Friday, October 30, 2015

देश की राजनीति, कानून व्यवस्था, और अखलाक की रोज़ होती मौत Dying Law, System, Politics and ''Akhlaq'' in the Country ملک کے مرتے قانون ،اخلاق ا ور سیاست

देश की राजनीति, कानून व्यवस्था, और अखलाक की रोज़ होती मौत
Dying Law, System, Politics and ''Akhlaq'' in the Country
ملک کے مرتے قانون ،اخلاق ا ور سیاست
عبد المعید ازہری


کسی بھی ملک کے لئے سب سے مشکل کی گھڑی وہ ہوتی ہے جب کہ اس ملک کا نظام اور قانون خطرہ میں پڑ جاتا ہے ۔ اس عوام میں بے چینی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جاتا ہے جہاں یہ تصور عام ہو جاتا ہے کہ اب عدلیہ بے بس اور قانون کسی کی گرفت اور شکنجہ میں ہے ۔ یہاں یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ قانون کمزور ہے یا اسکا نفاذ کرنے والے نا اہل اور کمزور یا مجبور ہیں ۔ مجبوری خو د ایک نا اہلی اور کمزور ی ہے ۔ آج کے ملک نفرت وتشدد کی ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کی کبھی توقع نہیں کی گئی تھی ۔ تہذیب کا گلہ گھونٹ کر تمدن کو پھانسی دی جا رہی ہے۔کردار کے دامن کو داغدار کر کے اخلاق کو گھر میں گھس کر کچلا جا رہا ہے ۔ قانون بے بس اور لاچار ہے ۔ اس ملک کے سربراہوں کی آنکھوں میں غفلت و توہم کی ایسی گرد پڑ گئی ہے جنہیں یہ نظرہی نہیں آتا کہ ایک ہندوستانی اخلاق کا جنازہ دوسرے ہندوستانی کے ہاتھوں میں نکالا جا رہا ہے ۔ 
یہ غلط فہمی ہے کہ کسی خاص قوم کے اخلاق کو موت آ گئی ہے۔ اخلاق ہر قوم کے مر رہے ہیں۔کہیں جان لے کر تو کہیں جان گنوا کر ۔ اگر ایسے ہی اخلاق مرتے رہے تو ایک دن ایسا آ ئے گا جب اس ملک کا شمار غیر اخلاق ممالک میں ہوگا اور انسا نوں کی دنیا میں غیر اخلاق ملک کا تصور نہیں پایا جا تا ہے ۔ اس ملک کی شناخت پوری دنیا میں آ ج بھی اس کی تہذیب و تمدن کی وجہ سے قائم ہے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس ملک کو غیر اخلاق بنا نے میں کسی غیر کا نہیں بلکہ خود ہندوستانی کاہاتھ ہے ۔اس کے باوجود ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہے ۔ ملک کے وفادارہیں۔ یہ کیسی وفاداری ہے جہاں ملک کے وقار کو مجروح کر کے اس کے مقام کو پست کیا جاتا ہو۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ماں کی محبت کو عام کر نے کی بجا ئے دو بھائی ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔ یہ وہ ہندوستان تو نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ملک ہے ۔ اقبال کے اس رنگین ترانے کو منہ سے چھین لینے کا من کرتا ہے کیونکہ اب ہندوستان پر گاندھی کی پکڑ ڈھیلی ہو تی جا رہی ہے ۔ اس پر ناتھو کا رنگ صاف چڑھتا نظر آ رہا ہے ۔ تاتھو کے ہندوستان میں کھنڈر اور ویرانی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔ ہندوستان کو اپنے جا ن و مال کی قربانی پیش کر نے والے ہندوستانی آ ج نہ جا نے کیوں اپنی ماں کو رسوا کرنے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ ایک انگریز کی غلامی سے مل کر آزاد کرانے والے ہندوستانی آج اس ملک کو کئی طریقے سے غلام بنا رہے ہیں ۔ اگر اسے نفرت و تشدد کی آ گ میں جلا کر فرقوں میں تقسیم کرنا تھا تو خان عبد الغفار خان اور گاندھی جی نے مل کر آندو لن کیوں کیا تھا ؟اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ نے اپنی جانوں کی قربانی کیا اس لئے دی تھی کہ آ ج کا ہندوستان پریم اور اخلاق کو قربان کر کے سیا سی کھیل کا مزہ لے ۔ ملک کے اخلاق کی ہو تی اموات ملک کے تمام پرستاروں سے سوال کرتی ہے کہ جس ملک کے اخلاق کو پوری دنیا سراہتی ہے خود اسی ملک میں اس اخلاق کی اتنی قیمت ہے کہ اسے افواہوں کی بھینٹ چڑھا دیا جا ئے ۔ کیا اس ملک میں انسان کی قیمت جانور سے بڑھ کر ہے ؟
در اصل یہ ملک کے قانون کی موت ہے کہ دن بدن ملک کے اخلاق مرتے جا رہے ہیں ۔ یہ تو اس ملک کے اخلاق کی مضبوطی اورپریم کی گہری جڑوں کی دین ہے کہ فرقہ پرستی کے قدم جمنے نہیں پاتے ۔ چوں کہ فرقہ پرستی کو نہ تو پریم سے مطلب ہے اور نہ ہی کسی اخلاق سے کوئی لینا دینا ہے ۔ لہٰذا دونوں کو نت نئے بہانے سے کمزور کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سیا سی نا اہلی اور قانونی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ دونوں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں اور نفرت و تشدد فرقہ پرستی کو مضبوط کر کے بار بار زور آ زمانے پر اکسا رہے ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اخلاق کے قدم کتنے مضبوط ہیں اور پریم کی جڑ یں کتنی گہری ہیں ۔ وہ اس لڑائی کو ایک ساتھ کب تک لڑ پائیں گے ۔ 
آ ج کے حالات یہ ہیں کہ ملک میں لا علمی ، بے روزگاری اور معاشی تنگی جہاں ایک طرف انسان کو ذہنی طور پر کمزورکر رہی ہے وہیں دوسری طرف معاشرے سے بیزار و متنفر بنا رہی ہے ۔ اس پر سیاسی بد عنوانی اور قانونی کمزوری اسے مجرم بنا رہی ہے۔
فرقہ واریت ایک بیماری ہے۔ اس میں چند افراد ہی مبتلا ہیں ۔ لیکن ا س سے متاثر پورا معاشرہ بلکہ پورا ملک ہے۔ کیونکہ ملک کی سیاست و اقتدار میں چند مریض شامل ہو گئے اور وہ پورے نظام کو یا تو مریض بنا رہے ہیں یا کم سے کم متاثر ضرور کر رہے ہیں ۔ اس مرض سے متاثر ہو کر جو لوگ بھی اس کی حمایت پر آ مادہ ہیں انہیں یہ معلوم ہو نا چا ہئے کہ پریم جب افواہوں کی زد میں آ کر اپنے اخلاق کو قتل کر سکتا ہے تو اپنے سنگی ساتھیوں کو کب چھوڑے گا ۔ فرقہ پرست مریضوں کو یہ بات کون سمجھا ئے کہ پڑوس میں آ گے لگا کر خود کا گھر محفوظ نہیں ہو تا ۔کیونکہ لگائی ہو ئی آ گ فرقہ پرست نہیں ہے۔ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کر ے گی ۔ ملک کے ایک حصہ میں بے چینی اور بے اعتمادی پیدا کر کے دوسرے حصہ سے امن کی آشا کرنا عقلمندی نہیں ہے ۔ 
یہ اس ملک کا سیاسی زوال ہے کہ ملک ایک طرف ترقی یافتہ ہو نے کی کو ششیں کر رہا ہے لیکن جیسے ہی ترقی کے دہانے پر پہنچتاہے ملک کی داخلی سیاست پیروں میں زنجیریں ڈال دیتی ہے اور واپس ہونے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ایک طرف ملک بین الاقوامی سر گرمی کا حصہ بنتا ہے تو دوسری طرف اسی ملک کا کو ئی حصہ نفرت و تشدت کی آ گ میں جل اٹھتا ہے ۔ اس ملک کا ہر با شندہ اس سے خوف زدہ اور پریشان ہے ۔ افواہوں پر قتل ، چودھراہٹ میں کسی کو عریاں اور ذلیل کرنا ، رعب ظاہر کر نے کے لئے بستیوں کو نظر آ تش کرنا ، کسی کو زیر کرنے کے لئے اسے زندہ جلا دینا جیسے واقعات اس ملک کی تقدیر بنتے جا رہے ہیں ۔ ملک کے دانشور سیمناروں میں مصروف ہیں ۔سیا سی رہنما موقعہ بھنا رہے ہیں ۔ مسیحا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ قانون اپنی موت مر رہا ہے ۔ اخلاق اپنی موت مر رہا ہے ۔ ملک جل رہا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں ۔ نفرت و شدت کی یہ چھوٹی چھوٹی چنگا ریاں جس دن شعلہ بن گئے تو کسی کا بھی نشیمن محفوظ نہیں ہو گا ۔ 
ٌأ*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email; abdulmoid07@gmail.com

Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

No comments:

Post a Comment