Saturday, December 17, 2016

نوٹ منسوخی کا اقدام مثبت یا منفی ؟ Demonetisation: Positive or Negative? विमुद्रीकरण: सकारात्मक या नकारात्मक

نوٹ منسوخی کا اقدام مثبت یا منفی ؟
عبدالمعید ازہری

نوٹ منسوخی کو لیکر ہو رہی افرا تفری اور در پیش مشکلات و مسائل ماہ ختم ہونے تک بھی حل ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں. لمبی لمبھی قطار میں کھڑے لوگوں کی مشکلیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں. اتنے دن گزر جانے کے باوجود اب تک عوام تک نوٹ پہنچانے کے کوئی پختہ انتظامات نہیں کئے جا سکے ہیں. جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف اموات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف لوگوں کا اعتماد بھی موجودہ حکومت پر کم ہوتا جا رہا ہے. اب تک ہونے والی پچاس سے زائد اموات کا ذمہ دار کسے مانا جاۓ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب اب تک نہ تو حکومت دے سکی ہے اور نہ ہی نوٹ منسوخی کی وکالت کرنے والے اس کے کسی نمائندے نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے. لائین میں لگ کر ہونے والی اموات میں ہر عمر اور جنس کے لوگ شامل ہیں. اس کے پیچھے کی وجہ کوئی بھی بیماری ہو سکتی ہے لیکن اس کا سبب لمبی اور دیر پا قطار ہی بنی ہے. شادی کیلئے کافی اور مناسبپیسوں کا معقول انتظام و بندوبست نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کے واقعات بھی موجودہ حکومت کی نوٹ منسوخی کے تریقے پر کئی بڑے سوال کھڑے کر رہی ہے.
عام طور پر تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور بیدار طبقہ اس نوٹ منسوخی کو قبول بھی کر لے تو بھی اس کی تیاری کو لیکر پس و پیش میں ہے. اتنے دن گزر جانے کے باوجود پریشانیوں کا حل نہ نکلنے سے نیت پر شبہ کیا جانا واجب ہے.نوٹ منسوخی کے بعد صرف چار گھنٹے کا وقت دیا گیا اسے تبدیل کرنے کے لئے اس کے بعد دو دن تک بینک بندی نے بھی رہی سہی کسر اور کمر دونوں توڑ دی. دو دن بعد جب بینک کھلا تو اکثر میں پیسے نہیں تھے. اگلے دو دنوں تک صرف پیسہ جمع کیا گیا. جتنا پیسہ جمع کیا گیا اس دس فیصد بھی واپس نہیں دیا گیا. ایک دن میں صرف دو ہزار روپئے ہی نکال سکنے کی پالیسی نے بھی خوب ہمّت توڑی. چار سے پانچ گھنٹے کی لائین کے بعد صرف دو ہزار روپۓ ملے. دو دن بعد پھر سے پانچ گھنٹے کی لائین میں کھڑا ہونا ہے. اس کے اوپر طرفہ تماشہ یہ کہ دو ہزار کی نوٹ پاکر بھی کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے. اب اس نوٹ کیلئے کھلے پیسے نہیں مل رہے ہیں.پہلے اپنے ہی پیسوں سے دور کیا گیا اس کے بعد ایک ایسا نوٹ ہاتھ میں تھما دیا گیا جو مارکیٹ میں صرف دکھانے کے کام آتا ہے .
نوٹ بندی کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا کاروبار متاثر ہو گیا ہے. ایک عام آدمی سے لیکر چھوٹا کاروباری سبھی لائن میں کھڑے نظر آ رہے ہیں. اس کی وجہ سے کئی جگہ سامان مہنگا بھی ہوا ہے. پیسہ ہو کر بھی لوگ بھوکے رہے ہیں. تجارت پر اس کا کافی برا اثر ہوا ہے. آڑھت کے ایک بڑے کاروباری کو، جس کے پاس دس ٹرک ہیں، ہر ٹرک کے پیچھے اسے کم سے کم بیس ہزار روپۓ چاہئے. اب اسے ایک دن میں ایک لکھ روپیوں کی در کار ہے. لیکن اسے صرف چار ہزار روپئے ملتے ہیں. اب وہ اتنے روپیوں میں کتنے ٹرک سامان بھیج سکتا ہے. اتنی سہولت تو ہوئی ہے کہ پٹرول پمپ پر پرانہ چل جائے گا. اس کے علاوہ ٹول ٹیکس کی بھی چھوٹ دی گئی ہے جس کی وجہ سے کافی حد تک راحت تو ہے لیکن مشکلوں سے بالکل نجات نہیں. ان تمام سہولتوں کے باوجود بہ مشکل تمام دو ٹرک سامان ہی مارکیٹ تک بھیج پاۓگا. دس کی جگہ دو ٹرک سامان جاۓگاتوسامانکیقلتکیوجہسےاسسامانکی مانگ بڑھے گی. اس کے بعد اس دام میں اضافہ ہونا سو فیصد طے ہے. ایک تو آدمی کے پاس پیسا نہیں اوپر سے مہنگائی کی مار، عام آدمی کہاں جائے.
اگر اس نوٹ منسوخی کی تیاری حکومتی سطح پر پہلے ہی کر لی جاتی تو شاید یو دن نہ دیکھنے پڑتے. دو ہزار کا نوٹ تو مارکیٹ میں اتر دیا لیکن اسے اے ٹی ایم سے نکالنے کا انتظام نہیں کیا گیا. اے ٹی ایم میں تکنیکی خرابی ہونے کی وجہ نصف فیصد سے زائد مشینیں اچانک خراب ہو گئیں. منہ کے جلے کو دودھ بھی گرم ملا. حکومت کی جانب سے جاری ہدایات پر بھی عمل مکمل نہیں ہو پایا. جس کی وجہ سے سب سے زیادہ تکلیف ایک عام انسان کو اٹھانی پڑی. شادی کے لئے منظر شدہ رقم کیلئے بھی ضرورت مندوں کو ہی دھکّے کھانے پڑے. ان دونوں ہی معاملوں میں اثر و رسوخ والے افراد نے اس کا فائدہ ملا. بنا لائن میں لگے پیسے سیدھے بینک سے لے لیتے ہیں. شادی کی فرضی دعوتی کارڈ بھی ان لوگوں نے بنا کر پیسے لی لئے. یہاں بھی عام آدمی کو سواۓانتظار، دھوکہ اور ضرورت کی مار کے کچھ نہیں ملا. اس کے اوپر انہیں سے پچاس دن کی مہلت بھی مانگی جا رہی ہے. لاٹھیاں بھی کھا رہے ہیں اور صبر کی تلقین بھی انہی کو دی جا رہی ہے.
