The restless Yemen and its effect in India
यमन की बेचैनी और भारत
یمن کی بے امنی اور ہندوستان
ؐؐؐعبدالمعید ازہری
خلیجی ممالک اور مسلمانوں کی ترقی کو کسی کی بری نظر لگ گئی ہے ۔ پوری دنیا کو امن و امان کا پیغام دینے والا خطہ حجاز اور اس کے ہمسایہ دیگر ممالک آج خانہ جنگی کا ایسا شکار ہوئے کہ دس برس میں تقریباً بیس لاکھ سے زائد مسلمان جاں بحق ہو گئے ۔ ماتم بر کف افسوس یہ کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں ہلاک ہو رہا ہے ۔ جب کہ پیغمبر اعظم نے اسی سر زمین سے نفرت و تشدد کے خلاف محبت اور اخوت کی بنیاد ڈالی تھی ۔ انہوں نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھوں سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو ‘‘۔ آج کے حالات کو دیکھتے ہو ئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مسلمان کو ن ہے ۔ کئی برس سے خلیجی ممالک کو خانہ جنگی کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اس سر زمین پر دشمنان اسلام و انسانیت کی شروع سے ہی نظر ہے جب سے مذہب اسلام نے خود مختاری ، ظلم و جبر اور انتہا پسندی کے خلاف محاذ قائم کیا تھا ۔ آج جو صورت حال ان خلیجی ممالک کی ہو گئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ ایک ملک دوسرے ملک کو تباہ کر نے کے لئے تیار ہے ۔ انہیں آپسی رنجشوں میں اس قدر الجھا دیا گیا کہ خانہ جنگی نے جہاد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ایک دوسرے کا خون کار ثواب سمجھ کر بہا کرہے ہیں۔ چند برسوں سے مسلم ممالک کے خلاف سازش نے اتنا زور پکڑ لیا ہے کہ ایک کے بعددوسرا ملک دیکھتے ہی دیکھتے تباہ و برباد ہو رہا ہے ۔
سابقہ پانچ سے دس برسوں کا جائزہ لیا جا ئے تو کئی مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہو کر اپنی توانائی کھو چکے ہیں ۔ یہ ممالک کسی دوسرے بڑے اور تانا شاہ ملک پر منحصر نظر آ رہے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں مجبوراً ان کے تابع ہو کر کام کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب کی یمن پربمباری سے مسلسل یمن کی بے گناہ عوام جاں بحق ہو رہی ہے ۔ اس حملے میں سعودی کا ساتھ مصر ، سوڈان اور جارڈن جیسے ممالک دے رہے ہیں۔ان ممالک کو سعودی عرب نے قرض دے رکھا ہے ۔ان کا براہ راست یمن سے کوئی معاملہ نہیں ہے ۔ ٹیو نیشیا ، مصر ،ترکی ، سیریا ، لیبیا ، عراق ، نائیجیریا اور اس سے قبل افغانستان اسی سازش کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو چکے ہیں ۔ یہ سارے ملک اگلے کئی برسوں تک اپنے پیرو ں پر کھڑے ہونے کے لائق نہ رہے ۔ اب یمن اسی سازش کا نیا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ یمن پر سعودی بمباری اسی سابقہ تسلسل کی ایک کڑی ہے ۔ ایک مسلم کے ہاتھوں دوسرے مسلم ملک کی تباہی تقریباًمقدر ہو چکی ہے ۔یہ سازش اتنی گہری ہو چکی ہے کہ وہ ان مسلم حکمراں اور دانشور طبقہ کو نظر نہیں آ رہی ہے ۔ یا پھر وہ اپنی آرام پرستی ، عیش پسندی اور حرص و طمع میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ انہیں نہ تو اسلام کے اصول یاد رہے اور نہ ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی یہ سازش نظر آ رہی ہے ۔
