی جانکار ماننے سے یکسر انکار کر دیا جاتا ہے ۔ پورا ٹھیکیدار گروہ اس کے خلاف ہوجاتاہے ۔اس پر کوئی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتا ہے کہ اس نے کہا کیا ہے ۔اس اجارہ داری نے اسلام کو محدود کر دیا ۔
مذہب اسلام مکمل دین فطرت ہے ۔ کوئی بھی عبادت یاعمل فطری مفاد سے خالی و عاری نہیں۔ ہر عبادت کا مقصد خدا اور بندے کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے ۔ خالق ارض و سماں یہ کہتا ہے کہ اس آسمان اور زمین کی تخلیق میں غور کرو۔اپنے آس پاس کائنات کی آرائش میں قدرت کے کرشمے موجود ہیں۔ ہر شئی کو اپنی محدود عقل و خرد سے سمجھنے کی کوشش نے نہ صرف علم کو محدود کر دیا بلکہ توفیق کو بھی سمیٹ دیا ہے ۔ اسلام صرف قرآن و حدیث کی قانونی چارہ جوئی نہیں بلکہ مکمل نظام حیات ہے ۔ کسی بھی طرح کا کبر و غرور انسان کو توڑ دیتا ہے ۔ مذہب جو اس نقص و عیب سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے اگر اسی کے نام پر حسد و تکبر کا کاروبار ہونے لگے تو لوگ بھروسہ کس پرکریں۔ آج مسلمانوں کی اس شبیہ سے لوگ متنفر ہو رہے ہیں۔انہیں اسلام تو پسند ہے لیکن اس کی نمائندگی کرنے والے مسلمان اور مسلم رہنما پسند نہیں۔ اسلام کو خود مسلمانوں نے ہائی جیک کر لیا ہے ۔
اس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کی سازشیں اور چالبازیاں پہلے نہیں ہوئی ہیں۔ یہ معاملہ شروع ہی سے درپیش ہوتا آیا ہے ۔ اس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ پیغمبر اعظم کے مبارک دور سے لیکر خلفاء ، ائمہ اور ملوکی دور تک اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس کے لئے دور اندیشی اور علم و اعتماد کی اشدضرورت ہے ۔صوفیا کرام نے اپنے مجاہدے ، علم اور اعتماد کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن سے شر و فساد نے خود اپنا راستہ بدل لیا ہے ۔ کبھی کبھی اعتماد اور خدا پر بھروسہ کی ایسی مثال ملتی ہے جو یقیناًقابل رشک ہے ۔ عرب کے ریگستان میں جہاں دور دور تک پانی اور سبزہ کا نام و نشان نہیں تھا ایسے شام کو ان بزرگوں نے مٹکے کا پانی اس اعتماد پر انڈیل دیا کہ وہ رزاق ہے ۔ ہمیں رزق ضرور دیگا۔اس کی مرضی کے بنا ایک پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ جس طرح گہرے سمندر کے بیچ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں کو رزق دیتا ہے ۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور چٹانوں کے بیچ بسنے والے جانوروں کو بھی رزق پہنچاتا ہے ۔ تو ہمیں بھی وہ رزق ضرور دیگا ۔ جس نے حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا ۔ جس نے حضرت ابراہیم ؑ کو دہکتے ہوئے آگ سے محفوظ رکھا ۔ جس نے حضڑت اسمٰعیل ؑ کو تیز چھری کی دھار سے مامون کیا وہ ہمیں رزق ضرور دیگا ۔
دین عاجزی و انکساری کی تعلیم دیتاہے ۔ بڑے بڑے خدائی کے دعویدار آج تاریخ کے صفحات سے مٹ گئے ۔ دین میں کسی کی اجارہ داری نہیں۔ جتنا علم دیا گایا اسے توفیق سمجھ کر شکر بجا لاکر خدمت خلق میں صرف کرنا چاہئے نہ ۔ مفروضات کی کشتی میں سوار ہو کر وہم و گمان کے دریا میں غوطہ زنی توفیق ختم کرتی ہے ۔ اپنے علم اور تحریر کی ریاست پر گھمنڈ اچھا نہیں ۔ دین میں دست درازی تباہی کے سوا کچھ نہین دیگا ۔دین جس انداز سے پھیلایا گیا اسی انداز میں برتنے کی ضرورت ہے ۔ پچھلے آٹھ سو سال سے غریب نوازاور دیگر صوفیا کے ذریعے پھیلائے گئے اسلام کو اسی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی تاریخ اور روایت پر حملہ کر کے اور ان کی خدمات کو مجروح کر کے ہم خود اپنی سند کو مجروح کرتے ہیں۔
صوفیا کی تاریخ و روایت سے وابستہ علماء ، ائمہ اور عوام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے اور اسے نبھانے کی ضرورت ہے ۔ آج کے دور میں تکنیکی ترقیات نے کافی آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ دین میں دست درازی کرنے والوں کی پہچان مشکل نہیں ۔ مسجد کے ممبر رسول سے لیکر عوامی جلسے کا ممبر ہر جگہ اس کی بے حرمتی کرنے ولاے لوگ موجود ہیں۔ جو مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ روایت کو نظر انداز کردے اور اچانک سے تمام امت مسلمہ کی قیادت سیادت کا ڈھونگ رچائے ایسے لوگوں کے خلاف آواز اٹھا نا اب ضروری ہو گیا ہے ۔ جس رویات اور عقیدت کو نہ ہم نے کبھی مانا اور نہ ہی کبھی ہمارے آباء و اجداد نے کبھی اس کا تذکرہ کیا اسے زبر دستی ہم پر تھوپنے والوں کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
وہ زبان جس میں محبت نہ ہو ، وہ قلم جس میں تعمیر نہ ہو ، وہ تحریر جو صرف تخریب کے لئے ہو ،وہ وفکر جو انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہو اس کو متحد ہوکر بند کیا جانا چاہے ورنہ ہماری یہ پس وپیش کی کیفیت ہمارے خود کے خرمن کو جلا دیگی ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com




