مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بڑھتا رجحان
![]() |
| عبد المعید ازہری |
قوم مسلم کا آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسلام کے مبلغ آج کفر کی تبلیغ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ایمان کی روشنی سے انسانی حیات کی تاریکی دور کرنے کی بجائے روشن حیات انسان کو جبرا کفر و شرک کے اندھیرے میں قید کرنے کی مذموم کوشش میں لگے ہئے ہیں۔امن اتحا د کے پیغام بر انتشار و افتراق کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں۔
اس بات سے انحراف ممکن نہیں کہ جھگڑا، فساد، اختلاف اور انتشار انسانی فطرت کا حصہ ہے۔اسی لئے انسانی سماج میں توازن قائم رکھنے کے لئے ترغیب و ترہیب کے قوانین وضع کئے گئے اور ان کے نفاذ سے معاشرے میں امن و امان، سلم سلامتی اور حقوق اور انصاف کا نظام قائل کیا گیا۔انسانی سماج کو دین کی ضرورت بھی اسی لئے آن پڑی کہ اس سے نظام عدل و مساوات قائم و دائم رہے۔کسی بھی مذہب کی بنیادی افادیت میں معاشرے میں سکون و توازن کا فروغ لازمی طور پر موجودہ ہے۔اسلام کے دونوں بنیادی مآخذ قرآنی آیات اور نبوی ارشادات میں اس بات کا خلاصہ موجود ہے۔ قرآن نے ایک درجن سے زائد جگہوں پر اس بات پر زور دیا کہ آپس میں گروہ بندی نہ کرو۔خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں منقسم نہ ہو۔ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن میں خدا نے فرمایا کہ جو لوگ فرقہ بندی میں ملوث ہوتے ہیں اور اسے بڑھاوا دیتے ہیں وہ بڑے گناہ میں شامل۔ تو آپ سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کئی جگہ پر تفریق و تقسیم پر خدا نے واضح روک لگائی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج اسلام کے نمائندے مسلمانوں کی تقسیم کو خدا کی سنت سمجھ کر فروغ دے رہے ہیں۔ یا تو وہ کسی نئی خدائی کا دعوی کر رہے ہیں یا پھر اس خدا کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں جو فرقہ بندی کو پسند نہیں فرماتا۔
آج کے نام نہاد مسلم نمائندے جو مسلکی اور مذہبی اختلاف کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں اور اس اختلاف کو خدا و رسول کی مشیئت و مرضی تصور کرتے ہیں وہ خدا اور رسول پر بہتان لگاتے ہیں۔تکفیر و تفسیق، شرک و بدعت، حرام و حلال کے یہ تاجر اپنی خدائی کا کاروبار چلانے کے لئے قرآن و حدیث من مانی توضیح اور خدا و رسول کے فرمودات کی بے جا تاویل کی مجرمانہ حرکت سے بھی گریز نہیں کرتے۔خدا نے جنہیں اسلام و ایمان کا مبلغ بنایا وہ کفر و شرک کے داعی بن گئے۔ایمان و اسلام کی دولت تقسیم کرنے کی بجائے کفر و شرک، فسق و بدعت کا زہر قوم کے اندر ہی گھولنے لگے۔ ایک دوسرے میں الفت انسیت کا فروغ دینا تھا لیکن انہوں نے مسلک و مشرب اور مذہب ملت کے نام پر ایسی تقسیم شروع کر دی کہ ایک دین اور ملت کے پیروکار ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
ان جاہل علماء و مشائخ نے اپنے کاروباری دین کی نشر و اشاعت کے لئے خدا اور پیغمبر تک کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا۔فرقوں کی تقسیم کے لئے خدا کے رسول سے منسوب ایک روایت ذکر کی جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ بنی اسرائیل میں 72 فرقے ہوئے تھے لیکن ہماری امت میں 73 فرقے ہوں گے جن میں ایک حق پر ہوگا۔دوسری دلیل قرآن کی ہے کہ خدا نے جب حضرت آدم کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں کو اس بابت آگاہ کیا تو فرشتوں نے کہا کہ خدا کریم کیا تو ایسے کو اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد اور قتل خوں ریزی کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم کی فطرت میں جھگڑا و فساد ہے۔ لہٰذا فرقہ بندی، انتشار و اختلاف اور جھگڑا فساد تو خدا و رسول کے فرمودات کے حساب سے ہی ہے۔
جب کبھی بھی اور کسی بھی قوم کو اس طرح کے نمونے قیادت کی شکل میں ملے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ قوم کی تباہی کوئی نہیں روک پایا ہے۔اس قوم کی بربادی کے لئے کسی دوسرے کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔یہ قوم مسلم کی شومئے قسمت ہے کہ اس طرح کے جاہل اس کی قوم کی دین قیادت کر رہے ہیں۔
جب خداکے سامنے فرشتوں نے ابن آدم کی خصلت کا ذکر کیا تو خدا نے فرمایا تھا کہ ائے فرشتوں میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور علم و حکمت کی خوبی نسل آدم میں بطور فطرت ڈال دی کہ اب یہ علم اس فساد اور فتنہ سے بنی آدم کی حفاظت کرے گا۔دنیا کا کوئی بھی مصلح اور محسن ہو یہاں تک کہ عام باپ ہو وہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ میرے بچوں میرے بعد تمہارے درمیاں زر زمین، دولت و شہرت یا اقتدار افتخار کے نام پر جھگڑے ہو سکتے ہیں لیکن تم آپس میں صلح سمجھوتہ کے ساتھ رہنا۔ کچھ بھی ہو جائے آپسی رشتے کو مضبوط رکھنا اور اس اتحاد کو بکھرنے مت دینا۔جب اس طرح کی توقع ایک عام انسان سے کی جاتی ہے تو کیا پیغمبر اسلام سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے تقسیم امت کی نشان دہی کرتے ہوئے اس سے باز رہنے کی نصیحت نہیں دی ہے۔
سیکڑوں ایسی روایتیں ہے اور درجن بھر ایسی آیتیں ہیں جو امت کی فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتی ہیں۔ لیکن یہ اس قوم کے مذہبی رہنماوں کا قرآن و حدیث پر ظلم ہے کہ قوم کو خدا و رسول کے نام پر بانٹ رہے ہیں۔فرقہ بندی کے جواز کی راہیں تلاش کرنا سراسر ظلم ہے۔حق تو یہ تھا کہ انتشار کے سد باب کے راستے تلاش کئے جاتے۔
آج اتحاد ملت کی ریاکارانہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ جہاں پہلے یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ہم جس گروہ یا مسلک سے جڑے ہیں اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے۔یہ مضبوطی کسی دوسرے کی بات سننے ہی نہیں دیتی۔اپنے علاوہ سب بے کار لگتا ہے۔جو خود سمجھے وہی قرآن واسلام باقی سب خلاف۔دانش مندی و دور اندیشی، حکمت و فلسہ اور علم و ادراک سے پرے کتابوں کے بوجھ تلے دبے نام نہاد رہبران قوم و ملت آج صرف قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔خود ساختہ تحقیق پر مبنی کتابوں کے علم کی روشنی اس قوم کو منزل سے کوسوں دور لے جاتی نظر آرہی ہے۔اگر اس قوم کو وقت رہے اس مجرم قیادت سے آزاد نہ کرا لیا گیا تو وہ دن دور رنہیں جب یہ کاروباری دین رسول کا مکمل بائکاٹ کر دے گا۔ایسے رہنماؤں سے آزادی میں ہی عافیت ہے جو خدا اور رسول کا استعمال کر کے لوگوں کو خدا اور رسول سے دور کرتے ہیں۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے، روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں۔
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment