Thursday, August 17, 2017

'جامعہ ازہر' اور' ازہری' کی انفرادی حیثیتविश्व प्रसिद्ध अल अज़हर विश्व विद्यालय Al-Azhar University and its uniqueness


'جامعہ ازہر' اور' ازہری' کی انفرادی حیثیت
عبد المعید ازہری

جامعہ ازہر مصر دنیا کے اس عظیم بین الاقوامی ادارے کا نام ہے جو اس وقت امت مسلمہ کی صحیح ترجمانی کر رہاہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جو پوری دنیا میں اسلام کے منہج اعدال، میانہ روی، خیر الامور اوسطہاکی نمائندگی قرآنی مصلحت و حکمت کے دائرے میں کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اس ادارے اور اس کے اسلامی موقف کو نہ صرف ترجیح دیتی ہے بلکہ اسے متفقہ طور پر مانتی اور اس پر بخوشی عمل کرتی ہے۔جامعہ ازہر میں پندرہ لاکھ سے زائد طلباء بیک وقت زیر تعلیم ہیں اور دو سو سے زائد ممالک کے طلباء مقیم حال ہیں۔پوری دنیا میں اسلام کے متعلق ہونے والے سوالوں کا مناسب اور مدلل جواب کا حامل یہ اداراہ بنام مسلم ان متشدد افکار و نظریات کا بھی رد کرتا ہے جو محض اپنی انا مزاجی اور عیش پرستی کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کو بدنام کر رہے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ جیسے اسلام کے پاکیزہ فکر و نظر کو دہشت گردی کی نذر کرکے پامال کر رہے ہیں۔یہ ادارہ شروع ہی سے ایسے انتہا پسند افکار ونظریات کا مخالف رہا ہے۔ اس نے جامعہ ازہر کی پناہ گاہ میں کبھی بھی ایسی فکر کو پنپنے نہیں دیا۔ اگر چہ ملک میں اس طرح کی فکر موجود ہے لیکن جامعہ ازہر ہمیشہ سے اس سے محفوظ رہا ہے اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتا رہا ہے۔جامعہ ازہر نے باقاعدہ اس کا اعلان کیا ہے کہ نہ تو اسلام میں کسی ایسی فکر کی گنجایش ہے اور نہ ہی جامعہ میں اس طرح کے نظریہ کو قبول کیا جائے گا۔جامعہ ازہر کے موجودہ شیخ الازہر الشیخ دکتور احمد طیب نے مسلمانوں کے عالمی اتحاد کی جو صورت نکالی ہے اس کی مثالیں تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔جامعہ ازہر دنیا کے جملہ اسلامی اداروں میں امام اور فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سے نسبت محض قوم مسلم میں مقبولیت کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح اپنے آ پ کو منسوب کر کے اپنی صفائی اور اہلیت و اہمیت کے ساتھ امت مسلمہ میں اپنی قبولیت کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔اور جامعہ ازہر کی سند حاصل کرنا چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جامعہ ازہر کے نام سے منسوب کئی ادارے پوری دنیا میں ہیں جو اس اعظیم ادارے کے منہج و موقف کی نہ صرف ترویج واشاعت کرتے ہیں بلکہ خدمت دین کا بھی فریضہ انجام دیتے ہیں۔یہاں اس بات کی وضاحت اشد ضروری ہے کہ جامعہ ازہر کی انفرادی حیثیت اس میں زیر تعلیم طلباء کی کثرت یا ہمہ جہتی اعلیٰ تعلیم فقط نہیں ہے۔ بلکہ اس کی انفرادی حیثیت اس کے دینی موقف کی بنیاد پر ہے۔ اس کا منہج اعتدا ل اور میانہ روی اسے یکتا بناتا ہے۔ جامعہ ازہر جہاں ایک طرف بے جا مصلحت کا مخالف ہے تو دوسری طرف وہ مذہبی شدت پسندی کے بھی سخت خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی شدت پسندی سے منسوب ابن تیمیہ اور ان کی فکر کے ترجمان اداروں اور جماعتوں کو جامعہ ازہر خارج کرتا رہا ہے۔ اس فکر کی ترجمانی کرنے والی تنظیم اخوان المسلمین جو مصر، ٹیونیشیااور ترکی وغیرہ ممالک میں کافی سرگرم ہیں اور ایک خبر کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی اس فکر کے دہشت گرد موجود ہیں۔ جامعہ ازہرنے ابن تیمیہ اور اخوان المسلمین کو کبھی پسند نہیں کیا۔ہمیشہ اس کے اسلام مخالف شدت پسند نظریات کا رد کرتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اخوان المسلمین کی نظر میں جامعہ ازہر اسلام مخالف ادارہ ہے۔ جب مصر میں ایک خونی انقلاب آیا تھا اور سابق صدر حسنی مبارک کو معزول کر کے نئے اخوانی صدر مرسی کرسی اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی فکر کی ترویج کرنی چاہی۔ جامعہ ازہر کے دستور کو تبدیل کرنا اپنا اولین فرض سمجھااور مصر کے اوقاف کی مساجد میں اپنی فکر کے ائمہ کی تقرری کو دسرا فرض تصور کیا۔
جامعہ ازہر کا یہ مختصر سا پس منظر اس کے افکار و نظریات کا واضح کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک ہندوستان میں بھی اس نام سے موسوم ایک ادارہ قائم کرنے کی خبریں اخباروں اور اشتہارات کے ذریعہ دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ اس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا۔ جامعہ ازہر کے فارغین ازہری علماء نے اس کی مخالفت بھی تو انہیں
میں سے بعض نے حمایت بھی کی۔ مخالفت اس بات کی تھی کہ چونکہ جامعہ ازہر کی کوئی بیرونی شاخ نہیں ہے اسلئے اس نام سے اداررے کا قیام غلط ہے۔ نہ تو اس ادراے کے نصاب میں جامعہ ازہر کے موقف و منہج کی کوئی وضاحت ہے اور نہ ہی اس سے کسی بھی قسم کی کوئی وابستگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ مجوزہ ادارہ کے ذمہ داروں کی جانب سے اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اس مجوزہ ادارے کا تعلق جامعہ ازہر سے نہیں ہے۔تاہم جامعہ ازہر کے نام کا استعمال ایک سوال قائم کئے ہوئے ہے۔ وہیں دوسری جگہ مخالفین نے اس بات کی وضاحت کی کہ انہیں علمی درسگاہ یا فکری دانشگاہ کے قیام سے کوئی اعتراض نہیں۔لیکن اس کے لئے علمی سرقہ کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ جن لوگوں نے حمایت کی ان کا بھی موقف تقریبا یہی تھا کہ یہ ایک ادارے کا قیام محض ہے۔ اس سے قوم مسلم کا علمی و فکر ی فائدہ ہے۔ قوم کی تربیت کا ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایسے کاموں کی حمایت ہونی چاہئے نہ کہ مخالفت۔
جامعہ ازہر کے مختصر پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مجوزہ ادارے کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر موجود علماء کرام کی فکری و نظریاتی موقف کا اندازہ لگائیں۔ ان میں سے کتنے ہیں جو جامعہ ازہر کے موقف سے متفق ہیں؟ ان میں سے کتنے ہیں جو ابن تیمیہ اور مولانا مودودی کی افکار و نظریات کا رد کرتے ہوں۔ جبکہ جامعہ ازہر نے دونوں کی فکر کو اسلام مخالف قرار دیا ہے۔ ان کی کتابوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں تک کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مصر میں ان کی کتابوں کو نذر آتش کر کے لوگوں تک اس موقف میں تصلب کی تلقین کی گئی۔ اخباروں میں جامعہ ازہر کا موقف کھلے لفظوں میں تھا کہ مولانا مودودی کی فکر قوم مسلم کے لئے نقصان دہ ہے۔