Sunday, September 4, 2016

What is behind "Karwan e Ittehad e Millat" by(Jameat Ulama e Hind) जमीअत उलमा ए हिन्द को "कारवाने इत्तेहादे मिल्लत" की आवश्यकता क्यूँ है ? جمیعۃ علماء ہند کو "کاروان اتحاد ملت" : کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


What is behind "Karwan e Ittehad e Millat" by(Jameat Ulama e Hind)
जमीअत उलमा ए हिन्द को "कारवाने इत्तेहादे मिल्लत" की आवश्यकता क्यूँ है ?
جمیعۃ علماء ہند کو "کاروان اتحاد ملت" : کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
عبد المعید ازہری

2014کے لوک سبھا انتخابات کے وقت ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی کہ بھگوا دہشت پسند تنظیم اور اس کی سرپرستی میں الیکشن لڑ رہی بھارتی جنتا پارٹی کو ہر حال میں ہرانا ہے ۔ مسلمانو ں کے قاتل، گجرات کے گنہگار کو کسی بھی قیمت پر کرسی حکومت پر نہیں بیٹھنے دینا ہے ۔نتیجہ جو ہوا ،وہ ہمارے سامنے ہے ۔ مسلمانوں کو متحد کرنے کے خوب نعرے لگائے گئے ۔مسلمان تو متحد نہ ہوا لیکن مسلمانوں کے خلاف اتحاد ضرور ہو گیا۔ اس کاخمیازہ پچھلے دو برس سے پوراہندوستان بھگت رہا ہے ۔کانگریس کے کچھ نمک خوار مسلمانوں نے’ قاتل، قاتل ‘ نعرہ دیکر مسلمانوں کو ایک عجیب سے ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا۔لیکن آج تک وہ کسی مسیحا کا چہرہ مسلمانوں کو دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک گجرات کا گناہ اور گنہ گار وں کی داستان مسلمانوں کے ذہنوں میں بھردیا گیا۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ہوئے الگ الگ جگہوں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اورمختلف دور اقتدار میں ہوئے تشدد ، ظلم و زیادتی کی داستان تاریخ کے صفحات سے غائب کر دئے گئے ۔پچھلی ایک دہائی سے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے ۔ چند نام نہاد مسلم رہنما پوری قوم مسلم کا سودا سیاسی جماعتوں سے کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد نعرہ بازی کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اب تو مسلمان سنجیدہ گفتگو نہ سننے کا اہل رہا اور نہ ہی سنجیدہ باتیں کرنے کے لائق رہا ۔وہ جذباتی ہے۔ صرف جذبات سمجھتا ہے۔اسی سے ہر بار دھوکہ کھاتا ہے ۔
یہ بات اسلئے ذکر کر دی گئی ہے کیوں کہ پچھلے کچھ مہینے سے پھر سے اتحاد ملت اور مسلکی اتفاق کی ہوا گرم ہے ۔کچھ ہی مہینوں بعد یو پی میں اسمبلی انتخابات آنے والے ہیں۔ اسلام پھر سے خطرہ میں آنے والا ہے ۔ یا یوں کہئے کہ آ گیا ہے ۔ آپسی رنجشوں کو مٹا کر ایک ہو جاؤ۔ ورنہ اسلام مٹ جائے گا ۔ گھر کے مسئلے کو گھر میں سلجھا لیں گے۔ پہلے باہری طاقتوں سے لڑ لیا جائے ۔ اس سے ملتے جلتے جملے اخباروں کی سرخیوں میں ہوتے ہیں۔ سوسل سائٹس پرتو اس سے بھی زیادہ کھل کر مہم چل رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کوئی ملک یا قوم مسلمانوں پر یک بیک حملہ کرنے والی ہے ۔ بچے ،بوڑھے اور بزرگ سبھی کو اب تیار ہو نے کی ضرورت ہے ۔ جام شہادت انتظار کر رہا ہے ۔دو مہینہ قبل بریلی سے توقیر رضا خاں نے اچانک دیو بند کا دورا کیا اور وہاں سے مسلکی اختلافات ختم کرکے مسلمانوں کے متحد ہو جانے کی نصیحت کی ۔ ان کو ان کے گھر سے جواب مل گیا ۔ اس لئے شاید اب دوبارا ایسی بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ اہل سنت و جماعت میں ان کے اس اقدام کی خوب مذمت ہوئی ۔ علماء ، مشائخ اور دیگر ذمہ داروں نے توقیر رضا خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ 
