Saturday, October 15, 2016

Muftis of Muharram on Social Media सोशल मीडिया पर मुहर्रम के मुफ़्ती سوشل میڈیا پر محرم کے مفتی


سوشل میڈیا پر محرم کے مفتی 
عبد المعید ازہری

خدا جب دین لیتا ہے تو عقلیں چھین لیتا ہے ۔یہ مقولہ آج کل سوشل میڈیا کے مفتیوں اور یزیدی فکر کے حامیوں پر خوب جچ رہا ہے ۔جو محرم کی ایک تاریخ سے ہی پیٹ درد کا شکار ہو جاتے ہیں۔حضرت امام حسینؑ کی شہادت کا تذکرہ بچے بوڑھے جوان مرد عورت سب کی زبان پر عام ہے ۔ محرم کا چاند نظر آنے سے قبل ہی مسلمانوں کے اندر ایک خاص قسم کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ امام عالی مقام کی ذات ، حیات و خدمات اور ان کی شہادت مسلمانوں کے جذبات سے جسم میں روح کی مانندبندھ جاتے ہیں ۔امام کربلا سے جذباتی رشتہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہر قوم کا ہے ۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی کچھ لوگ اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ شعر و شاعری ، چیٹنگ ،میسج اور امیج بنا بنا کر لوگ اپنے آپ کو حسینی عاشق تصور کر رہے ہیں۔ امام عالی مقام نے کربلا کے میدان میں اپنی شہادت کا نظرانہ پیش کر کے مسلمانوں کو یزید سے نہیں بلکہ یزیدی فکر سے آزادی دلائی تھی۔ لیکن افسوس آج بھی وہ یزیدی فکر مسلمانوں کے اندر موجود ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور یزید کے ظالمانہ افکار کے حامل بھی ہیں۔کچھ مفتیوں کا بھی گروہ اسی سوشل میڈیا کے ذریعہ سامنے آیا ہے جس نے یہ ٹھان لیا ہے کہ پوری دنیا کو ہدایت دے کر ہی دم لیں گے ۔ قرآن و احادیث کے علم کا ذخیرہ ان کے پاس انٹر نٹ پر موجود مانتے ہیں۔ بند کمرے میں ایک ہاتھ میں موبائل دوسرے ہاتھ میں عیش و رعشرت کے سامان کے ساتھ کربلا کی تاریخ لکھتے ہیں ۔ فیصلہ سناتے ہیں کہ کربلا میں آخر کیا ہواتھا ۔یہ ایک سیاسی جنگ تھی ۔ امام حسین اور یزید کے درمیان حکومت اور سیاست کی جنگ تھی ۔ دو شہزادے تھے جو آپس میں خلافت کیلئے جنگ پر آمادہ ہوئے تھے ۔ آخر میں یزید کی فتح ہوئی ۔ اس طرح کی باتیں لوگ کرتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف محرم میں ہونے والی روایات کو بھی شیطانی اور کفرو شرک پر مبنی قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔حتی کہ شریعت کا رجسٹر لیکر بیٹھے ہوئے ہیں جوصاحب قلم کے علم پر کھر ا اترا وہ مؤمن ہو گیا ۔ جو ان کے افکار و نظرایات کا حامل نظر نہ آیا وہ دین سے خارج ہو گیا ۔ شریعت کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے ان کے گھر کا حساب کتاب یا کوئی معاملہ ہو۔ پیغمبر اسلام ، اصحاب کرام اور اہل بیت اطہار کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں جیسے گھر کا مکھیا اپنے گھر والوں کے بارے میں یا پڑوس کے بار ے میں باتیں کر رہاہو۔ ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ خود کون ہیں ۔ وہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کربلا میں جو واقع ہوا ہے کیا کوئی اس کو محسوس کر سکتا ہے ؟ باتیں ایسی ہوتی ہیں مانوں خود چشم دید گواہ ہوں۔افسوس ایسے لوگوں پر اور ان کی فکروں پر ۔ واقعہ کربلا اور امام عالی مقام کی شہادت کو گلی چوراہے کا مزاحیہ قصہ ہو جسے مزے لے لے کر سنائے جاتے ہیں۔ 
