نام مرا مظلوم ہے میں اک لڑکی ہوں
عبد المعید ازہری
عرب میں زندہ بچی کے در غور سے لے کر ہندوستان میں ستی پرتھا تک ہر دور میں عورتوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ۔عورتوں کی گھٹتی عزت، ان کے تئیں لوگوں کی نظر آتی بیذاری، روزانہ عورت ذات کے ساتھ رونما ہو نے والے حوصلہ شکن حادثات اور پھر سے وہی بے بس ، لا چار اور مجبور عورت ماں کی کوکھ میں اپنی زندگی کی بھیک مانگتی ہے۔پیدا ہونے کے بعد تعلیم کا حق مانگتی ہے ۔ جوان ہو نے تک لوگوں کی بد نظر سے حفاظت کی جد جہد کرتی ہے ۔ شادی کے بعد جہیز کے نام پر ظلم سے نجات کی فریاد کرتی ہے ۔ ’’ایک عورت کی زندگی اور اس کے حقوق‘‘ ہمیشہ بحث و مباحثہ کا موضوع تو بنے ہیں لیکن اس پر اقدام کسی نے نہیں کیا ۔گھر میں استحصال اب بازاروں میں کھلے عام عصمت دری تک پہنچ گیاہے ۔جہاں عورتوں پر ظلم کی روایت تاریخی ہے وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے حقوق کی خاطر حمایت میں آوازیں بھی اٹھی ہیں اور متعدد تحریکیں وجود میں آئی ہیں۔دور حاضر میں تو ان کے لئے با قاعدہ حمایتی دستور اور خصوصی قانون وضع کر دئے گئے ہیں۔کل کی تحریک اور آج کی آواز میں فرق اتنا ہے کہ کل جو تحریک عورتوں کے تحفط کے لئے شرو ع ہوئی تھی آج تک بدستور قائم ہے ۔کیونکہ وہ ایک اقدامی اور عملی تحریک ہے اور آج کی آواز محض آوا زہے ۔شخصی اور سیاسی مفاد پر مبنی آوازیں اور تحریکیں ہیں ۔مذہب اسلام نے ایک بار یہ حکم دے دیا کہ عورتوں کے حقوق اد اکرنے ضروری ہیں ۔پوری دنیامیں جہاں کہیں بھی اسلام ہوگایہ قانون اس کے ساتھ شامل ہوگا ۔کوئی بھی مسلمان اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔آج کی تحریکیں تعصب اور سیاست کے نظر ہوتی جارہی ہیں۔جس کی وجہ سے آئے دن عورتوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں ۔دور حاضر میں عورتوں نے ایسے بھی دن دیکھے ہیں جب ان کی عزت اور آبرو مذہبی رہنماؤں سے بھی محفو ظ نہ رہ سکی ۔دفتر اور محکموں میں عورتوں کا استحصال اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ عورتوں کو دی گئی یہ آزادی محض سماج کے دباؤ میں ہے ۔اسی لئے جب بھی موقعہ ملتا ہے وہ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک عورت کی وقعت کیا ہے ۔
عورت لفظ کے استعمال اور ایک عورت کی زندگی ،عورتوں کے حقوق کے متعلق مذہب و معاشرہ کے نظریات ،خاندا ن اور عزیز واقارب کے خیال کو اگر بقول دیکھا جائے تو ایک طرح کا فکر و عمل میں دو رخی رویہ نظر آ تا ہے ۔ ایک عورت مرد کی عزت ضرور ہے لیکن اسے محکوم رہنا ہو گا ، گھر والوں کو اپنی لڑکی پر مکمل اعتماد ہے لیکن اسے باہر نکل کر زندگی اپنے ڈھنگ سے جینے کا حق نہیں ۔ ملک و معاشرے کی تشکیل میں برا بر کی حصے دار ہے لیکن میرے گھر کی بیٹی یا بہو باہر نکل کر ایسے کاموں میں شرکت نہیں کر ے گی وغیرہ خیالات آج کے ہمارے معاشرے میں بھی گردش کر رہے ہیں ۔
عورت لفظ کی اگر تشریح کی جائے تو اس کا معنیٰ ہی یہ ہے کہ جس سے ایک مرد کو عار آ تی ہو ۔ اس کی آ ن ،عزت ، مان اور مریادہ ہو ۔اسی خیال اور حقیقت کی ترجمانی اکثر ایک محاورے میں سننے کو ملتی ہے کہ بغیر عزت کے زندگی یعنی ذلت کی زندگی سے بہتر عزت کی موت ہے ۔اس اعتبار سے بھی ایک عورت کی ہتک عزت ایک مرد کی بھی عزت کی پامالی ہونی چا ہئے ۔ حالا نکہ آ ج اسے شوقیہ نظر انداز کیا جا تا ہے اور جب عزت کی پامالی کا حادثہ رونما ہو تا ہے تو وہیں پر دوسرے کھڑے اس کا تماشا دیکھتے ہیں ۔ اسے وقت میں مان ،مریادہ ، خداری ، مردانگی جیسے الفاظ کے محسوسات کہاں اور کیسے غائب ہو جا تے ہیں سمجھ سے پرے ہیں ۔