ابھی چند ہی روز قبل روزنامہ انقلاب میں ایک خبر پڑھی۔ جس کے بعد مجھے توقیر رضا خان کے اس اقدام اور 2014 کے لوک سبھا انتخابات کی تصویریں سامنے آگئیں۔خبر تھی کی جمیعۃ علماء ہند اپنا ۳۳واں سالانہ اجلاس اس بار اجمیر شریف میں منعقد کریگی ۔ اس بار کے سالانہ اجلاس کی خصوصیت یہ ہوگی کہ دیوبند سے لیکر اجمیر تک’ کاراں اتحاد ملت ‘کے نام سے ایک قافلہ روانہ ہوگا ۔اس کارواں کے لئے خصوصی ٹرین ہوگی ۔درگاہ اجمیر شریف کے دیوان کو اجمیر میں استقبالیہ کمیٹی کی صدارت کیلئے منتخب کیا گیا ۔جمیعۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری کے مطابق ایسا پہلا موقعہ ہوگا جب جمیتہ علماء کے بینر تلے پہلی بار نعتیہ مشاعرہ ہوگا ، پہلی بار صوفیوں کو مدعو کیا جائے ۔ پہلی بار جمیعۃ تمام مکتب فکر کے نمائندوں ایک ایک جگہ اکٹھا کرے گی اور ملی اتحاد کی کوششوں کو شرمندہ تعبیر کرے گی۔ جمیعۃ علماء ہند نے۱۰۰ سال بعد اس کا بھی اعتراف کیا کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری نے دین کی بے لوث خدمت کی ہے اور ان کی ہی برکت سے آج ملک میں گنگا جمنی تہذیب اور قائم اور امن و امان بحال ہے ۔کار وان اتحاد ملت کے عظیم سفر اور پروگرام میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہوں گے ۔کاروان اتحاد ملت کا ہر اسٹیشن پر زوردار استقبال کیا جائے ۔
جمیعۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری مولانا عبد الواحد کھتری قاسمی کے ذریعہ جمیۃ علماء ہند نے یہ بھی صفائی دی ہے کہ وہ وہابی نہیں ہیں۔ ان کا سلسلہ وہابیت سے نہیں چشتیت سے ہے ۔یہ خبر قابل غور ہے ؟ کیونکہ جمیعۃ علماء کو ہمیشہ دیو بندی مکتب فکر کا مانا گیا ہے ۔ صوفیوں اور درگاہوں کی حمایت کے برخلاف ہی انہیں دیکھا گیا ہے ۔اچانک سے صوفی دامن کو ہاتھ میں لینے سے تشویس پید ہونا فطری ہے ۔ اتحاد کی کوشش یا اس کا دعوی کرنے میں تو کئی لوگ لگے ہوئے تھے ۔لیکن اس موقف میں دم تھا ۔اتحاد کیلئے اس طرح کے اقدام کی جمیعۃ سے توقع نہیں کی جا رہی تھی ۔ جیسے ہی چشتیت اور وہابیت کا معاملہ سامنے آیا فورا ہی مارچ مہینے میں منعقد ہوئے ورلڈ صوفی فورم کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔۱۷ سے ۲۰ مارچ تک آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے ایک عالمی پیمانے پر بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی تھی جس میں تقریبا ۳۰ ممالک کے صوفی اسکالرس اور مشائخ نے شرکت کی تھی۔ ملک کے وزیر اعظم نے بھی اس صوفی کانفرنس میں شرکت کی اور ایک تاریخی خطاب کیا ۔جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی ۔ اب جمیعۃعلماء کا اجمیر میں اجلاس کرنا اور درگاہ اجمیر کے دیوان سے اس اجلاس اور کاروان اتحاد ملت کا استقبال کرانے کے پیچھے کا مقصد صاف ہوگیا ۔جمیعۃ علماء کی تاسیس کے تقریبا ۱۰۰ سال پورے ہونے والے ہیں۔ اتنے برسوں کے طویل عرصے میں خواجہ غریب نواز کی تعلمات ، حیات و خدمات کا اعتراف نہیں کیا۔ اچانک سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا اور ان کی برکتوں کو بھی تسلیم کیا گیا ۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے منعقد کی گئی عالمی صوفی کانفرنس سے چند روز قبل ہی جمیعۃ علماء اپنے ایک پروگرام میں اس کا اشارہ دے چکا تھا ۔ دو مدنی گروپ میں منقسم جمیعۃ کو جوڑا گیا اس کے بعد ایک بڑا بیان دیا گیا کہ بریلوی بھی ہمارے بھائی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر انہیں ان کا حصہ دینے کے لئے ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد ایک منچ توقیر رضا خان الگ الگ مکتب فکر کے ساتھ دیکھے گئے۔ پھر جمیعۃ علماء کا یہ بڑ ا قدم ۔سب ملا کر ایک ایک تصویر نقش کرتے ہیں کہ اس بار کے انتخابات میں نیا اقدام کیا ہوگا۔ گذرے برسوں کی طرح مسلمانوں کی سودے بازی کی نئی صورت حال کیا ہوگی ۔
جمیعۃ علماء کی اس بیان بازی کے بعداسے ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ صوفی علماء و مشائخ نے جمیعۃ کے اس موقف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ سچ ہے کہ خواجہ کے دربارمیں سبھی آتے ہیں۔ ان کا دروازہ ہر ایک کے لئے یکساں کھلا ہوا ہے۔ سبھی یہاں پناہ لیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اپنا سلسلہ جبرا غریب نواز سے جوڑ لے ۔غریب نواز کی دینی اور سماجی خدمات کو انجام دئے ہوئے ۸۰۰ سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ ملک و بیرون ملک، ہر جگہ ان کی خدمات کو تسلیم کیا گیا ۔ ملک میں بھی ہر مذہب اور عقیدت نے ان سے اپنی عقیدت کا اعتراف کیا ۔ جمیعۃ علماء کو بھی وجود میں آئے سو سال ہونے کو ہیں۔ ان سو برسوں میں کبھی بھی انہیں غریب نواز کی خدمات دیکھنے اور پرکھنے کا موقعہ نہیں۔ اچانک سے اس کا اعتراف ہوگیا ۔اس کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ جو جماعت پورے ہندوستان میں مزار اور صوفی وتصوف مخالف سمجھی جاتی ہے ۔ آج سے نہیں برسوں سے لوگ یہی مانتے آئے ہیں۔اچانک سے انہیں درگاہوں سے کیسے دلچسپی ہوگئی ۔ یہ سوالا ت آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدر سید محمد اشراف کچھوچھوی نے اٹھائے ۔
انہوں نے جمیعۃ علماء کے اس اقدام کو سوالوں کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ آج کی وہابیت کی چال ہے ۔ تاریخ شاہد ہے انہوں نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ جب بھی ان کا چہرہ بے نقاب ہوا ۔انہوں نے ایک الگ نام اور چہرہ اختیار کر لیا ۔ بورڈ کے صدر نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ کیا یہ جمیعۃ کے لئے ممکن ہوگا کہ وہابیت کی تمام شکلوں کی مذمت کر سکے ؟ جن بیرونی ممالک سے اس فکر کی پرورش ہوتی ہے، کیا وہاں سے اپنے رشتوں کو الگ کر پائے گی ؟اجمیر کو منتخب
کرنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ اگر واقعی صوفی ہیں تو کیا صوفیا کی تعلیمات اور روایات پر عمل ممکن ہوگا ؟ ان کے عقائد و نظریات سے اتفاق ممکن ہوگا ؟ جن اکابر علماء دیوبند نے اپنے آپ کو وہابی کہا، کیا جمیعۃ ان سے اپنا رشتہ توڑ پائے گی ؟ کارواں کی ابتدا دیوبند کی جگہ کہیں اور سے کر پائے گی ؟خود جمیعۃ کے مطابق پہلی بار نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوگا ۔تو کیا اچانک چشتیت سے رشتہ جوڑنے کے بعد نعتیہ محفلوں کا پروگرام بنا لیا گیا؟اس سے پہلے کیا وجوہات تھیں؟ پہلی بار وہ درگاہوں کے ذمہ داران اور خانقاہوں کے سجادگان کو مدعو کریں گے۔ اس سے پہلے مدعو نہ کرنے کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
جمیعۃ علماء ہند سعودی بادشاہوں سے اپنے رشتوں کو کسی بھی صوت میں توڑنے کے حق میں نہیں ہوگی ۔ اسی سعودی وفاداری کی ایک لڑائی جمیعۃ علماء کے ارشد مدنی اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے سلمان ندوی کے بیچ ہوچکی ہے۔ جو اخباروں میں آج بھی محفوظ ہے ۔ وہ لڑائی دعوۃ مباہلہ تک پہنچ گئی تھی ۔سعودی بادشاہوں کی دینی خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے جمیعۃ کے ذمہ داراپیل کر چکے ہیں۔جب کہ دوسری طرف سعودی بادشاہوں کو ندوۃ العلماء کے ذمہ دار ڈاکو، اسلام دشمن ،دھوکہ باز اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نواز چکے ہیں۔اس کے علاوہ دیو بند کے کئی اکابر علماء درگاہوں ، خانقاہوں اور مزاروں کے تعلق سے اپنے موقف کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اپنے آپ کو وہابی بھی کہہ چکے ہیں۔ کیا جمیعۃ علماء کیلئے یہ ممکن ہوگا کہ ان اکابر علماء کی تحریروں سے اپنی برات کااظہار کر سکیں۔
وہابیت سے علیحدگی کی کیوں ضرورت پڑ گئی ؟یہ بڑا سوال ہے ۔ اس کے علاوہ صوفیت کی پناہ لینے کے پیچے کیا مقصد ہے؟ کیا ان سب کا کوئی ربط آنے والے انتخابات سے ہے ؟ اگر ہے تو کیا ہے ؟ پچھلے دو برسوں سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں دہشت گردوں کی فکر کو وہابیت سے متعارف کرایا گیا ۔ پوری دنیا میں دہشت گردی اور وہابی فکر کے خلاف بڑی مہم کا آغاز ہو گیا ۔ کسی بھی وہابی ادارے ، جماعت یا افراد سے کسی بھی طرح کے تعلقات رکھنے پر شک کی سوئی اس پرپڑجاتی ہے ۔ وہابی فکر کے عقائد و نظریات میں دو باتیں اہم ہیں۔ اپنے علاوہ کسی کوبھی سچامسلمان نہ سمجھنا ۔ سب کو کافر سمجھنا ۔ دوسرے درگاہوں ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کو زمیں دوز کر دینا ۔اسے شرک و بدعت کا اڈہ کہہ کر بم سے اڑادینا ۔پوری دنیا میں جہاد کے ذریعہ ایک اللہ کی حکومت قائم کرنا ۔ عام فہم زبان میں وہابی فکر کی پہچان یہ بتائی گئی کہ جو درگاہوں ، خانقاہوں اور صوفیوں میں کسی بھی طرح کا یقین نہیں رکھتے وہ وہابی ہیں ۔
ایسے مشکل کن حالات میں جمیعۃ علماء ہند کے اس اقدام کو کس اعتبار سے دیکھا جائے ۔ کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ جمیعۃ علماء اب صوفیوں اور درگاہوں کے قریب ہو کر اہل سنت و جماعت میں شامل ہونے کا ارادا کر چکی ہے ۔ ملت کے اتحاد کیلئے اس نے اپنے مسلمات توڑ دئے ہیں ۔ ایسی سورت میں اس کی ستائش ہونی چاہئے ۔ سب کو مل کر اس بات کی تائید کرنی چاہئے ۔ملت کو آج عالمی بحران سے نکالنا چاہئے ۔ یا پھر جمیعۃ علماء کی یہ کوئی سازش ہے ۔ جو پھر سے صوفی سنی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے رچی گئی ہے ۔ چہرہ بدل کر اہل سنت و جماعت کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے ۔ اس سورت میں پوری قوت کے ساتھ جمیعۃ علماء کی مخالف اور اس اقدام کی مذمت کر نی چاہئے ۔ صوفیوں سے اپنے جبری رشتہ کو جوڑ کر وہ اہل تصوف کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔اپنے کھوتے ہوئے اقتدار کے ڈر سے ایک بار چہرے پر نقاب ڈال کر اہل سنت کی صفوں میں داخل ہو کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


No comments:

Post a Comment