My New Article:
"Do Kashti Par Sawaar Insani Muashra"
"दो कश्ती पर सवार इंसानी समाज"दो रंगी छोड़ कर एक रंग हो जा, सरासर मोम या फिर संग हो जा !
Stop leading a duel standered life. either be like wax or stone
دو کشتی پر سوار انسانی معاشرہ
عبد المعید ازہر
دور حاضر کی دو رخی زندگی انسان کو انسانی رشتوں سے ایسے دور کرنے پر آ مادہ نظر آتی ہے مانو نسل انسانی کی تجدید کاری ہو رہی ہو ۔ آج کا فلسفہ یہ فکر پیدا کر رہا ہے کہ انسان پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مسلمات کو توڑ کر آ گے بڑھے ۔ یہ دو رخی رویہ انسان کی زندگی کو بڑی تیزی سے متاثر کر رہا ہے ۔ موجودہ وقت میں ایک معاشرہ تشکیل پا چکا ہے جو اس دورخی نظریئے پر زندگی بسر کر رہا ہے ۔ انسانی زندگی کے چھوٹے شعبوں سے لے کر بڑ ے اوراہم شعبوں میں اثر انداز ہوتا جا رہا ہے ۔ پہلے لوگ دو نام رکھتے تھے ۔ اصل نام کے علاوہ ایک عرفی نام کی روایت پیدا ہو ئی اور یہ خوب چلی ، تاریخی اعتبار سے دیکھا جا ئے تو یہ روایت ملتی ہے ۔ ایک شخص کے دو سے زائد نام ہو تے تھے لیکن در اصل وہ نام نہیں بلکہ القاب اور کنیت ہو تے تھے ۔ یعنی کسی شخص کے فرزند کا نام نواز ہوا تو اس شخص کی کنیت ابو نواز ہو گئی ۔ اسی طریقے سے اس شخص کی خدمات کو دیکھتے ہو ئے لوگوں نے القاب و آداب کا استعمال شروع کر دیا ۔ تو نام کے ساتھ اشرف اور اعلیٰ جیسے الفاظ انکی خدمات کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کئے جا نے لگے ۔ یا پھر کسی خاندان کا ایک موروثی نام ہو تا ہے جو کہ اس خاندان کے ہر فرد کے آ گے لگتا ہے جس سے ان خاندان کی شناخت بر قرار رہے ۔ اس طرح ایک نام کے ساتھ موقعہ، محل اور ضرورت کے مطابق کئی الفاظ کا لا حقہ شامل ہو گیا جو بظاہر کئی ناموں کی شکل میں نظر آ تا ہے ۔ بسا اوقات ان لاحقوں کا بڑی بے دردی سے استعمال ہوتا ہے ۔ ایسا مبالغہ ہوتا ہے کہ پوسٹر میں دو سے زائد لائنیں صرف آداب والقاب کی ہو تی ہیں ۔ قاری تشویس میں پڑ جا تا ہے کہ اس میں نام کہاں ہے یا پھر یہ کہ یہ کسی کا نام ہے یا کسی خطاب کی تمہید ہے ۔ اس بری روایت کا عادی شخص یا افراد ہر میدان میں ملیں گے۔ انتخابی امید وار کے پوسٹر پر نظر ڈالو تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ بسا اوقات الفاظ اپنے آ پ کو کو س رہے ہو تے ہیں کہ اس بے استعمال سے تو اچھا تھا کہ ہمیں بھلا دیا گیا ہو تا ۔ پانچ برس میں ایک بار انتخاب کے وقت نظر آنے والا شخص جسے خود اس کے خاندان کے لوگ نہیں جا نتے ،اس کے بارے میں لکھا ہوتا ہے ’’ہر دل عزیز ، معروف سما جی کا رکن ‘‘ اسی طرح زندگی کا ہر چھوٹا بڑا عمل خواہ اہمیت کا حامل ہو نہ ہو ، موقعہ و محل کی مناسبت کا خیال رکھا گیا ہو یا نہ ہو، ایک بار سعودیہ کا سفر کر لیا تو فاتح عرب سے کم لقب میں کام نہیں چلے گا اگر چہ وہ خادم الحجاج کے نام پر نو کری ڈھونڈھنے گئے تھے ،واپس کر دئے گئے ۔ بہر حال ناموں کے ساتھ کنیت اور القاب کے جو لاحقے ہیں ان کی تاریخی حیثیت ہے لیکن پیدا ہونے کے ساتھ ہی دو نام رکھنے کی روایت شاذونادر ہے ۔ کہیں کہیں تو حالات ایسے ہیں کہ عرفی نام کے چکر میں اصل نام ختم ہی ہو جا تا ہے اور کبھی اصل ناموں کو اتنا چھپایا جاتا ہے کہ خاندان اور پڑوس کو بھی خبر نہیں ہو پا تی ۔ آ ج اس عرفی نام پر بڑے مظالم ڈھا ئے جا ر ہے ہیں ۔ اس پر اتنی قینچیاں چل رہی ہیں کہ لگتا ہے کہ چھوٹا کر تے کرتے اگر بس چلے تو منہ کھولے بھر سے نام لے لیا جا ئے ۔ناموں کو چھوٹا کرنے کا شارٹ کٹ رواج کبھی کبھی مضحکہ خیز کے ساتھ تو ہین آمیز کی حد تک چلا جا تا ہے ۔ ان عرفی ناموں میں آ ج تو ایسی کوشش ہو رہی ہے کہ ایسے الفاظ ہوں جس سے اس کا مذہب ، ذات یا خاندان کا پتہ نہ چلتا ہو۔آج ہم کس سماج میں جی رہے ہیں جہاں ہم سے ہماری مذہبی اور قومی آزادی چھینی جا رہی ہو۔ ایسا خوف کا ماحول بن گیا ہے کہ لوگ اپنے مذہب اور اپنی برادری کوچھپانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ہمار ا معاشرہ ایسا تو نہیں تھا اور نہ ہی ہمارے بڑے نے اس معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی۔ آج کے معاشرے میں ایسے کئی نام لانچ ہیں جو ہر مذہب اور برادری میں یکساں چلتے ہیں ۔ اس کے پیچھے لوگوں کو گمراہ کرنا مقصد ہے یا مذہب وذات کی تفریق ختم کرنا ہے یہ تو نام رکھنے والے ہی جانتے ہیں ۔ عرفی ناموں میں سیکو لر الفاظ کی روایت جب پڑھ لکھ کر کام کرنے والی ہو گئی تو اس کا رواج دو کانوں اور کمپنیوں میں بھی ہونے لگا ۔ فلمی دنیا کا معاشرہ تو اس کا عادی ہو چکا ہے۔ اکثر کو اصل نام سے نہیں جانا جا تا ہے۔ ایک مسلمان ہندو نام سے شہرت و مقبولیت آسمان کو چھو رہا ہے اور ایک ہندو مسلمان کے نام سے مشہور و مقبول ہے ۔ اس دو رخی روایت کو قبول کرنے کے پیچھے موثر وجوہات کی تلاش اشد ضروری ہے ۔ آخر یہ فکر ہمارے معاشرے پر کیسے غالب ہوتی جا رہی ہے کہ انسان کی اہمیت انسان کی ذات اس کے اپنے وجود و کردار سے نہیں بلکہ اس نام سے ہے ۔خود انسان کے ہاتھوں انسانیت کا گرتا ہوا یہ وقار ومعیارنسل انسانی کی توہین ہے ۔ یہ روایت انسان کی ذات اور اس کے وجود پر حملہ ہے ۔ نسل انسانی کی ابتدا سے لے کر اب تک یہ فکر ہر دور اور معاشرے میں مضبوطی سے قائم رہی کہ انسان بحیثیت انسان برا بر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فکر کو ہر دور میں انسانی راہ سے بھٹکے ہو ئے انسان نے چیلنج کیا ۔ اور اب تک کر رہے ہیں لیکن یہ قدیم تصور اب تک باقی ہے۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ کسی بھی ذات ، خاندان یا مذہب کی شناخت سے پہلے انسان ہوناضروری و لازمی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسا نیت کو ہر مذہب نے فوقیت دی ہے ۔ اور واضح کیا کہ جو انسان انسانیت کا حامل نہیں وہ مذہب کا وفادار نہیں ہے ۔ مذہب کے نام پر ہو رہے تمام فسادات کا تجزیہ کرنے والوں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح رہنی چا ہئے ۔ تاریخ انسانی میں ایسے کئی دور آ ئے جب اس قدیم فکر سے سیدھا تصادم ہوا ۔ انسان نے خدا بننے کی کوشش کی ۔ تاریخ شاہد ہے وہ غرق آب ہوا۔ وہ فکر مٹی میں مل گئی ۔ نسل نیست و نابود ہو گئی ۔ یہ فکر ایک سچائی ہے ۔ اور حقیقت کبھی مٹتی نہیں ہے ۔ ہاں کبھی کبھی حقائق پر پردے پڑ جاتے ہیں لیکن یہ حجابات اٹھتے ہیں۔ کفر ٹوٹتا ہے پتھر بولتے ہیں ۔
اس دو رخی رویہ کا تعلق صرف ناموں تک محدود نہیں بلکہ یہ تو انسانی خونی رشتوں میں داخل ہو گیا اور آج کے دور میں ایک اصطلاح بھی قائم ہو گئی ۔ دوسرے مذہب میں شادی سیکو لر ہو نے کا ثبوت اور سرٹیفکٹ ہے ۔ یہ ایک ایسی سیاسی اور معاشرتی محرومی ہے جو انسانی اقدار کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کا کام کر رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی رشتہ کافی نہیں جس کے لئے سیکو لر ہونے کا ثبوت مہیا کرنا پڑے ۔ اس ثبوت کی ضرورت کیوں ہے اور کسے ہے ۔کیا کسی انسان معاشرے میں جینے کے لئے سیکولر ہونا ضروری ہے ؟کیا سیکولر ہونے کے لئے غیر مذہب میں شادی لازمی ہے ؟ یا پھر یہ روایت اس فکر انسانی سے ایک شو قیہ تصادم ہیجو اپنے پختہ اصولوں کی وجہ سے زندہ ہے ۔ جب ایک مذہب خود دوسرے مذہب کو روپوش نہیں کرتا اور نہ ہی ہماری قانون ہم سے ہماری مذہبی آزادی چھینتا ہے تو آخر ہمارے معاشرے میں یہ مذہبی پابندی جیسے ماحول کیوں بنتے جارہے ہیں؟ کون بناتے ہیں اور کون اس ماحول کو توڑے گا ۔کیا ہم کسی خدا پیغمبر کا انتظار کر رہے ہیں یا پھر پیغمبرانہ تعلیم کے ذریعے ہمیں خود ہی معاشرے کو اس بیماری سے نجات دلا نا ہو گا ورنہ پوری نسل انسانی بیمار پڑ جائے گی ۔
شادی صرف دو انسانوں کے مل جانے کا نام نہیں ہے ۔ نسل انسانی کی دو جنسوں کے ساتھ دو الگ الگ تہذیب،ماحول ،رہن سہن، عادات اور طبیعت ملتے ہیں ۔ انسان ہو نے کے علاوہ سب کچھ جدا ہوتا ہے ۔ اور یہ تو جگ ظاہر ہے کہ دو الگ الگ تہذیبیں ایک نئی تہذیب کو جنم دیتی ہے ۔ ان تمامر تفریقات کے باوجودجو فکر ایک دوسرے سے قریب کرتی ہے
اسے مذہب کہتے ہیں۔ ویسے لا دینیت بھی ایک مذہب ہے۔اب اگر دو مخالف جنسوں کو ایک کرنے والی فکر ہی میں مغایرت ہو تو نئی تہذیب میں نیا فرقہ اور نیا فتنہ جنم لیتا ہے ۔
جب انسان کے مرکزی مذہب سے اعتماد اٹھتا ہے تو اس طرح کی بے چینیاں معاشرے میں پیدا ہو نے لگتی ہیں ۔ ساری انسانیت کے پیشوا ، پیغمبر اعظم نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ شادی میں ’’کفو‘‘یعنی برابری کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ رنگ میں ، نسل میں ، قدو قامت میں ، عمر و عادت میں ، حیثیت اور مرتبہ میں اور خصوصیت کے ساتھ مذہب میں برابری لازمی ہے تاکہ دو جنسوں کا فطری تصادم نہ ہو نے پا ئے ۔ مذہبی برابری کی پابندی اسلئے بھی ہے کیونکہ رنگ ونسل ، امیر و غریب ، عرب وعجم اور تمام تفریق کو ختم کرکے محمود و عیاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے کا کام مذہب ہی کرتا ہے ۔
*****Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Mob: 09582859385

No comments:
Post a Comment