امام حسین ؑ اور یزیدی فوج کے مابین جنگ صرف دوشخصوں کے درمیاں یا ہزراروں کے مقابلے میں بہتر کی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ جنگ حیسنیت اور یزیدیت کی تھی ۔ یعنی اسلام اس اسلام کے نام پر اسلامی تعلیمات کو رسواکر نے والے کے مابین تھی ۔ ایک نواسہ رسول اور ان کے بہتر ساتھی ہیں ۔ اسلام کی صحیح تعلیم کو آگے بڑھ رہے ہیں دوسری طرف یزیدی فوج فوج اور یزیدی فکر ہے ۔جو اسلام کو اپنی مرضی کے موافق آگے پھیلانا چاہتاہے ۔شریعت میں طبیعت کی جبرا دخل اندازی سے مذہب اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے والا اسلام کے نام پر پہلا دہشت گرد یزید تھا ۔ جس نے اسلام کے اصولوں کو بدلنے کی کوشش کی ۔ شریعت کو ذاتی جاگیر سمجھنے کی بے وقوفی کی۔ اسلام کے محافظین نے اپنے جان و مال کو قربان کیا لیکن پیغمبر اسلام کی شریعت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو برداشت نہیں کیا۔ آج بھی وہ یزیدی فکر دہشت گردوں میں موجود ہے ۔ ہر اس شخص میں موجود ہے جو یزید کو صحیح مانتا ہے ۔ اسے رضی اللہ عنہ کہتا ہے ۔ اس کی تعظیم کر تا ہے ۔ اسے حسین اعظم کے مد مقابل کھڑا کر دیتا ہے ۔ایک ظالم کو ایک صابر کے ہم پلہ قرار دیتا ہے ۔ حیسنیت بھی آج تک زندہ ہے ۔ ہر اس دل میں جس میں یزیدی فکر کا انکار ہے ۔اس کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ ہے ۔ یزیدیت کو قبلو ل نہ کرے کی ہمت ہے ۔
سب سے پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ محرم کے مہینے میں ہونے والے رسم و رواج کی صحت اور عدم صحت پر بحث کرنے سے قبل تبلیغ اور اصلاح کا طریقہ سمجھنا ضروری ہے ۔ کسی کی بھی تبلیغ کا طریقہ قرآن مقدس نے بیان فرمایا کہ ہے ’اللہ کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور با اخلاق وعظ و نصیحت سے بلاؤ ۔ مسئلہ میں مباحثے کی صورت میں سب سے بہتر طریقہ اختیار کرو۔‘ قرآن مقدس کے اس طریقہ تبلیغ و اصلاح کو خود پیغمبر اعظم ؑ نے کر کے دکھایا ۔ جب شراب کا دور عام تھا ۔ اس کی حرمت کے لئے حکمت کا استعمال کیا گیا ۔ ایک بارگی اس کی حرمت نازل نہیں ہوئی بلکہ دھیرے دھیرے اسے حرام قرار دیا گیا۔ پہلے اسے برا کہا گیا ۔ پھر اسے نماز کی حالت میں بند کیا گیا اسکے بعد جب لوگ شراب نوشی کو تر ک کرنے کے عادی ہوگئے تو مکمل طریقے سے حرام قراردیاگیا ۔ جب بھی محرم آتا ہے برساتی مینڈک کی مانند لوگ ٹر ٹر کرنے لگتے ہیں۔ جنہیں قرآن و حدیث نہیں آتی وہ قرآنی فیصلے سناتے ہیں۔ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں لیکن حدیثوں کا انکار کرتے ہیں ۔ جو حدیثیں ان کے موقف کے موافق ہوتی ہیں ان کو بیا ن کرتے ہیں باقی حدیثوں کو ضعیف اور کبھی کبھی موضوع بھی قرار دینے سے نہیں چوکتے ۔جب کہ مناسب تو یہی ہے کہ ضعف یا وضع کی نسبت حدیث کی بجائے روایت کی طرف کی جائے ۔محرم کی دیگر روایتوں کے ساتھ تعزیہ داری کے تعلق سے شیعہ حضرات کا کیا موقف ہے اس کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔معاملہ کی سنگینی تو یہاں ہے کہ جب ان کو اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے تو ان کے اعمال و افعال پر بحث کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ۔ تعزیہ ، علم اور جلوس وغیرہ کا مزاق اڑانا اپنے ہی مذہب کا مزاق اڑانا ہے ۔ غیر شیعہ میں بھی بہت سے رسم و روایتیں ہیں جو بڑی شد و مد کی کی جاتی ہیں۔ان معاملات کی تنقید و تنقیص سے قبل مناسب تو یہی ہے کہ بیٹھ کر اس پر بات کی جائے اس کے بعد جو متفق علیہ مسئلہ ہو اسے عوام تک پہنچا دیا جائے ۔ ہر روزلوگ ایک نئی شق ننکالتے ہیں ۔ اہل علم میں اس پر تبادلہ خیال کرنے کی بجائے عوام میں اسے بحث کا موضوع بنا دیتے ہیں۔
بڑی آسانی سے یہ بات کہہ تو دی جاتی ہے کہ یہ دو شہزادوں کی جنگ تھی ۔ یا سیاسی جنگ تھی ۔بے ادبی اور بد تمیزی کی بھی حدوں کو پار کر دیا جاتا ہے ۔ جن اشخاص کا ادب و احترام جملہ اصحاب نبیؓ فرماتے تھے ان کے بارے میں گناہوں کا پتلہ یہ بد بخت انسان بے ادبی اور بے باکی سے گفتگو کرتا ہے ۔ پیغمبر اعظم ؑ نے جن سے خوب محبت فرمائی ان کے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی کو سیاسی قرار دینے والوں کے منہ میں زبان کیوں نہیں جل جاتی ۔یزید کو معصوم قرار دیکر امام عالی مقام کی شہادت کو ضائع کرنے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ کن مشکلات اور مصائب و آلام سے گزر ہوا ہوگا ۔ بڑی آسانی سے ہم کربلا کی سیاسی کہانی سناتے ہیں لیکن بچوں کی لاشیں اٹھانے ، ان کے زخموں کو دھونے پیاس سے بلکتے شہزادوں کو صبر و استقامت کی تلقین دینے کا جذبہ معلوم ہے ؟۔
کوفہ سے باہر ہی امام کے قافلہ کو روک لیا گیا ۔ ابن زیاد کو بھاری رقم دیکر خاص طور پر اسی مشن پر بھیجا گیا ۔ پانی بند کیا گیا ۔ تین دنوں تک محاصرہ کیا گیا ۔چھوٹے معصوم بچوں پر پیاسا تڑپایا گیا ۔ چھوٹی معصوم بچیوں کو تمانچے مارے گئے ۔ ایک ایک کرے کے تمام نفوس قدسیہ کو شہید کر دیا گیا ۔ حضرت زینب کو بے ردا قید کیا گیا ۔ امام زین العابدین بیمار کو بھی قید و بند کے ساتھ بازاروں میں گھمایا گیا ۔ جب قابلہ دمشق پہنچا تو یزید نے ٹھنڈ رات میں اس لٹے ہوئے قافلے کو باہر ہی ٹھہرنے کا حکم دیا ۔ پھر بھی یزید بے قصور ہے ۔ اہل بیت اطہار پر ہوئے مظالم کا وہ ذمہ دار نہیں ہے ۔ بڑی ہی حیرت و تعجب کی بات ہے ۔ وہ یزید صحیح ہے جس نے حرم پر بھی حملہ کرایا تھا ۔ جس کی وجہ سے کعبہ کا غلاف جلاتھا ۔ کعبہ کی چھت پر رکھے حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ پر ذبح ہونے والے دنبہ کی سنگیں رکھی ہوئی تھیں ۔تین دن تک حرم کے اندر اپنی فوج پر عورتوں کو حلال کر دیا تھا ۔جو شرابی اور عیاش تھا ۔ فتح مکہ کے بعد سے اب تک وہی تین دن ہیں جب کعبہ میں نماز نہیں ہوئی ۔
ایک سوال جو رہ رہ کر پریشان کرتاہے کہ جب یزید کو خلافت مل گئی تھی ۔ اسے حاکم بنا دیا گیا تھا۔ تو آخر وہ امام عالی مقام کے پیچھے کیوں پڑا رہا ۔ انہوں نے تو اپنی خلافت کا اعلان بھی نہیں کیا تھا ۔جب کہ وہیں دوسری طرف ایک دوسرے صحابی نے اپنی خلافت کا اعلان بھی کر دیا تھا ۔ آخرم امام حسین ؑ کے پیچھے ہی یزید کیوں پڑا تھا ۔آپ کی شہادت کے بعد جب سر اقدس طشت پر رکھا ہوا تھا تو آپ کے ہونٹو کے درمیان دانتوں پر چھڑی رکھ آسمان کی طرف دیکھ کر یہ کیوں کہہ رہا تھا کہ دیکھو ہم نے تمہارا بدلہ لے لیا ۔ آخر کس کا بدلہ لیا تھاْ ۔ ایک طرف یزید نے ظلم کی انتہا کر دی ۔ پھر بھی وہ غلط نہیں دوسری طرف حسین ؑ نے صبر کی انتہا کردی پھر بھی وہ صحیح نہیں۔یہ اسلام تو نہیں ہے ۔ پھر تمہیں شریعت کے فیصلے سنانے کا کس نے حق دیا ہے۔محرم کی سبیل حرام ، کھچڑا حرام ، مجلس حرام ، قرآن خوانی حرام ، فاتحہ حرام ، ان کی یاد منانا حرام،جلوس حرام،یاد حسین میں نکلے ہوئے آنسو حرام۔یہ حرام کا کارخانہ کھول کر بیٹھ گئے ہیں ۔جہاں سے حرام کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں۔نہ شرم ہے نہ غیرت اور حیا ہے ۔خدائی کا دعویٰ کرنے والے جہالت کی تاریکی میں اتنا کھو چکے ہیں کہ انہیں دنیا کی تاریکی ہی حقیقت لگتی ہے ۔