ان تمام ممالک کی تباہی اور خانہ جنگی میں ایک بات عام نظر آ تی ہے ۔ ہر ملک میں موجودہ حکومت کے خلاف جمہوریت اور اسلامی قانون کے نافذ کرنے کے نام پر ایک گروہ کھڑا ہوا اس نے چند زرخرید سیاستداں بیرونی طاقت کے ذریعے عوام میں بغاوت کی آگ بھڑکادی ۔ کسی کو اسلام کے نام پر بہکایاتو کسی کو حکومت کا خواب دکھا کر اس کے ہاتھوں میں علم بغاوت تھما دیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک خاک و خون میں تر نظر آ یا ۔ ایک مسلمان کا سر دوسرے مسلمان کے ہاتھوں الگ ہو نے لگا ۔تمام تباہ شدہ ممالک کا حال یکساں ہوا ۔ القاعدہ ، طالبان ، اخوان المسلمین اور داعش جیسی کئی تنظیمیں یک بیک اسلام کے نام پر ابھر کر سامنے آئی اور ایک ایک کر کے سارے ملک تباہ و برباد ہو گئے ۔ اس خانہ جنگی میں وہ سب کچھ ہوا جسے اسلام نے منع کیا تھا ۔ عورتوں ، بچوں اور ضعیفوں کو سہارا دینے کے بجائے ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہوا ۔ مسجدیں اور اسلامی آثار و مقدس مقامات شہید کئے گئے ۔ اسلام کی تاریخ میں ایسا کوئی بھی واقعہ درج نہیں ہے جس سے اس طرح کی کسی بھی حرکت کو اجازت ملتی ہو ۔
سعودی عرب پوری دنیا میں اسلام اور اسلامی ممالک کی قیادت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ ایک عرصہ سے فلسطین اپنی نسلیں قربان کر رہا ہے۔ لیکن اس ملک اور اس کے اتحادی ممالک کے ذریعے ان مظلوم مسلمانوں کی فریاد نہ سنی گئی ۔ ایک ایک کر کے تمام خلیجی ممالک تباہ ہوتے گئے اور اب تک ہو رہے ہیں ۔ لیکن اس قائد ملک اور اس کے حکمراں کے آرام گاہ تک ان کی تباہی و بربادی کی خبر نہ پہنچ سکی ۔اچانک ایک دن سعودی حکمراں کی غیرت جا گتی ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد فوج کے ساتھ یمن کا رخ کرتے ہیں اور اس پر آسمان سے بم کی بارش کر دیتے ہیں ۔پوری دنیا یہ نظارہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی ۔پہلی بار سعودی فوج حملہ آور ہو ئی ہے ۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کے جواز میں کہا کہ یمن میں شیعوں نے سنیوں پر حملہ کر رکھا ہے اور کئی روز سے وہاں ان کا جینا دشوار کر رکھا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ حوثی باغیوں کے ساتھ وہاں کی سنی تحریکیں بلکہ فوج بھی جنگ میں شامل ہے ۔ اور یہ حوثی حکومت سے جنگ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہاں فی الحال کوئی حکومت نہیں ہے بلکہ ان کے بیان کے مطابق دیگر ممالک کی طرح یمن میں بھی انتہا پسند تحریکیں نہ صرف داخل ہو چکی ہیں بلکہ شدید رخ اختیار کر نے پر آمادہ ہیں ۔
سعودی عرب نے اس حملہ میں پاکستان سے بھی مدد طلب کی ۔ پاکستان نے سعودی عرب کے دورے کئے اور پارلیمانی نشستیں قائم کر کے آخر کا ر یہ فیصلہ لیا کہ ہم سعودی بھائیوں کے ساتھ ہیں لیکن یمن پر حملہ کرنے میں ہم ساتھ نہیں دے سکتے ۔ چونکہ پاکستان کے تعلقات ایران کے ساتھ بھی ہیں ۔ بین الاقوامی سیاستداں کی مانیں تو سعودی کا یمن پر حملہ در اصل ایران سے جنگ کی ایک نوعیت ہے ۔ لیکن اسے شیعہ ، سنی جنگ کہہ کے اصل نیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب پاکستان سے فوجی امداد ملتی نظر نہ آئی تو انہوں نے ایک شگوفہ چھوڑا کہ حرم خطرے میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ سعودی کی حمایت کریں ۔اس شگوفہ کایگر ممالک کے ساتھ پاکستان کی دہشت گرد تحریکوں پر اچھا اثر ہوا اور ان تنظیموں نے پاکستانی عوام کو بہکایا۔، حرم کی حفاظت کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کو سڑکوں پر کھڑا کر دیا۔ حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی ۔ اعلان کر دیا کہ اگرحکومت مدد نہیں کرتی تو ہم خود حرم کی حفاظت کو نکلیں گے ۔ جس سے یمن میں انتہا پسند تحریکوں کے قائم ہو نے کا راستہ صاف ہوگیا ۔
