Tuesday, June 14, 2016

Yes, I am on fast but I eat too.रोज़ादार हूँ ! बस खाता पीता हूँ روزہ دار ہوں ! بس کھاتا پیتا ہوں

My Second Article on Ramzan: Yes, I am on fast but I eat too.....
रमज़ान पर मेरा दूसरा आलेख: मैं रोज़ादार हूँ ! बस खाता पीता हूँ 
رمضان پر میرا دوسرا مضمون : میں روزہ دار ہوں ! بس کھاتا پیتا ہوں 
روزہ دار ہوں !بس کھاتا پیتا ہوں

عبد المعید ازہری

ماہ رمضان میں شب و روز کی اپنی الگ رونق ہوتی ہے۔یہ رونق کسی شادی کی تقریب یا کسی مخصوص خوشی کی تقریب سے بھی الگ ہوتی ہے ۔ہر عمر کے لوگوں میں الگ قسم کی رونق جھلتی ہے ۔مذہب اسلام مسلمانوں کے درمیان جس اخوت اور یکجہتی کی تعلیم و تربیت کی جانب اشارہ کرتا ہے کافی حد تک وہ اس ماہ مبارک میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔غریبوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی سے لیکر آپسی میل جو ل اور مصالحت کا عملی نمونہ نظر آتاہے ۔بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت اور محبت کا معاملہ دیکھنے کو مل جاتاہے ۔اس ماہ میں تراویح کے بعد اور افطار سے پہلے اسکی تیاری کیلئے نوجوانوں کا ایک ٹولہ عام سے بازاروں سے گزرتا ہے ۔افطار کی تیاریوں کیلئے کھانے پینے کا سامان خریدتا ہے ۔ پورے راستے جاننے والے اور کم جاننے والوں سے بھی حال خیریت دریافت کرتا رہتا ہے۔کچھ لوگوں میں یہ جزبہ خلوص کے ساتھ پیدا ہو جاتاہے ۔ کچھو لوگ رسما اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔ تبلیغ کا بھی ایک الگ ہی ماحول ہوتاہے ۔ بڑے بھی اس ماہ میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ چھوٹے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں تبلیغ کا ایک الگ جزبہ بیدار ہوتا ہے ۔انہیں لگتا ہے اس دولت سے کوئی محروم نہ رہنے پائے ۔کچھ لوگ اس بات کا بھی بدلہ لیتے ہیں کہ سال کے باقی مہینے میں تبلیغ کا سارا زور ہم نوجوانوں پر ہی آزمایا جاتا ہے کیوں نہ اس مہینے ہم بھی اس کا ر خیر کے حصہ دار بن جائیں۔
ایسے ہی نوجوانوں کا ایک ٹولہ گاؤ کی گلیوں سے گزر رہا تھا ۔بازار شروع ہوتے ہی نکڑ پر ایک شخص پردے کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس جماعت کو اس شخص تک پہنچنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی ۔ قریب پہنچ کر اس شخص کے متعلق ہر فرد کے چہرے کا جغرافیہ بتا رہا تھا کہ انہیں بڑی تکلیف ہوئی ہے ۔عصر کی نماز کے بعد مغرب کی جانب گزرنے والا وقت ویسے بھی صبر آزما ہوتا ہے ۔ایسے میں اس جماعت نے دیکھا کہ وہ شخص لوگوں سے نظریں بچا کر کچھ کھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔نوجوانوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ’’ آپ روزہ نہیں ہیں کیا‘؟ اس شخص کو جواب سن کر سب کانپ گئے ۔ اس شخص نے کہا می’’ں روزہ دار ہوں بس کھاتا پیتا ہوں‘‘۔ نوجوانوں کی حیرت میں اضافہ ہو گیا ۔ اس شخص نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا ’’میں روزہ دار ہوں کیونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں ، غیبت سے باز رہتا ہوں ۔چغل خوری سے دور ہوں۔ نمازوں کا پبند ہوں۔لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں۔ حلال روزی کھاتا ہوں۔حرام سے اجتناب کرتا ہوں ۔ جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا انہیں کرتا ہوں اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان کے قریب نہیں جاتا ۔اس ماہ زیادہ سے زیادہ صدقہ دیتا ۔ اس مہینے اپنے آپ کو تیار کرتا ہوں پھر پورے سال اس تربیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔بس میں بیمارہوں مجھ سے بھوکا رہا نہیں جاتا ۔ اسلئے میں کھا پی لیتا ہوں لیکن اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ چھپ کر کھاؤ ں پیوں‘‘۔ اس شخص نے اپنی تقریر ختم کی اور نادم نگاہوں کو نوجوانو ں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا کہ معاف کرنا آپ لوگ تو روزہ دار ہونگے ۔ نوجوانوں نے نظریں نیچی کئے ہوئے جواب دیا’’ نہیں ہم روزہ دار نہیں ہے بس کھاتے پیتے نہیں‘‘۔
