Monday, January 30, 2017

امیٹھی کے گنہ گار کون ؟ अमेठी के गुनाह गार कौन ?


امیٹھی کے گنہ گار کون ؟
عبد المعید ازہری

دہلی کے بعدیو پی، ہندوستانی سیاست کا دل کہا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ موجودہ سماجوادی پارٹی کے گھریلو دنگل اور بی جے پی کے ایڑی چوٹی کے زور سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یو پی کسی کے بھی سیاسی اقتدار کا فیصلہ کرتا رہا ہے۔ یو پی کا سکندر پورے ملک پر راج کرتا ہے۔ یوں ہی، یو پی کی سیاست امیٹھی سے طے ہوتی ہے۔ بالخصوص کانگریس کی سیاست کا مخرج و مرجع دونوں ہی امیٹھی ہے۔ کانگریس کی بڑی لیڈر شپ اسی زمین کی سیاسی تربیت یافتہ ہے۔ امیٹھی کانگریس کی سیاست کا اٹوٹ حصّہ تھا ہے اور رہے گا. بلکہ پچھلے اسمبلی انتخابات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امیٹھی کانگریس کی یو پی سیاست کا دل ہے اور وہیں سے اسے ہمت بھروسہ اور طاقت ملتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی سیاسی گفتگو امیٹھی کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی. یو پی کی سیاست بالخصوص امیٹھی اور رائے بریلی کی سیاست لوہے کے چنے چبانے کی مانند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب امیٹھی اور رائے بریلی کو بھی لگنے لگا ہے کہ ان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ دہلی سے ہوتا ہے۔
بی جے پی کی اسمرتی ایرانی کو جب امیٹھی میں لانچ کیا گیا تھا اور انھیں کانگریس کے شہزادے راہل گاندھی کے مقابلے اسمبلی انتخاب لڑانے کا فیصلہ لیا گیا تو امیٹھی کی تاریخ کو خوب کھودا گیا تھا۔ اس تاریخی کارنامے میں عام آدمی پارٹی سے امیٹھی میں پہلی بار اسمبلی انتخاب کے امیدوار کمار وشواس کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ دونوں ہی نے مل امیٹھی کے لوگوں میں ایک ایسے خوابیدہ امیدیں جگا دی تھیں کہ ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ امیٹھی کا ہر بندہ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ کبھی کمار وشواس تو کبھی اسمرتی ایرانی میں اپنا نیا رہنما دیکھنے لگے تھے۔ ان کی تقریریں سننے کیلئے بڑا ہجوم اکٹھا ہوتا تھا۔ اسی اثناء میں سماج وادی نے بھی ایک نئے شہزادے کو عوام کے سپرد کر دیا۔ اس شہزادے کی محنت اور جذبے نے باقی کو پھیکا ثابت کر دیا۔ جس کی بدولت یو پی کی وزارت اعلی کی گدی ملی۔ حالیہ گھریلو دنگل سے پرے اگر انکی پانچ سال کی کارکردگی کا غیر متعصبانہ جائزہ لیا جائے تو اکثر کا یہی کہنا ہے کہ عین ممکن تھا کہ اکھلیش حکومت پھر سے یو پی میں اقتدار حاصل کرتی۔
اس سیاسی رہنمائی اور وعدہ گوئی کے پس منظر میں ایک دردناک، ہیبت ناک اور نہایت ہی ڈراؤنا اور گھناؤنا حادثہ ابھی حال ہی میں امیٹھی کے مہونا علاقے میں ہوا۔ ایک ہی خاندان کے11 افرادکونہایت ہی بیدردی، بیرحمی اور حیوانی و شیطانی طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ مقتولین میں عورتیں بچے اور جوان سبھی شامل ہیں۔ سب کا گلا تیز اوزار سے کاٹا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کو مار کر گلے میں پھندا لگا کر چھت سے لٹکا دیا گیا تھا۔ اس گھر کی ایک اکیلی عورت اور ایک لڑکی جو اس رات اسی گھر میں سوئی تھی، بچی ہوئی ہے جو زخمی ہے اور اسپتال میں داخل علاج ہے۔پورے علاقے میں وحشت و دہشت کا ماحول ہے۔ کوئی بھی یقینی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی چہ می گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ عجیب طرح کی اٹکل بازیوں کا بازار گرم ہے۔ ڈر کے ساتھ حیرت و استجاب میں روزانہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غم و غصہ کا اظہار بھی کہیں کہیں ہو رہا۔ کچھ اندازہ بازیوں سے جذبات مجروح ہونے کی بنا پر تشدد بھی ہو رہا ہے۔
یہ واقعہ مہونا گاؤں کے جمال الدین اور اس کے خاندان کا ہے۔جمال الدین (جمالو)مہونا کے ایک چھوٹے سے گاؤں پورے بہول کا باشندہ تھا۔ مہونا خاص میں اس کی بیٹری اور رسوئی گیس کی دوکان تھی۔ جسے وہ خود اور اس کے دو لڑکے چلاتے تھے۔گھر میں عورتیں مقامی بچوں کو پڑھاتی بھی تھیں۔ یہ ایک عام بات ہے۔ اکثر جو عورتیں عربی پڑھے ہوئے ہوتی ہیں وہ مقامی بچوں کو خاص طور پر بچیوں کو مفت تعلیم دیتی ہیں۔ جس رات قتل ہوا اس کی صبح گاؤں کے کچھ بچے جب جمالو کے گھر پر پڑھنے کیلئے آئے تو پتہ چلا کہ پورا گھر موت کی نیند سو رہا ہے۔گھر کے 11افراد کی رات آخری رات ہوگئی تھی۔ وہ بھی نہایت ہی دردناک اور ہیبت ناک رات۔
مقامی پولیس کے مطابق اس پورے قتل کا ذمہ دار خاندان کا مکھیا خود جمال الدین ہے۔ پولس کی طرف سے دئے گئے بیان کے مطابق جمال الدین نے غریبی سے تنگ آ کر خود ہی اپنے پورے خاندان کو قتل کرنے کی بڑی سازش رچی تھی۔ پہلے اس نے گھر کی تمام عورتوں کو نشہ آور دوا پلایا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے خاندان کے جملہ افراد کو قتل کیا۔پھر خود کو پھانسی لگا لی۔ مقتولین میں اس کی تین بیٹیاں، بھائی کی بیوہ، اس کی تین بیٹیاں، انکے ایک گمشدہ بھائی کی بیوی، اور اس کی دو بیٹیاں شامل ہیں۔ جمال الدین اور اس کی ایک بیٹی بچ گئی تھی کیونکہ وہ کمرہ بند کر کے سوئی تھیں۔ اس کے دہ بیٹے بھی بچ گئے ہیں۔ کیوں کہ وہ دوکان میں سوئے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس بات کی جانکاری خود جمال الدین کی پچیس سال کے بیٹی نے ہوش میں آنے کے بعد دی ہے۔
پولیس کے اس بیان پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس بڑے پیمانے پر بہیمانہ قتل کی چھوٹی یا بڑی تفتیش کے بغیر پولیس اور میڈیا کا یہ بیان نہایت ہی تکلف دہ ہے۔
ویسے جمال الدین کے گھر دیر رات آئی ایک کار، بجلی ہونے کے باوجود جنریٹر چلانے کی ضرورت، خود جمال الدین اگر قاتل ہے تو اس کے جسم پر ایک بھی خون کے دھبے نہ ہونا، گھر کے پیچھے خون میں سنے ہوئے جوتوں کا ملنا، چھٹ سے لٹکنے کیلئے نیچے کسی بھی ٹیبل یا اونچی چیز کا نہ ہونا، پھندے پر لٹکے ہوئے جمال الدین کے پیر سے چپل تک نہ گرنا جیسی کیفیات کچھ اور ہی بیان کر رہی ہیں۔
گاؤں کے پردھان اور دیگر لوگن کے مطابق جمال الدین نہایت ہی سلجھا ہوا، سیدھا اور خاندان کا خیال رکھنے والا شخص تھا۔ وو اتنا غریب بھی نہیں تھا کہ فاقہ کشی اور مفلسی کے چلتے اتنے لوگوں کی جان لے لے۔ کچھ اور بھی بڑے سوال ہیں جن کا جواب اب تک لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ جیسے اگر جمال الدین کی گھر کے سبھی افراد کو مارنا ہی تھا اور اس نے نشے کی دوا بھی پلائی تھی تو اس نے زہر کا استمعال کیوں نہیں کیا؟ اس کے علاوہ گھر سے کسی بھی طرح کی دوا ،شیشی،ٹیبلٹ یا اس کے کچھ نشان ملنے کی کوئی خبر نہیں۔ اتنے لوگوں کا قتل ہوا اور اس کی اتنی بڑی سازش رچی گئی لیکن گاؤں کیا پڑوسی کو بھی کانوں کا خبر نہیں ہوئی۔ گھر کے کسی بھی فرد نے نوٹس نہیں دیا۔ جمال الدین نے اکیلے اتنے بڑے حادثے کو انجام دیاتو اس کی تیاری بھی کی ہوگی۔ لیکن کسی کہ ذرا سا بھی شک نہیں ہوا۔ اگر فاقہ کشی سے یہ واقعہ انجام دیا گیا ہے تو جمالو پر اس کے اثرات اس سے پہلے بھی آئے ہوں گے۔ لیکن کسی نے اس بات شکایت نہیں کی۔ کوئی چیکھنے چلانے کی بھی آواز نہیں آئی۔ جمال الدین کے اوپر بھائی کی بیوہ کو بھی قتل کا الزام ہے۔ جمالو کی جسمانی حالات دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ ایسا کر پائے گا۔ مقامی لو گوں کے مطابق گھر سے کچھ کاغذات ملے ہیں جس کے بارے میں پولیس چھپا رہی ہے۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب سبھی کو چاہئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتنے لوگوں کا قتل ہوا لیکن کسی نے بھی مزاحمت نہیں کی۔ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ سب ایک ہی جگہ بالکل ایک دوسرے سے ملے ہوئے سو رہے تھے۔ لاشیں بھی بالکل ویسے ہی ملی ہیں۔
پولیس اور میڈیا کا قبل از وقت اور بنا تفتیش کے خود مقتول جمال الدین کو ہی مورد الزام ٹھہرانا خود میں ایک سوال ہے۔ پورے علاقے میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ کا ماحول ہے۔ امیٹھی کو اپنا گھر کہنے والے ، پورے ملک میں گھوم گھوم کر چارپائی پر چرچہ کرنے والے امیٹھی سے موجودہ ممبر پارلیامنٹ اور کانگریس کی جنرل سیکرٹری راہول گاندھی سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور ابھی تک اس کی کوئی حال خبر نہیں لی گئی۔ نہ ہی دیکھنے آئے، نہ کسی کو بھیجا نہ ہی کوئی بیان دیا۔ امیٹھی گاؤں میں کسی کے گھر پر ڈال چاول کھانے کی سیاست کرنے والے کو آج اپنے علاقے کی خبر گیری کی فرصت نہیں ہے۔ امیٹھی میں اپنے خاندان کی خدمات کی یاد دہانی کرا کر امیٹھی کی عوام کو جذبانی بنانے والی پرینکا گاندھی بھی خاموش ہیں۔ انتخاب کے دوران امیٹھی کی تاریخ بدلنے کا دعوی کرنے والی اسمرتی ایرانی کی بھی زبان نہیں کھل رہی۔ کمار وشواس کا طنز اور ان کی تنقیدی شاعری بھی سو رہی ہے۔ اپنے آپ کو دلتوں کا مسیحا کہنے والی مایا اور مسلم کے ہمدرد ملایم سبھی خواب استراحت میں ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ ایک عام آدمی ہے۔ اپنے وزیر کی بھینس کو بھی کھوجنے کیلئے پولیس تعینات کرنے والی یو پی حکومت نے بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ لمبی ٹوپی، سعودی رومال اور سفید کرتا پہن کر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے والے یو پی کے مکھیا اکھلیش بھی آج چپ ہیں۔ اتنے بڑے حادثے کو کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے بر عکس پولیس اور میڈیا اپنے اپنے اندازے سے فیصلہ سنانے کی روایت پر عمل کر رہے ہیں۔
ابھی کچھ ہی مہینہ قبل یو پی ہی کے بدایوں کا ایک نجیب JNUسے دین دہاڑے غایب کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کو اب تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ ایک ہی گھر کے 11لوگوں کا قتل ہو گیا پولیس کو ابھی بھی کچھ معلوم نہیں۔ دونوں ہی کیسوں میں خود مظلوموں ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بے شرمی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
یہ ہمارے موجودہ دور کی سیاست ہے اور یہی ہمارے ملک کی ترقی کی راہ بھی ہے۔ یہ سوال ہر ہندوستانی سے ہے۔ کیا یہی خواب تھا ملک کیلئے جان دینے والے مجاہدوں کا؟ کیا یسی لئے ماؤں نے اپنی کوھیوں سونی کرلی تھیں؟ عورتوں نے چوڑیاں پھوڑی تھیں؟ بزرگوں نے اپنے سہارے لٹا دئے تھے؟ تاکہ آنے والا وقت انصاف کا ہو آزادی کا ہو۔کیا اب بھی ہم نہیں جاگیں گے؟ ایک ذمہ دار شہری ہم کب بنیں گے؟ آنے والے انتخابات میں یا عام آدمی کی موتوں کا کوئی اثر ہوگا؟یہ سوال امیٹھی کے ہر انسان کا ہے ۔ امیٹھی کا گنہ گار کون ہے؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-Mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact:9582859385

Saturday, January 21, 2017

मुसलमानों का आपसी बिखराव: धार्मिक या व्यक्तिगत?

मुसलमानों का आपसी बिखराव: धार्मिक या व्यक्तिगत?
अब्दुल मोइद अज़हरी

जहां इस बात से इनकार संभव नहीं कि इस्लाम, मानवता के आधार पर संगठित, संयोग और सहयता का धर्म है, वहीं यह बात भी अफसोस के साथ सबक आमोज़ है कि पूरी दुनिया को एकता की दावत देने वाले मुसलमान खुद कई समुदायों और दलों में बट गए हैं।
सुन्नी, शिया और वहाबी में बंटा हुआ कलमा पढ़ने वाला मुसलमान इस कदर एक दूसरे का विरोधी हो गया है कि तीनों ही एक दूसरे को काफिर कहने और करने पर तुले हुए हैं। इसी उथल-पुथल ने मुसलमानों के शान व सम्मान को बिखेर कर रख दिया है।

आज मुसलमानों की जो हालत है वह किसी से ढकी छुपी नहीं। पूरी मानवता/इंसानियत के प्रति प्रार्थना, सेवा करने वाले शुभचिंतक मुसलमानफ़िरक़ा परस्ती का शिकार होते हा रहे है। इस्लामी शिक्षा ,परंपरा और नैतिकता (morality) एक पुराने इतिहास बनकर रह गए हैं। जिन नियमों के पालन ने मुसलमानों को दुनिया में नाम दिया, शोहरत दी, इज्ज़त का उरूज बख्शा था आज वही नियम खुद मुसलमानों के यहाँ अस्वीकार्य हो गए हैं। आज का हर संजीदा मुसलमान एक इस गंभीर समस्या का सम्पूर्ण समाधान चाहता है ।

ईमान व कुफ्र के दरमियान  स्पष्ट अर्थ, आसान परिभाषा की मांग करता है। या तो आदमी मुसलमान है या नहीं है। मुसलमान है तो अच्छाई और बुराई अपनाने के अख्तियार पर उस कि इस्लाह जाए। अगर मुसलमान नहीं तो इससे इस्लामी मामलों में बहस करने, मुनाज़रा और किताबों के ज़रिए जिहाद करने की क्या जरूरत है। पिछले कुछ दशकों से एक ही कलमा पढ़ने वालों के बीच गठबंधन, इत्तेहाद की कोशिशें की जा रही हैं। लेकिन संभावनाएं कम से कम होती जा रही हैं। जब कि कुरान भी कहता है ऐसी बात पर एकजुट हो जाओ जो (common) सामान्य साधारण हों।

यूं तो सामाजिक और घरेलू गठबंधन में हम जी रहे हैं। लेकिन आपसी मतभेद कम होने का नाम नहीं ले रहे हैं। मुसलमानो के आपसी गठबंधन के बारे में सबसे बड़ी मुश्किल यह है कि सभी इस मतभेद को शरीयत और आस्था के आधार पर समझते हैं। लेकिन कोई भी इस मुद्दे को गंभीरता से समझने को तैयार नहीं। सभी का अपना अहंकार सामने आ जाता है। गठबंधन के सभी प्रयास मात्र ख़ाकों और मनसुबों में ही बंद हो जाते हैं। मुसलमानो के साथ पहले दिन से ही यह समस्या रही है कि कुछ, मुनाफिक, बहरूपियों और धूर्त लोगों ने धर्म के नाम पर धोखा देने की कोशिश की है। आज तक वो प्रक्रिया चल रही है। इसी वजह से इतने मतभेद जीवन में आ रहे हैं। मतभेद को बढ़ावा देने में ज़्यादा पात्र अहंकार का रहा है। हाँ इस बात से इनकार नहीं है कि एक बहरूप मुस्लिम (नाम का) ने दुसरे मुस्लिम के धार्मिक जज़्बात को ठेस पहुंचाई है। एक साज़िश में फँस कर ऐसी बातें कही, लिखी और बोली हैं कि जिस से भेद होना स्वाभाविक है। इन लोगों ने हमेशा राजनैतिक उद्देश्यों से ऐसी वारदात को अंजाम देते रहे हैं जिस से समुदाय में बिखराव हो, आपसी बटवारा हो। दूसरों को इस का फायदा हो।

लेकिन सूफीवाद शिक्षा, तालीम और उदारवादी तरबियत ने हमेशा इस पाखंड, मुनाफिकत को टखनों के बल गिराया और शिकश्त दी है। कट्टरवादी सोंच और कट्टरपंथी विचार धारा के विरुद्ध सूफीवाद का सहारा लिया गया। एक सोंच ही दुसरी सोंच को मार सकती है। सूफीवाद के विरुद्ध ही यह उग्र विचार पैदा किये गए थे। लेकिन बाद में दवाओं में मिलावट ने कट्टर सोंच के विरुद्ध भी कट्टरता का प्रदर्शन करना शुरू कर दिया। दोनों ही अपने मार्ग से हट गए। हद तो यह है कि जो भी मुद्दे को सुलझाने की कोशिश की वह खुद भी ऊँच नीच के जाल में आ गया।