عورتوں کے حقوق کی پامالی تقریبا ہر معاشرے میں ہو تی ہے ۔ اس کی شرح البتہ کم و بیش ہے اور طریقہ و انداز مختلف ہے ۔ جب کہ مذہب نے ہمیشہ عورتوں کی عزت کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ کسی بھی مذہب میں عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہے البتہ کبھی کبھی کچھ ایسی روایتیں بھی سامنے آ تی ہیں جو جنگ کے میدا ن یا سیاست کی اندھیر نگری میں عورتوں کے استعمال کی گنجا ئش رکھتی ہیں ۔ ایسے حالات میں عورتوں کو مردو ں کی کمزوری گردانہ گیا ہے اور محض سامانِ لہو و لعب تک ہی ان کا مقام اور حیثیت محدود کیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ وقت کے ساتھ روایتوں میں تبدیلیاں آ تی رہی ہیں لہذا بہت وثوق سے یہ باتیں نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
ہندوستان میں دو مذہب کے ماننے والے زیادہ ہیں ایک سناتن دوسرا اسلام۔سناتن دھرم میں عورتوں کودیوی کہہ کر ان کو عزت دی گئی ہے ۔اس کا اندازہ اس تاریخ سے لگا یا جا سکتا ہے کہ تاریخ نے بہت ساری دیویوں کے نام عزت کے ساتھ اپنے سینے میں محفوظ کر رکھے ہیں ۔علم و موسیقی کی دیوی کو سرسوتی کا نام دیا گیا ۔دولت کی دیوی کو لکشمی ایسے ہی پاروتی اور کا لی دیوی جیسے نام سناتن دھرم کی مذہبی تاریخوں میں ملتے ہیں ۔ایسے ہی مذہب اسلام نے بھی عورتوں کی نہ صرف عزت کرنے کا حکم دیا بلکہ ان کے بار ے میں پیغمبر اسلام نے فرمایاکہ عورت مر د کا لباس ہوتی ہے ۔ مردوں پر عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسلام میں عورتوں کی عزت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنت ،جس کی خواہش ہر مسلمان رکھتا ہے اسے ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا اور ایک جگہ فرمایاکہ جس کی دو بیٹیاں ہوں ان کی اچھی پرورش کرے اور شادی کردے تو اس کے لئے جنت ہے ۔
عورتوں کے تئیں مختلف مذاہب کے ان نظریات اور خیالات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حقوق نسواں کی یہ پا مالی اور ان کا استحصال مذہبی نہیں ہے ۔بلکہ مذہب سے اور انسانی رشتوں اور ان کے اقدارسے لا علمی کے باعث ہے ۔آج انسانی رشتوں کی پاسداری ہماری تربیت کا حصہ نہ رہی۔ جس کا خامیازہ ہم اپنی ہی نسلوں سے اٹھاتے ہیں ۔عورتوں کی بدحالی کے اسباب میں ایک یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ خودعورت بھی دوسری عورت کے استحصال کا سبب بنتی ہے ۔اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔گھر میں ساس بہو کے رشتوں میں ہما ہمی ،حسن ودولت،رتبہ کا تقابل، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے دوسرے کو گرانے کی ہوڑ،گر چہ یہ تقابل مرد و عورت میں یکساں ہوتاہے لیکن عورتوں میں یہ صفت ان کے استحصال کو مزید تقویت پہنچاتی ہے ۔
عورتوں کے ساتھ ہو رہے مسلسل مظالم کے ذمہ دارصرف چند بیمار اور شر پسند عناصر ہی نہیں ہے بلکہ وہ معاشرہ بھی ہے جو اس ظلم کو دیکھتا ہے اور خاموش رہتاہے ۔وہ تربیت ہے جو ایسی فکر کو پیدا کرتی اور پروان چڑھاتی ہے اور وہ لوگ ہیں جو حقوق کی بات تو کر تے ہیں اور ان سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن عملی اقدام سے کتراتے ہیں ۔جس سے ان بیماروں کو شہ ملتی ہے ۔یہ لوگ عورتوں کو حد میں رہنے کی تلقین کر تے ہیں ۔ان کے لئے حدود متعین کرتے ہیں ۔ان کے کپڑوں کا انتخاب کر تے ہیں اور دوسری نصیحتیں جبراًکر ڈالتے ہیں لیکن ان کی توجہ کبھی اس بیمار معاشرہ کی جانب نہ ہو سکی۔جس نے حد میں رہنے والی ہندوستانی تہذیب میں ڈھلی ہوئی عورتوں کے ساتھ بھی بد سلوکیا ں کی ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں کو جب بھی اور جہاں بھی موقع دیا گیا انہوں نے ہر میدان میں فتح حاصل کی ۔سیا ست سے لے کر کھیل تک ،سائنس سے لے کر کاروبار تک اور گھر سے لے کر بازار تک۔ہر جگہ اپنی نمایاں کارکردگی سے سر فہرست رہیں ۔جب کی حالات یہ تھے کہ انہیں زندگی کے ہر پڑاوپر استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔تعلیم پر عائد پابندی ہو یا معاشرتی امورمیں ان کی عدم شراکت ،ان تعلیمی لیاقت اور ہنر کو ہمیشہ عورت ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا۔ایسے ماحول میں عورتوں کی کامیابی باالخصوص دور حاضر میں لڑکیوں کی تعلیمی لیاقت قابل فخر اور احترام ہے ۔تعلیم میں ان کی یہ نمایاں کامیابی اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر صحیح معنوں میں انہیں حق و انصاف کے ساتھ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں موقع دیا جائے تو ایک با ر پھر ہم ایسے معاشرہ کا خواب دیکھ سکتے ہیں جس پر آج تک پوری انسانیت کو نا ز ہے ۔آج بھی تاریخ کے صفحات میں ایسی کئی عورتوں کو اپنے سینے میں عزت کے ساتھ محفوظ رکھا ہے ۔انہونے ہندوستان کو ایسی اولاد دی جس پر ہندوستان کو ہی نہیں پوری دنیا کو ناز ہے ۔
ایک عورت کی سب سے بڑی طاقت خود عورت ہے اور اس کی خود اعتمادی ہے ۔ایک بار وہ اپنے ذہن سے نکال دے کی ہم محض سامان لہو و لعب نہیں بلکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں ہمارا نمایاں کردار ہے ۔ تو اسے اپنا فریضہ ادا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقوق کی بات کرتے کرتے عورت بھی راہ اعتدال سے پھر جاتی ہے ۔ ایسی جگہ پر اس پر بندش عائد ہونا ضروری ہو جاتا ہے ۔یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے مفاد پرست سیاست داں یا بے حس کاروباری ہوتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے تئیں انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑے بڑے احتجاج منعقد ہوئے۔اس کی وجہ سے قدر کامیابی بھی ملی لیکن کامیابی محدود ہے ۔کل عورتوں کے ساتھ ہو رہے مظالم سے معاشرہ نا واقف تھا آج وہ با خبر ہے ۔دور حاضر کا سب سے بڑا احتجاج یہ ہو گا کہ اسے اپنی ذات سے شروع کیا جائے ۔اپنے گھر خاندان اور محلہ سے اس بیماری کو دور کیا جائے۔کیونکہ یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر ،خاندان،پڑوس اور معاشرہ اچھا ہو ۔لیکن اس کی شروعات کوئی نہیں کرنا چاہتا۔اگر ہم واقعی عورتوں کے حقوق یا انسانی حقوق کے تئیں بیدار ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے ایسی گندگی اور بیماری کافور ہوجائے تو ہم میں سے ہر شخص کو اپنے آپ سے یہ وعدہ کرنا ہوگاکہ اس بیماری کو سب سے پہلے میں دور کروں گا۔یا کم سے کم ہم اس گناہ میں شامل نہیں ہونگے ۔اسلام بھی یہی کہتاہے اور انسانی فریضہ بھی یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لئے نفع بخش ہوں۔اس کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کم سے کم ہماری وجہ سے کسی کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ پہونچے۔کیونکہ اس کے بعد نہ تو وہ مسلمان ہے اور نہ ہی وہ انسان رہ جاتاہے۔



.jpg)



No comments:
Post a Comment