یہ تحریر نہیں دلی جذبات کا اظہار ہے جو گراں تو ہے لیکن آج ہر مسلمان کو سننی ہوگی ۔آج ہم ایسے چوراہے پر کھڑے ہیں جس کا ہر راستہ تاریکی کی طرف جاتا ہے ۔ سمندر میں ناپید تیرتی ہوئی کشتی کا ہر ملاح اپنے آپ کو راہنماءاور نجات دہندہ تصور کرتا ہے ۔ وہ مسافروں کو آواز دے کر بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری کشتی میںبیٹھ جاو ¿ یہی کشتی نجات ہے ۔ ہر ملاح اور بادبان یہی صدا دے رہا ہے ۔ سب کی ایک جیسی کشتی ہے اور ایک ہی صدا بھی ہے ۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ راستہ کوئی ایک ہی پار لگائے گا ۔
جمیعة علماءہند نے دو مہینہ قبل وہابیت سے برات کا اعلان کیا اورصوفی ہونے کا اعتراف کیا۔ تصوف اور صوفیوںکی خدمات و تعلیمات کے بھی معترف ہوئے ۔ حالانکہ اس پر اہل سنت کے کئی علماءو مشائخ کا اعتراض بھی ہو اکہ صرف زبانی بیان بازی سے کچھ نہیں ہوگا ۔ عملی طور پر اس کا اعتراف لازمی ہے ۔ اس کےلئے جن مسائل اور عقائد پر دونوں جماعتوں میں اختلاف ہے، اس سے اصلا برات لازمی ہے ۔ ان وہابی اکابرین کے عقائد و نظریات ، تحریر و تقریر کا بائکاٹ ضروری ہے جس میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی موجود ہے ۔ جنہوں نے صوفیا اور تصوف کا مزاق اڑایا اور اسے دین سے خارج قرار دیا ۔ ابھی حال ہی میں جمیعة نے اپنا صوفی شجرہ نسب (طریقت و خلافت ) روزنامہ انقلاب میں شائع کیا ۔ جس میں دونوں ہی اکابرین سے اپنی وابستگی کا اظہارکیا ۔ اس میں وہابی اکابر علماءبھی ہیں اور اہل سنت کے بھی ہیں۔ اس شجرہ سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تصوف کے دامن سے وابستگی وقت کی کوئی خاص و اہم ضرورت ہے ۔ ایک طرف صوفی ہونے کی بات کی گئی تو دوسری طرف تصوف مخالفین سے وابسگتی بھی ظاہر کر دی گئی ۔ اہل سنت کے اسی موقف کو اختیا کیا گیا جس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا شجرہ اسلام کسی بابر، اکبر یا ہمایوں سے نہیں ملتا بلکہ سرکار غریب نواز کی تعلیمات و خدمات سے ملتا ہے ۔
صوفی ، تصوف، درگاہ ، خانقاہ ، آستانہ اور امام بارگاہوں کے مخالفین کے ساتھ اس صوفی روایت کاحصہ بننا کا فی مشکل کا م ہے ۔ حالانکہ اس میں اہل سنت کے نام کو استمال کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔ درگاہ اجمیر شریف کے سرکاری دیوان کو مہرا بنایا گیا اور بریلی کی شہرت پسندی نے اسے اتحاد کا نام دینے کی بھر پور کوشش کی ۔ موجودہ اکابر وہابی و دیوبند نے بھی اس میں کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ نہ ہی اہل سنت کے کسی بھی عالم دین نے مولانا محمود مدنی اور مولانا توقیر رضا خان بریلوی کے درمیان ہونے والے سنی وہابی اتحاد پر کوئی شک و شبہ کااظہار کیا ۔ یہ اتحاد نیا نہیں ۔ نہ ہی اس سے کسی عام سنی مسلمان کو کوئی سرو کار ہے ۔ دونوں ہی اپنی اپنی جماعت کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں حق ہے کہ ایسے بڑے فیصلے لیں۔ بس اتنا بتا دیں کہ عوام اہل سنت کیا کرے ؟ عوام وہابی جماعت کا کیا موقف ہو ؟ جسے سنیت سے وہابیت کی طرف صوفی مخالف پروپیگنڈہ ہی کے ذریعہ لایا گیا تھا ۔اہل سنت کو بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ (وہابی)لوگ نہ تو ہاتھ ملانے کے قابل ہیں اورنہ ہی بات کرنے کے لائق ہیں۔ ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاملات رکھنا درست نہیں۔دونوں ہی جماعت کے واضح موقف کے بعد اس طرح کے اتحاد سے ان عام مسلمانوں کو کیا پیغام ملنا چاہئے ؟
ایسا نہیں ہے کہ اتحاد اچھی بات نہیں ۔ یہ تو وقت کا تقاضہ ہے کہ اتحاد ہو ۔ آپسی رنجشیں ختم ہو جائیں۔ دین کے نام پر اپنے ہی کنبوں کو مارنا کاٹنا بند کیا جائے ۔ کفرو شرک کی دوکان داری اور کاروبار بھی بند ہو ۔ لیکن یہ اتحاد کسی پروگرام کے دوران محض ہاتھ ملا لینے سے عمل میں نہیں آئے گا۔ کسی ذاتی فائدہ ، ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر ایک ساتھ ڈنر کر لینے سے قومی اتحاد ممکن نہیں۔یہ دونوں ہی لوگ کیا اپنے اپنے گھروں میں اتحاد کی داغ بیل ڈال پائیںگے ۔ مولانا محمود مدنی کیا اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو سرے سے نکار پائیں گے ۔ یا خود ذاتی طور پر ان سے علیحدگی اور برات کا اظہار کر پائیں گے ۔ اسی طرح کیا مولانا توقیر رضا خان اپنی خاندانی خدمات رد وہابیت سے انکار کر پائیںگے ۔اپنے گھر اور تمام اہل سنت سے اتحاد کر پائیںگے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اس تحاد کے پیچھے کا مقصد کیا ہے ؟ کتنے میں اہل سنت کا سودا ہوا ہے ؟ بریلی کے وقاراور اس کی شناخت کو کتنے میں بیچا گیا ؟ ان لوگوں کا کتنا حصہ ہے جو لوگ اس تحاد سے متفق ہیں۔ خواہ اعلان کر کے یا خاموش رہ کر ۔
جب مارچ مہینے میں بین الاقوامی صوفی کانفرنس ہوئی تھی تو اس وقت مولانا توقیر رضا خان اور مولانا محمود مدنی دونوں نے مل کر مخالفت کی تھی ۔ اس مخالت کا ساتھ خاندان کے اکثر افراد نے دیا تھا۔البتہ کچھ لوگوں نے خاموشی کو ترجیح دیا تھا ۔ کچھ تنخواہ دار قلم کاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔کےونکہ سیاسی جواب دہی تھی ۔ سیاسی و مذہبی آقاو ¿ کو جواب دینا تھا اسلئے انہیں،مخالفت نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ،پیشہ ورانہ مخالفت کرنی پڑی ۔ اب یہ سارا کنبہ خاموش ہے ۔ اگر اس پورے خاندان نے اس اتحاد کو قبول کر لیا ہے تو اسے چھپانا نہیں کرنی چاہئے۔ اس کا باقاعدہ اعلان ہو جانا چاہئے ۔ اب تک جو ہوا سو ہوا لیکن اب ہم بھائی بھائی ہےں۔اس بھائی چارگی کا اعلان اس سے پہلے اسی سال غالبا فروری مہینے میں جمیعة ہی کے بینر تلے’ بریلوی ہمارے بھائی ہیں‘کا اعلان ہو چکا ہے ۔ وہاں بھی کسی نے نہ تو کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی کسی کی قلم چلی ۔ دہشت گرد مخالف کانفرنس میں وہابیوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اہل سنت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ یہاں مکمل سنیوں کا اجتماع ہے ۔ اب انہیں کیا جواب دیں گے جن سے تنخواہیں ملتی ہے ۔ مجھے یقین تو نہیں لیکن شک ضرور ہے کہ مفروضات کی کشتی پر سوار اس مسافرکی اپنی کوئی منزل نہیں۔ اہل سنت کا، ایک بڑے نام کا لیبل ہے اور کا سارے وہابیوں کے ساتھ کرنے ہیں۔رشتہ اللہ سے شیطان سے یارانہ بھی ۔
اہل سنت کے اکابرین اور ان چند نام نہاد ٹھیکیداروں سے یہ سوال عرض ہے کہ رد وہابیت کی اس خاندانی تاریخ میں کتنے ایسے وہابی نام ہیں جنہیں کافر کہا گیا ہو ؟ ہاں بیس سے زائد ایسے اہل سنت کے نام ضرورت ہیں جنہیں بنام شخصیت کافر اور گمراہ کہا گیا ہے ۔ یہ کون سی تحریک ہے جو غیروںپر کم اپنوں زیادہ وار کر رہی ہے ۔دونوں کا ایک ہی جیسا عمل ہے ۔ دونوں اپنے گروپ تیار کر رہے ہیں۔ جو بھی اس کے خلاف پایا گیا اسے کافر ،مشرک ، گمراہ ، یا بدعتی کہ کر دور کر دو۔ باقی ہم مل کر اقتدار بانٹ لیںگے ۔بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی مخالفت میں پوری ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دین کی پامالی سے بھی دریغ نہیں کیا گیا ۔ بر سر محفل یہ اعلان کیا گیا کہ ’یہ یہودی ،نصرانی مجوسی کانفرنس ہے ‘۔ اس میں شامل ہونے والے اسلام سے خارج ہو جائیںگے ۔ وہابی افکار کے حامل افراد و اشخاص، اداروں او رجماعتوں کو اس کانفرنس سے تکلیف تو سمجھ میں آئی ہے لیکن ان نام نہاد سنیوں کی مخالفت سمجھ میںنہیںآئی ۔مزید یہ کہ اہل سنت کے ٹھیکےدار بھی یہی ہیں۔وہ کون سا سودا ہے جس کے پےش نظر یہ سب کیا گیا ۔ پہلے سنی صوفی مسلمانوں کی مخالفت اس کے بعد انہیں صوفیوں کے خلاف کانفرنس اور اتحاد ۔
بریلی اور دیوبند دونوں ہی نے مل کر دین کا مزاق بنا کر رکھ دیا کہ تین طلاق غیر اسلامی ہے ۔ اس پورا اپنے آپ کو اسی فیصد کہنے والے اہل سنت کے علماءو مشائخ خاموش ہیں۔ دین کے صحیح رہنما کہنے والے دیوبند اور ندوہ بھی چپ ہیں۔
آج مسلمانوں کو اجتماعی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ صرف دولوگوں کو مفاد پر مبنی ملن کو اتحاد کا نام دینا اتحاد کی کوششوں کو رسوا کرنا ہے ۔ اگر ان لوگوں یا دو مکتب فکر کے لوگوں کا اتحاد بنام مسلم از حد لازم و ضروری ہے تو کیا جملہ کلمہ گو کا اتحاد ضروری نہیں۔ شیعہ ہوں ، اہل حدیث ہوں، احمدی، قادیانی،رافضی ہوں اور جو بھی بنام مسلم گروہ اور جماعتیں پائی جاتی ہےں کیا سب کا اتحاد ضروری نہیں؟