جبکہ سنگ بنیاد کی تقریب میں اس بات پر زرو دیا گیا کہ اس ادراے کو ابن تیمیہ کی فکر کو فروغ دینے اور ان کے نظریات سے لوگوں کو مستفید کرنے کیلئے بنایا جائے گا۔جامعہ ازہر مصر اور جامعہ ازہر ہند دو الگ دھارے ہیں۔ دو الگ اور مخالف فکریں ہیں۔ اب اس ایک ہی نام سے موسوم و منسوب کرنا اگر انصاف ہے تو اسے قبول کیا جائے۔اب اس مجوزہ ادارے کے مخالفین و حامیین کو یہ طے کرنا ہے کہ اس ادارے کے قیام کے اس پہلو کو دیکھ کروہ اپنا کیا موقف بناتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دی جائے کہ اخباروں کے ذریعہ اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ جامعہ ازہر اس مجوزہ ادارے کے قیام کے مخالف ہے۔ یعنی نام کو استعمال کرنے کے مخالف ہے اور اس کے متعلق اس کے کچھ بیان بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملے ہیں۔ ان کی تصدیق و تحقیق سے پہلے یہ ہندوستانی مسلمان اور جملہ دانش مندوں کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں سوچیں کہ کسی ادارے کا نام استعمال کرنا اور خاص طور پر اس کی فکر کے مخالف ہوکر، کتنا بڑ اجرم ہے۔ اگر دانش مندی اسے قبول کرتی ہے تو کوئی بات نہیں۔
یہاں اس ضمن میں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں ازہری علماء کی تعداد آج کی تاریخ میں 300 سے زائد ہے۔ ازہری اس عالم دین، مفکر اور دانش مند کو کہتے ہیں جس نے جامعہ ازہر مصر سے تعلیمی فراغت حاصل کی اور اسے جامعہ ازہر کی سند موصول ہوئی ہو۔جس طرح جامعہ ازہر کا نام استعمال کرنا جرم ہے۔ اسی طرح’ ازہری‘ نام کا غیر ازہری کیلئے استعمال بھی جرم ہے۔ یہاں ہندوستان میں جامعہ ازہر مصر سے پرانے فارغ التحصیل عالم دین حضرت مولانا اختر رضاخان ازہریصاحب، جو کہ خانوادہ اعلیٰ حضرت کے اہم ترین شخص ہیں،اور جامعہ ازہر سے فارغ ہونے ہی کی وجہ سے ان کو ’ازہری میاں‘ کہا جاتا ہے، ان کے مریدین بھی اپنے آپ کو ازہری کہنا شروع کر دئے ہیں۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی عجیب سی کشمکش صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ہر ازہری کو اس بات کی وضاحت درکار ہوتی ہے کہ کون سے ازہری ہو۔ جامعہ ازہر والے یا ازہری میاں والے۔دونوں ہی جرم ہیں۔ اور سوال دونوں سے ہے۔ خواہ جامعہ ازہر کا نام استعمال کر کے ایک نیا ادارہ قائم کرنا ہو یا ازہری نام کا استعمال مریدوں کیلئے ہو۔
یہ ایک ضمنی بات تھی ۔ اصل مدعیٰ یہ ہے کہ اس وقت اگر اتحاد بین المسلمین کی خواہش ہے تو اس کی ایک صورت جامعہ ازہر مصر کا موقف بھی ہے۔ جو آج کے نازک حالات میں اس مظلوم قوم کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ یہ ادارہ شروع ہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ہندوستانی علماء و دانشوروں کو اس جانب بھی پہل کرنی چاہئے۔ اس موقعہ پر ایک خوش آئند امید کا اقراربھی کر تا چلوں کہ اس معاملے میں تقریبا پہل ہو چکی ہے۔ ہندوستان اور مصر کا علمی و فکر تبادلہ کا سلسلہ بڑی ہی سنجیدگی اور متانت سے شروع ہوا۔ اس میں تمام اہل علم کو شرکت کر کے نہ صرف مضبوت کرنا چاہئے بلکہ آئین کی شکل میں اسے فروغ دینا چاہئے۔*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385

No comments:

Post a Comment