نبی کریم ؑ نے کئی مقامات پر رمضان میں روزوں کی فضیلت بیان فرمائی ۔روزہ کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اس روزہ کا بدلہ خود رب تعالیٰ دیتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق روزے کے بدلے میں خود پروردگار مل جاتا ہے ۔ اس کی رضا اور قربت مل جاتی ہے ۔بیشک روزہ کھانے پینے اور خواشات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آخرمسلسل ایک مہینہ تک یہی عمل کیوں دہرا یا جاتا ہے ۔مقصد واضح ہے کہ یہ ایک مہینہ کی تربیت ہے تکہ پورا سال انسان دوست زندگی گزار سکیں۔اس ماہ انسان فطرت کے بہت قریب ہو جاتا ہے ۔بھوکا ہونا ،ایک دوسرے انسان کے لئے نفع بخش ہونا ، معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس کرنا، آسمان کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود زمین پر نظریں رکھنا فطرت ہے ۔ انسان کی کامیابی کے راستے بھی یہی ہیں۔یہ مہینہ انسان کو انسان سے ملاتا ہے۔ اسے جاننے کا موقعہ دیتا ہے ۔سانئس نے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ اس پورے ماہ روزہ رکھنے سے انسان کا بدن اور قوی ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ماہ کئی بیماریوں سے حفاظت کا ضامن بھی ہوتا ہے ۔ جسم کے ساتھ روح کی پاکیزگی بھی اس ماہ کے اہم مقاصد میں سے ہے ۔صوفیوں کا طریقہ رہا ہے جب انہیں خدا کی یاد زیادہ شدت سے بے چین کرتی ہے تو وہ تیس سے چالیس روز تک روزے کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔
ایک مہینے کا جو دستور ہوتاہے در اصل یہی دستور انسان اور یہی دستور اسلام ہے ۔اسلام دین فطرت ہے ۔سحری سے لیکر افطاری اور تراویح تک ،تلاوت سے لیکر اعتکاف تک ہر لمحہ انسان فطرت کی خوبیوں سے روبرو ہوتا ہے ۔ کائنات کی فطری خوبیوں کا جو وقت ہوتا اور جو اس کا موقعہ ہوتا اس مہینے ہر روزہ دار اس کے لئے تیار رہتا ہے ۔صبح صادق کے وقت اٹھنا ، سحری کرنا ، نماز فجر کے بعد تلاوت کرنا اس کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کرنا‘یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے عام دنوں میں انسان محروم رہتا ہے ۔صبح صادق اور فجر کے وقت کا جو موسم اور فضا ہے وہ کسی اور وقت میں میسر نہیں۔اس مہینے فجر کے بعد ایک الگ ماحول ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے سے جس محبت کے ساتھ ملتے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ مسجد میں موجود ہر نمازی ایک دوسرے کا رشتہ دار ہے ۔ کسی کے دل میں کسی کے خلاف کوئی خلش معلوم نہیں ہوتی ۔ اسی رشتہ کے بارے میں تو پیغمبر اعظم ؑ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مؤمن آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
صدقہ ،زکوٰۃ و خیرات کا شوق بھی پیدا ہوتاہے ۔ کبھی کبھی تو صدقہ و خیرات کی ہوڑ لگ جاتی ہے ۔ گھر کاہر فرد صدقہ کر رہاہوتاہے ۔ ورنہ دیگر ایام میں اس عمل کو گھر کے کسی بزرگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔غریبوں کی مدد اوریتیموں کے سروں پر ہاتھ بھی رکھے جاتے ہیں۔ بیواؤ کو تلاش کر کے ان کی حاجت پوری کی جاتی ہے ۔کسی فقیر اور مسکین کو جھڑکا نہیں جاتا۔ضرورت مندوں سے ایک قسم کی قربت ہو جاتی ہے ۔کھانا کھلانے کا اہتماکیا جاتا ہے۔ دعوتوں کا بڑے پیمانے پر اہتمام ہوتا ۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ ہمارے گھر پر زیادہ سے زیادہ لوگ افطارکریں۔بچے بھی افطار کرانے سے خوش ہوتے ہیں۔عورتیں بھی خوش ہوتی ہیں ۔ اگر چہ ان کا کام کافی بڑھ جاتا ہے لیکن جب لوگوں کو کھانا کھلانے کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ بھی اس کار خیر سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ پاتی ہیں۔ جس دن زیادہ لوگ نہیں ہوتے تو پڑوس میں افطار بھیجنا نہیں بھولتیں۔ دوچار لوگوں کا زیادہ افطار تیار کرتی ہیں۔
یہی وہ انسانی فطرت ہے جس کا تقاضہ اسلام کرتاہے۔یہ مہینہ ہماری تربیت کرتاہے ۔ ہمیں پورے سال کیلئے تیار کرتا ہے ۔ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ہم اس خاک دان گیتی پر کس لئے آئے ہیں۔ حق کی معرفت اسی میں پوشیدہ ہے ۔ حق تک پہنچے کا یہی راستہ ہے ۔بھوک انسان کو بہکاتی ہے ۔ جب بھوک کی حالت میں انسان صبر اور شکر سے کام لیتا ہے تو عام دنوں میں نیکو کار ہو جاتا ہے ۔بھوک روح کی غذا ہے جس طر ح کھانا جسم کی غذا ہے ۔ روح کو قوی و تندرست رکھنے کیلئے بھوک بہت ضروری ہے ۔ یہی وہ حالت ہے جب روحانیت بڑھتی ہے او ر اسرار و معرفت کے دراوازے کھلتے ہیں۔ پھر ایک الگ انسان کا وجو د ہوتاہے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com

Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Friday, June 10, 2016

Be kind on Human अधिक से अधिक मानव सेवा करें بندوں کی د ل جوئی کا خاص خیال رکھیں

Be kind on Human in this holy Month

 इस पवित्र महीने में अधिक से अधिक मानव सेवा करें

بندوں کی د ل جوئی کا خاص خیال رکھیں
عبد المعید ازہری

’’ چچا رمضان المبارک کے پاک وپاکیزہ مہینے کی قدر کیجئے ۔ یہ برکتوں کا مہینہ ہے۔ اسے یوں بے قدری سے ضائع نہ کیجئے ۔ذرا احتیاط سے کام لیجئے ۔ ایک تو آپ روزہ نہیں رکھتے اوپر سے یوں کھلے عام کھاتے پیتے نظر آ رہے ہیں۔اس مہینے میں تو غیر بھی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور روزہ دار کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک نوجوان روزہ دار نے ایک ضعیف العمر شخص سے سے کہا ۔بڑی سنجدگی ،اطمنان اور متانت سے اس معمر شخص نے جواب دیا ۔’’برخور دار میں بھی روزہ دار ہوں بس کھا پی لیتا ہوں ‘‘نوجوان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کافی دیر تک منہ کھلا رہا اور حیرت سے بزرگ کو تکتا رہا ۔انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی ۔’’جب ایک شخص پڑوسی کا حق مار کر اپنے خالق و مالک کی حقوق کو فراموش کرکے، بندو کا حق مار کر مسلمان رہ سکتا ہے تو میں کھا پی کر بھی روزہ دار کیوں نہیں رہ سکتا۔اس مسلم قوم کے بارے میں تو قرآن پاک اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ بہترین امت ہے جسے لوگوں کی ہدایت کے لئے منتخب کیا گیا ۔اچھی باتوں کی ترغیب اور برے کاموں سے چھٹکارا دلانے کے مامور کیا گیا ہے ۔ آج اسی کی رہبری پر سوال ہے ۔سماجی ذمہ داروں سے لیکر مذہبی رہنماؤ تک سب نے امت مسلمہ کے تابناک مستقبل پر سیاہی ڈالنے میں اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھا ۔تصادم ، تعصب ، منافرت اور منافقت کا ایساجال بچھ گیا ہے کہ مسلمان کی فکر محدود بلکہ مفلوج ہو کر رہ گئی ۔تایخ اس پر ہنستی ہے ۔مذہب کو’ جو انسانی ترقی کا نہ صرف ضامن ہے بلکہ انسانیت کا علمبردار ہے‘ اسے چند نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں نے بنی نوع انساں کے پیروں بیڑی اور فکر و بیان پر تالا بنا ڈالا۔سماج کے رشتے کٹے جا رہے ہیں اور ہم مذہب کی حفاظت کا ڈھونگ رچ کر قوم مسلم کو بے وقوف بناے میں پوری محنت کر رہے ہیں۔مذہب جو انسان کو تباہی ، بربادی اور ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے لئے آیا آج اس کی حفاظت کے نام پر ہم خود ہی انسانی قیمت کو بازار کے حوالے کر رہے ہیں۔کون سا ایسا جر م اور گناہ ہے جس میں ہم ملوث نہیں ہیں ۔ ان تمام کمیوں اور عیبوں کے باوجود اگر تم مسلمان ہو تو محض کھانا کھاکر یا پانی پی کر روزہ دار کیوں نہیں رہ سکتا‘‘۔
رمضان کریم کا چاند نظر آ گیا ہے ۔ یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ یہ اپنے اپنے ساتھ بے شمار نعمتیں اور برکتیں لیکر آتا ہے ۔رمضان کاچاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے ۔رب تعالیٰ نے چونکہ اس ماہ مبارک میں زیادہ رزق اور اس میں اضافی برکتوں کا وعدہ کیا ہے اس لئے اس کی اپنی تاثیر ہے جو روزہ داروں کے چہروں سے صاف جھلکتی ہے ۔روزہ یوں تو نیت کے ساتھ صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے لیکن روزہ ایک طرح سے اپنے آپ کو خدا کریم کے آگے خود سپرد کر دینے کا نام بھی ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمت اس وقت تک حلق سے نہیں اتارنا ہے جب تک وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا شوق ہر عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ کیا غریب کیا امیر، کیا بچہ کیا بوڑھا سبھی بڑی سعادت مندی کے ساتھ روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس اہتمام میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ کھانے پینے کی اس پابندی کے پیچھے جو مقصدہے اس کو بھی حاصل کیا جائے ۔دنیا کی ہر تہذیب یافتہ قوموں نے روزہ کی اہمیت ، فضیلت اور ضرورت کا قرار کیا ہے ۔ مذہب اسلام نے اس کا باقاعدہ اہتمام کیا ۔انسانی رواداری اور اخوت کا اس سے بڑھ کر مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے کہ عالی شان محلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والا اورپھو س کی جھونپڑی میں دھوپ چھاؤں اور بوندوں میں اپنے دن کاٹنے والا ایک ساتھ رب کی رضا کی خاطر متعین وقت تک کھانے پینے کی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔کبھی بھر پیٹ کھانا نہ کھانے والا کبھی بھوک سے آشنا نہ ہونے والے کے ساتھ جب روزہ رکھتا ہے تو زمین کے دور کنارے پر جھکتا آسمان نظر آتاہے ۔
یہ مہینہ رحمت ، مغفرت اور نجات کے ساتھ انسان کے اندر ایک قسم کی خود اعتمادی پیدا کرتا ہے ۔دیگر مہینوں سے زیادہ خوشحالی اور شادمانی کا یقین ہوتا ہے ۔ زرق دینے والے پر بھروسہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔ جب کوئی کہتا ہے کہ سحری کا ارادہ کرو افطار کا انتظام وہ خود کر دیگا اس بات پر آنکھوں دیکھی جیسا یقین ہو جاتا ہے ۔اس مہینہ کی خاص برکت ہے کہ بندہ بندے کے قریب ہو جاتا ہے ۔ بندے سے قربت کا انعام یہ ملتا ہے کہ خود پروردگار بھی قریب ہوجاتا ہے ۔اس سے ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ بندوں کی قربت ، خدمت اور دلجوئی سے رب تعالیٰ کی خاص قربت حاصل ہوتی ہے ۔اسیے موقعہ پر رسول کریم کا ایک واقعہ کا ذکر مناسب ہوگا۔
ایک دن رب کے محبوب نے اپنی سب سے زیادہ عزیز بیوی حضرت عائشہ سے کہا کہ’’ آج جو پوچھنا چاہتی ہو پوچھ لو ‘‘۔ ماں عائشہ کہتی ہیں کہ’’ اگر اجازت ہوتو والد محترم سے مشورہ لے لوں‘‘ ۔ آپ نے اجازت دی ۔ حضرت عائشہ نے سارا حال اپنے والد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کہہ سنایا ۔ صدیق اکبر نے مشورہ کہ’’ بیٹی نبی رحمت ؑ سے معلوم کرلو کہ شب معراج خاص قرب خداوندی میں کچھ خاص باتیں ہوئی تھیں ان میں سے کوئی بات بتا دیں۔‘‘ چنانچہ ماں عائشہ واپس آکر عرض کرتی ہے ہیں۔ نبی اقدس مسکراکر فرماتے ہیں’’ ابو بکر سے یہی امید تھی‘‘ ۔ آگے فرمایا’’ اس خاص گفتگو میں رب کریم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو بھی بندہ دو مؤمنوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑے گا اس بخشس ہوگی‘‘ ۔جب یہ خبر صدیق اکبر سنتے ہیں تو زارو قطار رونے لگتے ہیں ۔ حضرت عائشہ بے چین ہو جاتی ہیں کہ اس خوش خبری پر ایسا تاثر کیونکر ہے ۔ آپ فرماتے ہیں’’ ائے بیٹی عائشہ! غور کرو کہ ٹوٹے ہوئی دل جوڑنے سے اگر رب کریم کی رضا حاصل ہوتی ہے تو جو دلوں کو توڑتا ہو اس پر کس قدر غضب نازل ہوگا ۔ وہ عذاب الہٰی سے کیسے بچ سکتا ہے‘‘۔
اس خاص برکت والے مہینے میں بندوں کی دلجوئی کا خاص خیال رکھنا اور ان کی خدمت کرنا رب کی خاص رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کر نا ہے ۔اس خاص مہینے کی خصوصیت ہے کہ اس کے شب و روز ،صبح و شام اور ہر لمحے میں ایک الگ نعمت ہے ۔ اس کا خاص فضل ہے ۔غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی ، یتیموں اور بیواؤں کا خیال کرنا اس ماہ مبارک کے اہم مقاصد میں سے ہے ۔ اس کے علاوہ خود کی تزکیہ نفس اشد ضروری ہے ۔ہماری زندگی کے شب و روز کہاں اور کیسے گزرتے ہیں اس احتساب لازم ہے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 09582859385




Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, June 6, 2016

राजनैतिक आतंकवाद के बल पर धर्म का राजनीतिकरण: अब्दुल मोईद अजहरी


राजनैतिक आतंकवाद के बल पर धर्म का राजनीतिकरण
अब्दुल मोइद अजहरी

जाति, धर्म, नस्ल और रंग के आधार पर होने वाली राजनीति ने आज धर्म की परिभाषा ही बदल डाली जो धर्म मानव की रक्षा मानवता की सुरक्षा के लिए आया है उसका दुरूपयोग मानव के विनाश और मानवता के सर्वनाश में हो रहा है जो धर्म देश और समाज के ज़िम्मेदारों के लिए चिंता का विषय बनता जा रहा है।
आज धर्म के नाम पर चन्द व्यक्तियों और संगठनों ने धार्मिक ग्रथों और निर्देशों की गलत एवं निराधार व्याख्या करके जहां एक तरफ धर्म एवं धार्मिक शिक्षाओं, मर्यादाओं और उसकी छवि को खराब किया वहीँ दूसरी ओर उसका अपमान करके हमारी युवा पीढ़ी को गुमराह करने की कोशिश भी की है।
कहीं धर्म के नाम पर माथे पर कलम-ए-शहादत पट्टी बांधकर, झंडे पर कलम-ए-तौहीद लिखकर खुद को बम से उड़ाकर, मस्जिदों पर बुलडोजर चलाकर और बेगुनाहों का खून बहाकर मज़हब को बदनाम कर रहे हैं।
कहीं धर्म के नाम पर पूरी बस्ती को आग लगा कर, औरतों की इज्ज़त लूट कर, बच्चो को जिंदा जलाकर और मर्दों को त्रिशूल की नोक से ज़बह कर के धर्म की सेवा, धर्म का पालन और धर्म की रक्षा का नाम दिया जाता।
जिहाद और धर्म युद्ध की ऐसी व्याख्या की कल्पना किसी भी धर्म ने नही की होगी। जब वेदों ने किसी भी जीव जंतु को मारना हत्या और पाप बताया है और कुरान एक बेगुनाह इन्सान का क़त्ल पूरी इंसानियत का क़त्ल बताता है तो भला किसी व्यक्ति को चाहे तलवार से मारा जाये या त्रिशूल से वो जिहाद या धर्म युद्ध कैसे हो सकता है?
पैग़म्बर साहब ने मनुष्यों पर हो रहे अत्याचार और अन्याय के विरुद्ध जिहाद किया था। अमन और इंसाफ कायम करने के लिए हथियार उठाने की अनुमति दी थी। हथियार उठाने से पहले उन्हों ने कड़े निर्देश दिए थे कि किसी निहत्थे, बेगुनाह, बीमार, बच्चे, औरत और बूढ़े पर वार न करना। वृक्षों, खेतियों, और हरियालियों को बर्बाद न करना। पशु पक्षियों और दूसरे जानवरों पर ज़ुल्म न करना। किसी भी धार्मिक व्यक्ति या धार्मिक स्थल को कोई क्षति न पहुँचाना और याद रहे यह जिहाद अपनी रक्षा और सुरक्षा के लिए है। जब तक कोई हमला न करे हमले में पहल मत करना।
तीर और तलवार का प्रयोग तो मर्यादा पुरषोत्तम श्री राम ने भी किया था और युद्ध के लिए श्री कृष्ण जी ने भी न सिर्फ प्रेरित किया बल्कि खुद महाभारत में भाग लिया और दिशा निर्देश दिया।
कौरवों और पांडव के बीच जब युद्ध होना निश्चित हो गया तो श्री अर्जुन ने कौरवों पर हमला करने से मना कर दिया और कहा कि हम अपने ही भाइयों पर हमला कैसे कर सकते हैं तो उस समय श्री कृष्ण ने समझाया था कि जब अधर्म का ग्रहण धर्म के सूरज पर मंडराने लगता है मानवता को असुरों और राक्षसों ने पूरी तरह से घेर लिया हो तो ऐसे में मानवता की सुरक्षा के लिए युद्ध लड़ना ज़रूरी हो जाता है। अधर्म का कोई धर्म नहीं होता। वो किसी का भाई, बेटा, सगा या सम्बन्धी नहीं होता है।
जिहाद और धर्म युद्ध के कुछ नियम और निर्देश होते हैं। आज जिहाद तो है और धर्म युद्ध भी है लेकिन न उसूल है न दिशा निर्देश हैं। सिर्फ राजनीति और व्यापार है और पूरा मानव समाज उस का शिकार है।
इस सच्चाई से भी इनकार नहीं किया जा सकता है कि इस तरह के सरफिरे लोगों की टोली जानबूझ कर बनाई जाती है। उस के लिए तरह तरह के हथकंडे अपनाये जाते हैं। साम्प्रदायिक दंगे, अन्याय और अत्याचार प्रमुख हथियार के रूप में प्रयोग किया जाता है। एक दूसरे को उत्तेजित करने वाली बयान बाज़ी भी इस का एक हथियार है। जब अफ़ग़ानिस्तान में रूस ने हमला किया और उस पर क़ब्ज़ा कर लिया तो अमरीका को लगा कि उसके इलाके में घुसपैठ हो गई है अतः उस ने कुछ बहके हुए और ज़रूरत मंद मुसलमानों का एक संगठन बनाया जिसे तालिबान कहा जाता है। इस संगठन को रूस के विरुद्ध अमरीका ने अपना उल्लू सीधा करने के लिए इस्तेमाल किया। तालिबान को लड़ने के लिए मुल्क, मज़हब और इस्लामी तारीखी परम्पराओं की सुरक्षा के नाम पर उकसाया। उन्हें ट्रेनिंग दी, हथियार दिए, पैसे दिए। आख़िरकार अमरीका अपने मकसद में कामयाब रहा। उस ने रूस को भगा दिया। अब तक तालिबानी लड़ाके क्रन्तिकारी थे। वो अपने मुल्क, मज़हब और अपनी तारीख और सभ्यता को बचने के लिए लड़ रहे थे। इन्ही तालिबानियों को जब यह महसूस होने लगा कि अमरीका भी हमारे मुल्क मज़हब तारीख और सभ्यता को पूरी तरह ख़राब कर रहा है तो उन्होंने अपने जिहाद का रुख अमरीका की तरफ कर दिया। अब यही क्रांतिकारी आतंकवादी हो गए। संयुक्त राष्ट्र में उसके विरुद्ध नाटो फ़ौज भेज कर इन तालिबानियों को खत्म करने की वकालत शुरू हुई। इंसानी खून रोजाना बहने लगा जो आज तक रुकने का नाम नहीं ले रहा। न जाने कितने बच्चे यतीम हुए। कितनी औरतें बेवा हो गयीं। न जाने कितने माँ बाप का सहारा खाक व खून में मिल गया। इंसानी जान व माल का ऐसा नुकसान हुआ कि आज तक उसकी भरपाई नहीं हो पाई। अफगानिस्तान तबाह हो गया। सिर्फ अफगानिस्तान ही नहीं बर्बाद हुआ उसकी बर्बादी का असर कई देशों पर पड़ा है।
यह एक वास्तविकता है कि जंग चाहे जिस देश में भी हो और जिस से भी हो उसका असर कई देशो पर एक साथ होता है। आज लगभग तमाम खाड़ी देश इस ज़हर का कड़वा घूंट अपने गलों से उतार रहे हैं। अब तो कईयों को यह ज़हर मीठा लगने लगा है। कई खाड़ी देश इस गृह युद्ध से अपने अपने देशों की राजनैतिक छवियाँ बनाने और दूसरों की ख़राब करने की घिनौनी राजनीति में लगे हुए हैं। भूल गए हैं कि यह वो खेल है जिस का अंजाम सिर्फ बर्बादी है। सिर्फ तबाही है।
जज्बात में आकर इन सरफिरों ने तलवार और त्रिशूल तो उठा ली लेकिन कभी अंजाम के बारे में नहीं सोचा।
अब मुसलमानों को अमरीका क़ुरान सिखा रहा है। इसराइल के नुमायिंदे उन्हें हदीस का मतलब समझा रहे हैं। जिहाद की तालीम वो लोग दे रहे जिनका पूरा अस्तित्व अत्याचार और खून की राजनीति में डूबा हुआ है। ऐसे संस्थान खुले हुए हैं जो इस बात की ट्रेनिंग देते हैं कि किस वक़्त की नमाज़ में कौन सी सूरत पढनी है और जुमे के खुतबे में क्या बयान करना है।
यही छेड़छाड़ गीता, रामायण, वेद और पूरण जैसी पवित्र ग्रन्थों के साथ हो रही है। इन ग्रन्थों में मौजूद शांति और सौहार्द की शिक्षाओं का दुरूपयोग करके एक आम आदमी को धर्म के नाम पर खूनी बना दिया जाता है।
जो लोग ऐसे अपराधिक, उत्तेजित और उग्रवादी तत्व तैयार कर रहे हैं वो यह भूल जाते हैं कि एक बार जब किसी व्यक्ति की अपराधिक सोच बन जाती है तो उसके लिए अपने और पराये में फर्क करना मुश्किल हो जाता है। किसी भी मज़हब की तालीम उसकी विचारधारा को बदलने में असमर्थ हो जाती है। कोई भी मुल्क मज़हब और समुदाय उस से सुरक्षित नहीं रहता क्यूंकि अब वो सिर्फ अपराधी और आतंकवादी है। उसे कोई फर्क़ नहीं पड़ता कि मकसद हासिल करने के लिए किस हद तक जाना है। कितने इंसानों का बेजा खून करना है और इस से मुल्क पर क्या असर पड़ता है।
आज हम एक दयनीय स्थिति में हैं। हमें इंतज़ार है कि कोई दूत या पैग़म्बर आयेगा और हमें इस मुसीबत से निकालेगा। हम भूल गए हैं कि ऐसे हालत उन्हों ने पैदा किये हैं या पैदा होने दिए हैं जिनका काम ही ऐसी परिस्थितियों पर काबू पाना था। अब अगर रखवाले ही घुसपैठ का प्लान बना लें या प्लान को कामयाब करने में हिस्सेदार हो जाएँ तो भला इस भूक की मारी जनता का क्या होगा। भारत की जनता जहाँ भूक से मर रही है वहीँ हमारी राजनैतिक पार्टियाँ इस बात पर चर्चा कर रही हैं कि धर्म पर पाबन्दी लगा दी जाये, ज्यादा बच्चे पैदा किये जाएँ, अब वक़्त आ गया है देश देश के प्रति अपनी निष्ठा, ईमानदारी और देश प्रेम को सिद्ध किया जाये और इस के लिए एक नारा लगा जाये। देश का नौजवान बेरोज़गारी की वजह से अपने आप से नज़रें नहीं मिला पा रहा, अपने पढ़े लिखे होने पर शर्म महसूस कर रहा है और हमारा सिस्टम यह क़ानून पास करने में पूरी मेहनत कर रहा है कि भारत में रहने के लिए क्या खाना होगा और क्या नहीं खाना होगा। किसान आत्महत्याएं करने पर मजबूर हो रहे हैं और हमारे राजनैतिक ज़िम्मेदार एक दूसरे पर आरोप प्रत्यारोप का खेल खेल रहे हैं।
किसी भी मुल्क में उसके नागरिक की सबसे पहली, बड़ी और अहम् ज़रूरत सुरक्षा होती है। हमें अफ़सोस है कि न औरत की इज्ज़त महफूज़ है न एक किसान की जान। सांप्रदायिक दंगों ने एक इन्सान की जान की कीमत मिटटी के पुतले से भी कम कर दिया है।
ऐसी परिस्थिति में धर्म के नाम पर राजनीति और सांप्रदायिक दंगों के ज़रिये अपनी राजनीति को मज़बूत करना ऐसा ज़हर है जो मुल्क को दीमक की तरह खा रहा है। तमाम मुद्दों पर बहस तो होती है लेकिन उस को कोई हल नहीं निकलता है। हल निकलता है तो उस पर कोई कार्यवाई नहीं होती है। कार्यवाई की बारी जब आती है तो मुजरिम कोई अपना ही निकल आता है। फिर उस के लिए शासन, प्रशासन, वकालत और जाँच एजेंसियों का ऐसा बेशर्म तमाशा होता है कि शैतान भी चक्कर खा जाये और फिर कई बरसों के बाद न्याय के नाम पर एक आम आदमी के मुंह पर ज़ोरदार तमांचा मिलता है।
अफ़सोस हमारे यह राजनैतिक हथकंडे आतंकवादियों और उग्रवादियों तक पहुँच गए हैं। वह भी इस खेल का हिस्सा बनते जा रहे हैं। जंगल में रह कर अगर हमला करेगा तो क्रन्तिकारी होगा और अगर रेगिस्तान में रहकर वार करेगा तो आतंकवादी। तलवार का प्रयोग करने वाला अलग श्रेणी में होगा और त्रिशूल से जान लेने वाला अलग वर्ग में होगा। ऐसी मानसिकता देश को कहाँ ले जा रही है? आखिर मरने वाला बेगुनाह इन्सान ही हैं ना? मुल्क जल रहा है और हम हैं कि यह पता करने में लगे हैं कि आग दिया से लगी है या चराग़ की शरारत है।
आज खाड़ी देशों में पनप रहे चंद सरफिरे गिरोहों की वजह से पूरी दुनिया के मुसलमानों को आतंकवादी कहने वालों को सोचना चाहिए कि इन नाम जिहादियों के हाथों मरने वाले सब से ज्यादा मुस्लमान ही हैं। मरने वालों के साथ हमदर्दी की बजाये मारने वाले के कारनामे को भी मृतक के धर्म से जोड़ कर उसे कई बार मारा जा रहा है।
वो मुस्लमान जिस ने मुल्क के लिए हमेशा अपने जान व माल की क़ुरबानी दी है आज वो अपनी वफादारी साबित करने के लिए मजबूर किया जा रहा है। उसकी हालत इतनी दयनीय हो गई है कि एक तरफ खुद मर रहा है दूसरी तरफ हर जिहादी से अपने रिश्ते न होने का सुबूत भी पेश कर रहा उस के बावजूद गद्दार और दहशत गर्द भी वही है। यह कैसा न्याय है और कैसी नीति है?
जितना धन, बल, बुधि और राजनैतिक योग्यता इस साम्प्रदायिकता और बन्दर बाँट में खर्च हो रही है अगर यही या इस से कम भी हम गरीबी, बेरोज़गारी और अशिक्षा के विरुद्ध प्रयोग करते तो इस देश की दशा कुछ और ही होती।
देश को नारों से नहीं विचारों से बदलने की ज़रूरत है। देश को इस दयनीय स्थिति तक पहुँचाने में सिर्फ राजनितिक व्यापारियों का ही हाथ नहीं बल्कि उन आम लोगों का भी है जो ख़ामोश रह कर ऐसे देश-दुश्मनों के आत्म विश्वास को बढ़ावा देते हैं।
याद रहे! हमारी ख़ामोशी न केवल इन दुश्मनों का समर्थन कर रही है बल्कि उन्हें भी हिम्मत दे रही है जो आतंकवाद या उग्रवाद का किसी न किसी रूप से समर्थन कर रहे हैं। ऐसे में कम से कम सामाजिक बहिष्कार एक प्राकृतिक कानून है कि समाज से लेकर देश तक जब कोई व्यक्ति बागी हो जाए तो उसका बहिष्कार आवश्यक हो जाता ताकि इस विद्रोह का असर बाकी लोगों पर न पड़े।
02-06-2016