اسی طرح القاعدہ اور طالبان جیسے لوگ بھی ہیں۔ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے لیکن انہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کی دہشت گردی کی تاویل بھی کی جاتی ہے اب ان کو کس خانے میں رکھیںگے ۔ اسی طرح اتحادسے پہلے اس کے دائرے بنانے پڑیںگے ۔ موقف طے ہوںگے کہ ان معاملوںمیں اتحاد ممکن ہوگا اور ان میںممکن نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ یہ اتحاد کیسا ہے ۔
جس طرح اختلاف کی الگ پہچان بنا دی گئی ہے اسی طرح اتحاد کی بھی الگ شناخت ہوگی ۔ آج تک یہ سمجھ سے باہر ہے کہ مسلکی اختلاف کہاں ہے اور جھگڑے کہاں ہےں۔ بریلی اور دیو بند دونوںہی اپنے اختلا ف کو مسلکی اختلاف کہتے ہیں حالانکہ اہل سنت کے اکثر علماءو مشائخ اسے مسلکی اختلاف کی نجائے عقیدے کا اختلاف تصور کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فقہ میں چار اماموں کا مسلکی و فقہی اختلاف ہے اس کے باوجودکوئی جھگڑا نہیں۔ اگر مسلک کو مشرب اور سللے کے معنی میںلیں تو بھی کوئی اختلاف نہیں۔ جسے اختلاف ہے وہ مشرب اور سلسلہ ہی نہیں۔ لیکن وہابیت اور سنیت کے درمیان جو کفر و ایمان کا اختلاف ہے وہ اس میں عقیدت اور مشرب مسلک کو تو کوئی معاملہ ہی نہیں ۔ وہ اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیںاہل سنت بھی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ حنفیت میںکوئی اختلاف نہیں ۔
اب یاتو مکمل اتحاد ہو ۔ بریلی بھی اپنے عقیدے کو دیکھے جانچے پرکھے جو غلط ہوں ان سے توبہ کرے کیونکہ جب اختلاف ہے تو مختلف افکار و نظریات تو ہونگے ہی ۔ اسلئے اسے تبدیل کرے ۔ اسی طرحوجمیعة بھی اپنے عقیدوںمیں نظر ثانی کرے اور متحدہ عقائد پر مصافحہ و معانقہ کیا جائے اس کار خیر میں شیعہ کو بھی پیچھے نہ رکھا جائے انہیں بھی دعوت دی جائے ۔ گلے .لگایا جائے ۔ کیونکہ آج مسلمانوں کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے
ایسا نہیں ہے کہ اتحاد اچھی بات نہیں ۔ یہ تو وقت کا تقاضہ ہے کہ اتحاد ہو ۔ آپسی رنجشیں ختم ہو جائیں۔ دین کے نام پر اپنے ہی کنبوں کو مارنا کاٹنا بند کیا جائے ۔ کفرو شرک کی دوکان داری اور کاروبار بھی بند ہو ۔ لیکن یہ اتحاد کسی پروگرام کے دوران محض ہاتھ ملا لینے سے عمل میں نہیں آئے گا۔ کسی ذاتی فائدہ ، ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر ایک ساتھ ڈنر کر لینے سے قومی اتحاد ممکن نہیں۔یہ دونوں ہی لوگ کیا اپنے اپنے گھروں میں اتحاد کی داغ بیل ڈال پائیںگے ۔ مولانا محمود مدنی کیا اپنے اکابرین کی گستاخیوں کو سرے سے نکار پائیں گے ۔ یا خود ذاتی طور پر ان سے علیحدگی اور برات کا اظہار کر پائیں گے ۔ اسی طرح کیا مولانا توقیر رضا خان اپنی خاندانی خدمات رد وہابیت سے انکار کر پائیںگے ۔اپنے گھر اور تمام اہل سنت سے اتحاد کر پائیںگے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اس تحاد کے پیچھے کا مقصد کیا ہے ؟ کتنے میں اہل سنت کا سودا ہوا ہے ؟ بریلی کے وقاراور اس کی شناخت کو کتنے میں بیچا گیا ؟ ان لوگوں کا کتنا حصہ ہے جو لوگ اس تحاد سے متفق ہیں۔ خواہ اعلان کر کے یا خاموش رہ کر ۔
جب مارچ مہینے میں بین الاقوامی صوفی کانفرنس ہوئی تھی تو اس وقت مولانا توقیر رضا خان اور مولانا محمود مدنی دونوں نے مل کر مخالفت کی تھی ۔ اس مخالت کا ساتھ خاندان کے اکثر افراد نے دیا تھا۔البتہ کچھ لوگوں نے خاموشی کو ترجیح دیا تھا ۔ کچھ تنخواہ دار قلم کاروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔کےونکہ سیاسی جواب دہی تھی ۔ سیاسی و مذہبی آقاو ¿ کو جواب دینا تھا اسلئے انہیں،مخالفت نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ،پیشہ ورانہ مخالفت کرنی پڑی ۔ اب یہ سارا کنبہ خاموش ہے ۔ اگر اس پورے خاندان نے اس اتحاد کو قبول کر لیا ہے تو اسے چھپانا نہیں کرنی چاہئے۔ اس کا باقاعدہ اعلان ہو جانا چاہئے ۔ اب تک جو ہوا سو ہوا لیکن اب ہم بھائی بھائی ہےں۔اس بھائی چارگی کا اعلان اس سے پہلے اسی سال غالبا فروری مہینے میں جمیعة ہی کے بینر تلے’ بریلوی ہمارے بھائی ہیں‘کا اعلان ہو چکا ہے ۔ وہاں بھی کسی نے نہ تو کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی کسی کی قلم چلی ۔ دہشت گرد مخالف کانفرنس میں وہابیوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اہل سنت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ یہاں مکمل سنیوں کا اجتماع ہے ۔ اب انہیں کیا جواب دیں گے جن سے تنخواہیں ملتی ہے ۔ مجھے یقین تو نہیں لیکن شک ضرور ہے کہ مفروضات کی کشتی پر سوار اس مسافرکی اپنی کوئی منزل نہیں۔ اہل سنت کا، ایک بڑے نام کا لیبل ہے اور کا سارے وہابیوں کے ساتھ کرنے ہیں۔رشتہ اللہ سے شیطان سے یارانہ بھی ۔
اہل سنت کے اکابرین اور ان چند نام نہاد ٹھیکیداروں سے یہ سوال عرض ہے کہ رد وہابیت کی اس خاندانی تاریخ میں کتنے ایسے وہابی نام ہیں جنہیں کافر کہا گیا ہو ؟ ہاں بیس سے زائد ایسے اہل سنت کے نام ضرورت ہیں جنہیں بنام شخصیت کافر اور گمراہ کہا گیا ہے ۔ یہ کون سی تحریک ہے جو غیروںپر کم اپنوں زیادہ وار کر رہی ہے ۔دونوں کا ایک ہی جیسا عمل ہے ۔ دونوں اپنے گروپ تیار کر رہے ہیں۔ جو بھی اس کے خلاف پایا گیا اسے کافر ،مشرک ، گمراہ ، یا بدعتی کہ کر دور کر دو۔ باقی ہم مل کر اقتدار بانٹ لیںگے ۔بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی مخالفت میں پوری ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دین کی پامالی سے بھی دریغ نہیں کیا گیا ۔ بر سر محفل یہ اعلان کیا گیا کہ ’یہ یہودی ،نصرانی مجوسی کانفرنس ہے ‘۔ اس میں شامل ہونے والے اسلام سے خارج ہو جائیںگے ۔ وہابی افکار کے حامل افراد و اشخاص، اداروں او رجماعتوں کو اس کانفرنس سے تکلیف تو سمجھ میں آئی ہے لیکن ان نام نہاد سنیوں کی مخالفت سمجھ میںنہیںآئی ۔مزید یہ کہ اہل سنت کے ٹھیکےدار بھی یہی ہیں۔وہ کون سا سودا ہے جس کے پےش نظر یہ سب کیا گیا ۔ پہلے سنی صوفی مسلمانوں کی مخالفت اس کے بعد انہیں صوفیوں کے خلاف کانفرنس اور اتحاد ۔
بریلی اور دیوبند دونوں ہی نے مل کر دین کا مزاق بنا کر رکھ دیا کہ تین طلاق غیر اسلامی ہے ۔ اس پورا اپنے آپ کو اسی فیصد کہنے والے اہل سنت کے علماءو مشائخ خاموش ہیں۔ دین کے صحیح رہنما کہنے والے دیوبند اور ندوہ بھی چپ ہیں۔
آج مسلمانوں کو اجتماعی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ صرف دولوگوں کو مفاد پر مبنی ملن کو اتحاد کا نام دینا اتحاد کی کوششوں کو رسوا کرنا ہے ۔ اگر ان لوگوں یا دو مکتب فکر کے لوگوں کا اتحاد بنام مسلم از حد لازم و ضروری ہے تو کیا جملہ کلمہ گو کا اتحاد ضروری نہیں۔ شیعہ ہوں ، اہل حدیث ہوں، احمدی، قادیانی،رافضی ہوں اور جو بھی بنام مسلم گروہ اور جماعتیں پائی جاتی ہےں کیا سب کا اتحاد ضروری نہیں؟
اسی طرح القاعدہ اور طالبان جیسے لوگ بھی ہیں۔ ہم انہیں مسلمان نہیں سمجھتے لیکن انہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کی دہشت گردی کی تاویل بھی کی جاتی ہے اب ان کو کس خانے میں رکھیںگے ۔ اسی طرح اتحادسے پہلے اس کے دائرے بنانے پڑیںگے ۔ موقف طے ہوںگے کہ ان معاملوںمیں اتحاد ممکن ہوگا اور ان میںممکن نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ یہ اتحاد کیسا ہے ۔
جس طرح اختلاف کی الگ پہچان بنا دی گئی ہے اسی طرح اتحاد کی بھی الگ شناخت ہوگی ۔ آج تک یہ سمجھ سے باہر ہے کہ مسلکی اختلاف کہاں ہے اور جھگڑے کہاں ہےں۔ بریلی اور دیو بند دونوںہی اپنے اختلا ف کو مسلکی اختلاف کہتے ہیں حالانکہ اہل سنت کے اکثر علماءو مشائخ اسے مسلکی اختلاف کی نجائے عقیدے کا اختلاف تصور کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فقہ میں چار اماموں کا مسلکی و فقہی اختلاف ہے اس کے باوجودکوئی جھگڑا نہیں۔ اگر مسلک کو مشرب اور سللے کے معنی میںلیں تو بھی کوئی اختلاف نہیں۔ جسے اختلاف ہے وہ مشرب اور سلسلہ ہی نہیں۔ لیکن وہابیت اور سنیت کے درمیان جو کفر و ایمان کا اختلاف ہے وہ اس میں عقیدت اور مشرب مسلک کو تو کوئی معاملہ ہی نہیں ۔ وہ اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیںاہل سنت بھی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ حنفیت میںکوئی اختلاف نہیں ۔
اب یاتو مکمل اتحاد ہو ۔ بریلی بھی اپنے عقیدے کو دیکھے جانچے پرکھے جو غلط ہوں ان سے توبہ کرے کیونکہ جب اختلاف ہے تو مختلف افکار و نظریات تو ہونگے ہی ۔ اسلئے اسے تبدیل کرے ۔ اسی طرحوجمیعة بھی اپنے عقیدوںمیں نظر ثانی کرے اور متحدہ عقائد پر مصافحہ و معانقہ کیا جائے اس کار خیر میں شیعہ کو بھی پیچھے نہ رکھا جائے انہیں بھی دعوت دی جائے ۔ گلے .لگایا جائے ۔ کیونکہ آج مسلمانوں کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment