وہ اندھیرا ہی بھلا تھا
عبدالمعید ازہری
آج ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ،ظلم ،تشدد ،لوٹ مار ،عصمت دری جیسے واقعات دن بدن زور پکڑتے جا رہے ہیں ۔ دانشور حضرات کا خیال ہے کہ اس کی وجہ لاعلمی اور جہالت ہے ۔ آج دنیا تکنیکی دور سے گزر رہی ہے ۔ انسان اکثر کام مشین سے لینے لگا ہے ۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو اس تکنیک کا سہارا اور اس کے استعمال کا علم ضروری ہے ۔ کاپی قلم کا کام تقریباًختم ہو گیا ہے ۔ کمپیوٹر نے ایک ساتھ کئی کام اپنے ذمے لے لیا ہے ۔ اس ترقی یافتہ تکنیکی دور میں انسان علم کی بدولت بلندی پر تو ضرور پہنچ گیا ہے لیکن اخلاقیات سے بالکل کھو کھلا ہو گیا ہے ۔ اس تکنیک نے انسان کو دل و دماغ سے بھی مشین جیسا بنا ڈالا ۔ تکنیک کا ایسا خمار چڑھا کہ الفاظ اپنے معنی کھونے لگے ۔ برے اخلاق اور تہذیب سے خالی الفاظ ترقی کی نشانی بن گئے ۔ اسے جدید دور کا فیشن قراردے دیا گیا ۔ ذہنوں کو اس قدر خالی اور کمزور کر دیا گیا ہے ۔ کہ فکر ایک ہی محوراور سمٹ کر رہ گئی ۔ آزادی سب کا حق ہے ۔ یہ آوازبھی فیشن ہو گیا ہے ۔ والدین نے پرورش کی ،تربیت دی، تعلیم دلائی ۔ یہ ان کی ذمہ داری تھی ۔ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔ ہم ان کے داخلی زندگی میں نہیں جھانکتے تو انہیں بھی ہماری نجی زندگی میں دخل دینے کی قطعی ضرورت نہیں۔اورنہ ہی ا نہیں اب ہماری فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنا خیال رکھنا جا نتے ہیں ۔ہم کس کے ساتھ ہیں ، کیا کر رہے ہیں ، کہاں جا رہے ہیں ، کب واپس آ رہے ہیں جیسے سوالات قدامت پسند ہو گئے اور ہماری آزادی میں جبراًدخل اندازی ہیں ۔ سماجی رشتوں نے اپنی اہمیت کھو دی ، مذہبی رواداری کی کوئی حیثیت باقی نہ رہی ۔ کیونکہ اب ہم تعلیم یافتہ اور ترقی پسند ہو گئے ہیں ۔ تہذیب ، اخلاق ، رشتوں کا پاس ولحاظ اختیاری مضامین جیسے ہیں ۔ جی چاہے ان پر عمل کیا نہ جی میں آ یا تو سماج کے بنائے ان اصولوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔ آزادی کے اس جدید معنیٰ میں طرح طرح کے جرائم پیدا کر دئے ۔ ایک دوسرے کا خیال ختم ہو گیا ۔ شہرت کا نشہ اور خود نمائی کا جنون اتنا سر چڑھ گیا کہ زندگی ایک مقابلہ جاتی دوڑ بن کر رہ گئی ۔ جس میں ہر حال میں آگے بڑھنا ہے ۔ اور آگے بڑھنے کے لئے آگے والے کو پیچھے کرنا ضروری ہے ۔ آج کی تعلیم کی بنیاد اسی پر ہے کہ کیسے دوسرے کو نیچے گرایا جا سکتا ہے ۔ خود نمائی کا شوق، کم وقت میں زیادہ پیسہ اور رتبہ حاصل کرنے کی حرص ، میری زندگی میری مرضی جیسی فکر جب سے معاشرے میں گردش کر رہی ہے تب سے معاشرے سے پائیداری اور استقامت ختم ہو گئی ۔ خواہ رشتوں کی استقامت ہو یا امیدوں کی ۔ انسان کی قیمت گھٹ گئی اور اس کے سینے سے احساس اور آنکھوں سے مروت جا تی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ آ ئے دن لوٹ مار ، مرڈر ، عصمت دری جیسے خوفناک واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ نہ تو ان مجرموں کے دل میں احساس جرم ہے اور نہ ہی آنکھوں میں رحم اور مروت ہے ۔ نہ تو رشتے کا پاس ولحاظ ہے اور نہ ہی انسانی رواداری کا احساس ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مذہب بھی کھلواڑ بن گیا ۔ کیونکہ مذہب کی آڑ میں ایسے ایسے جرائم کے واقعات سامنے آ رہے ہیں جسے دیکھ کر لوگوں کا عقیدہ مذہب سے اٹھتا جا رہا ہے ۔ اور جہالت کی وجہ سے ہر مذہبی شخص شک و شبہ کے دائرے میں کھڑا نظر آ تا ہے ۔ ان جرائم کے نشر ونما میں کئی ذرائع ابلاغ جانے انجانے میں کام کر رہے ہیں ۔خواہ فلمیں ہو ں یا خبریں ۔انٹرنیٹ ہو یا سوشل میڈیا ۔سوشل میڈیا نے ہر میدان میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یوں تو اچھے کام بھی اس کے ذریعے ہو تے ہیں لیکن برائیاں بھی اسی تیزی سے پھیلتی ہیں ۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ جس کا موضوع ہے میری مرضی یا مائی چوائس ۔ دورِ حاضر میں عورتوں کے استحصال کو لے کر کچھ ادا کاروں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور انہوں نے عورتوں کے حقوق کے تئیں آواز بلند کرنے کی کوشش کی ۔ اپنے چند دیگر اداکار ساتھیوں کو شامل کر کے ایک ویڈیو بنائی ۔ اس ویڈیو کے ذریعے انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ عورتوں کی بھی اپنی زندگی ہے ۔ ان کے بھی کچھ خواب اور امیدیں ہیں ۔ ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرنا مناسب نہیں ہے ۔ یہ قابل تحسین اقدام تھا ۔ کیونکہ آج کے اس پر فتن دور میں ذمہ دار سماج نے اپنے آپ کو تقریروں اور سیمیناروں تک محدود کر لیا ہے ۔ ایک طرف لڑکیوں کوگھر کی چہار دیواری میں قید رہنے کی نصیحت دیتے تو دوسری طرف گھر تو گھر آشرم میں بھی عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں ۔ اس پر ان کا کوئی بیان نہیں ۔ لڑکیوں کے لباس پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بیٹوں سے مائیں، بھائی سے بہن ، باپ سے بیٹیاں تک محفوظ نہیں ۔ایک عورت کی ہر حقیقت عذاب کی ضد ہے، ہر عمر اس کا شکار ہے۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے اور یہ ہمارے معاشرے کے ذمہ داروں کی ذمہ دارانہ نصیحت ہے ۔ ایسے میں یہ اقدام ضروری تھا جو بہت پہلے کیا جا نا چاہئے تھا ۔ لیکن افسوس ویڈیو جس طرح سے جاری کیا گیا اور اس میں جو مکالمہ ہے اس میں حمایتی آواز کی بجائے کہیں کہیں عصمت دری کی دعوت ہی نظر آ تی ہے ۔البتہ اس ویڈیو کا کاروبار بہت ہوا ۔ اسے لاکھوں لوگوں نے پسند کیا ۔ یا یوں کہیں کہ اس ویڈیو سے لطف اندوز ہو نے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے ۔ یعنی ایک بار پھر ایک عورت دوسرے عورت کے استحصال پر آمادہ نظر آ ئی ۔ مانو محافظین کی آستینوں سے خون چمک رہا ہے۔ اس ویڈیو کے جواب میں پھر کئی ویڈیو آ ئے ۔ سب نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ ہم زیادہ ذمہ دار ہیں ۔ ان ویڈیوز کا بھی رزلٹ وہی رہا یعنی کاروبار ۔ جذبات اور احساس کا مل کر گھلا گھونٹا گیا ۔ اس کی اجتماعی بشمول مرد و زن عصمت دری کی گئی ۔ جب سب کچھ اپنی مرضی سے ہی ہونا ہے تو سب کی اپنی مرضی ہے ۔ تو پھر ایک دوسرے سے شکایت کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ۔ کسی کی اچھی مرضی ہو سکتی ہے اور کسی کی بری مرضی ہو سکتی ہے ۔ آج کی نوجوان نسل میں ’میری مرضی ، میری زندگی میری آزادی‘کا ایسا جنون چڑھا ہے کہ وہ کچھ سمجھنے کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ سے معاشرے نے عجیب سا رخ اختیار کر لیا ہے ۔یہ کہاں آ گئے ہم جہاں عبادت بھی کاروبار ہو گیا ہے ۔ اور کیسا راستہ ہم نے اختیار کر لیا جہاں ہمدردی سیاست کا شکار ہو گئی۔ اگر ہم نے اس جنون کو صحیح رخ دیا ہوتا تو مجرم اسمبلی اور پارلیا منٹ میں نظر نہ آ تے اور نہ ہی کوئی قاتل ہمارا حاکم ہو تا ۔سینکڑوں جرائم میں ملوث مجرم ہمارے قائد ہیں۔ رواں صدی میں ترقی نے اپنا معنیٰ بدل لیا ہے ۔ کل تک ترقی کا مطلب عزت ، شہرت ، توقیر ، خود اعتمادی اور خود داری تھی ۔ آج ترقی کا مطلب میری مرضی اور صرف میری مرضی ہے ۔ جس مہاتما نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کو غلامی کی ذلت سے آزاد کرانے کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ آج کی ترقی یافتہ نسل انہیں کے قاتل کو پوجنے پر تلی ہو ئی ہے ۔ جس عدم تشدد کی تحریک کو گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار بنایا ۔ آج اسی کو چیلنج کیا جا رہا ہے کہ ہم گاندھی جی نہیں ہیں کہ بیٹھ کر چرخا چلائیں گے اور ایک گال کے بعد دوسرا گال پیش کر دیں گے ۔جس نیتا جی کی قابلیت نے ہندوستان کی آزادی میں اہم رول اداکیا آج اسی عظیم شخصیت کی جا سوسی کا معاملہ سامنے آ یا ہے ۔ جس تہذیب نے ہندوستان سے اسے سونے کی چڑیا کہے جانے کا حق چھین لیا ۔ آج اسی تہذیب کو ترقی مان کر گھر گھر پہنچا ئی جا رہی ہے ۔ جن انگریزوں نے ہندوستان کے ہزاروں بچوں کو یتیم ، ماں باپ کو بے سہارا اور عورتوں کو بیوہ ہو نے پر مجبو ر کیا ۔ نوجوانوں کے خون سے آنکھیں تر کیں ۔ آج کی ترقی اسی
مغرب کو زبردستی ہندوستان میں رائج کر نے پر آمادہ ہے ۔ کل جب برٹش آ ئے تھے تو انہوں نے دھوکے اور لالچ کا سہارا لیا تھا ۔ بدلے میں ہندوستان کو کئی کاری زخم اور ناسور دے کر گئے ۔ آج ہم خود انہیں عزت کے ساتھ دعوت دے رہے ہیں ۔ بلکہ اپنے گھر کو سونپ رہے ہیں ۔ اور اس پر ہمیں فخر بھی ہے ۔ کیونکہ ہم تعلیم یافتہ اور ترقی پسند ہیں ۔ ہم نے ترقی کا یہ ایسا راستہ اختیار کر لیا ہے جو مشکل کن ہی نہیں پر خطر بھی ہے ۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ ایک طرف یتیم اور بے سہارا بچے بھوکے مر جا تے ہیں دوسری طرف لوگ بچے ہو ئے کھانے کی سڑن سے بیمار ہو رہے ہیں ۔ ایک غریب کسان کھیت میں اور بے روزگار فٹ پاتھ پر دم توڑ دیتا ہے اور ہم بے ضرورت کی پارٹیوں میں مدحوش رہتے ہیں ۔ ایک غریب مزید غربت سے مر رہا ہے ۔اور امیر کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے ، کسانوں کو اسی کی زمین سے بے دخل کر دیا جا تا ہے ۔ دولت مندوں کے قدموں میں تحفہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ کھلے عام ایک مجرم جرم کو انجام دیتا ہے اور ہم تماشائی ہو کر محض دیکھتے ہیں جب وہی حادثہ ہمارے ساتھ ہو تا ہے تو ہم سماج کو کوستے ہیں ۔ جناب نواز دیوبندی نے شاید اسی معاشرے کی ترجمانی کی ہے :
اس کے قتل پے میں خاموش تھا ،میرا نمبر اب آیا میرے قتل پے تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے ۔
اگر سماجی رشتوں کو توڑنا انسانی اقدار کو پامال کرنا اور رشتوں کی رواداری کا مذاق اڑانا ہی ترقی ہے تو ایسی ترقی کس کام کی ۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے روشنی لا ئی ہے منزل سے بہت دور ہمیں ۔
ٓAbdul Moid Azhari(Amethi) Mob: 09582859385 Email:abdulmoid07@gmail.com














No comments:
Post a Comment