امیٹھی کے گنہ گار کون ؟
عبد المعید ازہری
دہلی کے بعدیو پی، ہندوستانی سیاست کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ موجودہ سماجوادی پارٹی کے گھریلو دنگل اور بی جے پی کے ایڑی چوٹی کے زور سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یو پی کسی کے بھی سیاسی اقتدار کا فیصلہ کرتا رہا ہے۔ یو پی کا سکندر پورے ملک پر راج کرتا ہے۔ یوں ہی، یو پی کی سیاست امیٹھی سے طے ہوتی ہے۔ بالخصوص کانگریس کی سیاست کا مخرج و مرجع دونوں ہی امیٹھی ہے۔ کانگریس کی بڑی لیڈر شپ اسی زمین کی سیاسی تربیت یافتہ ہے۔ امیٹھی کانگریس کی سیاست کا اٹوٹ حصّہ تھا ہے اور رہے گا. بلکہ پچھلے اسمبلی انتخابات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امیٹھی کانگریس کی یو پی سیاست کا دل ہے اور وہیں سے اسے ہمت بھروسہ اور طاقت ملتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی سیاسی گفتگو امیٹھی کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی. یو پی کی سیاست بالخصوص امیٹھی اور رائے بریلی کی سیاست لوہے کے چنے چبانے کی مانند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب امیٹھی اور رائے بریلی کو بھی لگنے لگا ہے کہ ان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ دہلی سے ہوتا ہے۔
بی جے پی کی اسمرتی ایرانی کو جب امیٹھی میں لانچ کیا گیا تھا اور انھیں کانگریس کے شہزادے راہل گاندھی کے مقابلے اسمبلی انتخاب لڑانے کا فیصلہ لیا گیا تو امیٹھی کی تاریخ کو خوب کھودا گیا تھا۔ اس تاریخی کارنامے میں عام آدمی پارٹی سے امیٹھی میں پہلی بار اسمبلی انتخاب کے امیدوار کمار وشواس کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ دونوں ہی نے مل امیٹھی کے لوگوں میں ایک ایسے خوابیدہ امیدیں جگا دی تھیں کہ ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ امیٹھی کا ہر بندہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ کبھی کمار وشواس تو کبھی اسمرتی ایرانی میں اپنا نیا رہنما دیکھنے لگے تھے۔ ان کی تقریریں سننے کیلئے بڑا ہجوم اکٹھا ہوتا تھا۔ اسی اثناء میں سماج وادی نے بھی ایک نئے شہزادے کو عوام کے سپرد کر دیا۔ اس شہزادے کی محنت اور جذبے نے باقی کو پھیکا ثابت کر دیا۔ جس کی بدولت یو پی کی وزارت اعلی کی گدی ملی۔ حالیہ گھریلو دنگل سے پرے اگر انکی پانچ سال کی کارکردگی کا غیر متعصبانہ جائزہ لیا جائے تو اکثر کا یہی کہنا ہے کہ عین ممکن تھا کہ اکھلیش حکومت پھر سے یو پی میں اقتدار حاصل کرتی۔
اس سیاسی رہنمائی اور وعدہ گوئی کے پس منظر میں ایک دردناک، ہیبت ناک اور نہایت ہی ڈراؤنا اور گھناؤنا حادثہ ابھی حال ہی میں امیٹھی کے مہونا علاقے میں ہوا۔ ایک ہی خاندان کے11 افرادکونہایت ہی بیدردی، بیرحمی اور حیوانی و شیطانی طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ مقتولین میں عورتیں بچے اور جوان سبھی شامل ہیں۔ سب کا گلا تیز اوزار سے کاٹا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کو مار کر گلے میں پھندا لگا کر چھت سے لٹکا دیا گیا تھا۔ اس گھر کی ایک اکیلی عورت اور ایک لڑکی جو اس رات اسی گھر میں سوئی تھی، بچی ہوئی ہے جو زخمی ہے اور اسپتال میں داخل علاج ہے۔پورے علاقے میں وحشت و دہشت کا ماحول ہے۔ کوئی بھی یقینی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی چہ می گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ عجیب طرح کی اٹکل بازیوں کا بازار گرم ہے۔ ڈر کے ساتھ حیرت و استجاب میں روزانہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غم و غصہ کا اظہار بھی کہیں کہیں ہو رہا۔ کچھ اندازہ بازیوں سے جذبات مجروح ہونے کی بنا پر تشدد بھی ہو رہا ہے۔
یہ واقعہ مہونا گاؤں کے جمال الدین اور اس کے خاندان کا ہے۔جمال الدین (جمالو)مہونا کے ایک چھوٹے سے گاؤں پورے بہول کا باشندہ تھا۔ مہونا خاص میں اس کی بیٹری اور رسوئی گیس کی دوکان تھی۔ جسے وہ خود اور اس کے دو لڑکے چلاتے تھے۔گھر میں عورتیں مقامی بچوں کو پڑھاتی بھی تھیں۔ یہ ایک عام بات ہے۔ اکثر جو عورتیں عربی پڑھے ہوئے ہوتی ہیں وہ مقامی بچوں کو خاص طور پر بچیوں کو مفت تعلیم دیتی ہیں۔ جس رات قتل ہوا اس کی صبح گاؤں کے کچھ بچے جب جمالو کے گھر پر پڑھنے کیلئے آئے تو پتہ چلا کہ پورا گھر موت کی نیند سو رہا ہے۔گھر کے 11افراد کی رات آخری رات ہوگئی تھی۔ وہ بھی نہایت ہی دردناک اور ہیبت ناک رات۔
مقامی پولیس کے مطابق اس پورے قتل کا ذمہ دار خاندان کا مکھیا خود جمال الدین ہے۔ پولس کی طرف سے دئے گئے بیان کے مطابق جمال الدین نے غریبی سے تنگ آ کر خود ہی اپنے پورے خاندان کو قتل کرنے کی بڑی سازش رچی تھی۔ پہلے اس نے گھر کی تمام عورتوں کو نشہ آور دوا پلایا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے خاندان کے جملہ افراد کو قتل کیا۔پھر خود کو پھانسی لگا لی۔ مقتولین میں اس کی تین بیٹیاں، بھائی کی بیوہ، اس کی تین بیٹیاں، انکے ایک گمشدہ بھائی کی بیوی، اور اس کی دو بیٹیاں شامل ہیں۔ جمال الدین اور اس کی ایک بیٹی بچ گئی تھی کیونکہ وہ کمرہ بند کر کے سوئی تھیں۔ اس کے دہ بیٹے بھی بچ گئے ہیں۔ کیوں کہ وہ دوکان میں سوئے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس بات کی جانکاری خود جمال الدین کی پچیس سال کے بیٹی نے ہوش میں آنے کے بعد دی ہے۔
پولیس کے اس بیان پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس بڑے پیمانے پر بہیمانہ قتل کی چھوٹی یا بڑی تفتیش کے بغیر پولیس اور میڈیا کا یہ بیان نہایت ہی تکلف دہ ہے۔
ویسے جمال الدین کے گھر دیر رات آئی ایک کار، بجلی ہونے کے باوجود جنریٹر چلانے کی ضرورت، خود جمال الدین اگر قاتل ہے تو اس کے جسم پر ایک بھی خون کے دھبے نہ ہونا، گھر کے پیچھے خون میں سنے ہوئے جوتوں کا ملنا، چھٹ سے لٹکنے کیلئے نیچے کسی بھی ٹیبل یا اونچی چیز کا نہ ہونا، پھندے پر لٹکے ہوئے جمال الدین کے پیر سے چپل تک نہ گرنا جیسی کیفیات کچھ اور ہی بیان کر رہی ہیں۔
گاؤں کے پردھان اور دیگر لوگن کے مطابق جمال الدین نہایت ہی سلجھا ہوا، سیدھا اور خاندان کا خیال رکھنے والا شخص تھا۔ وو اتنا غریب بھی نہیں تھا کہ فاقہ کشی اور مفلسی کے چلتے اتنے لوگوں کی جان لے لے۔ کچھ اور بھی بڑے سوال ہیں جن کا جواب اب تک لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ جیسے اگر جمال الدین کی گھر کے سبھی افراد کو مارنا ہی تھا اور اس نے نشے کی دوا بھی پلائی تھی تو اس نے زہر کا استمعال کیوں نہیں کیا؟ اس کے علاوہ گھر سے کسی بھی طرح کی دوا ،شیشی،ٹیبلٹ یا اس کے کچھ نشان ملنے کی کوئی خبر نہیں۔ اتنے لوگوں کا قتل ہوا اور اس کی اتنی بڑی سازش رچی گئی لیکن گاؤں کیا پڑوسی کو بھی کانوں کا خبر نہیں ہوئی۔ گھر کے کسی بھی فرد نے نوٹس نہیں دیا۔ جمال الدین نے اکیلے اتنے بڑے حادثے کو انجام دیاتو اس کی تیاری بھی کی ہوگی۔ لیکن کسی کہ ذرا سا بھی شک نہیں ہوا۔ اگر فاقہ کشی سے یہ واقعہ انجام دیا گیا ہے تو جمالو پر اس کے اثرات اس سے پہلے بھی آئے ہوں گے۔ لیکن کسی نے اس بات شکایت نہیں کی۔ کوئی چیکھنے چلانے کی بھی آواز نہیں آئی۔ جمال الدین کے اوپر بھائی کی بیوہ کو بھی قتل کا الزام ہے۔ جمالو کی جسمانی حالات دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ ایسا کر پائے گا۔ مقامی لو گوں کے مطابق گھر سے کچھ کاغذات ملے ہیں جس کے بارے میں پولیس چھپا رہی ہے۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب سبھی کو چاہئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتنے لوگوں کا قتل ہوا لیکن کسی نے بھی مزاحمت نہیں کی۔ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ سب ایک ہی جگہ بالکل ایک دوسرے سے ملے ہوئے سو رہے تھے۔ لاشیں بھی بالکل ویسے ہی ملی ہیں۔
پولیس اور میڈیا کا قبل از وقت اور بنا تفتیش کے خود مقتول جمال الدین کو ہی مورد الزام ٹھہرانا خود میں ایک سوال ہے۔ پورے علاقے میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ کا ماحول ہے۔ امیٹھی کو اپنا گھر کہنے والے ، پورے ملک میں گھوم گھوم کر چارپائی پر چرچہ کرنے والے امیٹھی سے موجودہ ممبر پارلیامنٹ اور کانگریس کی جنرل سیکرٹری راہول گاندھی سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور ابھی تک اس کی کوئی حال خبر نہیں لی گئی۔ نہ ہی دیکھنے آئے، نہ کسی کو بھیجا نہ ہی کوئی بیان دیا۔ امیٹھی گاؤں میں کسی کے گھر پر ڈال چاول کھانے کی سیاست کرنے والے کو آج اپنے علاقے کی خبر گیری کی فرصت نہیں ہے۔ امیٹھی میں اپنے خاندان کی خدمات کی یاد دہانی کرا کر امیٹھی کی عوام کو جذبانی بنانے والی پرینکا گاندھی بھی خاموش ہیں۔ انتخاب کے دوران امیٹھی کی تاریخ بدلنے کا دعوی کرنے والی اسمرتی ایرانی کی بھی زبان نہیں کھل رہی۔ کمار وشواس کا طنز اور ان کی تنقیدی شاعری بھی سو رہی ہے۔ اپنے آپ کو دلتوں کا مسیحا کہنے والی مایا اور مسلم کے ہمدرد ملایم سبھی خواب استراحت میں ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ ایک عام آدمی ہے۔ اپنے وزیر کی بھینس کو بھی کھوجنے کیلئے پولیس تعینات کرنے والی یو پی حکومت نے بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ لمبی ٹوپی، سعودی رومال اور سفید کرتا پہن کر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے والے یو پی کے مکھیا اکھلیش بھی آج چپ ہیں۔ اتنے بڑے حادثے کو کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بر عکس پولیس اور میڈیا اپنے اپنے اندازے سے فیصلہ سنانے کی روایت پر عمل کر رہے ہیں۔
ابھی کچھ ہی مہینہ قبل یو پی ہی کے بدایوں کا ایک نجیب JNUسے دین دہاڑے غایب کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کو اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ ایک ہی گھر کے 11لوگوں کا قتل ہو گیا پولیس کو ابھی بھی کچھ معلوم نہیں۔ دونوں ہی کیسوں میں خود مظلوموں ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بے شرمی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
یہ ہمارے موجودہ دور کی سیاست ہے اور یہی ہمارے ملک کی ترقی کی راہ بھی ہے۔ یہ سوال ہر ہندوستانی سے ہے۔ کیا یہی خواب تھا ملک کیلئے جان دینے والے مجاہدوں کا؟ کیا یسی لئے ماؤں نے اپنی کوھیوں سونی کرلی تھیں؟ عورتوں نے چوڑیاں پھوڑی تھیں؟ بزرگوں نے اپنے سہارے لٹا دئے تھے؟ تاکہ آنے والا وقت انصاف کا ہو آزادی کا ہو۔کیا اب بھی ہم نہیں جاگیں گے؟ ایک ذمہ دار شہری ہم کب بنیں گے؟ آنے والے انتخابات میں یا عام آدمی کی موتوں کا کوئی اثر ہوگا؟یہ سوال امیٹھی کے ہر انسان کا ہے ۔ امیٹھی کا گنہ گار کون ہے؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-Mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact:9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@





