اسلام کے مبلغ کفر کی تبلیغ کرنے لگے
![]() |
| عبد المعید ازہری |
قوم مسلم میں تکفیر کا بڑھتا چلن قوم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی سوالوں کے کٹگھرے میں کھڑا کر رہا ہے۔جس طرح سے خدائی فیصلے لینے کا رجحان اس قوم کا مقدر بنتا جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب دین و مذہب سے بیزاری کی شرح میں بڑا ضافہ نظر آنے لگے گا۔دیگر قوموں کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کا بھی تعلیم یافتہ طبقہ خود کو مسلم مذہبی نمائندوں سے دور رکھنے میں ہی عافیت محسوس کر رہا ہے کیونکہ ذرا سی انا کو چوٹ لگتے ہیں ایمان کے دروازے بند کر او ر ساتھ ہی کفر و الحاد کے دو چار دروازے کھول دئے جاتے۔کیونکہ ایمان و کفر کے دروازوں کی چابی آج کل انہیں کے پاس معلوم پڑتی ہے۔آج اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسانی معاشرے میں دو دین نفاذ پا چکے ہیں ایک خدائی دین جوخاموش ہے ایک ملائی دین جو حشر بپا کئے ہوئے ہے۔خدائی دین کا ماخذ اسلام اور اسلامی تاریخ ہے جس کا مرکز رسول کریم کی ذات و صفات، بیانات و ارشادات اور فرمودات و احکامات ہیں۔اس ملائی دین کا انتساب مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ جس میں جنگ و جدال، قتل و قتال، اقتدار و افتخار، خانہ جنگی، رسہ کشی، حکومت و سلطنت، خواہشات و نفسانیات پر مبنی جنگی کارنامے وغیرہ ہیں۔یہی اس دین کا مرکز بھی ہے۔ اس میں اتنی وسعت ہے کہ اپنے اپنے مزاج و موافقت کی سیکڑوں راہیں نکل سکتی ہیں۔اس ملائی دین کا بنیادی جرم یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بتا کر خدا کے دین میں نفسانی تجارت کی راہیں نکالنے کا ظلم عظیم کیا۔اب اس کے بعد اپنے ہر سیاہ و سفید کی نسبت اسلام، خدا اور اس کے پیغمبر سے کرنا آسان ہو گیا۔یہیں سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا۔ اسلام کی تبلیغ کفر کی نشر و اشاعت میں بدل گئی۔
مسلم حکمرانوں کی تاریخ سیکڑوں سیاہ و سفید مضامین پر مبنی ہے۔خلافت و ملوکیت کی داستان کے بعد بنو امیہ، بنو عباس اور فاطمی دور اقتدار سے ہوتے ہوئے خلافت عثمانیہ کی دردناک تاریخی تباہی کے منظر انسانی روح کو جھنجھوڑتے ہیں۔اگر یہ اسلام ہے تو نہایت ہی خوف ناک ہے۔
اس پورے تاریخی سفر میں ایمان ابو طالب اور کفر یزید بحث و مباحثہ اور مذاکرہ و مناظرہ کا مرکزی موضوع رہا۔بیشتر افراد نے اس پر زبان درازی سے خود کو روک کر خاموشی کو بہتر جانا۔ حالانکہ آگے چل کر اس خاموشی کو بھی استعمال کیا گیا۔اس مسئلہ میں مشترک بات یہ ہے کہ جو لوگ ابو طالب کے ایمان پر زور دیتے ہیں وہی یزید کے کفر پر بھی بضد ہیں۔ اور جو ابو طالب کو کافر ماننے پر مصر ہیں وہی یزید کومومن ہی تسلیم کرتے ہیں۔ابو طالب اور یزید مسلمانوں کی تاریخ کے دوایسے کردار ہیں جو منفرد ہیں۔
اعلان نبوت سے قبل اور اس کے بعد پیغمبر کی ذاتی حفاظت سے لے اسلام کی حفاظت تک کی تاریخ میں ابوطالب کا نام سنہرے لفظوں میں موجود ہے۔ایک طرف کردار ابو طالب ہے جہاں کلمہ شہادت کا بظاہر اعلان نہیں ہے لیکن کلمہ اور صاحب کلمہ کی حفاظت میں اپنی پوری توانائی صرد کر دی۔ قبیلے کے بڑے بڑے سرداروں سے جھگڑے کئے۔زبان،مال اور تلوار ہر چیز سے اسلام کے پیغمبر کی حفاظت کی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ قبیلہ کے دین کے خلاف نئے دین کی تبلیغ ان کے بھتیجے کر رہے ہیں۔دوسری طرف یزید ہے جس نے کلمے کا ظاہری اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اسلام نے جس بھی عمل کو گناہ،حرام اور غیر انسانی قرار دیا تھا یزید نے وہ سارے عمل کئے تھے۔یزید کے کالے کارناموں کی فہرست میں کچھ ایسی کرتوتیں بھی ہیں جن پر عمل آوری سے ایک عام انسان ہزار بار سوچے گا۔
دوسرا مسئلہ صحابہ کی زمرہ بندی کا ہے۔ فتح مکہ سے قبل اور اس کے بعد کے صحابہ میں تفریق کا۔ رسول خدا نے فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کرنے کا عام اعلان کر دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔ حالانکہ ایک عرصہ دراز تک خاندانی مزاج نظر آتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے ایسے سردار ایمان لائے تھے جو اسلام اور صاحب اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ سردار تھے۔ خاندانی رئیس اور بااثر و صاحب رسوخ تھے۔ وہیں فتح مکہ سے قبل ایمان لانے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا رتبہ قبیلہ و خاندان کے اعتبار سے قدرے کم تھا لیکن پیغمبر کی نظر میں ان کا مقام کافی بلند تھا۔ اس لئے کبھی بھی ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوتا تھا تو وہ خاندانی رعب و دبدبہ دم بھرنے لگتا تھا۔اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔یہ عرب کی نسلی خصوصیت تھی کہ خاندانی جاہ جلال اورافتخار اعزاز ان کے خون میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی جنگوں کا سلسلہ کئی نسلوں تک طویل ہو جاتا تھا۔
آج کا ملائی دین اور اس کے ٹھیکیدار اسی کا شکار ہو گئے ہیں۔صوفیا اور بزرگوں نے ان معاملات میں خاموشی اختیار کی تھی اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس پر مذاکرہ اور مناظرہ کرنے سے انتشار کی راہیں مزید وسعت اختیار کر لیں گی۔کسی کے ایمان اور کفر کو تلاش کر کے اس پر چرچا کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اعمال کی فکر کرو۔ ایمان و فکر کا فیصلہ خدا کو کرنے دو۔کسی کو جبرا مومن یا کافر کرنے کی مجرمانہ ضد ترک کریں۔ تاریخ کے ادنی مطالعے سے کسی بھی آدمی کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ایمان و کفر کی علامتوں کو پہچان جائے گا۔رہی بات خاموشی اختیار کرنے والے بزرگوں کے موقف کی تو انہوں نے موقف پر سکوت اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے اظہار و اعلان اور چرچا و تذکرہ پر خاموشی اختیار کی تھی تاکہ امت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ ابو طالب کے کفر اور یزید کے ایمان پر زور دینے جیسے عمل کو دین کا حصہ سمجھنے والے ملائی دین کے ٹھیکیداروں کو یہ بات سمجھنی چاہئے۔جو دین قوم کو منتشر کرتا ہو وہ خدا و رسول کا دین نہیں ہو سکتا۔
دین تو انسانی عظمتوں کی بلندی کی تبلیغ کے لئے تھا۔ امن و سلامتی کی نشر و اشاعت کا پیروکار تھا۔ کب سے یہ دین تکفیر و تذلیل کا ایک پلیٹ فارم بن گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس ملائی دین نے خدائی دین کو خود تو پس پشت ڈال ہی دیا ہے اس کے ساتھ ہی عام مسلمانوں کو بھی اس سے دور رکھنے کے انتظامات کر لئے ہیں۔
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment