Wednesday, October 2, 2019

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

عبد المعید ازہری

کسی بھی قوم کی تاریخ انسان کے ڈگمگاتے قدم، بہکتی زبان اور بد مست فکری زوال کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ آج عالم اسلام جن فکری مسائل سے دو چار ہے اس کے ماضی کے تاریخ میں جھانک کر وجوہات و اسباب تلاش کرنے اور اسی کے مطابق سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ہم مرض اور سبب کی درست شناخت نہیں کر لیتے علاج مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔قوم مسلم کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں مسلمانوں کے تو ہزاروں قائد ہوئے لیکن کوئی بھی مسلم قائد نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی قیادت کا ایک تاریخی تسلسل ہے لیکن کوئی بھی قائد مسلمان ہونے کو تیار نہیں۔موجودہ سیاسی، سماجی اور سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ہر محاظ پر مسلم قیادت ناکام ثابت ہو رہے ہی ہے۔موجودہ مول تول، خرید فروخت کی افسوس ناک سیاست سے مسلم قیادت بھی محفوظ نہیں ہو سکی۔ آج کی سیاست میں ڈر، جذبات،فکری معزوری، عملی تساہلی اور تانا شاہی جیسے اثرات نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں اتنا ڈر ہے کہ سچ بولنے، سننے اور سمجھنے سے کتراتے ہیں۔ دھرم کے نام پر مذہبی جذبات میں اس قدر اشتعال ہے کہ انسانی نقصان،باہمی ربط و ضبط کا زوال، حقوق کا کھلا استحصال،اور کھلم کھلا بد عنوانی کسی کو نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر کوئی مذہب بچانے کے جھوٹے خواب کو سچ کرنے میں زندگی کی ساری توانائی صرف کر رہا ہے اور روشنی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔فکری طور پر عوام بالکل معزور ہو چکی ہے۔ خود اپنے حقوق کے لئے کسی بھی طرح کے عمل سے اپنے آپ کو دور کرنے پر آمادہ ہے۔ جمہوریت بادشاہت کی شکل میں بدلتی جا رہے۔
اب تک کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے صرف قوم کا سودا کیا ہے۔ یا تو ان کے پاس قوم کو بیچنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا یا اس کے سوا کچھ جانتے نہیں تھے۔ قیادت کی ہوڑ میں ایمان اور ضمیر بیچ دینے کے بعدکالے کارناموں میں خود کو دھکیل دیا۔ بعد میں انہیں کالے کارناموں کی فائلوں نے قوم کی سودے بازی کے علاوہ کوئی اور اختیار نہیں چھوڑا۔اس کے علاوہ سماجی اور مذہبی قیادت نے بھی اسلام کی جمہوری اور اجتماعی فکری نظام کو انفرادی ملوکیت میں تبدیل کر دیا۔آج کا موجودہ اسلام پہلے تو سیکڑوخانوں میں تقسیم ہوا اس کے بعد ہر ایک نے اس میں اپنے موافق ترمیم، حذف و اضافہ کیا۔کسی نے جواز کے تسلسل کو اتنا طویل کیا جواز بے لگام ہو گیا۔صاحب دین جس سے بھی خوش ہوں وہ جائز ہو گیا۔ کسی نے حرام و کفر وشرک کی دکان کو اتنا فروغ دیا کہ اس صاحب شریعت کی محدود فکر و نظر میں جو سما نہیں سکتا اسے حرام، کفر اور شرک ہونا ہی پڑے گا۔اس کے بعد نئے دین کے ان ٹھیکیداروں نے عوام کو مناظر اور مفتی بنا دیا۔چائے خانوں میں، سیلون اور ہوٹلوں میں فتوے فروغ پانے لگے۔ نئے دین کے نئے مولویوں نے بھی اپنی روزی روٹی کا مالک انہیں فتوی باز ٹھیکیداروں کو بنا لیا۔ جس سے فائدہ منسلک ہو اس کے فتوے پر اپنے خود ساختہ شریعت کی مہر لگا دی۔ اس طرح موجودہ مذہبی قیادت قوم مسلم کی فکری، نظریاتی، عملی اور تحریکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورنہ جس قوم اور دین کو وقت کی سب سے بڑی طاقتوں نے مرعوب اور زیر نہ کیا ہو اسے آج اپنے جھوٹے خداؤں نے غرق آب کر دیا ہے۔
مسلم مذہبی قیادت کے اس فکری زوال میں صرف ان خدائی کے دعوے دار مولویوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ ان اہل علم و دانش، انٹل ایکچوئل اور صاحب و فن و ادب اور اثر ورسوخ کا بھی اہم کردار ہے جنہوں نے اپنی سہولت، عیش و آرام اور عوامی ربط و ضبط کی تگ و دو سے آزاد پر سکون زندگی کو چنا۔ عوامی مسائل کو ان مولویوں کے حوالے کر دیا جو قوم کی نباضی سے بالکل بے خبر ہیں۔آج ان دانشوروں نے اپنا پلا جھاڑنے کے لئے سارا الزام اور قصور انہیں مولویوں کے سر ڈال دیا اور اپنے آپ کو جوابدہی سے بچانے کی مجرمانہ کوشش کرتے پھر رہے ہیں۔ قوم کی موجودہ صورت حال کے لئے سبھی لوگ برابر کے شریک جرم ہیں۔مسلم سیاسی قیادت نے اگر قوم کو بیچا اور مذہبی قیادت نے مذہب کو افیم بناکر خوف اورلالچ کا ذریعہ بناکر خود خدا بننے کی کوشش کی ہے تو ان اہل علم و دانش نے بھی اپنے آپ کو جواب دہی سے بچا کر قوم کے ذلت و تنزلی کی آگ میں پوری طاقت سے جھونکا ہے۔
موجودہ سیاست کی واضح مسلم دشمنی نے انہیں ناکامیوں کا سہارا لیا۔ مزید یہ کہ اگر یہ قیادت مزید برقرار رہی تو بے بسی اور کس مپرسی ایک خطرناک تاریخ موجودہ مسلم قوم سے منسوب کئے جانے میں دیر نہیں لگے گی۔سب سے پہلے موجودہ قیادت کے سرے سے خارج کرنا ہوگا۔ کسی بھی مذہبی اور سیاسی قائد کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ قوم کا کسی کے بھی ہاتھوں سودا کرے۔ ایک نئی مخلوط قیادت کو ابھارنا ہوگا جس میں ہر شعبہ کی نماندگی ہو۔نئی نسل کو نئی قیاد ت کے لئے آگے کرنا ہوگا۔سرپرست جنریشن کو درست رہنمائی کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔ سبھی کو کچھ قربانیوں سے گذرنا ہوگا۔ کچھ مسلمات توڑنے ہوگے۔ مذہب اور سیاست کے تانا شاہی تابوط کو توڑنا ہوگا۔ سب کی جواب دہی طے کرنی ہوگی۔سیاست مذہب اور سماج کو کسی بھی بھی ملکیت سے آزاد رکھنا ہوگا۔
ماضی کی تاریخ سے جرموں کا آئینہ سامنے رکھنا ہوگا۔ خدا کے کسی بھی بندے کو خدا بننے کی اجازت پھر سے نہیں ملنی چاہئے۔ خدا کی مخلوق توہین کو خدا کی توہین سمجھنے سے انسانی مساوات کی کھلے عام پامالی روکی جا سکتی ہے ورنہ خدا کا ایک بندہ خدا کے دوسرے بندے کے قدموں میں اپنے سر کو رکھ کر خدا کا حکم اور اس کی عبادت تصور کرے گا۔
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment