ہندوستان میں اسلامی خطاطی کی روایت
عبد المعید ازہری
خطاطی اسلامی فنکاری کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ جس طرح فن تعمیر کا رعب پوری دنیا پر ہے۔ یہ خاصہ بھی اسلامی فنون کے حصّے میں موجود ہے۔ اسلامی خطاطی کو بلند و معیاری مقبولیت اسلئے بھی ملی کیونکہ اس کی شروعات عربی زبان سے ہوئی۔ اس زبان کو اہمیت اور افضلیت اسلئے مقدر ہے کیونکہ قرآن مقدس کی زبان بھی عربی ہے۔ عرب کی تصویر گری اور نقش کاری پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن چونکہ مجسّمہ سازی یا تصویر سازی کو علماء دین اور فقہاء اسلام نے حرام قرار دیا اسلئے ساری فنکاری خطاطی کی جانب منتقل ہو گئی اسی لئے اس میں حد درجہ نکھار اور جاذبیت پیدا ہو گئی۔ وقت کے ساتھ نئے نئے ایجادات بھی ہوتے گئے اور خطاطی اسلامی فنکارانہ اظہار کی اہم اور بڑی شکل میں منتقل ہو گئی۔ آج خطاطی کی دسیوں قسمیں موجود ہیں۔ عربی زبان کی قید و حدود سے یہ فن نکل کر دنیا کی متعدد قدیم اور مقبول زبانوں تک پہنچ گئی۔ عربی زبان کی برکت و تہذیب کو لے کر یہ فن فارسی، ترکی، شمالی افریقی بربر زبانوں، کردش، مالی اور اردو زبان وغیرہ میں سرایت کر گئی۔ اردو زبان و ادب کے فراغ میں بھی اس خطاطی کی بڑی کارگر اہمیت ہے۔
اس خطاطی میں دلچسپی کو قرانی آیات و نبوی پیغامات سے راہ ملی۔ قرآن کی شروعات پڑھو سے ہوئی۔ کتابت اس کا لازمی و لا ینفک جزء ہے۔ اقراء کے بعد ہی قلم کے علم کا ذکر اس کی واضح دلیل ہے۔ سورۃ نون کی تفسیر میں مفسرین نے نون کو دوات اور قلم کو قلم کے معنی میں لیا ہے۔ حرف نون کی شکل بھی دوات کی طرح ہے اسلئے بھی کتابت کو ایک مضبوط راہ ملی، اسکے علاوہ بھی کئی آیات نے کتابت کی جانب نہ صرف توجہ دی ہے بلکی ترغیب بھی دی ہے. پیغمبر اسلام کی زبانی اس فن کو بڑی تقویت ملی ہے۔ آپ صلعم نے فرمایا جس نے خوبصورتی کے ساتھ بسم اللہ لکھا اس کے لئے عظیم اجر ہے اور جنت میں مقام خاص ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ اگر حسن نیت کے ساتھ خطاطی کی گئی تو اس کا بہترین بدل ہے۔
اس ضمن میں تین اہم ارشادات ہیں جن کی وجہ سے اس فن کو بسا اوقات عبادت کی طرح فروغ دیا گیا۔ اس میں ثواب کی نیت سے دلچسپی لی گئی ہے۔
آپ صلعم نے فرمایا جس نے بسم اللہ کو خوبصورتی سے لکھا یا جس نے جتنی خوبصورتی سے لکھا اس نے حق کو اتنا ہی واضح کیا ہے۔ حق کی نشر و اشاعت میں اتنا ہی اس کا حصہ ہے۔ تبلیغ و ترویج حق کے بارے میں بے شمار ارشادات موجود ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا علم کو کتابت کے ذریعے حاصل کرو اور پھیلاؤ۔ حصول علم کی ایک سے زائد قرآنی آیات و احادیث ہیں جو حصول علم کی فرضیت پر واضح اور روشن دلیل ہیں۔ حصول علم کے مختلف وسائل و ذرایع میں سے ایک کتابت ہے۔ اس لئے اس کتابت اور اس فنی و ادبی شکل خطاطی کو اتنی اہمیت و افضلیت حاصل ہے۔
تیسرا ارشاد ہے کہ رب صاحب جمال ہے اور جمال و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ لہذا ہر معاملے میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تحریری خوبصورتی بھی ایک فن بنا۔ ابتدائی دور میں اور آج بھی اکثر عربی الفاظ و جملوں کی خطاطی کی جاتی رہی ہے۔ اس میں بھی یا تو اسماء حسنی یا قرآنی آیات ہی خطاطی میں لکھے جاتے ہیں۔ اس فن کی اتنی شہرت و مقبولیت اسی کا فیضان معلوم ہوتا ہے۔
یوں تو خطاطی دور نبوی میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ کیونکہ جو درہم و دینار خرید و فروخت میں استعمال ہوتے تھے ان پر کچھ نقش ہوتا یہ اور کچھ تحریر بھی ہوتا تھا۔ جب آپ صلعم کی انگوٹھی کی شکل میں جو مہر بنائی گئی تھی وہ بھی خطاطی کا ایک بہترین نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں تین لفظوں کی تحریری خطاطی تھی۔ اس کے بعد وقت کے ساتھ اس میں نئے نقش بنتے گئے۔ اس فن کی شروعات ۸ویں صدی سے ہوئی۔ اب تک تعمیر و ترقی کے بے شمار مرحلے طے کر چکا ہے۔ آج خطاطی اسلامی فنکاری کا ایک اٹوٹ اور بے جوڑ حصہ بن چکا ہے۔ خطاطی مقدس و پاک و پاکیزہ (قرانی) تحریروں کو پیش کرنے کا ایک واحد اور بہترین ذریعہ بن گیا۔ اس کی ترویج و اشاعت میں محنتیں اور سرمایا کاری وقت، حالات و ضرورت کے پیش نظر ہوتی رہی۔
۸ویں صدی کوفی شکل میں شروع ہوئی خطاطی نے ۸ ویں صدی میں مغربی اور اندلسی فارم کو ایجاد کیا۔ ۱۰ویں صدی میں نسخ یا نسخی شکل،۱۱ ویں صدی میں ثلث ۱۴ اور۱۵ ویں میں طالق اور نستعلیق ۱۶ ویں اور۱۷ ویں صدی عیسوی میں دیوانی لہجہ وجود میں آیا. اس کے علاوہ ان کی الگ الگ اور قسمیں بھی ایجاد میں آئیں. جیسے سینی، محقق، رقعہ وغیرہ۔
خطاطی کے موجد عرب ہیں۔ اسلامی خطاطی مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے مسلم خطاط مولا علی علیہ السلام ہیں۔
جہاں ایک طرف خطاطی کی اسلامی شکل و شبیہ اس کی ترویج و اشاعت کی تاریخ آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس میں مسلمانوں کی دلچسپی بھی واضح ہے۔ وہیں دوسری طرف یہ بھی ایک نا قابل فراموش حقیقت ہے کہ آج یہ فن زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ جس فن کو عبادت اورثواب کی نیت سے عروج بخشا گیا ہو آج وہ زبوں حالی کا شکار نظر آ رہا ہے۔ آج خود مسلمان اس فن سے مانوس ہوناتو در کنار اس کی تاریخ سے بھی واقف معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے اس فن کو غیر ضروری بلکہ مکروہ و ناپسندیدہ کی حد تک ترک کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خطاط کی جو حیثیت ہے وہ بڑی ہی قابل رحم ہے۔ غربت و مفلسی کے شکار ہیں۔ اس کے علاوہ تعظیم و توقیر کی نگاہوں سے محروم ہیں۔ ایک گمنام سی زندگی جی رہے ہیں۔ کس مپرسی کا عالم ہے۔ فن اور فنکار دونوں ہی اس امت مسلمہ کی خاطر خواہ توجہ کے طلبگار ہیں۔ دوسری جانب اس فن کا حال یہ ہے کہ اس فن کو بڑے اور متمول فنون میں گنا جاتا ہے۔ فنکاروں کو بڑی قدر اور توقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ دل و تخت دونوں پر ایک ساتھ راج کرتے ہیں۔
ہندوستان میں اس فن کی ڈوبتی ہوئی امیدوں کو ایک مضبوط سہارا ملنے کی جھلک نظر آئی ہے۔ آثار و روایت کی حفاظت میں نمایاں کردار رکھنے والے درگاہ آثار شریف کے ذمہ دار اس فن اور فنکاروں کو زوال پذیری سے نکال کر کامیاب و سرخرو زندگی سے آشنا کرانے کی بڑی کوشش کرنے جا رہے ہیں۔
فروری مہینے میں ایک انٹرنیشنل میلاد النبی کے موقعہ پر خطاطی کا مقابلہ کرانے کا ارادہ کیا ہے۔ ملک و بیرون ملک سے خطاط کو دعوت دی جارہی ہے۔ متعینہ تاریخ سے ایک ماہ قبل تمام خطاطوں نے اپنا نمونہ پیش کیا۔ منتخب فنکاروں کو مدعو کیا جارہا ہے۔ ان کے جملہ اخراجات کو برداشت کیا جائے گا۔ ۲۰منتخب خطاط مقابلہ میں شرکت کریں گے۔ سبھی کو شرکت کا اعزاز دیا جائے گا۔ ان میں سے چھہ لوگوں کو خصوصی انعامات کے علاوہ ڈھائی سال کیلئے فن خطاطی میں خوبصورتی اور مہارت پیدا کرنے کیلئے ملیشیا بھیجا جائے گا۔ پورے اخراجات ادارہ اٹھائے گا۔ دو سال تک اسکالر شپ بھی ملے گی۔ اس پروگرام میں ملیشیا سے بڑی تعداد میں علماء مشائخ اور خطاط شرکت کریں گے۔ اس کے علاوہ کئی بڑی بین الاقوامی شخصیت کی شرکت ہوگی۔درگاہ آثار شریف کا یہ اقدام اس فن کی تعمیر و تشکیل نو میں میل کا پتھر ثابت ہوگی۔
اس کے علاوہ ہندوستان میں درگاہ آثار شریف خطاطی کا ایک بین الاقوامی ادارہ بھی کھولنے جا رہا ہے۔ جس میں خطاطی سکھائی جائے گی۔ قیام طعام کا بندوبست ہوگا۔اعلی اور معیاری قسم کا ادارہ ہوگا. فن کے اعتبار سے اور عمارت کے حساب سے بھی یہ ادارہ منفرد اور دیدہ زیب ہوگا۔
*****
Abdul Moid Azhari Amethi) E-Mail: abudulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385

No comments:
Post a Comment