यानी “मर्ज़ बढ़ता गया जो-जो दवा की है”। ' इसकी एक वजह यह भी है कि जिस घाव को सुई से सिलना था उसमे चाकू और खंजर का इस्तेमाल किया गया और जहां मज़बूती और स्थिरता से खड़े होने की जरूरत थी वहां जुमलों ,बयानबाजी और इलज़ाम से काम लिया गया। आपसी मतभेद को अपनी निजी और व्यक्तिगत असामनता में खूब हवा दी गई। इस्लाम की जो शिक्षा हमारे बड़े बुजुर्गों और सूफियों ने दी है, उस पर अमल होता नजर नहीं आ रहा है। निजी जाती झगड़ो को धार्मिक रंग देकर जनता अवाम को कई भागों में बांट दिया गया।

अपनी कम इल्मी और अक्षमता को छिपाने के लिए भी इस नीति का इस्तेमाल किया गया। किसी के साथ बैठ कर सुलह समझौता की बजाय राजनीतिक बयानबाजी और एक दूसरे पर आरोप प्रत्यारोप से काम लिया गया। नतीजा यह निकला कि इस्लाम की सही तस्वीर उनके निजी झगड़ो की धूल में छिपकर रह गई। मूल मतभेद लोग भूल गए। अब तो मतभेद की लड़ाई उफान पर है। प्रतीत होता है मानों सत्ता की लड़ाई है। किसी भी कीमत पर अपने मत सही साबित करना है। इसके लिए कुरान और हदीस के जाइज़ और नाजाइज़ इस्तेमाल करना पड़े तो कोई बात नहीं।

क़ुरान व हदीस की निजी और निराधार व्याख्या ने इन परिस्थितियों को को आग लगाने का कम किया। कई ऐसे मतभेद हैं जिनमें केवल गलतफहमी ही दूरियां बढ़ा रही हैं। कोई भी ज़िम्मेदार इस बात को समझ कर उसका समाधान करने को तैयार नहीं। शायद उन्हें लगता है कि ऐसा करने पर मार्किट में उनकी महत्वता में कमी आ जाएगी। इसलिए इस तरह की दूरियों को वह खुद बनाए रखना चाहते हैं।

एक विडंबना यह भी है कि विभिन्न समुदायों में बंटे हुए यह लोग भारत में अपने आप चाहे जिस पंथ और फिरका से जोड़ लें बाहर देशों में जाकर अक्सर बोली और मत बदल जाता है। सऊदी और उनके हितैषी देशों में सभी केवल मुसलमान होते हैं। या जो लोग सऊदी विचार धारा को मानते हैं वहां अपनी इस फ़िक्र पर फख्र करते हैं जिस के चलते उन्हें इनाम से नवाज़ा जाता है।

लेकिन इसके अलावा सूफी देशों में सभी सूफी होते हैं। भारत के सऊदी वफादार वहाबी भी जब सऊदी के अलावा तुर्की और चेचन्या जैसे सूफी देशों में जाते हैं तो वह अपने आप को पक्का सूफी हैं। एक से अधिक उदाहरण ऐसे हैं जहां सूफी और सूफीवाद से इनकार करने वाले अपने आपको सूफी बताकर लोकप्रियता और प्रतिष्ठा हासिल किए हुए हैं। जब स्थिति इस तरह की हों कैसे विश्वास किया जाए जो भी आपसी मतभेद हैं इनकी वजह दीन और अक़ाएद हैं।

अहले सुन्नत से संबंध रखने वालों का भी यही हाल है। वह खुद भी एक बात पर सहमत नहीं हैं। एक दूसरे को कुफ्र व गुमराही के अंधेरे घर में कैद करने की होड़ में लगे हुए हैं जो जितना बड़ा ठेकेदार है, वह उतना ही बड़ा कारखाना कुफ्र और गुस्ताख़ी का लेकर बैठा है। उसकी हैबत इतनी है कि किसी को भी इस के खिलाफ सच और हक बोलने की हिम्मत नहीं होती। ऐसा नहीं कि बोलने से उसे जान-माल का खतरा है। वैसे माल का ही खतरा है। प्रोग्राम नहीं मिलेंगे। चंदा नहीं होगा। चंदा, पैसा, दावत ,तबलीग, इमामत व खिताबत पर ज़िन्दगी जीवन बसर करने वालों की रोज़ी रोटी का मसला जुड़ा होता है। हालाँकि यही लोग अपनी तकरीरों में कहते हैं कि रिज्क तो सब का तै है।

निजी फायदा के लिए दीन में समझौता किया जा सकता है,,, हाँ जिस ग्रुप से रिज़्क़ को मंसूब कर रखा है अगर इस के विरुद्ध कोई मामला है तो इस में ईमान दांव पर लगा देंगे। इसके लिए कुरान हदीस में जबरन दखल अंदाज़ी तक कर ली जाएगी। ताकि आका और ठेकेदार खुश हो जाएं, विशेष नज़दीकी मिल जाये और कारोबार में भी बढ़ोतरी हो जाये। ऐसे लोगों का एक बाजार है। कुछ ठेकेदार हैं जो अपना अपना ग्रुप तैयार कर रहे हैं ।

कोई खुश करके तो कोई डरा धमकाकर। अलग तरीके और अलग शैली है। हां धर्म से किसी को कोई दिलचस्पी नहीं। जिसे धर्म से लगाव हो जाए, शरीअत की खातिर उसकी गैरत जाग जाए तो सब ठेकेदार इसके खिलाफ एकजुट हो जाते हैं। जिसके नज़दीक किसी वहाबी से हाथ मिलाना, साथ उठना बैठना, खाना-पीना, इसके पीछे नमाज़ पढ़ना, यहां तक ​​कि किसी भी तरह के मामलात रखना सही नहीं है। लेकिन खुद उनके साथ ग़ुस्ल ए खाना ए काबा में भागीदारी भी करें। उनकी तरफ से हज और उमरा भी करें। उनकी दावत को स्वीकार भी करें।

आज के इस दौर में कोई भी व्यक्ति किसी व्यक्ति से बिना किसी उद्देश्य के न मिलता है और न ही इससे एकता और मतभेद रखता है। यह मनुष्य की अपनी भावना तो हो सकती है लेकिन इसे धर्म दीन का नाम देना शैतानियत के सिवा कुछ भी नहींदिखावा, कपट और पाखंड में , सच्चाई, ईमानदारी का हनन हो रहा है। ऐसे में हम क्या करें? काम करने वालों को किसी भी ठेकेदार से अलग होकर काम करना होगा। जनता को समझना होगा कि जिसे भी कार्य से मतभेद हो वह धर्म के दुश्मन है।

उसे क़ौम मुस्लिम और इस्लाम से कोई प्रतिबद्धता नहीं। वह व्यापारी है जो धर्म के व्यापार पर आमादा है। इस का संबंध चाहे जिस मसलक या फिरके से हो। ऐसे किसी भी एकाधिकार को ताक पर रखकर तामीर और तरक्की की राहें हमवार करनी होंगी किसी ऐसी लकीर के फकीर होने से बचें हर उस लकीर से अपने आप को अलग करना होगा जिसे व्यक्तिगत स्वार्थ के लिए खींचा गया हो
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, contact:9582859385
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@


Tuesday, January 17, 2017

مسلمانوں کی داخلی شیرازہ بندی کا سد باب کون کرے؟ Internal Diversions in the Muslim Community मुसलमानों की आपसी भिन्नता .


مسلمانوں کی داخلی شیرازہ بندی کا سد باب کون کرے؟
عبدالمعیدازہری

جہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام، انسانیت کی بنیاد پر اتحاد واتفاق اور رواداری کا مذہب ہے، وہیں یہ بات بھی افسوس کے ساتھ قابل یقین اور سبق آموز ہے کہ پوری دنیا کو اتحاد کی دعوت دینے والے مسلمان خود کئی فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے ہیں۔سنی، شیعہ اور وہابی میں بٹا ہوا کلمہ گو مسلمان اس قدرایک دوسرے کا مخالف ہو گیا ہے کہ تینوں ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اسی انتشار نے امت مسلمہ کے شان و وقار کا شیرازہ بھی بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ آج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔پوری انسانیت کے حق میں دعا گو اور خیر خواہ اسلام بھی طعن تشنیع کا نشانہ بنتا جا رہاہے ۔ اسلامی تعلیمات ، روایات و اخلاقیات ایک پرانی تاریخ بن کر رہ گئے ہیں۔ جن اصولوں کی پابندی نے مسلمانوں کو دنیامیں حاکمیت کا عروج بخشا تھا آج وہی اصول خود مسلمانوں کے یہاں نا قابل قبول ہو گئے ہیں۔ آج کا ہر سنجیدہ مسلمان ایک مستقل حل چاہتا ہے ۔ ایمان و کفر کے درمیان واضح تشریح، توضیح اور تفصیل کی طلب اور مانگ کرتاہے ۔ یا تو انسان مسلمان ہے یا نہیں ہے ۔ مسلمان ہے تو پھر اچھائی اور برائی اختیار کرنے کے اختیارپر اس کی اصلاح کی جائے ۔ اگر مسلمان نہیں تو پھر اس سے اسلامی معاملات میں بحث کرنے ، مناظرہ اور کتابوں کے ذریعہ زبانی جمع خرچ کا جہاد کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے کلمہ گو کے درمیان اتحاد کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ ایسی بات پر متحد ہو جاؤ جو مشتر ک ہوں ۔ یوں تو سماجی اور ملکی اتحاد میں ہم جی رہے ہیں۔مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے بارے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سبھی اس اختلاف کو شریعت و عقیدت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔لیکن کوئی بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنے کو تیار نہیں۔ سبھی کی اپنی انا سامنے آجاتی ہے۔ اتحادکی تمام کوششیں محض خاکوں اور منسوبوں میں ہی بند ہو کر رہ جاتی ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ روز اول سے ہی یہ مسئلہ در پیش رہا ہے کہ کچھ منافق صفت ، ریاکار، نفس پرست لوگوں نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن تصوف کی تعلیم نفس کشی نے ہمیشہ اس منافقت کو شکست دی ہے۔ آج تک وہ معاملہ چل رہا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے اتنے اختلاف وجود میں آ رہے ہیں۔لیکن تمام تر اختلافات میں آج اکثر ذاتی انا کا دخل زیادہ نظر آتا ہے ۔البتہ اس بات سے انکار نہیں کہ گستاخی یا بدعات نہیں ہوئی ہیں۔
اکثر کہیں نہ کہیں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ جس نے بھی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی وہ خود بھی افراط و تفریط کے تعصب میں آگیا ۔ یعنی ’مر ض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ہے ‘۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس زخم کو سوئی سے سلنا تھا اس میں چاقو اور خنجر کا استعمال کیا گیا اور جہاں استقلال اور استقامت سے کھڑے ہونے کی ضرورت تھی وہاں جملوں کے جمع خرچ اور بیان بازی اور یلزام تراشی سے کام لیا گیا ۔ آپسی اختلاف کو اپنی نجی اور ذاتی محفلوں میں خوب ہوا دی گئی ۔ اسلام کی جو تعلیم ہمارے اکابر بزرگوں اور صوفیوں نے دی ہے، اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا ۔ ذاتی چپقلش کو مذہبی رنگ دے کر عوام کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ اپنی کم علمی اور نااہلی کو چھپانے کیلئے بھی اس حربہ کا استعمال کیا گیا ۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر صلح مصالحت کی بجائے سیاسی بیان بازی اور ایک دوسرے پر الزال تراشی سے کام لیا گیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی صحیح تصویر ان ذاتی منافقتوں کی دھول میں چھپ کر رہ گئی ۔ اصل اختلاف لوگ بھول گئے فروعیات میں ایسا تنا زع چل رہا ہے مانوں اقتدار کی لڑائی ہے ۔ کسی بھی قیمت پر اپنے موقف کو ثابت کرنا ہے ۔ اس کے لئے قرآن و حدیث کا جائز و ناجائز استعمال کرنا پڑے تو کوئی بات نہیں۔ تاویل اور نجی تفسیر کے راہیں پہلے ہی ہموار کر لی گئیں۔
بہت سے ایسے فروعی اختلافات ہیں جن میں صرف اور صرف غلط فہمیاں ہی دوریاں بڑھا رہی ہیں۔ ذمہ داران اس بات کو سمجھ کر اس کا حل کرنے کو تیار نہیں ۔ شاید انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے پر مارکٹ میں ان کی ویلو اور اہمیت میں کمی آ جائے گی ۔ اسلئے اس طرح کی دوریوں کو وہ خود بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں لوگ اپنے آپ کو چاہے جس مسلک و فرقہ سے جوڑ لیں باہر ممالک میں جا کر اکثر کی بولی اور موقف بدل جاتا ہے ۔ سعودی اور ان کے ہمنوا ممالک میں سبھی صرف مسلمان ہو تے ہیں۔ اس کے علاوہ صوفی ممالک میں سبھی صوفی ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے سعودی وفادار وہابی بھی جب سعودی و قطر کے علاوہ ترکی و چیچنیا جیسے صوفی ممالک میں جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو پکا صوفی اور اہل تصوف ہی کہتے ہیں۔ بلکہ با قاعدہ خانقاہی ہو جاتے ہیں۔ ایک زائد مثالیں ایسی ہیں جہاں صوفی اور تصوف کا انکار کرنے والے اپنے آپ کو صوفی بتا کر مقبولیت و شہرت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ جب اس طرح کے حالات
ہوں کیسے یقین کیا جائے کہ جو بھی مذہبی و شرعی اختلافات ہیں ان کی وجہ دین و عقائد ہیں ۔
اہل سنت سے تعلق رکھنے والوں کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ خود بھی کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ ایک دوسرے کو کفر گمرہی کے کے تاریک گھر میں قید کرنے کی ہو ڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ جو جتنا بڑا ٹھیکیدار ہے، وہ اتنا ہی بڑا کارخانہ کفر و گستاخی کا لیکر بیٹھا ہے ۔ اس کی ہیبت اتنی ہے کہ کسی کو بھی اس کے خلاف سچ او ر حق بولنے کی ہمت نہیں۔ صرف ایسا ہی نہیں کہ بولنے سے اس کے جان و مال کا خطرہ ہے ۔ ویسے مال کا ہی خطرہ ہے ۔ پروگرام نہیں ملیں گے ۔ چندہ نہیں ہوگا ۔ چندے اور پیشہ ورانہ دعوت وتبلیغ ، امامت و خطابت پر زندگی بسر کرنے والوں کی روزی روٹی کا مسئلہ جڑا ہوتا ہے ۔ اب اس کے آگے دین کے ساتھ سمجھوتا کیا جا سکتا ہے ۔ہاں جس گروپ سے رزق کو منسوب کر رکھا ہے اگر اس کے حزب مخالف کا معاملہ ہے تو اس میں حق گوئی و بے باکی عین ایمان ہوگی ۔ اگر چہ اس کے لئے بے جا تاویل اور قرآن حدیث میں جبرا دخل اندازی کرنی پڑے ۔ سب کچھ کیا جائے گا ۔ تاکہ ہمارے آقا خوش ہو جائیں اور خاص قرب میں جگہ عنایت فرمائیں۔ ایسے مسلمانوں کی ایک منڈی ہے۔ جس میں چند ٹھیکیدار ہیں۔ جو اپنا اپن گروپ تیار کر رہے ہیں ۔ کوئی خوش کر کے تو کوئی ڈرا دھمکاکر ۔ الگ الگ طریقے اور انداز ہیں۔ہاں دین سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ جسے دین سے لگاؤ ہو جائے ۔ شریعت کی خاطر اس کی غیرت جاگ جائے تو سب ٹھیکیدار اس کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔
جس کے نزدیک کسی وہابی سے ہاتھ ملانا، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ،اس کے پیچھے نماز پڑھنا ، حتی کہ کسی بھی طرح کے معاملات رکھنا درست نہیں ۔ اس کے بعد جب وقت پڑے تو خود ان کے ساتھ غسل کعبہ میں شرکت بھی کی جائے ۔ ان کی طرف سے حج و عمرہ بھی کیا جائے ۔ان کی ضیافت کو قبول کیا جائے ۔ یہ تو عجیب معاملہ ہے ۔
آج کے اس دور میں ہر چیز اور ہر شخص بے معنی نظر آتا ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی شخص سے بغیر کسی مقصد کے نہ ملتا ہے اور نہ ہی اس سے اتحاد و اختلاف رکھتا ہے ۔ یہ انسان کا بشری تقاضہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کو دین کا نام دینا شیطنت کے سوا کچھ بھی نہیں۔دکھاوا، ریاکاری اور منافقت میں اخلاص دیانت داری کی کھلی کردار کشی ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہم کیا کریں؟
کام کرنے والوں کو کسی بھی ٹھیکیدار سے بیزار ہو کر کام کرنا ہوگا۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ جسے بھی کام سے اختلاف ہو وہ دین کا دشمن ہے ۔ اسے قوم مسلم اور اسلام سے کوئی وابستگی نہیں۔ وہ تاجر ہے جو دین کی بھی تجارت پر آمادہ ہے ۔اس کا تعلق چاہے جس مسلک یا فرقہ سے ہو۔ایسی کسی بھی اجارہ داری کو بالائے طاق رکھ کر تعمیر و ترقی کی راہیں ہموار کرنی ہوں گی۔کسی ایسی لکیر کے فقیر ہونے سے اجتناب واضطراب لازم کرنا ہوگا جسے تعصب یا اندھی تقلید کی قلم سے کھینچا گیا ہو۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com


Like Me On:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://plus.google.com/117060618306950549315
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Saturday, January 7, 2017

इस क़यादत से उम्मत बचा मेरे मौला Oh Maula! save the community form this leadership اس قیادت سے امت بچا میرے مولا

اس قیادت سے امت بچا میرے مولا!
عبد المعید ازہری

قریب ایک دو برس پہلے کی بات ہے جب جمیعت علماء ہند کے اہم ذمہ دار،مولانا ارشد مدنی نے سعودی تانا شاہوں کی وفاداری کے قصیدے پڑھے تھے. اس کے ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں کو بھی سعودی وفاداری کے گن گانے کی بات کی تھی۔ انہیں اسلام کا صحیح ترجمان بتانے کے ساتھ اس ترجمانی کی نشر و اشاعت کے واحد مبلغ، داعی اور علم بردار قرار دیا۔ یہ معاملہ کسی پردہ خفاء میں نہیں تھا۔اس بات کا باقاعدہ اعلان ہوا تھا۔ بلکہ اشتہار کے ذریعہ باقی مسلمانوں تک اس پیغام کو پہنچایا گیاتھا۔ ان دنوں دار العلوم ندوہ کے اہم رکن اور ذمہ دار مولانا سلمان ندوی کی سعودی شاہوں سے کچھ زیادہ نہیں بن رہی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں کے جد مولانا ابو الحسن علی ندوی کو کعبہ شریف کی کنجیاں حاصل تھیں۔ خود مولانا موصوف کے سعودی فرماں رواؤں اور شیوخ کے ساتھ بڑے مضبوط اور گہرے مراسم تھے۔ ایک عرصہ تک دوستی کا سفر جاری رہا۔ وہیں سے تعلیم و تربیت بھی پائی۔ سعودی وفادار خطیب و امام مولانا معراج ربانی کے مطابق سعودی کے مذہبی و سیاسی(آل سعود، آل شیخ) حکمرانوں نے مولانا موصوف پر کافی سرمایا کاری کی تھی۔ لیکن سعودی کے قطر سے بگڑتے رشتے کی وجہ سے اچانک مولانا سلمان ندوی نے گھر بدل لیا۔ گھر بدلتے ہی انہوں نے سعودی دشمنی کا اظہار ببانگ دہل کیا۔ لکھنؤ، ممبئی، بنگلور سمیت کئی شہروں میں سلفی / اہل حدیث / اخوان المسلمین کی قصیدہ خوانی میں پروگرام کئے اور سعودی کو مسلمانوں کا دشمن، اسلام کا باغی، ظالم، ڈاکو اور رہزن جیسے اوصاف سے نوازا۔ کہتے ہیں گھر کا آدمی جب دشمن ہو جائے تو پردے ہٹنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ جیسے ابھی حال ہی میں ٹی وی کے نائک ڈاکٹر ذاکر نائک کے ساتھ ہوا تھا۔ انہیں کے ساتھ کام کرنے والوں نے ان پر سنگین الزامات لگائے۔ کئی راز کھولے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آرگنائزیشن پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مولانا سلمان ندوی کے سعودی انکشافات کا سلسلہ صرف سعودی حاکموں اور عالموں تک محدود نہ رہا۔ انہوں نے ہندوستان میں سعودی وفاداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مولانا ارشد مدنی اور ان کے سعودی وفاداری کے اشتہار پر جم کر تنقید و تنقیص کی۔ سعودی ظلم و جبر کو لے کر بیسوں سوالات قائم کر دئے۔ سعودی فکر کی حمایت کرنے والوں کو بھی سوالوں کے گھیرے میں لاکر کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد دارالعلوم دیو بند اور دار العلوم ندوہ کے درمیان کی کڑواہٹ اپنا رنگ لینے لگی۔ قطر اور سعودی کے لئے ہندستان میں لڑی جانے والی فکری و لفظی جنگ نے مذہب کے مہذب حدود کی پرواہ کئے بغیر باغیانہ اور جابرانہ طور پر ایک دوسرے کو دعوت مباہلہ دے ڈالی۔ اس دعوت مباہلہ کو بھی کئی مختلف ناموں سے یاد کیا گیا۔ پھر اس مباہلے کی دعوت کو مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ایمان اور غیرت ایمانی کا نام لینے والے اور اس کی دہائی دینے والوں نے اسلامی غیرت کو نام و نمود کی خاطر چند ٹکڑوں میں بیچ دیا۔ امت اور مذہب کے وقار اور اس کی پاسداری کاایک تماشا بنا کے رکھ دیا گیا۔ جس نیامت مسلمہ کو جگ ہنسانی کا موقعہ فراہم کیا۔ آخر کار چند دنوں بعد روزنامہ خبریں میں ایک صحافی نے دونوں ہی کے نام ایک کھلا خط لکھا اور دین و شریعت کو ذاتی مفاد کے چکر میں بدنام نہ کرنے کا مشورہ دیا۔
تاریخ کا یہ پس منظر دیکھنے کے بعد ابھی تبلیغی جماعت کے مرکزی مرکز،جو دہلی کے حضرت نظام الدین اولیاء میں واقع ہے، اس کے ایک ذمہ دار امیر مولانا سعد کاندھلوی نے اپنے مرکز کو مکہ و مدینہ کے بعد سب سے محترم اور قابل تعظیم قرار دیا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اسی جماعت کا نظریہ ہے کہ مکہ و مدینہ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور چیز شریف نہیں،محترم، مکرم، قابل تعظیم و توقیر نہیں۔ ان کے مقابل صوفیوں کی جماعت نے ہر اس جگہ کو شریف اور مبارک سمجھا جہاں رب کریم کی نشانیاں موجود ہوں یا اس کے محبوب سے منسوب ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ ان سب میں اولیت اور افضلیت انھیں دونوں مقام کو حاصل ہے۔ مولانا سعد کاندھلوی کے اس بیان پر دار العلوم دیو بند کا ایک فتویٰ صادر ہوا جس میں ایسا بیان دینے والے کو گمراہ اور بیان کو گمراہ کن کہا گیا۔ اب تبلیغی جماعت اور دیو بند کے درمیان پھر سے نورا کشتی شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے ایک مہینے سے لفظی جنگ جاری ہے۔ یہ معاملہ طنز و مزاح کا موضوع بنا ہوا ہے۔جس نے ایک بار پھر اسلامی وقار اور اس کی عظمتوں کو سڑک چھاپ بحث و مباحثہ کے ذریعہ بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہے جب دیو بند کا کوئی فتویٰ تنازعہ کا شکار نہ ہوا ہو۔ تنازع خیز فتوے دہائیوں سے صادر ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے کئی فتوے ایسے آئے ہیں جس سے داخلی انتشار و اختلاف کو ہوا ملی ہے اور فکری کشیدگی بڑھی ہے۔ عید میلاد النبی کو لیکر بھی دار العلوم دیو بند کا فتویٰ کئی دنوں تک میڈیا کے کیمرے اور اخباروں کی سرخیوں میں گھومتا رہا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے عید میلاد النبی کے حوالے سے سوال پوچھا تھا تو دار العلوم دیوبند کی جانب سے عید میلاد النبی کی حرمت اور عدم جواز میں فتویٰ دیا گیا۔ اس کے بعد اس کے رد میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدر جو اس وقت یعنی ۲۱۰۲/میں جنرل سیکریٹری تھے، سید محمد اشرف کچھوچھوی نے اس فتویٰ کا جواب دیا۔ کئی دنوں تک یہ معاملہ اخباروں کے ذریعہ سرگرم اور موضوع بحث بنا رہا۔ اس کے بعد دیو بند خاموش ہو گیا اور بورڈ نے بھی سکوت اختیار کر لیا۔ اسی دوران ایک اور فتویٰ نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی تھی جب باڈی اسکین کے خلاف دیو بند کا فتویٰ آیا تھا۔ اس وقت بھی بورڈ نے دیو بند کے فتوے پر اعتراض کیا تھا۔ معاملہ کچھ دن بحث و مباحثہ کے بعد خاموشی پر ختم ہوا۔ اسی طرح کے گائے کی قربانی، مولد نبوی کے موقعہ پر جلوس نکالنے، درگاہوں پر جانے وغیرہ معاملات میں ان فتووں نے امت کے درمیان کی دوری کو بڑھنے ہی کا کام کیا ہے۔
مولانا سعد کاندھلوی کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ فتویٰ بازی کے بعد اخباری بیان بازی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دیو بند کی جانب سے دئے گئے فتوے کو جہاں ایک طرف مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے وہیں دوسری طرف خود تبلیغی جماعت کی طرف سے حمایت بھی ملی ہے۔ چند دنوں بعد بنگلہ دیش میں ہونے والے تبلیغی اجتماع میں مولانا سعد کو مدعو نہیں کیا گیا، الجامعہ اہلہ دار العلوم معین الاسلام کے رئیس اعلی اور حفاظت اسلام بنگلہ دیش کے سربراہ مفتی شاہ احمد شفیع  نے کہا کہ جب تک مولوی سعد اپنے بیان سے ہٹ نہیں جاتے انہیں بنگلہ دیش آنے کی اجازت نہیں اور ان پر عائد پابندی بھی نہیں ہٹے گی۔ دار العلوم دیو بند کا فیصلہ درست ہے۔ یہ ادارہ اور تنظیم دیوبند کے فتوے اور فیصلے کے ساتھ ہے۔
ادھر دوسری طرف حال ہی میں یو پی کے سنبھل میں ابھی ایک بڑا اور عظیم تبلیغی اجتماع ہوا۔ جس میں مولانا سعد کاندھلوی نے ایک بار پھر سے اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے اپنے موقف کا دوبارہ اظہار کیا۔ اس اجتماع میں دار العلوم دیوبند کے کئی علماء اور مفتیان کرام نے شرکت کی۔ ان میں دو ایسے مفتیوں، مفتی محمود بلند شہری اور مفتی سلمان کی شرکت درج کی گئی جن کے دستخط مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف دئے گئے فتوے میں موجود ہیں۔ تنظیم مساجد اور ائمہ کے صدر مفتی وجاہت قاسمی نے دیوبندکا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ہی مفتیوں کو دار العلوم کی جانب سے ہرگز نہیں بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے تو ان دونوں مفتیوں کو خوب بھلے برے لفظوں سے یاد کیا اور آخر میں کہا کہ دار العلوم کے ذمہ دار سے بات ہو گئی ہے انہوں نے ان دونوں مفتیوں سے باز پرس اور سرزنش کی یقین دہانی کرائی ہے.۔مفتی وجاہت قاسمی نے دار العلوم کی حمایت میں بولنے والے دیگر مفتیوں کی تعریف کی اور تبلیغی جماعت کو باطل فرقہ قرار دیتے ہوئے دارالعلوم سے امید ظاہر کی ہے کہ ادارہ جلد ہی کوئی سخت اقدام عمل میں لائے گا۔ انہوں نے دونوں مفتیوں کی شرکت کو دار العلوم سے غداری قرار دیتے ہوئے انھیں اہل علم و شعور کی فہرست سے خارج کر دیا۔
اس داخلی انتشار کا شکار امت، کس تعمیر اور ترقی کا خواب دیکھے اور اسے کس طرح شرمندہ تعبیر کرے؟ یہ حال ایک مکتب فکر کاہے۔ اس کی یہ صورت محض ایک جھلک ہے۔ حالات اس سے بد تر ہیں۔ کم و بیش یہی صورت حال دوسرے مکاتب فکر کابھی ہے۔ اس امت کے زوال اور رسوائی میں اہم رول اور کردار اسی داخلی شیرازہ بندی کا ہے۔ اپنے اپنے دامن کے داغ کو چھپانے اور اس کی پردہ پوشی کیلئے اتحاد کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ عام امت مسلمہ کی سادہ لوحی کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس پر بھی احساس تفاخر یہ ہوتا ہے کہ ہم ہی قوم کے قائد و رہنما ہیں۔ اب بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ مولا! ایسی قیادت و رہنمائی سے امت مسلمہ کو محفوظ و مامون رکھ اور انہیں ہدایت نصیب فرما! آمین یا رب العا لمین بوصیلت حبیبک رحمت للعالمین.
Abdul Moid Azhari (Amethi)
: abdulmoid07@gmail.comContact: 9582859385, Email