یمن کی داخلی صورت حال بالکل بر عکس ہے ۔ وہاں کی عوام امن چاہتی ہے ۔حوثی جنگجوؤں سے لیکردیگر دانشوراور ذمہ دار طبقہ انتہا پسند تحریکوں کو ملک میں فساد کے لئے جگہ دینا نہیں چاہتا ہے۔یمن میں ابھی کوئی حکومت قائم نہیں ہے ۔ سابق صدر ملک چھوڑ کر بھا گ گئے ہیں ۔حوثی لیڈروں نے کارگزاری حکومت قائم کر رکھی ہے ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ جن حوثیوں کو شدت پسند شیعہ کہا جا رہا ہے وہ مسلکی اعتبار سے ایران جیسے شیعہ نہیں ہے بلکہ وہ اہلسنت والجماعت سے قدرے ملتے جلتے ہیں ۔ انہی حوثیوں نے سابق صدر منصور الہادی کو کرسی پر بٹھایا تھا پھر انہوں نے ہی کرسی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ابھی تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ شیعہ سنی جیسی کوئی رنجش نہیں تھی ۔ اچانک سے یمن میں قائم بھائی چارگی دشمنی میں بدل گئی او ر وہ دشمنی اتنی سخت ہو گئی کہ سعودی کو لگا کہ یمن سعودی پر حملہ کر دے گا ۔ یاپھر یمن میں ایران کی پشت پناہی سے خوفزدہ ہو گیا ہو۔ نتیجتاًملک پر حملہ کر دیا گیا ۔ عراق کی خانہ جنگی کے بارے میں بھی شروع میں یہی افواہ پھیلائی گئی کہ وہاں شیعہ سنی جنگ ہے ۔ جب کہ حقیقت کچھ دنوں میں واضح ہو گئی ۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔ ملک تباہ ہو گیا ۔
عرب کے یہ آرام پرست نام نہاد مسلم حکمراں کب سمجھیں گے کہ یہ سب اسلامی قوت اتحاد کو مٹا کر عظیم اسرائیل بنا نے کا منصوبہ ہے ۔ ابھی پوری دنیا میں ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدہ پر گفتگو ہو رہی ہے اور دوسری جانب فلسطین کی حمایت میں دستاویز تیار ہو رہے ہیں ایسے میں سعودی عرب کو یمن سے خطرہ لاحق ہو گیا ۔یہ بات کسی کی بھی سمجھ سے پرے ہے کہ یمن سعودی پر کیسے حملہ کر سکتا ہے اور یہ بھی تشویش ناک ہے کہ آخر سعودی کو یمن کے سنیوں کا ہی خیال کیوں آیا ۔ایران کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ فلسطین کو بھی ہمدردی مل رہی ہے ۔ امریکہ اور سعودی کے رشتے بھی کمزور سے پڑ رہے ہیں۔ اسی کا خمیازہ یمن برداشت کر رہا ہے۔
عراق میں جان بوجھ کر داعش جیسی تنظیم کو بسایا گیا ۔وہاں کی خانہ جنگی کو بھی شیعہ سنی کا نام دیا گیا ۔ آج داعش نے القاعدہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ ترکی ،سیریا ،لیبیا جیسے متعدد ممالک میں حزب مخالف کا درجہ رکھتی ہے ۔ ان ساری تحریکوں کو امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک مدد فراہم کر رہے ہیں ۔اور سعودی عرب امریکی حامی ہونے کے اعتبار سے ان ساری تحریکوں سے کہیں نہ کہیں منسوب ہے ۔ القاعدہ اور داعش میں موجودہ فرق یہ ہے کہ القاعدہ خلیجی ممالک سے امریکہ ،اسرائیل و دیگر یورپ ممالک کی مداخلت کو بند کرنا چاہ رہی تھی ۔ اور داعش کی اولی کوشش خلیجی ممالک سے تمام مسلم حکمرانوں کو بے دخل کر نا ہو گیا ہے ۔ دونوں ہی تنظیمیں اگرچہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بہکانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئی ہیں لیکن دونوں ہی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ القاعدہ ، داعش اور اخوان المسلمین جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنام اسلام پیدا ہو تی ہیں ۔تبلیغ کے نام پر مسلمانوں کی حمایت حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اسلام کے اصولوں کے خلاف کام کرتے ہیں ۔یمن میں در اصل اسی کی لڑائی چل رہی ہے ۔یمن کے اندر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ایک عرصے سے جاری ہیں ۔ جب یمن شمال اور جنوب میں بٹا ہوا تھا اس کے بعد اسے متحد کیا گیا ۔دونوں کے اختیارات کو لے کر جھگڑے ہوتے رہے ہیں ۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ سعودی سے بھی کچھ مسائل پر لڑائیاں ہوئی ہیں جنہیں سعودی نے یمن پر بمباری بھی کی ہے ۔ لیکن آج کی جنگ کا پس منظر صرف اتنا ہے کہ وہاں پھر سے القاعدہ یا داعش کو طاقت دی جا ئے ۔
سعودی کا یہ پرو پیگنڈہ کہ حرم خطرے میں ہے سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر حرم کوکس ملک سے خطرہ ہے ۔حرم ہر مسلمان کو عزیز ہے ۔کوئی بھی مسلم ملک خواہ ایران ہی کیوں نہ ہو حرم پر حملہ کر نے کی سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔ کیونکہ حرم کی پاسبانی کا ذمہ صرف سعودی عرب یا خلیجی ممالک پر نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر ہے ۔ ہاں حرم کو خطرہ امریکہ ، اسرائیل اور داعش سے ضرور ہے ۔ سعودی کو القاعدہ ، داعش اور اخوان المسلمین جیسی تنظیموں پر حملہ کرنا چاہئے ۔کیونکہ یہ تحریکیں جملہ خلیجی ممالک کو دیمک کی طرح کھا ئے جا رہی ہیں ۔ پوری دنیا کے مسلم حکمراں دانشور اور امن پسند انسانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام اور اسلامی آثار سے سب کو یکساں محبت اور عقیدت ہے تو پھر مل کر اسلام کے نام پر پیدا ہو نے والی ایسی فکر کو ختم کریں جو اسلام کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی داغدار کر رہی ہے ۔
انتہا پسندی کی یہ سازش ہندوستان میں بھی پہنچ چکی ہے جس کا ہمیں افسوس ہے اور ہر سچے ہندوستانی کو افسوس ہونا چاہئے ۔ آج مسلمانوں کی بربادی و پسماندگی کے پیچھے اس فکر کا بھی ہاتھ ہے ۔ مصر کے سیاسی پھیر بدل میں ہندوستانی سڑکوں نے خصوصاًدہلی نے کئی حمایتی جھنڈے اور تختیاں دیکھیں ۔داعش کے جھنڈے بھی نظر آئے ۔ ہندوستان سے کئی لڑکوں کی داعش میں شرکت کی خبریں بھی آئیں ۔القاعدہ کی ایک شاخ قیادت الجہاد کے نام سے جنوبی ایشیا میں قائم ہو نے کی خبریں بھی موصول ہوئیں ۔قیادت الجہاد نامی تنظیم کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب داعش القاعدہ کے ساتھ عراق میں پنپ رہا تھا اسی کا نام قیادت الجہاد تھا ۔ داعش کی خلافت اور ابو بکر بغدادی کو خلیفہ بھی تسلیم کیا گیا ۔ کچھ لوگوں نے سعودی خدمات کے قصیدے پڑھے اور لوگوں کو سعودی حکمراں کا احسان مند ہونے کی نصیحت دی تو کچھ لوگوں نے سعودی حکمراں کو ڈاکو ،لٹیرا ،خائن کہہ کر اسلام دشمن قرار دیا ۔ ایک نورا کشتی کا منظر تھا ۔ جسے اردو اخباروں نے کئی دنوں تک اپنے صفحات میں عزت کے ساتھ جگہ دی ۔ یہ معاملات ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کا موضوع کبھی نہیں تھے ۔ ہمیں وقت سے پہلے اس دستک سے آگاہ ہی نہیں بلکہ احتیاطی اقدام کر لینے ہوں گے ۔ کیا پتہ پھر وقت ملے نہ ملے ۔مسلمانوں خدا کے واسطے مسلمان ہو جا ؤ ۔ اے ایمان والو! ایمان میں پوری طرح داخل ہو جا ؤ :القرآن۔
Abdul Moid Azhari(Amethi) Mob: 09582859385 Email:abdulmoid07@gmail.com








No comments:
Post a Comment