Thursday, November 26, 2015

Who is next after Usama bin Ladin and Abu Bakr Bagdadi अबू बकर बगदादी और उसामा बिन लादिन के बाद अगला कौन? سامہ بن لادن ،ابو بکر بغدادی : اگلا کون؟


Who is next after Usama bin Ladin and Abu Bakr Bagdadi 
अबू बकर बगदादी और उसामा बिन लादिन के बाद अगला कौन?
اسامہ بن لادن ،ابو بکر بغدادی : اگلا کون؟
عبد المعید ازہری

پیرس پر ہوا حملہ یقیناًانسانیت کا قتل ہے ۔ہر انسان نے مذہب و ملت سے بالا تر ہوکر اس کی مذمت کی ۔ آج تک اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔ مذمت اور احتجاج کے جو بھی راستے ہو سکتے تھے استعمال کئے گئے ۔ فرانس کی عوام سے اپنی بھر پور ہمدردی کااظہار کیا ۔پیرس میں ہلاک ہونے والے انسانوں اور فرانس کی عوام سے ان لوگوں سے کیا رشتہ ہے جو احتجاج درج کر کے اپنی ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ایک انسانیت کے رشتہ کے سوا اورکیا رشتہ ہو سکتا ہے ۔اس حملہ کے بعد احتجاج میں آئی شدت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی بھی پید ہو گئی اور کہنے لگے کہ آخر فرانس کے انسانوں کا قتل ہی کیوں لوگوں کو نظر آیا۔ پچھلی ایک دہائی سے عرب اور افریقہ کے ممالک اس قتل و غارت گری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فلسطین تو اس خونی کھیل کا ایساعادی بن گیا مانو قتل ہونا ،تباہ ہونا اس کی تقیدیر بن گیا ہو۔ان ممالک میں ہوئے حملوں کے خلاف کسی نے اس شدت کے ساتھ احتجا ج نہ کیا ۔یہ بات تو سچ ہے کہ اس وقت بھی ایسے احتجاج درج ہونا چاہئے لیکن اگر آج لوگ کوشش کر رہے ہیں تو بھی اچھا اقدام ہے۔ کچھ لوگ تو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ مغرب کی جانب سے ہوئی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا بدلہ یا نتیجہ ہے ۔ اب کون سمجھائے اور کسے سمجھائے کہ یہ بدلہ مزید تباہی اور ظلم کو دعوت دینے والا ہے ۔جب سے پیر میں حملہ ہوا ہے اس کے بعد سے مسلسل وہاں اور اس کے قرب و جوار میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی خبریں آنی شروع ہوگئیں۔ سیریا سے بے گھر پناہ گزینوں پر مزیدمصائب آن پڑے ہیں۔انہیں ایک بار پھر سے بے گھر ہونے کی ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔مسلمانوں نے اس حملے کی مذمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ اتنی شدت کے ساتھ تو خود اسلامی ممالک میں ہونے والے فسادات اور قتل و غارت گری کے خلاف بھی زبان نہیں کھولی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان احتجاج کرنے والوں کے ایسے طعنے بھی سننے پڑ رہے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو سر عام قتل کیا جارہا تھا تب کسی کی زبان نہ کھلی۔ایک طرف تو مسلمان اپنی اسلامی اور انسانی ذمہ داری کا مظاہر کر رہا ہے دوسری طرف ایسے بیان جاری کر کے ان کی عقیدتوں کو قتل کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو جتنا احتجاج کرنا چاہئے تھا اتنا احتجاج نہیں کیا ۔ایک سوال اور بھی عوام کی طرف سے چند مخصوص احتجاج کرنے والوں سے کیا گیاہے کہ جب ٹیونیشیا سے لیکر مصر اور لیبیا ہوتے ہوئے عراق اور سیریا یکے بعد دیگرے تباہ ہورہا تھا تو یہ موقعہ پرست تنظیمیں کہا ں تھیں؟ آج جب خود امریکہ اور سعودیہ ملزم اور مجرم نظر آ رہا ہے تو یہ تنظیمیں سامنے آکر پورے ملک میں احتجاج کی بات کر رہی ہیں۔
فرانس کی راجدھانی میں ہوئے متواتر بم دھماکے ایک ساتھ کئی مسائل کا منہ کھولتے ہیں۔ اس تصویر کے کئی رخ ہیں ۔دولت اسلامیہ کی بنیاد پڑے کئی برس گزر گئے ۔ لیکن اس شدت کے ساتھ اس کی مخالفت نہیں کی گئی جتنی مخالفت فرانس میں ہوئے حملہ کے بعد کی گئی ۔ خود ان ممالک نے اس تنظیم کو غلط ٹھہرایا جن کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود اس دہشت گرد تنظیم کو مدد فراہم کرتے ہیں۔افریقہ ،عرب ، ایشیا سے لیکر ہندوستان تک اس کی سخت مخالفت کی گئی اور اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ۔یہ اور بات ہے کہ ابھی بھی چند لوگوں کوشک اور تردد ہے ۔ وہ فرانس میں ہوئے حملے کو تو دہشت گردانہ حملہ تصور کرتے ہیں لیکن اس تنظیم کو دہشت گرد ماننے میں ابھی بھی انہیں پس و پیش ہے۔ایک بڑا سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا فرانس سے پہلے اس کے حملے جائز تھے ۔یا پھر فرانس پر حملہ کر کے اس گروہ نے کسی خاص اصول ،ضابطہ یا معاہدہ کی خلاف ورزی کر دی ہے۔کہ جن پہ تکہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ایک بار اسامہ بن لادن کو پیدا کیا ، پالا، پرورش کی، استعمال اور مار دیا۔ اسی طرح ابو بکر بغدادی کو بھی پیدا کیا ،استعمال کیا اور اب مارنے کی تیا ری چل رہی ہے۔
سیریا کے بے گھر مسلمانوں کے ساتھ ویسے بھی اچھا رویا اختیا نہیں کیا جارہا تھا۔اب ان پر ظلم بالائے ستم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔فرانس کے علاوہ دوسری یوروپین ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی بد سلوکیوں میں اضافہ ہوگا ۔ پھر اس کا ری ایکشن ہوگا ۔ فائدہ کس کا ہوگا ؟اگر یہ مان لیا جائے کہ فرانس میں ہوا حملہ کسی عمل کا رد عمل تھا تو اس رد عمل کے بعد ہو رہے سلوک کا ذمہ دارکون ہوگا؟کیونکہ وہ عمل بھی تو کسی عمل کا رد عمل ہے ۔یہ وہ حالات ہیں جن میں عام انسان اپنا آپا کھو کر مشتعل ہو جاتا ہے ۔پھر اسے بدلے اور رد عمل کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ایسے میں اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں کے لئے آسان ہوجاتاہے کہ وہ اس طرح کے نوجوانوں اور مشتعل لوگوں کا بھر پور استعمال کریں۔یہ ایک سچائی ہے کہ داعش پچھلے دو برسوں سے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے ۔دوسروں کے ساتھ اس گروہ کے بھی تو افراد ہلا ک ہوئے ہونگے ۔ایسے میں اسے بھی مزید افراد کی ضرورت ہے۔ایسا کیا طریقہ کار ہے جس سے اس گروہ کو فوجی افراد فراہم ہو سکیں۔اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جس ملک میں بھی دہشت گردانہ حملہ ہوتے ہیں کیا اس ملک میں پہلے سے ایسے حکومت مخالف لیڈر ہوتے ہیں جو تختہ پلٹ کیلئے اس طرح کے حملوں میں ساتھ دے سکیں؟ یا پھر کیا خود گرتی ہوئی حکومت اس طرح کے واقعات کے بعد ہمدردی حاصل کرکے پھر سے اقتدار حاصل کر سکتی ہے ؟اسلام مخالف تنظیموں کے ساتھ اس دولت اسلامیہ کا کیا تعلق اور کس طرح کا تعلق ہوسکتا ہے جبکہ وہ خود اپنے آ پ کو مسلم کہتے ہیں؟اس گروہ کا عمل تو اسلام کا پتہ نہیں دیتا ہے ۔جس طرح اس گروہ کے ہاتھوں غیر مسلموں کا قتل ہوتاہے اسی طرح مسلمانوں کا بھی قتل عام اس دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔اسلام مخالف گروہ اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان رشتہ یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی اپنی ایک فکر ہے ۔ جو اس فکر کو مانتاہے وہی ان کے اعتبار سے مسلم ہیں اور انہیں ہی جینے کا حق ہے۔ ایسے میں تو اسلام مخالف تنظیموں کیلئے آسان ہوجاتاہے کہ وہ اس دہشت گرد گروہ کا استعمال عام مسلمانوں کے خلاف کرسکیں۔ اس دہشت گرد گروہ کیلئے بھی امکانات پید ہو جاتے ہیں کہ اپنے مفادیعنی افراد اور وسائل کے حصول کی خاطر ان کا ساتھ دیں۔
جہاں ایک طرف یہ کہا جاتاہے کہ اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں کا کوئی وجود نہیں ہوتاہے۔ یہ سب امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے ۔ دولت اسلامیہ کے نام پر جو لوگ بھی اس کام کو انجام دے رہے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ایک حقیقت تو واضح ہے کہ اس دولت اسلامیہ کی بنیاد اسلامی خلافت کے نام پر ہی پڑی تھی۔سیریا اور عراق میں لوگوں نے اس کا ساتھ بھی اسی بنیاد پردیا تھا۔پورے عرب اور افریقہ کی انتہا پسند فکریں اس کی حمایت کرتی نظر آئیں۔سوال یہ ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کے نام پر وجود میں آئی تنظیم مسلمان نہیں ہے تو اس پر تمام مسلم ممالک نے شروع ہی میں پابندی کیوں نہ لگا دی جبکہ وہ خود مسلم ملک میں پید ا شدہ تنظیم ہے ؟ وہیں پلی بڑھی جوان ہوئی اور اب وہیں اپنے پر و بازو پھیلا رہی ہے۔اتنے روز سے تنظیم صرف مسلم ممالک اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہی تھی اور کسی بھی مسلم ملک کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ اس کی روک تھام کا انتظام کرتا ۔ سیریا کے لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا گیا ۔پور اعرب خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہا۔پورا ملک اقتدار کی ہوس اور مفاد پرستی کی آگ میں جھلس گیا یہ مسلم ممالک اپنے محلوں میں آرام کرتے رہے ۔عراق انسانوں کے خون سے لال ہوگیا۔ پھربھی ان ممالک کو ہوش نہ آیاکہ یہودی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں ۔ انہیں روکا جائے۔ٹیونیشیا سے اٹھی چنگاری لیبیا کے راستے مصر ہوتے ہوئے سیریا اور عراق کو جلاتی رہی تھی اوریہ انتظار کر رہے تھے کہ کب یہ فرانس پر حملہ کریں اورہم اعلانیہ کہیں کہ یہ مسلمان نہیں۔
اس دولت اسلامیہ کی کرتوت پر صرف خاموش حمایت کا پردہ ہی نہیں ڈالا گیا بلکہ اس کی کھل کر حمایت بھی کی گئی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے ملک ہندوستان سے بھی ایک خط لکھ انہیں کچھ خاص وعظ و نصیحت کی گئی تھی ۔خط کی شروعات’’ امیر المؤمنین ‘‘کے لفظ سے کر کے اس کی خلافت کا اعلان بھی کیا گیا۔ہندوستان سے ہی کچھ طلبہ کے داعش میں شامل ہونے کی بھی خبر آئی تھی اور یہی نہیں ان کی جانب سے ایک ویڈیوں بھی جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے اس گروہ میں شامل ہونے کی گذارش کی تھی۔ اسی ملک میں داعش کے جھنڈے بھی نظر آئے ۔جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو کیا ہمیں ان میں کفر و نفاق نظر نہیں آرہا تھا ۔اس وقت جس نے بھی داعش کی مخالفت کی اسے ان چند نام نہاد مسلم رہنماؤ نے اسلام مخالف قرار دیا تھا۔دار الافتاء کے دروازے اس گروہ کی خدمت کر رہے تھے شاہی فرمان کی طرح فتوے جاری کئے جارہے تھے۔مصر پہلا وہ ملک رہا جس نے اس طرح کی دہشت گردی پر سب سے پہلے قابو حاصل کیا اس طرح کے فتوی فروشوں کو گمراہ قرار دیا ۔
عراق کے وزیر اعظم نے اس گروہ کے بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان جاری کیا ہے کہ یہ گروہ وہابیت کی فوجی شاخ ہے۔داعش کے ذریعہ پیرس میں ہوئے حملے پر خصوصی گفتگو کے لئے ایک ٹی وی چینل پر مدعو معروف دانشور قمر آغا نے بیا ن دیا کہ وہایبت جڑ سعودی سے ہندوستان کے دار العلوم دیوبند تک پہنچتی ہے۔اس طرح کے کئی ایسے بیان ہیں جو اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ داعش میں موجود لوگ نماز و روزہ اور جہاد کے نام پر ہی لوگوں کا استعمال کر رہے ہیں۔جس دن داعش سرغنہ ابو بکر البغدادی نے اپنی خود ساختہ خلافت کی اعلان کیا تھا اسی کے بعد اسے ایک مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے دکھایا گیا۔داعش اور وہابیت کے درمیان تعلق پر کئی قلم کاروں نے متعدد تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ہندوستان کا اکثریتی طبقہ شروع سے ہی اس فکر کی مخالفت کرتا رہا ہے ۔علماء مشائخ اور دانشوروں نے کھل کر اس کے خلاف بیا دیاہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ القاعدہ ، طالبان اور اخوان المسلمین جیسی تمام تنظیمیں مسلمانوں کی تنظیمیں نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے یہودیوں اور صہیونیوں کا ہاتھ ہے ۔ تو کیا اس بات سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے کہ اس سازش کا شکار اور آلہ کار مسلمان نہیں تھا۔ پچھلی ایک دہائی میں پورے اسلامی ممالک میں خونی کھیل میں کس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔دس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہوش نہیں آیا کہ اس خونریزی سے قوم مسلم کو بچایا جائے۔آج جب اسلام مخالف جماعتوں کا مقصد پورا ہو گیا تو انہیں اچانک سے اس دہشت گرد تنظیم کے سد باب کی فکر ستانے لگی ۔اب تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ دولت اسلامیہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو خود امریکہ اور اسرائیل نے بنایا ہے۔جس طرح سے القاعدہ جب روس پر حملہ آور تھا تو وہ مجاہد تھے اور جب ان کا رخ بدل گیا تو وہی دہشت گرد ہو گئے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگ و جدال کیلئے افراد اجرت پر لئے جاتے رہے ہیں۔یہی معاملہ ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ بھی ہے کہ ان سے اجرت پر کام لیا جاتا ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ آخر جنگ میں کام آنے والا ہر لڑاکا تواجرت پر نہیں ہوتا تو ان کس طرح سے ورغلایا جاتا ہے ۔یہی فکر دہشت کی جڑ بھی ہے اور اس کا حل بھی ہے ۔ تمام طرح کے دہشت گرد گروہ اسلام مخالف تنظیموں اور ممالک کے بنائے ہوئے ہیں لیکن کیا اس میں خود مسلمان شامل نہیں ہوتا۔انہیں پناہ دیتا ہے۔ ان سے فائدہ حاصل کرتا ہے ۔سیاسی اقتدار میں ان کی مدد حاصل کرتا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ داعش کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔داعش ایک خاص فکر کی پیدا وار ہے یا پھر اسے ایک خاص فکر پر پید کیا گیا ہے ۔ اس خاص فکر ہی کی وجہ سے ان کی تلواروں اور دھماکوں کی زد میں وہ مسلمان بھی آتے ہیں جو اس فکر کو نہیں مانتے ہیں۔ اس گروہ نے کھلے عام مسجدوں ، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر بلڈوزر چلائے اور انہیں بم سے اڑایا ۔ مسلمان اس عمل کے خلاف ہے ۔اسلام نے تو اسلامی آثار و باقیات کی حفاظت کا حکم دیا ہے ۔ خالق کائنا کی جانب سے قرار شدہ نشانیوں کو محفوظ رکھنا ۔ ان سے عقیدت رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ۔ مسلمان اس ذمہ داری کو پچھلی ایک صدی سے ادا کرتا آ رہا ہے ۔تیرہویں صدی میں ایک فکر آئی جس نے ان تما م چیزوں کو شرک اور بت پرستی کا اڈہا کہہ کر ان کے مسمار کرنے کا عمل شروع کر کے اسلامی آثار کے انہدام کی بنیاد ڈالی ۔انہیں آج بھی اسلامی آثار و تاریخ سے کوئی لگاؤ نہیں۔ پورے عرب ممالک میں موجود آثار کو بیچ کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم اسلام کی قدیم تاریخ میں یقین نہیں رکھتے ہیں آنے والی صدیاں اسلام کو ہمارے تاریخ سے جانیں گی۔اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ اور اس امن و محبت کی روایت مسمار کر کے رکھ دیا ۔داعش ، القاعدہ ، طالبان اور اخوان المسلمین ہم ایک گروہ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے یہ کوئی گروہ نہیں بلکہ ایک فکر ہے جو اس طرح کو گروہ پید ا کر رہی ہے ۔ایک گروہ ختم ہوگا تو اس کی جگہ دوسرا آجائے گا۔ اسامہ بن لادن کی جگہ ابو بکر بغدادی اس کے بعد کوئی اور آئے گا۔
اگر ہم واقعی اس طرح کے انسان مخالف دہشت گردانہ حملوں کے مخالف ہیں تو گروہ کی بجائے یا گروہ کے ساتھ ساتھ ایسی فکر کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ان تما آوازوں کو ایک ساتھ کریں جو جہاں سے بھی جس انداز سے بھی اس طرح کی آواز بلند کر رہا ہے ۔سوچئے ابھی وقت ہے ۔ شاید کہ کوئی بات تیرے دل میں اتر جائے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com , Mob: 09582859385



Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

No comments:

Post a Comment