بے شک اس نوٹ منسوخی کے بڑے فائدے ہوئے ہیں. دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اس سے کافی نقصان ہوا ہے. حوالہ اور ریل اسٹیٹ مافیا کو بھی کافی دقتیں آئی ہیں. سرکاری خزانے بھی خوب سیراب ہوا ہے. حکومت نے جو آنکڑا دیا ہے اس کے مطابق ستر فیصد سے زیادہ کالا دھن واپس بینکوں میں نہیں آ پاۓگاجس کی وجہ سے سرکاری خزانہ لبالب ہوا ہے.
نوٹ منسوخی کے چند بڑے فائدوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس عمل کے بعد ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا. ہندوستان کی ایک سو پچیس کروڑ کی گھنی آبادی میں کم سے کم تیس فیصد تو ایسے ہیں جو ٹیکس ادا کر سکیں. وہ ٹیکس چاہے ١٠٠روپئےہیکیوںنہہوں. ایکبڑیتعدادایسےکاروباروںکیہےجوٹنلاکھسےزیادہکاکاروبارکرتےہیںلیکنانکانامٹیکسدینےوالوںکیفہرستمیںنہیںہے. یعنیایکبڑیآبادیٹیکسدئےجانےوالیرقمکواپنےکاروبارمیںاستعمالتوکرتیہےلیکنٹیکس ادا نہیں کرتی جس کی وجہ سے ملک کو معاشی نقصان و بحران سے گزرنا پڑتا ہے. ترقی کے بہت سارے مواقع اور مسائل سے محرومی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے. روزگار میں بھی کمی آتی ہے. تعمیر و ترقی کے کئی راستے مسدود ہو جاتے ہیں. سماج کے ہر شعبے اور طبقے پر اس کا اثر پڑتا ہے. جرائم اور واردات میں بھی اضافہ ہوتا ہے. بد عنوانی بڑھتی ہے. نفرتوں کا بھی خوب فروغ ہوتا ہے. چونکہ ٹیکس نہیں دیا جاتا ہے اس کا مطلب پیسہ بینکوں تک نہیں پہنچتا ہے. اسے جمع کر لیا جاتا ہے. پیسوں کی جمع خوری سے کالا بازاری بڑھتی ہے. دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بھی فروغ ملتا ہے. قسم قسم کے مجرمانہ حادثات و واردات کے لئے ان پیسوں کا ناجائز استمال ہوتا ہے.
اس نوٹ منسوخی سے پیسوں کی جمع خوری پر لگام کسی جائےگی. یہ پیسہ یا تو ختم ہو جائے گا یا کم سے کم ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا. ایک اندازے کے مطابق ستر ٧٠فیصدسےزیادہ پیسہ واپس بینکوں میں جمع نہیں کیاجائےگا. جوتیس فیصد پیسہ جمع ہوگاوہ کئی لاکھ کروڑہیں. جسکا ٹیکس سرکاری خزانےمیں جائےگا. جوپیسہ جمع نہیں کیاجائےگا. اس رقم کےبارے میں الگ الگ راۓہیں. ایک اندازے کےمطابق وہ رقم گیارہ لاکھ ہزار کروڑ کی ہوگی. یہ بڑی رقم بھی سرکاری خزانے کے سپرد کر دیا جائےگا. پچھلے ایک مہینے سے نوٹ منسوخی کے بعد لوگوں کے خرچ بھی کم ہو گئے ہیں. آنے والے چند دنوں میں ایک ساتھ لاکھوں روزگار کی امید بھی کی سکتی ہے. ترقی کے کئی راستے کھلنے کے بھی قوی امکانات ہیں. کئی لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس کا بڑا اثر آنے والے یو پی اور پنجاب کے اسمبلی انتخابات پر پڑے گا. تجزیہ نگاروں کی مانیں تو موجودہ حکومت کا یہ اقدام اسی مقصد کے لئے تھا.بی جے پی کا نوٹ منسوخی کا یہ منصوبہ مکمل سیاسی ہے. آنے والے انتخابات میں دوسری سیاسی جماعتوں کو مالی طور پر کمزور کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے.
ان تمام فائدوں کے باوجود مرکزی حکومت کا یہ اقدام تنقید و تنقیص کے نشانے پر ہے. ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے مطابق نوٹ منسوخی کا یہ اقدام پیسوں کی جمع خوری یا بلیک منی کے خلاف ایک اہم اقدام ہے جس دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کالا دھن کے سوداگروں کو کڑا سبق سکھایا جائے گا. اس دعوی کو اگر زمینی سطح دیکھا جائے تو اس کے مثبت اثرات سے زیادہ منفی نتائج سامنے آئے ہیں. کالے دھن کے جو بھی بڑے جمع خور ہیں انہوں نے تقریبا اپنا انتظام کر لیا ہے. بینکوں سے ڈائریکٹ نوٹ بدلی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں. سرکاری ملازمین کو نوٹ منسوخی کے اعلان سے پہلے ہی دو مہینے کی تنخواہیں دے دی گئی تھیں. جسے اب وہ جمع کرا رہے ہیں. نوٹ منسوخی کے بارے میں کسی کو بھی خبر نہیں کا دعوی کئے جانے کے باوجود نئے نوٹوں کی گڈیاں نظر آئیں. نئے نوٹ کی ساتھ ہی نقلی نوٹ بھی بازار میں آ گنے.
کل ملا کر نوٹ منسوخی کا یہ اقدام مثبت سے زیادہ منفی اثرات پیدا کر رہا ہے. نوٹ منسوخی کے اول روز سے لے کر اب تک ایک عام آدمی، غریب مزدور اور کسان ہی تکلف اٹھا رہا ہے. کئی مزدور جو شہروں میں یومیہ مزدوری کرتے تھے وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے. ان مزدوروں کے مطابق خانے پینے اور دیگر ضروریات کی خرید و فروخت کرنے والے بھی سرک پر آ گنے. جن کا کام ان مزدوروں سے ہوتا تھا وہ بھی متاثر ہو گنے.
غریب اور غریب ہو گیا امیر اور امیر ہو گیا. پہلے بڑے بڑے کاروباری بلیک منی کو سفید کرنے کیلئے سو روپیہ دی نوے کا اسی وسلتا تھا اب وو سو کی جگہ ایک سو دس حاصل کرتا ہے. ایک غریب آدمی کو پیٹ کی خاطر ایسا کرنا پڑتا ہے.
اب تک تو یہی ہو رہا ہے لیکن ہمارے مکھیا نے کچھ دن اور انتظار کرنے کو کھا ہے ویسے بھی عوام نے ہمیشہ بھروسہ کیا اور یقین کیا ہے. امرجنسی جیسے حالات بننے کا باوجود، کئی موتیں ہوئیں، ساشن پراساشن نے زیادتیاں کی. اس  کے باوجود عوام سڑکوں پر اتر کر غصّے کا اظہار کرنے کی بجاے مشکلوں کا سامنا کر رہی ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید اب اچھے دن آئیں گے. اس سے ایک بات کا اور پتا چلا کو دھرنا، مظاہرہ، احتجاج اور ریلی کے نام پر توڑ پھوڑ، مار پیٹ اور آگ زنی جیسے واقعات عام آدمی کی پسند نہیں. کب ہماری سیاست کو شعور آئے گا؟ کب وہ ملک کی ہر اس شہری کے لئے سنجیدہ ہوگی جو ہزاروں ظلم و جبر سہنے کے بعد بھی کہتا ہے " سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا"
#Demonetization #Currency
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Thursday, December 15, 2016

کلمہ گو کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت Unity among Muslims in need of the hour मुसलमनों में एकता समय की मांग

ہر کلمہ گو کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت 

عبد المعید ازہری


یہ تحریر نہیں دلی جذبات کا اظہار ہے جو گراں تو ہے لیکن آج ہر مسلمان کو سننی ہوگی ۔آج ہم ایسے چوراہے پر کھڑے ہیں جس کا ہر راستہ تاریکی کی طرف جاتا ہے ۔ سمندر میں ناپید تیرتی ہوئی کشتی کا ہر ملاح اپنے آپ کو راہنماءاور نجات دہندہ تصور کرتا ہے ۔ وہ مسافروں کو آواز دے کر بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری کشتی میںبیٹھ جاو ¿ یہی کشتی نجات ہے ۔ ہر ملاح اور بادبان یہی صدا دے رہا ہے ۔ سب کی ایک جیسی کشتی ہے اور ایک ہی صدا بھی ہے ۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ راستہ کوئی ایک ہی پار لگائے گا ۔
جمیعة علماءہند نے دو مہینہ قبل وہابیت سے برات کا اعلان کیا اورصوفی ہونے کا اعتراف کیا۔ تصوف اور صوفیوںکی خدمات و تعلیمات کے بھی معترف ہوئے ۔ حالانکہ اس پر اہل سنت کے کئی علماءو مشائخ کا اعتراض بھی ہو اکہ صرف زبانی بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا ۔ عملی طور پر اس کا اعتراف لازمی ہے ۔ اس کےلئے جن مسائل اور عقائد پر دونوں جماعتوں میں اختلاف ہے، اس سے اصلا برات لازمی ہے ۔ ان وہابی اکابرین کے عقائد و نظریات ، تحریر و تقریر کا بائکاٹ ضروری ہے جس میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی موجود ہے ۔ جنہوں نے صوفیا اور تصوف کا مزاق اڑایا اور اسے دین سے خارج قرار دیا ۔ ابھی حال ہی میں جمیعة نے اپنا صوفی شجرہ نسب (طریقت و خلافت ) روزنامہ انقلاب میں شائع کیا ۔ جس میں دونوں ہی اکابرین سے اپنی وابستگی کا اظہارکیا ۔ اس میں وہابی اکابر علماءبھی ہیں اور اہل سنت کے بھی ہیں۔ اس شجرہ سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تصوف کے دامن سے وابستگی وقت کی کوئی خاص و اہم ضرورت ہے ۔ ایک طرف صوفی ہونے کی بات کی گئی تو دوسری طرف تصوف مخالفین سے وابسگتی بھی ظاہر کر دی گئی ۔ اہل سنت کے اسی موقف کو اختیا کیا گیا جس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا شجرہ اسلام کسی بابر، اکبر یا ہمایوں سے نہیں ملتا بلکہ سرکار غریب نواز کی تعلیمات و خدمات سے ملتا ہے ۔
صوفی ، تصوف، درگاہ ، خانقاہ ، آستانہ اور امام بارگاہوں کے مخالفین کے ساتھ اس صوفی روایت کاحصہ بننا کا فی مشکل کا م ہے ۔ حالانکہ اس میں اہل سنت کے نام کو استمال کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔ درگاہ اجمیر شریف کے سرکاری دیوان کو مہرا بنایا گیا اور بریلی کی شہرت پسندی نے اسے اتحاد کا نام دینے کی بھر پور کوشش کی ۔ موجودہ اکابر وہابی و دیوبند نے بھی اس میں کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ نہ ہی اہل سنت کے کسی بھی عالم دین نے مولانا محمود مدنی اور مولانا توقیر رضا خان بریلوی کے درمیان ہونے والے سنی وہابی اتحاد پر کوئی شک و شبہ کااظہار کیا ۔ یہ اتحاد نیا نہیں ۔ نہ ہی اس سے کسی عام سنی مسلمان کو کوئی سرو کار ہے ۔ دونوں ہی اپنی اپنی جماعت کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں حق ہے کہ ایسے بڑے فیصلے لیں۔ بس اتنا بتا دیں کہ عوام اہل سنت کیا کرے ؟ عوام وہابی جماعت کا کیا موقف ہو ؟ جسے سنیت سے وہابیت کی طرف صوفی مخالف پروپیگنڈہ ہی کے ذریعہ لایا گیا تھا ۔اہل سنت کو بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ (وہابی)لوگ نہ تو ہاتھ ملانے کے قابل ہیں اورنہ ہی بات کرنے کے لائق ہیں۔ ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاملات رکھنا درست نہیں۔دونوں ہی جماعت کے واضح موقف کے بعد اس طرح کے اتحاد سے ان عام مسلمانوں کو کیا پیغام ملنا چاہئے ؟
ایسا نہیں ہے کہ اتحاد اچھی بات نہیں ۔ یہ تو وقت کا تقاضہ ہے کہ اتحاد ہو ۔ آپسی رنجشیں ختم ہو جائیں۔ دین کے نام پر اپنے ہی کنبوں کو مارنا کاٹنا بند کیا جائے ۔ کفرو شرک کی دوکان داری اور کاروبار بھی بند ہو ۔ لیکن یہ اتحاد کسی پروگرام کے دوران محض ہاتھ ملا لینے سے عمل میں نہیں آئے گا۔ کسی ذاتی فائدہ ، ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر ایک ساتھ ڈنر کر لینے سے قومی اتحاد ممکن نہیں۔یہ دونوں ہی لوگ کیا اپنے اپنے گھروں میں اتحاد کی داغ بیل ڈال پائیںگے ۔ مولانا محمود مدنی کیا اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو سرے سے نکار پائیں گے ۔ یا خود ذاتی طور پر ان سے علیحدگی اور برات کا اظہار کر پائیں گے ۔ اسی طرح کیا مولانا توقیر رضا خان اپنی خاندانی خدمات رد وہابیت سے انکار کر پائیںگے ۔اپنے گھر اور تمام اہل سنت سے اتحاد کر پائیںگے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اس تحاد کے پیچھے کا مقصد کیا ہے ؟ کتنے میں اہل سنت کا سودا ہوا ہے ؟ بریلی کے وقاراور اس کی شناخت کو کتنے میں بیچا گیا ؟ ان لوگوں کا کتنا حصہ ہے جو لوگ اس تحاد سے متفق ہیں۔ خواہ اعلان کر کے یا خاموش رہ کر ۔
جب مارچ مہینے میں بین الاقوامی صوفی کانفرنس ہوئی تھی تو اس وقت مولانا توقیر رضا خان اور مولانا محمود مدنی دونوں نے مل کر مخالفت کی تھی ۔ اس مخالت کا ساتھ خاندان کے اکثر افراد نے دیا تھا۔البتہ کچھ لوگوں نے خاموشی کو ترجیح دیا تھا ۔ کچھ تنخواہ دار قلم کاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔کےونکہ سیاسی جواب دہی تھی ۔ سیاسی و مذہبی آقاو ¿ کو جواب دینا تھا اسلئے انہیں،مخالفت نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ،پیشہ ورانہ مخالفت کرنی پڑی ۔ اب یہ سارا کنبہ خاموش ہے ۔ اگر اس پورے خاندان نے اس اتحاد کو قبول کر لیا ہے تو اسے چھپانا نہیں کرنی چاہئے۔ اس کا باقاعدہ اعلان ہو جانا چاہئے ۔ اب تک جو ہوا سو ہوا لیکن اب ہم بھائی بھائی ہےں۔اس بھائی چارگی کا اعلان اس سے پہلے اسی سال غالبا فروری مہینے میں جمیعة ہی کے بینر تلے’ بریلوی ہمارے بھائی ہیں‘کا اعلان ہو چکا ہے ۔ وہاں بھی کسی نے نہ تو کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی کسی کی قلم چلی ۔ دہشت گرد مخالف کانفرنس میں وہابیوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اہل سنت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ یہاں مکمل سنیوں کا اجتماع ہے ۔ اب انہیں کیا جواب دیں گے جن سے تنخواہیں ملتی ہے ۔ مجھے یقین تو نہیں لیکن شک ضرور ہے کہ مفروضات کی کشتی پر سوار اس مسافرکی اپنی کوئی منزل نہیں۔ اہل سنت کا، ایک بڑے نام کا لیبل ہے اور کا سارے وہابیوں کے ساتھ کرنے ہیں۔رشتہ اللہ سے شیطان سے یارانہ بھی ۔
اہل سنت کے اکابرین اور ان چند نام نہاد ٹھیکیداروں سے یہ سوال عرض ہے کہ رد وہابیت کی اس خاندانی تاریخ میں کتنے ایسے وہابی نام ہیں جنہیں کافر کہا گیا ہو ؟ ہاں بیس سے زائد ایسے اہل سنت کے نام ضرورت ہیں جنہیں بنام شخصیت کافر اور گمراہ کہا گیا ہے ۔ یہ کون سی تحریک ہے جو غیروںپر کم اپنوں زیادہ وار کر رہی ہے ۔دونوں کا ایک ہی جیسا عمل ہے ۔ دونوں اپنے گروپ تیار کر رہے ہیں۔ جو بھی اس کے خلاف پایا گیا اسے کافر ،مشرک ، گمراہ ، یا بدعتی کہ کر دور کر دو۔ باقی ہم مل کر اقتدار بانٹ لیںگے ۔بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی مخالفت میں پوری ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دین کی پامالی سے بھی دریغ نہیں کیا گیا ۔ بر سر محفل یہ اعلان کیا گیا کہ ’یہ یہودی ،نصرانی مجوسی کانفرنس ہے ‘۔ اس میں شامل ہونے والے اسلام سے خارج ہو جائیںگے ۔ وہابی افکار کے حامل افراد و اشخاص، اداروں او رجماعتوں کو اس کانفرنس سے تکلیف تو سمجھ میں آئی ہے لیکن ان نام نہاد سنیوں کی مخالفت سمجھ میںنہیںآئی ۔مزید یہ کہ اہل سنت کے ٹھیکےدار بھی یہی ہیں۔وہ کون سا سودا ہے جس کے پےش نظر یہ سب کیا گیا ۔ پہلے سنی صوفی مسلمانوں کی مخالفت اس کے بعد انہیں صوفیوں کے خلاف کانفرنس اور اتحاد ۔
بریلی اور دیوبند دونوں ہی نے مل کر دین کا مزاق بنا کر رکھ دیا کہ تین طلاق غیر اسلامی ہے ۔ اس پورا اپنے آپ کو اسی فیصد کہنے والے اہل سنت کے علماءو مشائخ خاموش ہیں۔ دین کے صحیح رہنما کہنے والے دیوبند اور ندوہ بھی چپ ہیں۔
آج مسلمانوں کو اجتماعی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ صرف دولوگوں کو مفاد پر مبنی ملن کو اتحاد کا نام دینا اتحاد کی کوششوں کو رسوا کرنا ہے ۔ اگر ان لوگوں یا دو مکتب فکر کے لوگوں کا اتحاد بنام مسلم از حد لازم و ضروری ہے تو کیا جملہ کلمہ گو کا اتحاد ضروری نہیں۔ شیعہ ہوں ، اہل حدیث ہوں، احمدی، قادیانی،رافضی ہوں اور جو بھی بنام مسلم گروہ اور جماعتیں پائی جاتی ہےں کیا سب کا اتحاد ضروری نہیں؟
اسی طرح القاعدہ اور طالبان جیسے لوگ بھی ہیں۔ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے لیکن انہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کی دہشت گردی کی تاویل بھی کی جاتی ہے اب ان کو کس خانے میں رکھیںگے ۔ اسی طرح اتحادسے پہلے اس کے دائرے بنانے پڑیںگے ۔ موقف طے ہوںگے کہ ان معاملوںمیں اتحاد ممکن ہوگا اور ان میںممکن نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ یہ اتحاد کیسا ہے ۔
جس طرح اختلاف کی الگ پہچان بنا دی گئی ہے اسی طرح اتحاد کی بھی الگ شناخت ہوگی ۔ آج تک یہ سمجھ سے باہر ہے کہ مسلکی اختلاف کہاں ہے اور جھگڑے کہاں ہےں۔ بریلی اور دیو بند دونوںہی اپنے اختلا ف کو مسلکی اختلاف کہتے ہیں حالانکہ اہل سنت کے اکثر علماءو مشائخ اسے مسلکی اختلاف کی نجائے عقیدے کا اختلاف تصور کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فقہ میں چار اماموں کا مسلکی و فقہی اختلاف ہے اس کے باوجودکوئی جھگڑا نہیں۔ اگر مسلک کو مشرب اور سللے کے معنی میںلیں تو بھی کوئی اختلاف نہیں۔ جسے اختلاف ہے وہ مشرب اور سلسلہ ہی نہیں۔ لیکن وہابیت اور سنیت کے درمیان جو کفر و ایمان کا اختلاف ہے وہ اس میں عقیدت اور مشرب مسلک کو تو کوئی معاملہ ہی نہیں ۔ وہ اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیںاہل سنت بھی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ حنفیت میںکوئی اختلاف نہیں ۔
اب یاتو مکمل اتحاد ہو ۔ بریلی بھی اپنے عقیدے کو دیکھے جانچے پرکھے جو غلط ہوں ان سے توبہ کرے کیونکہ جب اختلاف ہے تو مختلف افکار و نظریات تو ہونگے ہی ۔ اسلئے اسے تبدیل کرے ۔ اسی طرحوجمیعة بھی اپنے عقیدوںمیں نظر ثانی کرے اور متحدہ عقائد پر مصافحہ و معانقہ کیا جائے اس کار خیر میں شیعہ کو بھی پیچھے نہ رکھا جائے انہیں بھی دعوت دی جائے ۔ گلے .لگایا جائے ۔ کیونکہ آج مسلمانوں کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Tuesday, December 6, 2016

خواجہ کی نگری میں بریلی اور دیوبند کا اتحاد Unity Between Barely and Deoband at Ajmer: the city of Gharib Nawaz


خواجہ کی نگری میں بریلی اور دیوبند کا اتحاد 
عبد المعید ازہری

ہندوستانی اسلام و تصوف کا مرکز ، خواجہ کی نگری اجمیر شریف اپنی روحانیت ، انسانیت ، ہمدردی و رواداری کے لئے جانی مانی اور پہچانی جاتی ہے ۔ یہ وہ در ہے جہاں سب کو پناہ ملتی ہے ۔لوگ اپنا گلہ شکوہ بھول کر آپسی میل جول کی مثالیں قائم کرتے ہیںْ۔ اتحاد و اتفاق کا عظیم گہوارہ اجمیر، امیر وغریب کے فرق کو مٹاکر انسانی رشتوں میں انسانی اقدار کی تعظیم و توقیر کا درس دیتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس در غریب نواز پر سبھی اپنی جبین عقیدت بڑی ہی نیاز مندی کے ساتھ جھکاتے ہیں۔بلا تفریق مذہب و ملت، ملک و بیرون ملک سے امن و محبت کی اس فضا کی زیارت کرنے آتے ہیں۔ یہاں کسی کو پھٹکاراور دھتکار نہیں ملتی ہے ۔ سبھی کو گلے لگایا جاتاہے ۔ جنہیں اس فکر و روایت سے محبت ہے انہیں بھی سینے سے لگایا جاتاہے اور جنہیں نفرت ہے ان کا بھی استقبال کیا جاتاہے ۔ غریب نواز کی غریب نوازی کا عملی نمونہ آج بھی اس چوکھٹ پر نظر آتاہے ۔ جہاں سب کو ایک نظر سے دیکھا جاتاہے ۔ مہمان نوازی ، تکریم و توقیر کی سیکڑوں مثالیں آج بھی در غریب نواز سے ملتی ہے ۔ انسانی دلوں سے منافرت کی بیماری کو محبت سے دور کیا جاتا ہے ۔
ایک بار پھر اسی نگر میں ایک ایسے اتحاد کی خبر آئی ہے جس کی باتیں کئی دہائیوں سے کی جارہی تھیں۔ ۱۳ نومبر کو جمیعۃ علماء ہند کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر دیوبند اور بریلی کے درمیان برسوں سے چل رہے تنازع اور اختلاف کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ دیوبند ی فکر کی نمائندگی مولانا محمود مدنی نے کی اور بریلوی مکتبہ فکر کی وکالت مولانا توقیر رضا خان بریلوی نے کی ۔ ان دونوں نے ہی مل کر ایک ایسے مسئلے و موقف کی حمایت و موافقت کر ڈالی جس کے لئے آج پوری امت مسلمہ پریشان ہے ۔یعنی تین طلاق کو غیر اسلامی قرار دے کر موجودہ حکومت کی مشکلوں کو آسان کر دیا ۔ جمیعۃ علماء کے اس سالانہ اجلاس میں تین بڑے کارنامے یا فریب ہوئے ۔ کارنامے اسلئے کہ جس مقصد کیلئے یہ اجلاس ہوا اور جس کے لئے اجمیر کا انتخاب ہو ا ،اس میں خاطر خواہ کامیابی نظر آرہی ہے ۔ فریب اسلئے کہ ان تینوں ہی کاموں سے امت مسلمہ کا کوئی تعلق نہیں بلکہ نقصان عظیم ہے۔اس اجلاس سے نکلنے ولاے نتیجے سوائے فریب ، ریاکاری اور سیاسی سوداگری کے کچھ نہیں ۔ تنخواہ دار مضمون نگار اس بات بڑا کارنامہ ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن قوم مسلم کے ذ مہ دار اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کر سکتے ۔ دونوں ہی مکتب فکر کے لوگوں کا ان معاملات میں اتفاق ممکن نظر نہیں آتا ۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ دیوبند اور جمیعۃ کا تعلق کس فکر سے ہے ۔ اس فکر کو پوری امت مسلمہ کے سامنے اجاگر کرنے کیلئے آل انڈیا علماء و مشائخ بوڈ نے اسی سال مارچ کے مہینے میں ایک بین الاقوامی صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فار م پر لانے کی کوشش کی گئی ۔ اس میں کامیابی بھی ملی ۔ اس اتحاد کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے(بنام) اسلامی افکار و نظریات(وہابیت/دہشت گردی) کی پرزور مذمت کی گئی ۔اس عظیم اتحاد کو پوری دنیامیں سراہا گیا لیکن ہندوستان کے دونوں مکتب فکر کے ان دونوں ہی نمائندوں نے اس کانفرنس کی جم کر مخالفت کی تھی ۔ اس مخالت سے انہوں نے اپنی فکراور منشاء لوگوں پر ظاہر کر دی تھی ۔ اس کانفرنس میں چونکہ تصوف اور صوفیاء کو مرکزی حیثیت میں رکھا گیا تھا اس لئے جمیعۃ نے ہندوستانی تصوف کے مرکز اجمیر کو اپنے اجلاس کے لئے منتخب کیا ۔تاکہ تصوف سے وابستگی کو ظاہر کر سکیں۔ پوری دنیا میں ان دونوں ہی فکروں کا وجود نہ کے برابر ہے ۔ ہندوستان میں بھی ان کے وجود و شناخت کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا اسلئے دونوں نے اپنی عافیت اسی اتحاد میں سمجھی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح پوری امت مسلمہ تین (سنی ،وہابی اور شیعہ)فکروں میں بٹی ہوئی ہے ۔ اس کے بعد تینوں میں بھی آپسی اختلافات ہیں۔ الگ مسلک اور مشرب میں منقسم ہیں۔ کبھی کبھی اختلاف کفر شرک تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔آج جس طرح وہابیت پوری دنیا میں سعودی وفاداری میں بے نقاب ہو چکی ہے اسی طرح بریلویت کے بارے میں انکشاف ہوچکا ہے کہ اس نام کا وجود ہندوستان ہی کے چند گوشوں تک محدود ہے ۔ اکثر اہل سنت و جماعت اپنے آپ کو بریلوی کہنا پسند نہیں کرتے ۔ یہاں تک کہ بریلویت جن نے منسوب ہے وہ خود بھی ان باتوں کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم بریلوی نہیں ۔ لیکن سیاست سے ہاتھوں بکی ہوئی چند زبانیں اور ان کو عوام میں جبرا رائج و مشہور کر کے دین کی تجارت کر نے والی غیرت و ایمان سے خالی کچھ تحریریں ان دونوں ہی ناموں کو زندہ کئے ہوئے ہیں ۔ سیاسی گلیاروں میں ان کا سودا ہورہا ہے ۔ مارچ کی کانفرنس کے بعد دونوں ہی کو لگا کہ اب وجود خطرے میں ہے اسلئے دونوں نے ہی پہلے تو مخالفت کی اسکے بعد اس کانفرنس کے جواب کیلئے اتحاد کا ناٹک کیا ۔ اس میں سیاسی جماعتوں کی دلچسپیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ پچھلی دہائیوں سے مسلمانوں کو ایک گجرات کے نام سے ڈرا کر اقتدار حاصل کرنے ولای کانگریس نے اپنے تما م تنخواہ داروں کو میدان میں اتار دیا ۔ کانفرنس کے دوران جنہوں نے قلمی دہشت گردی کا نمونہ پیش کیا ۔
جمیعۃ کے اس اجلاس میں دو ذاتی لوگوں کے اتحاد کو دو مکتب فکر کا اتحاد بتایا گیا ہے ۔ جس میں اردو صحافت نے اپنی(متعصب و فروخت) فکر واضح کرتے ہوئے نمک کا حق ادا کیا ۔پوری دیوبندی فکر کیا بریلوی مکتب فکر کے ساتھ اتحاد کرتی ہے ؟ کیا پوری وہابیت جمیعۃ اور محمود مدنی کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتی ہے ؟ جب کہ جمیعۃ اس سے پہلے وہابیت سے توبہ کر کے صوفیا کا دامن پکڑنے کا اعلان کر چکی ہے ۔ اگر جمیعۃ صوفی ہو چکی ہے تو اتحاد کیسا ؟ اب تو دونوں بھائی بھائی ہیں ۔تو اتحاد کا رنگ دے کر فریب کیوں رچا گیا ؟اگر وہابی ہی ہیں تو تو صوفیت کا رنگ لگا کر فریب کاری کیوں کی گئی ؟ اب یہ اتحاد کیسا ہے ؟اگر یہ سیاسی اتحاد ہے تو اتحاد نہیں بلکہ سمجھوتہ ہے یعنی ایک دوسرے کے تعلق سے خیالات وہی پرانے ہیں بس سیاسی فائدے کیلئے دونوں ایک ہیں۔ تو ایسی کیا مجبوری ہے جس کیلئے سیاسی اتحاد کی ضرورت پڑ گئی ؟ کس جماعت کی حمایت اور کس پارٹی کی حمایت میں یہ اتحاد کیا گیا ؟ اگر آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف یہ اتحاد ہے ۔ چونکہ اب ایسے حالات بنتے جارہے ہیں جس میں مسلمانوں اور دلتوں کو دن بہ دن پریشان کیا جا رہا ہے ۔ تو کیا ایسی صورت حال کانگریس کے زمانے میں نہیں آئی تھی؟ ایک وہ دور بھی تھا جب اٹل وہاری باجپائی وزیر اعظم تھے اورلا ل کرشن اڈوالی نائب وزیر اعظم تھے ۔ جس وقت پوٹا جیسا قانون نافذ کر مسلمانوں کو خوف زدہ اور ہراساں کیا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کا حادثہ پورے ملک اور اس جمہوریت پر ایک کالا دھبہ بن گیا تو کیا اس وقت کانگریس سے جڑی وہابی تنظیموں نے کانگریس کے خلاف کو اتحاد قائم کیا تھا ؟
اگر مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی وجہ سے اس اتحاد کی ضرورت ہے تو پھر اسی اسٹیج سے دوسرا بڑا فریب ’تین طلاق کو غیر اسلامی ‘ قرار دینے کا غیر اسلامی عمل کیوں کیا گیا ؟ آج ملک کے کونے کونے کا مسلمان روزانہ احتجاج کرتا ہے ۔ نشستیں قائم کرتا ہے ۔ اسلام اور شریعت کیلئے اپنے علماء کے ساتھ پوی جاں فشانی اور قربانی کے ساتھ کھڑا ہوتاہے ۔ لیکن یہ اتحاد ان تمام کروڑوں مسلمانوں کی قربانیوں کو چند روپیوں میں سیاست کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے ۔ تین طلاق اور یکساں سول کوڈ کی لڑائی تو دونوں ہی فریق لڑ رہے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی ساتھ دے رہے ہیں جو تین طلاق کو نہیں مانتے ۔ لیکن مذہبی آزادی میں دخل اندازای کے خلاف متحد ہیں۔ اسے تو اتحاد کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مہینوں سے چلی آرہی مہم کا سودا بڑی بے باکی سے کر دیا ۔ اس پر مزید تماشہ یہ کہ دونوں ہی فریق کے ذمہ داران خاموش ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ، دیو بند اور اس فکر کی حامی تما م تنظیمیں اور ادارے اس پر خاموش ہیں۔ اسی طرح بریلوی مکتب فکر کا بھی پورا کنبہ خاموش ہے ۔ بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی قلمی دہشت گردی سے انانیت اور تخریب پر مبنی مخالفت کو جہاد کا نام دینے والے نام نہاد قلم کار یٰس اختر مصباحی کے قلم کو بھی نیند آگئی یا پھر اپنے سیاسی اور دنیا دار آقاؤں کا اشارہ نہ ملنے کی وجہ سے زنگ لگ گئی ۔ فکری و سیاسی اشاروں پر مہم چلانے والے تحریر کے اس سوداگر کا بھی قلم اچانک ٹوٹ گیا ۔کل کی مخالفت کو دین کا نام دینے والے کا دین کیا آج بک گیا؟ پوری دنیائے سنیت پر اپنی مرکزیت تھوپنے والی پوری بریلویت خاموش ہے ۔ خاندان مذہبی اور سیاسی سوداگری کا شکار ہو گیا ۔
ایک کمرے میں دست بوسی اور قدم بوسی کی کی چاپلوسی کو عالمی صوفی مشن کہنے والے اشتیاق ایوبی اور ٹی وی پر زور زور سے چلاکر تہہ خانے میں صوفی کانفرنس کے خلاف میٹنگ کرنے والے مولانا انصار رضا بھی کسی خانہ میں کونہ بگوش حکم آقا کا انتظار کر رہے ہیں۔
شرک ، کفر اور بدعت کی کاروبار کرنے والی وہابیت بھی چپ ہے ۔اس کا بھی احساس دین و شریعت کسی مجبوری ، حکمت ، مصلحت کی نذر ہو گیا ۔ جمیعۃ کے اجلاس سے پہلے شور شرابہ کرنے والوں کو اچانک شانپ سونگھ گیا ۔آخر ایسا کیا ہوگیا کہ ہر طرف سناٹا سا چھا گیا ۔
اس وقت سنجیدہ اور اہل علم و دانش کی نظروں کا مرکز آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ ہے ۔ اس سنجیدہ معاملے پر اس بورڈ کی خاموشی بھی کئی سوال کھڑے کر رہی ہے ۔
پچھلے دس برسوں سے اپنی بے باکی اور حق گوئی کے لئے معترف و مقبول تنظیم بھی اس غیر معمولی مسئلے میں خاموش ہو تا الجھنیں اور بے چینیاں بڑھتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے عظیم اتحاد کی تاریخ رقم کرنے والی اس تنظیم سے ابھی امیدیں وابستہ ہیں ۔ امید یہی ہے کہ اس مسئلے میں بورڈ کے صدر و بانی سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کچھ لائحہ عمل ضرور تیار کر لیا ہوگا ۔ اجمیر میں ہونے والے اس اتحاد ، جمیعۃ کے صوفی شجرہ اور تین طلاق کے غیر اسلامی ہونے کے موقف پر دیو بندی اور بریلوی کے متحدہ اعلان پر اس بورڈ کے موقف کا انتظارہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, E-mail: abdulmoid07@gmail.com


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Saturday, December 3, 2016

۔۔اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو और रब की नेमत का खूब खूब चर्चा करो


۔۔اور رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو
عبدالمعید ازہری

خدا کابنایاہوا نظام پوری کائنات اور جملہ مخلوقات کے لئے جامع اور کافی ہے۔قانون الٰہی قیامت تک بلکہ اس کے بعد بھی جب تک رب کی مشیئت ہو ، جاری و ساری رہے گا۔تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ رب کے بنائے ہوئے نظام اور قانون کو مانیں اور اس پر عمل کریں۔اس سے مخالفت نجات کا راستہ نہیں۔اللہ تعالی ساری کائنات اور جملہ مخلوقات کا خالق ہے ۔ اللہ ہی قادر مطلق اور علم حق و یقین کا مالک ہے ۔جو عمل ضروری تھا یعنی جن کے ترک پر نقصان تھا اسے لازم و ضروری قرار دے دیا۔جن اعمال سے نقص تھا ان سے منع کر دیا۔اس فرض وحرام کے درمیان اکثر اعمال حلال و مباح کے ہیں جنہیں رب نے انسان کے صواب دید پر چھوڑ دیا۔کوئی بھی مسلمان ان اعمال کی فرضیت اور حرمت پر سوال نہیں کر سکتا جو رب کریم کی جانب سے قرار شدہ ہیں۔ باقی مسائل میں حالات و ضروریات کے پیش نظر عمل ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے خود اس ضابطہ پر عمل کیا اور صحابہ کرام نے ان کی اتباع کی اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا۔اب ان اعمال کے بارے میں سوال بدستور باقی ہے جن کے بارے میں کچھ حکم نہیں کہ جائز ہے یاجائز نہیں ہے ؟شروع ہی سے علماء و فقہاء کا عمل رہا ہے کہ جس کو اللہ نے حرام نہیں کہا اسے کسی نے حرام نہیں کیا اور جسے اللہ نے واجب و ضروری نہیں کیا اسے واجب و ضروری نہیں کیا۔ ایسے اعمال لوگوں پر ترک تھے چاہے تو کریں چاہے تو نہ کریں جسے ہم فقہ کی اصطلاح میں جائز مباح اور حلال کہتے ہیں۔کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ قانون الٰہی میں دخل اندازی کرے کیوں کہ ایسی صورت میں یاتو وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ قانون الٰہی ناکافی اور نامکمل ہے یا پھر کچھ احکام پر حکم لگا نا رہ گیا تھا اور خدائی کا یہ دعوی کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔رسول اللہ ﷺ کی شان یہ ہے کہ وہ جس کا م کو انجام دیں وہ سنت ہے اور اس پر عمل باعث ثواب ہے البتہ اس کو منع نہ کیا ہو جیسے تعدد ازواج وغیرہ ۔ ایسے ہی صحابہ کا عمل ہے کیوں کہ ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا قول ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کر لوگے ہدایت پر رہوگے ۔شریعت میں یہ گنجائش تو ہے کہ ان اصحاب کا عمل باعث نجات و ثواب ہو لیکن ترک عمل میں ایسا نہیں یعنی جو عمل رسول اللہ ﷺنے یا انکے صحابہ نے نہ کیا ہو وہ عمل حرام یا ناجائز ہو جائے ایسا نہیں۔اذان رب کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے اس کے بارے میں علماء کے اقوال ہیں کہ آپ ﷺ نے اذان نہیں دی ۔ جب کہ دس برس سے زائد کا عرصہ ایسا رہا جب نماز کی فرضیت کا حکم آ چکا تھا اذان کے اوقات آئے پر آپ نے نہ دی لیکن آپ کے ترک کی وجہ سے حرام نہیں ہوا ۔صحابہ نے خوب اذانیں دیں۔ ایسے ہی قرآن کے نزول کا سلسلہ آپ کے ظاہری حیات پر ہی منتہی ہو گیا تھا آپ نے اسے یکجا نہ کیا پھر بھی اس کا یکجا کرنا حرام نہ ہو ا کیوں کہ بعد میں یہ عمل کیا گیا۔ نماز جمعہ میں رسول سے لیکر حضرت عمر تک کسی نے دو اذانیں نہ کیں لیکن حضرت عثمان نے ایساکیا اور وہ عمل حرام نہ ہوا۔اب ہر انسان اپنی موجودہ زندگی کے اعمال کا جائزہ لے خواہ وہ خالص دینی ہو یا سیاسی و سماجی اور محاسبہ کرے کہ ایسے کتنے اعمال وہ کرتا ہے اور اس انداز
سے کرتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ نے کیا تھا ۔اس محاسبہ کے بعد اندازہ ہوگا کہ کسی کا ترک عمل اگر سبب حرام ہوتا تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ارشاد فرمایا :’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘اور اپنے رب کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو(ترجمہ)اب انسان کیا پوری مخلوق کا تمام تر وجود نعمت ہے تو کس نعمت کا ذکر و تذکرہ کرے ۔قرآن ہی میں اللہ تعالی نے فرمایا : ’’لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا‘‘اور ضرور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں رسول ﷺ کی بعثت فرمائی(بھیجا)(ترجمہ)۔ایک جگہ اور رب فرماتا ہے :’’ ورفعنا لک ذکرک ‘‘اور ہم نے تمہارے لئے تمہارے ذکر کو بلند کر دیا۔جس کی بعثت کا ذکر رب کر رہا ہو اور اسے احسان اور منت قرار دے رہا ہو سارے مؤمنین کیلئے پھر اس کے ذکر کو خود بھی بلند کیاہو تو یہ ہمارے لئے تو باعث فخر ہے کہ اس کا چرچا کریں، خوشیاں منائیں ۔ اور ذکر وتذکرہ ،چرچا ایک دو میں نہیں بلکہ عوام میں ہوتا ہے ۔ تو پوری اجتماعیت کے ساتھ ذکر کرو۔ چونکہ کوئی خاص طریقہ مذکور و مطلوب نہیں تو جو بھی طریقہ کسی اسلامی اصول کے خلاف نہ ہو درست ہے ۔ کھڑے ہو کر بیٹھ کر ، مسجد میں ، محلہ میں ایک میں ، ہزارمیں درود و سلام اور ذکر و اوراد کے ساتھ ان کا چرچا کرو۔پوری دنیا کو بتاؤ کہ ہم خوش ہیں کیونکہ ہم مؤمن ہیں آج وہ دن ہے جس دن ہم پر انعام ہو ا کہ ہم ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے محسن آج ہی کے دن مبعوث ہوئے ۔
ہر دور میں اپنے اپنے طریقہ سے اس نعمت کا تذکرہ ہوا ہے خود سرکا ر نے بھی اپنے تذکرہ کیا ہے ۔
امت مسلمہ کے ساتھ یہ ایک المیہ ہے کہ لازم پر عمل اور حرام کے ترک کی دعوت کی بجائے کچھ لوگوں نے حلال و مباح کو واجب و حرام کی قید میں ڈال کر خدائی کا دعوہ کرنے کا شوق پال رکھا ہے ۔اس سے ہماری قوم پسماندگی در پسماندگی کی جانب رواں دواں ہو کر مزید مسائل سے دو چارہو رہی ہے ۔انسانیت کے ناطے بھی کسی کے جذبات کو مجروح کرنے کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا ۔ اغیار کو دعوت کا طریقہ قرآ ن نے بتایا : ’’ادعو الی سبیل ربک بالحکمۃ ولاموعظۃ الحسنۃ و جادلھم باللتی ھی احسن‘‘اور اللہ کی جانب لوگوں کو حکمت سے دعوت دو اور خوبصورت وعظ و نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو نہایت ہی مہذب انداز میں (ترجمہ)۔ قرآن کی یہ آیت ہمیں دعوت تبلیغ اصلاح و تنبیہ کا طریقہ بتا رہی ہے ۔ پہلے تو حکمت کا استعمال کرو، پھر اچھے انداز میں وعظ نصیحت کے ذریعہ اصلاحی باتیں کرو اور اگر پھر ضرورت پڑے گفتگو کرنے کی تو نہایت ہی احسن طریقہ استعمال کرو۔کسی بھی مسائل پر گفتگو کرنے والے قرآن کے اس انداز کو ضرور ملاحظہ کریں اور اگر سمجھ نہ آئے تو اس کا عملی نمونہ نبی ﷺ کی ذات میں دیکھ لیں کیوں کہ ان کے انداز گفتگو کے بارے میں قرآن کہتا ہے : ’’و انک لعلی خلق عظیم ‘‘اور بے شک آپ خلق عظیم کے ساتھ آئے(ترجمہ)۔ ہر ایسی اصلاح سے گریز کریں جس سے بجائے نفع کے ،مزید نقصان ہو جب تک اس کی اشد ضرورت نہ ہو ۔(مضمون نگار جامعۃ الازہر مصر سے فارغ ہیں)
Abdul Moid Azhari (Amethi UP)Email:abdulmoid07@gmail.com cont: 09582859385
#ईदमिलादुन्नबी #HappyBirthDayOfOurBelovedProphetSAW