इस्लामिक स्टेट की विडियो का हिन्दुस्तानी मुसलमानों पर कोई प्रभाव नहीं

ISIS Ki Video Ka Hindustani Musalmanon Par Koi Asar Nahin
اسلامک اسٹیٹ کی ویڈیو کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں 
इस्लामिक स्टेट की विडियो का हिन्दुस्तानी मुसलमानों पर कोई प्रभाव नहीं 
داعش کی ویڈیو کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں
عبدالمعید ازہری

پوری دنیا میں دہشت و وحشت کا ماحول پیدا کر کے سیاسی گلیاروں میں اتھل پتھل کرنے والی تنظیم داعش یوں تو ابتدائی دنوں ہی میں وطن عزیز ہندوستان پر اپنی بری نظر ڈال چکی ہے ۔حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعہ داعش کی جانب سے پہلی بار ہندی زبان میں ہندوستانی نوجوانوں کی زبانی ریلیز ۲۲ منٹ کی ویڈیوآج کل موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔اس ویڈیو کو لیکر الگ الگ میدان کے ماہرین اپنی اپنی آراء اخبار اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ ظاہر کر رہے ہیں۔حکومتی ذمہ داروں سے لیکر مسلم رہنماؤ تک کا اس ویڈیو کو لیکر ایک ہی بیان ہے کہ اس طرح کی ویڈیو کے ذریعہ داعش کے پروپیگنڈا سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہندوستانی مسلمان اس طرح کی کسی بھی اشتعال انگیز ویڈیو کے ذریعہ بہکنے والا نہیں ۔ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کو بہت عزیز رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب کے نام پر بنے ملک پاکستان کی بجائے ہندوستان میں ہی جینا مرنا پسند کیا ۔ ملک کے وزیر اعظم سے لیکر صدر جمہوریہ تک اپنے بیان میں ہندوستانی مسلمانوں کی وطن دوستی کی تائید اور توثیق کر چکے ہیں۔
قرآنی آیا ت کا غلط مفہوم اور حدیث پاک کی بے بنیاد تفسیر و توضیح پیش کرنے کی بد دیانت کوشش پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہے ۔بین الاقوامی سیاست کے زیر اثر ہر مذہبی تعلیم کے ساتھ بے جا چھیڑ چھاڑ کرنے کی روایت زور پکڑتی جا رہی ہے ۔عام آدمی اس طرح کی اشتعال انگیزیوں سے واقف ہو چکا ہے ۔
حالیہ ویڈیو میں بھی بڑی شدت کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام تلوار اور جہاد کا نام ہے ۔ جو لوگ اسے امن کا مذہب تصور کرتے ہیں وہ غلط ہیں ۔ ہندوستان سمیت پوری دنیا کا مسلمان قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ ،اقوال ائمہ،اعمال بزرگان دین اور کردار صوفیا سے اس بات کو نہ صرف واضح اور ثابت کیا ہے کہ اسلام دین فطرت اور امن و محبت کا مذہب ہے بلکہ ایسے سرپھرے دین فروش افراد کو دندان شکن جواب دے چکے ہیں۔
اس ویڈیو میں چند خاص باتیں قابل توجہ ہیں:
پانچ نوجوانوں کی ہندی زبان میں دھمکی آمیز گفتگو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ویڈیو خصوصی طور پر ہندوستان ہی کے لئے ہے ۔اس ویڈیو میں جن نوجوانوں کو دکھایا گیا ہے وہ مہاراشٹر کے کلیان اور یو پی کے اعظم گڑھ کے ہیں۔ اس ویڈیومیں پانچ حوالوں کا خصوصی ذکر ہے : بابری مسجد ، گجرات فسادات، مظفر نگر ، کشمیر اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو جذباتی بنا کر گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طرح کی ناراضگی اور خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔اس لئے داعش کولگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے زخموں کو کرید کر ان میں اپنے لئے حمایت اور ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جاسکتے ہیں۔یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہندوستانی مسلمان جتنی محبت اپنے مذہب سے کر تا ہے اتنی ہی اپنے ملک سے بھی کرتا ہے ۔اپنے زخموں پر تلوار کی نوک اور بندوق کی گولیوں سے مرہم لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔ہا ں کچھ شر پسند عناصر نے اس کے سماجی اور مذہنی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے لیکن ابھی بھی اسے اپنی ملک کے قانون ، عدلیہ اور جمہور یت پر پورا بھروسہ اور یقین ہے ۔
اس ویڈیوکو دیکھنے کے بعد ایک سوال من کو بڑا بے چین کر رہا تھا کہ آخرداعش کو ہندوستان سے کیا دلچسپی ہے ؟ بہت غور کرنے کے بعد اس معمہ کا ایک حصہ یہ سمجھ میں آیا کہ اگر داعش ہندوستان میں پانچ سوبھی خود کش حملہ آور تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کیلئے پاکستان ، بنگلہ دیش اور مضافات کے علاقوں تک رسائی آسان ہو جائے گی ۔اپنی فوج میں بھرتی کرنے کیلئے طریقہ بھی بڑا کارگر اختیار کیا ہے ۔ جذبات کو کرید کر انہیں باغی بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پچھلی ایک دو دہائیوں سے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مسلمانوں میں جس طرح کا خوف پیدا ہو گیا ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ہندوستانی نوجوان جس بے روز گاری کا شکار ہے وہ بھی بلا تفریق مذہب و ملت اس طرح کے راستے ہموارکر نے میں مددگار ہو سکتی ہے۔جس طرح سے پانچ ہندوستانی مسلمانوں کی داعش میں شمولیت پریشان کن ہے اسی طرح غیر مسلم لڑکے لڑکیوں کی شمولیت حیرت انگیز ہے ۔اس سے واضح ہو جاتا ہے پروپیگنڈا صرف مذہبی نہیں بلکہ ضرورتوں کو بھی سامنے رکھ کر کیا گیا ہے ۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے ہندوستان جہادی گروہوں کی توجہ کا مرکز بناہواہے ۔القاعدہ ، طالبان، انڈین مجاہدین اور حالیہ داعش جیسی تنظیمیں ہندوستان کا رخ کر رہی ہیں۔ابھی تقریبا ایک سال قبل عبد الرحمن ندوی کی قیادت میں انصار التوحید نامی تنظیم نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا جب عاصم عمر قاسمی کی قیادت میں القاعدہ کی جنوبی ایشیاء کی شاخ کھولنے کی بات کی گئی تھی ۔ ہندوستان ہی کے ایک مکتبہ فکر کے عالم دین کے ابو بکر البغدادی کے نام اپنے کھلے خط میں امیر المؤمنین کہہ کر مخاطب کرنے سے ہندوستانی مسلمانوں میں شدید ناراضگی دیکھنے کو ملی ۔اس کے بعد چند ہندستانی نوجوانوں کے ہندوستان چھوڑکر داعش کی صفوں میں شامل جانے سے ضرور ہندوستانی مسلمانوں کو تشویس ہوئی ہے ۔کئی مسلک اور مکتب فکر میں بٹے ہندوستانی مسلمانوں کے اکثریتی طبقے نے علی الاعلان اس طرح کی حرکتوں کی شدید مذمت کی لیکن مسلسل فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر لوگوں کے ساتھ اب تک نہ ہونے والے انصاف نے ان کے سامنے بھی ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ۔
یہ بھی معمہ پریشان کن ہے کہ جس طرح دہشت گردوں کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اسی طرح فرقہ وارانہ فسادات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کون کس کے رد عمل میں انسانی خون کو پانی کر رہا ہے ۔یہ ضرور سچ ہے کہ مرنے والوں میں اکثر تعداد بے گناہ انسانوں کی ہوتی ہے ۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ قانون کی مجبوری یا کمزوری اور سیاسی نا اہلی کی وجہ سے جیل خانوں کو مسلمانوں ہی سے آباد کیا جا رہا ہے ۔
کٹرپن اور انتہا پسندی کی تاریخ ہندوستان میں تو نہیں ملتی ۔ مسلم بادشاہوں کے دور میں اس طرح کی بربریت اور فرقہ پرستی کے واقعات نہیں ملتے ۔ایسے ہی راجوں،رجواڑوں کے دور میں اس طرح کی کٹرتا اور فرقہ پرستی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ آئنہ کی طرح یہ بات صاف ہے کہ ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب میں نفرت کا یہ زہر بیرونی ممالک کے اثر سے آیا ۔یہ ہماری سیاسی مجبوری ، بے بسی اور نااہلی ثابت کرتا ہے ۔
اس ویڈیو کے بعد صرف یہ بیان دینا کافی نہیں کہ ہندوستانی مسلمان اس طرح کی ویڈیو سے متاثر نہیں ہوگا ۔ ان ذرائع کو مسدود کرنا ہوگا جنہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جار ہا ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی منافرت کے لئے اشتعال انگیزی پر حکومت کو نہ صرف اپنا موقف واضح کرنا ہوگا بلکہ اس کے سد باب کیلئے سخت کاروائی کرنی ہوگی ۔غریبی اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لئے مضبوط لائحہ عمل تیا ر کرنا ہو گا۔ہندوستان کو کبھی ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔۶۸ سال قبل ہی ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی موقف ظاہر کر دیا تھا ۔آج بھی عرب ممالک خصوصی طور پر سعودی عرب اور قطر اپنے سیاسی فائدے کیلئے ہندوستانی مسلمانوں کو تیل اور گیس کے ذریعہ خریدنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا ملک ہندوستان ہے ۔ چند نوجوانوں کی گمراہی اسی کا نتیجہ ہے ۔ہمارا حب وطن کل بھی ثابت تھا آج بھی سالم ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com


Daesh Video Has No Effect on Indian Muslims داعش کی ویڈیو کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں
داعش کی ویڈیو کا ہندوستانی مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں -