आपसी झगड़े हमें मंजिल से भटका देते हैं
The Destination goes far away by misconducting
غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے
عبد المعید ازہر
اکیسویں صدی مسلمانوں کیلئے سخت ابتلا و آزمائش لیکر آئی ہے ۔ طرح طرح کے فتنے وجود میں آ ئے ۔ہر فتنہ کے مختلف دروازے ہیں ۔ہر دروازہ ذاتی خودنمائی اور انا پرستی کی وجہ سے وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب کا دور جاہلیت واپس آگیا ہو۔ ذرا سی بات کیلئے دست و گریباں کے خونریزی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔مسائل شرعیہ میں علماء و فقہاء کا اختلاف نیا نہیں ہے۔لیکن وہ اختلاف دین اور اس کی تعلیمات کو فروغ دینے کیلئے ہوا کرتا تھا۔مزارات ،امام بارگاہ یا دیگر مقدس مقامات کو لیکر اختلاف ابھی نیا ہے لیکن اس کیلئے جنگ پر آمادگی دینی وشرعی اختلاف نہیں لگتا۔وسیلہ تعظیم و شفاعت جیسے مسائل میں بہت لوگوں نے اختلاف کئے ہیں۔ اس پر باقاعدگی سے مناظرے بھی منعقد ہوئے ۔ جنہوں نے طلب علم کے لئے اختلاف کیا تھا انہیں سیر حاصل تشفی ہوگئی۔جنہیں صرف اختلاف سے ہی غرض تھا وہ اس میں لگے رہے ۔ سیکڑوں کتابیں آج مکاتب و لائبریری میں موجود ہیں جو ان مسائل کا خلاصہ کرتی ہیں۔اختلاف جب تک دین کے لئے تھا ، شرعی مسائل کی توجیہ و توضیح کے لئے تھا کہیں کوئی فتنہ وجود میں نہ آیا ۔ لیکن جب سے مسائل میں اختلاف شریعت میں ذاتی طبیعت کا عمل دخل ہوگیا ،طرح طرح کے فتنے پید ہونے لگے ۔ ہر گلی محلہ میں ایک مکتبہ فکر کا بورڈ نظر آنے لگا۔واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کا پیغام دینے والا مذہب خود سیکڑوں فرقوں کا مذہب ہو کر رہ گیا۔دور حاضر میں رونما ہونے والے فتنوں میں زیادہ تر ذاتی طبیعت اور انا نیت داخل ہے۔ورنہ ان مسائل کو لیکر جنگیں بعید از قیاس ہے ۔ آج اسلام کا نام لیکر مسجدوں ، درگاہوں، امام بارگاہوں اور دیگر مقامات مقدسہ کا انہدام اسلام کی شبیہ بگاڑ رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ تعجب اور حیر ت کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ تو وہ ہیں جو ایسے گھنونے کام انجام دے رہے ہیں۔دوسرے وہ جو محض اپنے عقیدہ کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے لوگوں کو صحیح گردان رہے ہیں اور اس کا الزام کسی اور پر لگا رہے ہیں۔آج ایک نام بہت آسان ہے ۔امریکہ! ہمیں ہمارے گریبان میں جھانکنے سے پہلے امریکہ کا نام ہمیں شہہ دیتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ امریکہ و اسرائیل جیسی یہودی اسلام دشمن طاقتیں ہمیشہ سے اسلام کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔روز اول ہی سے یہ طاقتیں اس تاک میں لگی ہیں کہ اسلا م کا یہ اگتا سورج کہیں کسی مغرب میں غروب ہوجائے ۔اس کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔موجودہ دور کی روش کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ دشمن طاقتیں اپنے ہدف میں قدرے کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔جس مذہب نے عرب کے سنگریزوں میں بھی چمن آباد کیا اور دنیا کی بد تر قوم کو قائد اور رہنما بنا دیا۔آج اسلام کے نام پر نام نہاد چند دولت و شہرت پسند اسی دور جاہلیت کو واپس لانے پر اڑے ہیں۔ہم بھی اس بات کو سمجھنے سے انکار کر رہے ہیں۔
جب قرآن میں تحریف تبدیل پر بس نہ چلا تو احادیث میں وضع شروع کر دی گئی ۔طرح طرح کے سوالات قائم کئے گئے ۔جو بھی معمولات اہل سنت ہیں اور شروع ہی سے جن روایات ہر عمل رہا انہیں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاکہ ان روایات کو مشکوک کردیا جائے۔یہ وہ روایات ہیں جو آپسی اتحاد ، خدمت خلق، انسان دوستی اور انسانی اقدار کی پاسداری کا سبق دیتی ہیں۔مذہب کے نام پر نفرت و کدورت کو مٹاتی ہیں۔ایسی روایات اور معمولات کو شک و شبہات کے گھیرے میں لا کھڑا کرنے کے پیچھے مقصد صرف اتنا ہے کہ ایسی شخصیات کی ذات کو مشکوک کردیا جائے۔چند ایسے افراد باقاعدہ تیار کئے گئے ہیں جن کا کام ہی سوال کرنا ہے انہیں اسی بات کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خود انہیں بھی ان مسائل سے آگہی نہیں ہوتی۔یہ زور قلم اور زعم علم کبھی اپنی انا کو ثابت کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا۔چند افراد نے اپنے تحریری وجو د کا مقصد ہی شاید یہ بنا لیا ہے کہ سارا زور قلم اسی میں صرف کیا جائے ۔چند قلم کار، پیشہ ور مقرر اور پڑھے لکھے ہونے کا ڈھونگ کرنے والے چند جاہل علماء اس کام میں بڑی پیشہ وری سے حصہ لے رہے ہیں۔انہیں بس موقعہ کا انتظار رہتاہے۔جیسے ہی اسلامی تقریبات آتی ہے یا کوئی ایسا دن آتا ہے جو کسی خاص اور اللہ کے نیک بندے صحابی ، اہل بیت سے منسوب ہوتاہے ۔سوالوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔اگر چہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔ابھی چند روز قبل ایک صاحب کو لگا کہ علماء کو سخت مغالطہ ہو گیا ہے ۔ صدیوں سے بیان ہونے والی روایت غلط ہے مسلمانوں کے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔حدیث شریف ہے کہ ’’حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘ان صاحب نے کہا چونکہ اس حدیث کی روایت میں ایک راوی مشکوک اور غیر ثقہ ہیں۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔یقیناًیہ ایک مستحسن عمل ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کا حقیقت سے کچھ تعلق ہو، تب ۔کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کی کئی روایتیں جان بوجھ کر وضع کی گئی ہیں۔موضوع حدیث کی روایت عظیم گناہ ہے۔ پیغمبر اعظم نے فرمایا جو شخص میری جانب جھوٹ کو منسوب کرتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم جان لے۔ لیکن یہ معاملہ کسی بات کو ثابت کرنے کیلئے نہیں بلکہ گمراہ کرنے کے لئے تھا۔جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس حدیث کو دس سے زیادہ طریقے سے روایت کی گئی ہے اور حدیث کی کئی کتابوں میں اس روایت کا ذکر ہے۔ دس سے زیادہ راوی عادل اور ثقہ ہیں جنہوں نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس حدیث کی روایت کی ہے ۔یہ ان مشہور حدیثو ں میں سے ایک ہے جسے اکثر بیان کیا جاتاہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے خواجہ اجمیر ی حضرت غریب نوازؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ لفظ خواجہ کے معنیٰ کو لیکر بھی اسی طرح کا معاملہ ہے ۔ لفظ خواجہ
کے ۲۵ سے زیادہ معانی ہے ان میں سے کسی ایک خاص لفظ کا انتخاب اس کے فکر کی عکاسی کرتی ہے بالخصوص جب اچھائی کی جگہ پر تنقیص کا معنیٰ اختیار کرکے اسی کو عام کیا جائے تو نفاق ظاہر ہو جاتاہے ۔
ایسے ہی ایک اور مسئلہ زیر بحث ہے ۔کئی دنوں سے یہ معاملہ موضوع گفتگو ہوتا آ رہا ہے ۔اہل بیت اطہار کے اسماء کے آگے علیہ السلام کا لاحقہ لگانے کے تعلق سے مواقف میں اختلاف ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ رضی اللہ عنہ لگانا چاہئے بعض کہتے ہیں کہ علیہ السلام کہنا چاہئے ۔دونوں اپنے اپنے اعتبار سے جو مناسب سمجھتے ہیں استعمال کرتے ہیں۔مسئلہ پرپیج اس وقت ہو جاتا ہے جب علیہ السلام کے موقف کو غلط کہنے کا موقف شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔چونکہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو قرآن نے پہلے ہی فیصلہ کردیا ۔’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ‘‘ (القرآن )۔تو اس لفظ کے استعمال میں کوئی دقت نہیں۔مسئلہ علیہ السلام کے استعمال کرنے میں ہے۔ کہ یہ لفظ انبیاء علیہم السلام کے لئے خاص ہے لہٰذا انہیں کے لئے خاص ہے غیر انبیاء کے ساتھ استعمال درست نہیں۔
استعمال نہ کرنا ایک الگ امر ہے لیکن اسے غلط و ناجائز ٹھہرانا مقام افسوس و حیر ت ہے ۔اس ہر اعتراض قابل اعتراض امر ہے ۔اور اگر اعتراض کرنے والا مسلمان ہو تو حیرت اور تعجب اور مزید ہو جاتا ہے ۔
علیہ السلام کا لفظی معنیٰ ’ ان پر سلام و سلامتی ہو ‘ہے ۔شرعی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر اسمیں کوئی قباحت اور حرج نظر نہیں آتا ہے ۔اس لفظ کا استعمال متعدد علماء کرام ، ائمہ ،فقہاء محدثین مفسرین نے اپنی سیکڑوں کتب تفسیر و حدیث میں کیا ہے ۔تفسیر مظہری ، تفسیر رازی،امام سیوطی،امام عسقلانی ، علامہ نبہانی شیخ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتابوں میں کئی بار اہل بیت پاک کے اسماء کے بعد علیہ السلام کالاحقہ لگایا ہے ۔
یہ اسلام کا اعجا ز ہے کہ اس نے مسلمانوں کو سلام کا تحفہ دیا ہے۔ایک مؤمن دوسرے مؤمن پر ہر ملاقات پر سلام و سلامتی پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ایک عام مسلمان ہر ملاقات میں علیہ السلام ہو سکتا ہے لیکن اہل بیت اطہار جن کی پاکی کے بارے میں قرآن میں آیت تطہیر نازل ہوئی ان کے آگے علیہ السلام لگانے سے اعتراض ہو تا ہے۔ واقعی حیرت افسوس اور تعجب ہے۔
ایک مؤمن کسی دوسرے مؤمن کا سلام لیکر جب پہنچتا ہے تو اس کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے وعلیکم و علیہ السلام ۔ اس جواب میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہر مکتب فکر کا یہی جواب ہوتا ہے ۔ آن کی آن میں ایک مؤمن علیہ السلام ہوگیا۔جس کے گھر کا عالم یہ ہے کہ بغیر اجازت حضرت جبرئیل بھی گھر نہیں آتے اگر اس خاندان کے مبارک ناموں کے آگے علیہ السلام کا لاحقہ لگایا تو اعتراض ہوتاہے ۔ ایک مسلمان اعتراض کرتا ہے تعجب ہے ۔
ایک محفل میں پہنچا ۔منظر یہ ہے کہ اس محفل میں مسلم اور غیر مسلم سبھی موجود ہیں ۔ سلام بھی کرنا ہے ۔ ایسے میں علما کہتے ہیں کہ سلام کے الفاظ تھوڑا بدل جائیں گے ۔ اب کہا جائے گا۔ السلام علی من اتبع الہدی۔اس پر سلام و سلامتی ہو جس نے ہدایت کو پا لیا۔ہدایت کی پیر وی کرنے والا ، اسے پالینے والا علیہ السلام ہو جاتا ہے ۔لیکن جو سر چشمہ ہدایت ہے ، منبع رشد و نور ہے ، جن کے بارے میں پیغمبر اعظم نے ارشاد فرمایا ان کے دامن کو تھامے رہنا گمراہ نہیں ہوگے ۔ان کو علیہ السلام کہنے پر اعتراض ہوتا ہے تعجب ہے ۔
ہر نمازی پر قعدہ میں التحیات پڑھتے وقت یہ دہراتا ہے ۔السلام علیک ایھا النبی اس کے جواب میں رسول گرامی وقار نے فرمایا السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔ خود نبی کی زبانی ہر صالح بندہ علیہ السلام ہو گیا۔ وہ بھی عین نماز کے دوران ہر نمازی ایک دوسرے مؤمن صالح بندوں کو علیہ السلام کا تحفہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔اسلامی روایت و تاریخ ، قرآنی انداز و اصول نے توہمیں یہی ادب سکھایا ہے ۔ جن پر خود اسلام اور نمازفخر کرے اس کے ساتھ علیہ السلام لگانے پر اعتراض تعجب ہے ۔
ہماری خود کی حالت یہ ہے کہ ہمیں خود ہمارے عقائد اعمال کی فکر نہیں۔ نظریات و خیالات کی پاکیزگی کا خیال نہیں۔توجہ الی اللہ پر نظر نہیں۔خدمت خلق کی جستجو نہیں۔سجدوں کا ذوق و شوق نہیں۔اخلاص و ایثار کا نام و نشان نہیں۔نہ حقوق اللہ کی ادائگی کی فکر ہے نہ حقوق العبادکی چاہت ہے ۔ہم ہماری ذمہ داری تو کما حقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔لیکن ہماری بحث کا موضوع وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے ارشاد فرمایا جا چکا ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی دامن تھام لوگے ہدایت پا جاؤگے۔شہرت کا یہ شوق کہیں ہمارے لئے جہنم کا ایندھن تو نہیں تیار کر رہا ہے ۔
خدارا اپنی تقریر و تحریر کو صحیح رخ دو ۔ اس طرح کی مجرمانہ غلط فہمی پیدا کرنا اور غلط بیانی سے کام لینا خود کی ہلاکت کا سبب ہے ۔ اس سے خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ!(القرآن)
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 email: abdulmoid07@gmail.comLike me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/


No comments:
Post a Comment