Friday, October 18, 2019

امام و خطیب نے دین کو کاروبار بنا دیاइमाम और ख़तीब ने दीन को कारोबार बना दिया

امام و خطیب نے مل کر دین کو کاروبار بنا دیا


عبد ا لمعید ازہری
اسلامی نظام حیات و نظم و نسق میں امامت اور خطابت دو سب سے اہم منصب ہیں۔ تبلیغ دین اور قرآنی و نبوی اسلوب زندگی کی تبلیغ کے یہ دو اہم مبلغ ہیں۔محلے کی چھوٹی سی مسجد سے لے کر جامع مسجد اور ملکی سطح کی مرکزی مسجد تک کے اماموں کا انتخاب نہایت ہی ایمانداری و دیانت داری طلب امرہے۔حالات حاضرہ پر باریک نظر، دور اندیشی اور حکمت عملی کے ساتھ زبان و بیان پر مضبوط پکڑ،وقتی تقاضوں سے واقفیت،سیاسی و سماجی آزمائشوں سے نمٹنے کا ہنر، خوش اخلاقی و خوش الہانی سے دلوں پر اثر اندازی کی قوت اور دین کی صحیح سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد ہی کسی مسجد کا امام ہو سکتا ہے۔ ورنہ دنیا داری کا سمندر جدید مسائل کے طوفان کی آڑ میں دین کی کشتی کو بڑی آسانی سے غرقآب کر دے گا۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ سب بڑی نا اہلی کا خطاب انہیں دونوں شعبوں کو جاتا ہے۔ جس مولوی کو کوئی بھی ڈھنک کا کام نہیں ملتا وہ یا تو امام ہو جاتا ہے یا خطیب ہو جاتا ہے۔اپنی کم علمی اور نا اہلی چھپانے کے لئے فریب کاری کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ عقیدے گڑھے جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی ہونے لگتی ہے۔ قوم میں تفریق و تقسیم شروع ہو جاتی ہے۔راز افشاء ہونے پر ندامت و پشیمانی سے بچنے کے لئے پہلے اپنے حامی تیار کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے ان افراد کے ہر کالے سفید کو شریعت کی بے جا تاویل کی ہری جھنڈی دکھاتے ہیں۔ مسجد کے ممبر سے لے جلسے کے ممبر تک؛ جنہیں یہ ممبر رسول کہتے ہیں، قوم کو جھوٹ سننے اور بولنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ گالی گلوچ، دھوکہ فریب، عیاری مکاری کی کھلے عام تعلیم دی جاتی ہے۔سچ بولنے، سمجھنے والے کو گستاخ بنا کر ذلیل یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
انہیں ممبروں سے قوم کی آنکھوں سے رسول کے دین کی پٹی اتار کر زر پرست علما و مشائخ کے دین کا پٹہ ان کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔انہیں ممبروں سے کفر کے فارم بھرے جاتے ہیں اور جنت کا ریزرویشن بھی کیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی من مانی تاویل و بے جا توضیح بڑی بے باکی سے ہوتی ہے۔ کل تک جرح و تعدیل کے محدثین اور تاریخ نویسوں نے اس بات کا خلاصہ کیا کہ مستشرقین نے ہزاروں کی تعداد میں موضوع حدیثیں گڑھیں اور کتب احادیث میں شامل کردیں۔ لیکن آج تو ان مستشرقین کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ کام خود آج کے نئے دین کا امام و خطیب کر لیتا ہے۔ جو خود کو نبیوں کا وارث بھی کہتا پھرتا ہے۔ایک تو قوم کے اندر زیادہ تر اختلافات فروعی ہیں۔ دوسرے جہاں علمی اختلاف کے ساتھ مدلل اور سنجیدہ بحث و مکالمہ سے مسائل حل ہو سکتے ہیں یہ نئے دین کا ایجنٹ اسے عقیدے کی طرح پیش کر کے اس کا اتنا چرچا کرتے ہیں اور اپنے نجی قرآن و حدیث سے ایسی بکواس دلیلیں دیتے ہیں کہ کراہیت کا مسئلہ بھی شرک تک پہنچ جاتا ہے۔یہ بیماری کسی ایک فرقے، گروہ یا جماعت کی نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی صورت حال ہے۔تبلیغ دین کے نام پر آج کی تجارتی تقریروں نے ممبر رسول کی اس قدر توہین کی ہے کہ بعض مقامات پر تو یہود وکفار کو بھی شرم آ جائے۔ با ضابطہ کھلے عام اسٹیج سے یعنی ممبر رسول سے ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں اور اس پر نعرہ تکبیر و رسالت زندہ باد پائندہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
ان اماموں اور خطیبوں نے جن مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے وہاں کا نصاب تعلیم پچھلی نصف صدی سے تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اس نصاب میں حالات حاضرہ کے جدید تقاضوں کا مقابلہ کرنے، ان سے نمٹنے یا انہیں سمجھنے بھر کے لئے بھی کوئی مواد نہیں ہے۔ یہ مدارس قوم کے زکوٰۃ پر قائم کئے گئے ایسے ادارے جہاں قوم کے غریب بچوں کے پیٹ یتیموں کی طرح بھرے جاتے ہیں تاکہ زکوٰتی چندے کی آمد کا سلسلہ جاری رہے اور صاحب مدارس کے عمارتیں بلند اور خوبصورت ہوتی رہیں۔برساتی مینڈکوں کی طرح مدارس کی کثرت نے مدارس کے پاکیزہ نظام کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہے کہ اب ان سے گھٹن ہوتی ہے۔آج سے تین سے پانچ صدی قبل جب دور دور تک مدرسے نہیں تھے۔ ملک بھر میں گنتی کے مدرسے ہوتے تھے۔ لیکن دین دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ ملک بھر میں دو چند عالموں نے دین کی تبلیغ کر دی۔ آج کیا وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں علما مدارس سے فارغ ہوتے ہیں اور دین سے بیزاری، نفرت اور دوری بڑھتی جا رہی ہے۔قوم کا اخلاقی معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔دینی اعتبار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ جتنے زیادہ مدارس، جتنے زیادہ علما اتنے زیادہ فساد اور اتنے ہی زیادہ فتنے۔کسی بھی طرح کے فتنے پر ذمہ داروں کی خاموشی بھی فتنے کو بڑھاتی ہے۔
مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد روزی روٹی کی تلاش میں علمی نااہلی سامنے آئی تو یا کسی مسجد کا امام بن کر دینی تجارت شروع کردی، یا مقرر بن کر قرآن وحدیث کی فروخت میں لگ گیا۔تیسرا کام یہ ہے کہ مدرسہ کھول لیا۔ ایک ہی گاؤں میں چار مدرسے ہو گئے۔ جھگڑا تو ہونا ہی ہے۔ جو گاؤں ایک مدرسہ پال رہا تھا اس پر چار مدرسوں کی ذمہ داری آ گئی۔رقم بٹ گئی۔ زیادہ رقم کی طلب نے ایک دوسرے کا ایسا حریف بنایا کہ تہمت بازی اور الزام تراشی شروع ہو گئی۔ایک گاؤں ایک مدرسے پر متحد تھا۔ چار مدرسوں نے اسے چار خانوں میں تقسیم کر دیا۔ چونکہ علم نہیں تو تعلیم کے نام پر دھوکہ ہی دے سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان جاہل لوگوں نے عالم بنانے شروع کر دئے۔ایسے ہی آج کئی پشتیں قوم کے بچوں کا عالم بنا رہی ہیں۔مسجد کے امام کا نفس اتنا موٹا ہو گیا کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی قیمات پاتا ہے اس لیئے مکتب قائم نہیں کرے گا۔ اصلاح و تربیت کی نشستیں قائم نہیں کرے گا۔
مسجدوں سے مکاتب کا غائب ہونا اور کرانہ کی دکانوں کی طرح مدرسوں کا قائم ہونا قوم کے ذہنوں کو مفلوج کر رہے ہیں۔ذہنی، فکری اپاہج پن سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس قیادت کو جہالت کے اسی پرانے تابوت میں قید کرکے مستقل الوداع کی کیل ٹھونک دی جائے۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, October 7, 2019

نبی کا آخری خطبہ بھی مسترد Last Sermon of Prophet is also rejectedनबी के आख़िरी ख़ुतबे का भी इनकार

نبی کا آخری خطبہ بھی مسترد، ایمان و قوم کا سودا ہو گیا، اب کیا بے چوگے؟

عبد المعید ازہری
آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے سیکڑوں قائد و رہنما میں سے اگر دس بھی مسلمان ہوتے تو ساید قوم کی موجودہ صورت حال کچھ الگ ہوتی۔عالم و غیر عالم کے عدم مساوات اور تقسیم کی فخریہ اور طنزیہ تشہیر و نشر و اشاعت تو ہوئی لیکن علم کی بدولت ملنے والے خصوصی وقار و احترام کی اہلیت سے نا واقف نا عاقبت اندیشوں نے خواندگی کو علم سمجھ لیا۔قرآن و اسلام نے جس علم و باعث تعظیم تکریم متعارف کرایا وہ ذمہ داری ہے۔ اصلاح و ارشاد کا ایک عملی منصب و فریضہ ہے۔جس کی اہلیت ہر اس فرد میں نہیں ملی جس نے قرآن و حدیث کی خواندگی بھر سے اعزاز اکرام اپنے نام کرنے کی مجرمانہ کوشش میں لگ گیا۔ پیغمبر اسلام کے اوائل دور میں یہود ونصارا کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اس لئے بتایا گیا اہل توریت و انجیل کے علما ومشائخ کو یہ بات گوارا نہیں تھی کہ آخری کتاب و رسالت کا علمبردار کسی اور قوم سے ہو۔ لوگ روحانی تسکین کے لئے میری چوکھٹ کی بجائے کسی اور کے گھر و دربار میں حاضری دیں۔ چونکہ اہل عرب علم و روحانیت کے معاملے میں انہیں مذہبی رہبروں اور پیروں فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے۔ دوکان داری بند ہونے کے خوف نے انہیں خود اپنے ہی دین کا باغی بنا دیا۔اپنے ہی مذہبی رسائل و کتب میں من موافق توضیح و تشریح کرنے لگے۔ اہل توریت و انجیل کو وہی خدائی ارشادات سنانے لگے جس میں لوگوں کو تعظیم و توقیر اور فرماں برداری کا حکم دیا گیا ہو۔ ان کے راستے سے ہٹ کر جانے والے راستے کو گمرہی اور بے دینی کا اندیشہ لاحق ہونے سے ڈرایا گیا ہو۔
یہی کام آج کی مسلم مذہبی قیادت نے کیا ہے۔افضل البشر سے شروع ہونے والی قیادت خدائی کے دعوے کرنے لگی۔ جنت و جہنم کے جعلی ٹکٹ فروخت کرنے لگی۔کسی پر وحی نازل ہونے لگی۔کوئی خدا رازدار بن گیا۔علم تو ملا لیکن توفیق سے خالی و محروم ہو گئے اس لئے اس علم عنکبوتی نے گمرہی اور گمراہ گری کے کارخانے کھولنے شروع کر دئے۔ ہر گروپ کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔اسلام کے نام پر تفریق و تقسیم کی کسی طرح کی قبولیت کو لیاقت کا درجہ دیا گیا۔ گروہ بندی مجبوری بنا دی گئی۔ اب اگر دوسرا گروہ ہوگا نہیں تو اپنے جرائم کا ٹھیکہ کس کے سر ڈالا جائے گا۔ایک نے اپنے آپ کو حق پر مان کر اسلام کی تقسیم قبول کی تو دوسرے کو باطل مان کر دوسری تقسیم بھی قبول کی۔ حق و باطل کا فیصلہ بھی خود کی صواب دید پر رکھا۔اسلام جو اصلاح اخلاص کے لئے تھا اسے ایک ایسے نئے دین کے طور پر پیش کر دیا گیا جو دنیا کے باقی رائج دین کی تردید محض اور توہین انہدام کے لئے آیا تھا۔اس کے ساتھ ہی اندرونی تقسیم در تقسیم نے مسلمانوں کے اتنے قبلے اور کعبے تعمیر کر دئے کہ کعبے بت بھی محو حیرت ہوں گے کہ اسلام کے بانی نے جس تذکیہ و طہارت کے لئے بتوں کے صنم سے آزاد کیا تھا، ان مسلمانوں نے اپنے خدا کو ہی بتوں میں تقسیم کر دیا۔جس پیغمبر کی بات کو یہود و نصاری اور کفار و مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے، ان مسلمانوں نے ان باتوں کو عمل کے لائق سمجھا ہی نہیں۔ اس پر علمیہ یہ ہے کہ ایمان و ضمیر کے سودے بازی اور قوم کو فروخت کرنے کے مذموم اقدامات کو اسلام و قرآن اور صاحب قرآن و اسلام کی خدمت اور ان کے ناموس کی حفاظت کا نام دیا جاتا ہے۔
آج علم و ارشاد کے دونوں ہی مراکز اپنا دینی اعتبار کھو چکے ہیں۔ البتہ تجارتی شان شوکت زندہ و پائندہ ہے۔جن مدارس کو قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم دینا تھا وہ قال الامام اور الفرق پڑھا رہے ہیں۔ جو درگاہیں روحانی تقویت اور تزکیہ کے مرکز تھے انہیں مجاورانہ کردار نے گھیر لیا ہے۔ رات دن لوٹ گھسوٹ، دھوکہ و فریب ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے اپنے آخری خطبے میں جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا تھا اسے مسلمانوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ اور جن چیزوں سے منع کیا تھا اسے خود پر لازم کر لیا تھا۔جس دن سے تعلیم اور رشد و ہدایت رنگ و نسل، امیر و غریب، اونچ نیچ میں فرق کرنے لگی، رسول کا دین تو اسی دن رخصت ہو گیا۔ باقی تجارتی دین جس کے بھاؤ شیئر مارکیٹ کے حساب سے بڑھتے گرتے رہتے ہیں۔تعلیم و تربیت، رشد ہدایت، دعوت و تبلیغ، خطابت و تدریس اور حمد و نعت و منقبت سب کی قیمتیں طے ہو گئیں۔مدارس کی تجارت اور خانقاہوں کی مجاورت کا کوئی بھی تصور رسول کے اسلام میں نہیں تھا، ہاں آج کے تجارتی اسلام میں ضرور ہے۔
سماجی جرائم سے بھی ہمارے تجارتی دین صفحہ آخر تک بھرا ہے۔ بچوں کی درست تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ اور روزی روزگار ہر جگہ جرم کی کالی سیاہی سے ہمارے کردار رنگے ہوئے ہیں۔پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ برادرانہ مساوات پر زور دیا۔ ایک طویل لڑائی لڑی۔ رنگ و دولت، نسل و مقام کی بنیاد پر کوئی افضال ابتر نہیں ہے۔ لیکن آج کے اسلام کی تاریخ ایسی ہزاروں کتابوں اور فتووں سے بھری پڑی ہے جس میں مذہب کے آئینے میں ذات برادری کی تفریق کی گئی ہے۔اہل علم نے ایسا کیا ہے۔ جہیز جیسی عام برائی نے ایک سے ایک دیندار کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ممبر رسول پر چیخ چیخ کر پیغمبر کی حرمت کی قسمیں کھانے والا دیندار رسول کی سنتوں کو ایسے سر عام رسوا کرتا جس کی ہمت ایک عام آدمی نہین کر پاتا، جب ایک پھٹے ہاتھ مزدور مگر آدمی مصافحہ سے محروم ہو جاتا ہے اور حرام اور کالی کرتوں سے کمائی ہوئی دولت مالک برابرمیں صاحب مسند ہوتا ہے۔مدرسے کو رسول کا گھر بنا دیا اس کے بعد اسی گھر کو اسی رسول کے دین کو قتل کرنے کی سازشوں کا مرکز بھی بنا دیا۔رسول کی سنتوں کو زندہ در گور کرنے کا قبرستان بھی بنا دیا۔پیغمبر سے نسبت کی دہائی دے کر تعظیم طلبی کے پیشے نے رسول کی نسبتوں کا سر عام قتل کیا ہے۔
ابن آدم کی حرمت کے صدقے بچی ہوئی انسانی غیر ت کا تقاضہ ہے کہ اب اس مجرمانہ قیادت سے خود کو آزاد کر لیا جائے۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Wednesday, October 2, 2019

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

عبد المعید ازہری

کسی بھی قوم کی تاریخ انسان کے ڈگمگاتے قدم، بہکتی زبان اور بد مست فکری زوال کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ آج عالم اسلام جن فکری مسائل سے دو چار ہے اس کے ماضی کے تاریخ میں جھانک کر وجوہات و اسباب تلاش کرنے اور اسی کے مطابق سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ہم مرض اور سبب کی درست شناخت نہیں کر لیتے علاج مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔قوم مسلم کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں مسلمانوں کے تو ہزاروں قائد ہوئے لیکن کوئی بھی مسلم قائد نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی قیادت کا ایک تاریخی تسلسل ہے لیکن کوئی بھی قائد مسلمان ہونے کو تیار نہیں۔موجودہ سیاسی، سماجی اور سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ہر محاظ پر مسلم قیادت ناکام ثابت ہو رہے ہی ہے۔موجودہ مول تول، خرید فروخت کی افسوس ناک سیاست سے مسلم قیادت بھی محفوظ نہیں ہو سکی۔ آج کی سیاست میں ڈر، جذبات،فکری معزوری، عملی تساہلی اور تانا شاہی جیسے اثرات نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں اتنا ڈر ہے کہ سچ بولنے، سننے اور سمجھنے سے کتراتے ہیں۔ دھرم کے نام پر مذہبی جذبات میں اس قدر اشتعال ہے کہ انسانی نقصان،باہمی ربط و ضبط کا زوال، حقوق کا کھلا استحصال،اور کھلم کھلا بد عنوانی کسی کو نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر کوئی مذہب بچانے کے جھوٹے خواب کو سچ کرنے میں زندگی کی ساری توانائی صرف کر رہا ہے اور روشنی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔فکری طور پر عوام بالکل معزور ہو چکی ہے۔ خود اپنے حقوق کے لئے کسی بھی طرح کے عمل سے اپنے آپ کو دور کرنے پر آمادہ ہے۔ جمہوریت بادشاہت کی شکل میں بدلتی جا رہے۔
اب تک کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے صرف قوم کا سودا کیا ہے۔ یا تو ان کے پاس قوم کو بیچنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا یا اس کے سوا کچھ جانتے نہیں تھے۔ قیادت کی ہوڑ میں ایمان اور ضمیر بیچ دینے کے بعدکالے کارناموں میں خود کو دھکیل دیا۔ بعد میں انہیں کالے کارناموں کی فائلوں نے قوم کی سودے بازی کے علاوہ کوئی اور اختیار نہیں چھوڑا۔اس کے علاوہ سماجی اور مذہبی قیادت نے بھی اسلام کی جمہوری اور اجتماعی فکری نظام کو انفرادی ملوکیت میں تبدیل کر دیا۔آج کا موجودہ اسلام پہلے تو سیکڑوخانوں میں تقسیم ہوا اس کے بعد ہر ایک نے اس میں اپنے موافق ترمیم، حذف و اضافہ کیا۔کسی نے جواز کے تسلسل کو اتنا طویل کیا جواز بے لگام ہو گیا۔صاحب دین جس سے بھی خوش ہوں وہ جائز ہو گیا۔ کسی نے حرام و کفر وشرک کی دکان کو اتنا فروغ دیا کہ اس صاحب شریعت کی محدود فکر و نظر میں جو سما نہیں سکتا اسے حرام، کفر اور شرک ہونا ہی پڑے گا۔اس کے بعد نئے دین کے ان ٹھیکیداروں نے عوام کو مناظر اور مفتی بنا دیا۔چائے خانوں میں، سیلون اور ہوٹلوں میں فتوے فروغ پانے لگے۔ نئے دین کے نئے مولویوں نے بھی اپنی روزی روٹی کا مالک انہیں فتوی باز ٹھیکیداروں کو بنا لیا۔ جس سے فائدہ منسلک ہو اس کے فتوے پر اپنے خود ساختہ شریعت کی مہر لگا دی۔ اس طرح موجودہ مذہبی قیادت قوم مسلم کی فکری، نظریاتی، عملی اور تحریکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورنہ جس قوم اور دین کو وقت کی سب سے بڑی طاقتوں نے مرعوب اور زیر نہ کیا ہو اسے آج اپنے جھوٹے خداؤں نے غرق آب کر دیا ہے۔
مسلم مذہبی قیادت کے اس فکری زوال میں صرف ان خدائی کے دعوے دار مولویوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ ان اہل علم و دانش، انٹل ایکچوئل اور صاحب و فن و ادب اور اثر ورسوخ کا بھی اہم کردار ہے جنہوں نے اپنی سہولت، عیش و آرام اور عوامی ربط و ضبط کی تگ و دو سے آزاد پر سکون زندگی کو چنا۔ عوامی مسائل کو ان مولویوں کے حوالے کر دیا جو قوم کی نباضی سے بالکل بے خبر ہیں۔آج ان دانشوروں نے اپنا پلا جھاڑنے کے لئے سارا الزام اور قصور انہیں مولویوں کے سر ڈال دیا اور اپنے آپ کو جوابدہی سے بچانے کی مجرمانہ کوشش کرتے پھر رہے ہیں۔ قوم کی موجودہ صورت حال کے لئے سبھی لوگ برابر کے شریک جرم ہیں۔مسلم سیاسی قیادت نے اگر قوم کو بیچا اور مذہبی قیادت نے مذہب کو افیم بناکر خوف اورلالچ کا ذریعہ بناکر خود خدا بننے کی کوشش کی ہے تو ان اہل علم و دانش نے بھی اپنے آپ کو جواب دہی سے بچا کر قوم کے ذلت و تنزلی کی آگ میں پوری طاقت سے جھونکا ہے۔
موجودہ سیاست کی واضح مسلم دشمنی نے انہیں ناکامیوں کا سہارا لیا۔ مزید یہ کہ اگر یہ قیادت مزید برقرار رہی تو بے بسی اور کس مپرسی ایک خطرناک تاریخ موجودہ مسلم قوم سے منسوب کئے جانے میں دیر نہیں لگے گی۔سب سے پہلے موجودہ قیادت کے سرے سے خارج کرنا ہوگا۔ کسی بھی مذہبی اور سیاسی قائد کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ قوم کا کسی کے بھی ہاتھوں سودا کرے۔ ایک نئی مخلوط قیادت کو ابھارنا ہوگا جس میں ہر شعبہ کی نماندگی ہو۔نئی نسل کو نئی قیاد ت کے لئے آگے کرنا ہوگا۔سرپرست جنریشن کو درست رہنمائی کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔ سبھی کو کچھ قربانیوں سے گذرنا ہوگا۔ کچھ مسلمات توڑنے ہوگے۔ مذہب اور سیاست کے تانا شاہی تابوط کو توڑنا ہوگا۔ سب کی جواب دہی طے کرنی ہوگی۔سیاست مذہب اور سماج کو کسی بھی بھی ملکیت سے آزاد رکھنا ہوگا۔
ماضی کی تاریخ سے جرموں کا آئینہ سامنے رکھنا ہوگا۔ خدا کے کسی بھی بندے کو خدا بننے کی اجازت پھر سے نہیں ملنی چاہئے۔ خدا کی مخلوق توہین کو خدا کی توہین سمجھنے سے انسانی مساوات کی کھلے عام پامالی روکی جا سکتی ہے ورنہ خدا کا ایک بندہ خدا کے دوسرے بندے کے قدموں میں اپنے سر کو رکھ کر خدا کا حکم اور اس کی عبادت تصور کرے گا۔
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@