اسی مہینے میں تقابل کا بھی خوب شوق ہوتاہے ۔ جب ایک طرف امام حسین ؑ کی مجلس کا ماحول ہوتاہے۔ تو اس میں حضرت امیر معاویہ کا ذکر کرنا عین ایمان سمجھا جاتا ہے ۔ دیگر صحابہ کے نام سے مجلسیں سجانا بھی اہم ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ حسین ؑ والے ہیں اورہم لوگ صحابہ والے ہیں۔ کسی کا بھی ذکر خیر نیکی اور خیر کا باعث ہے لیکن اصحاب و اہل بیت کے درمیان تقابل کرنا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔خود کے اعمال و کردار کا کوئی بھروسہ نہیں لیکن پوری دنیا کو ہدایت دینے کا ذمہ لے لیا ہے ۔ ایک با ت سمجھا دی گئی ہے کہ جو بات تمہیں معلوم ہو جائے اسے دوسروں تک پہنچاؤ ۔ یہ نبوی مشن ہے ۔ وہ بات کب اور کیسے پہنچائی جائے اس کا علم نہ خود کو ہے اور نہ ہی دینے والے کوہے ۔ قرآن کی قاف اور عربی کی عین سے ناواقف جاہل قرآن و احادیث سے مسئلہ سمجھاتے ہیں بلکہ تھوپتے ہیں۔ خود وسیلے کے قائل نہیں، حدیثوں پر اعتبار نہیں، ائمہ لائق اعتماد نہیں لیکن کہتے ہیں کہ خود ہی قرآن کا ترجمہ پڑھ کر دین سیکھ لو ۔ اس میں کسی امام یا مجتہد کی کیا ضرورت ہے ۔ عقل کے مارے ان گمراہوں کو اتنی توعقل ہوکہ جو ترجمہ پڑھ کر قرآن فہمی اور دین سمجنے کی بات کہہ رہے وہ ترجمہ کرنے والا کون ہے۔ کیسے معلوم ہوگا کہ جو ترجمہ کیا گیا ہے وہ صحیح ہی ہے ۔ یہ کون طے کرے گا اور کیسے کرے گا؟اس کیلئے جس کی مدد لی جائے گی وہ اللہ ہوگا یا غیر اللہ ہوگا ؟
اہم مسئلہ اور قابل؂ غور بات یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں اختلاف ہے تو مد مقابل کے جذبات کو ٹھیس پہنانے کی بجائے معاملے کو سنجیدگی سے سمجھا جائے ۔ فیصلہ سنانے کی جگہ رائے زنی کی جائے ۔ اگر کسی نے مسئلے کی مخالفت کر دی تو اس کو گالی گلوج دینے کی بجائے اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جب تک وہ صریح گستاخی پر آمادہ نہ ہو جائے ۔گلی چوراہوں اور خطابت کے زور پر کربلا کا فیصلہ بند کریں۔ اس پر سنجیدگی سے سوچیں۔کہیں ہم کسی بہاؤ میں تو نہیں جارہے ہیں۔ کسی کی مخالفت میں ہم خود مخالف سمت میں تو نہیں چلے جا رہے ہیں۔ہر حال میں بے ادبی اور بد تمیزی سے اجتناب لازمی ہے ۔ بالخصوص جب معاملہ ان نفوس قدسیہ کاہو جن کے بارے میں آیات کریمہ اوراحادیث مبارکہ کا نزول ہوا ہو۔ اگر کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حتمی اور یقینی بات معلوم نہ ہو تو خاموشی بہتر ہے ۔ ویسے بھی بے ادبی اور بد تمیزی سے بہتر ہے کہ خاموش رہاجائے اسی میں عافیت اور بھلائی ہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385




Like Me On:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://plus.google.com/117060618306950549315
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment