My Second Article on Ramzan: Yes, I am on fast but I eat too.....
रमज़ान पर मेरा दूसरा आलेख: मैं रोज़ादार हूँ ! बस खाता पीता हूँ
رمضان پر میرا دوسرا مضمون : میں روزہ دار ہوں ! بس کھاتا پیتا ہوں
روزہ دار ہوں !بس کھاتا پیتا ہوں
عبد المعید ازہری
ماہ رمضان میں شب و روز کی اپنی الگ رونق ہوتی ہے۔یہ رونق کسی شادی کی تقریب یا کسی مخصوص خوشی کی تقریب سے بھی الگ ہوتی ہے ۔ہر عمر کے لوگوں میں الگ قسم کی رونق جھلتی ہے ۔مذہب اسلام مسلمانوں کے درمیان جس اخوت اور یکجہتی کی تعلیم و تربیت کی جانب اشارہ کرتا ہے کافی حد تک وہ اس ماہ مبارک میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔غریبوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی سے لیکر آپسی میل جو ل اور مصالحت کا عملی نمونہ نظر آتاہے ۔بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت اور محبت کا معاملہ دیکھنے کو مل جاتاہے ۔اس ماہ میں تراویح کے بعد اور افطار سے پہلے اسکی تیاری کیلئے نوجوانوں کا ایک ٹولہ عام سے بازاروں سے گزرتا ہے ۔افطار کی تیاریوں کیلئے کھانے پینے کا سامان خریدتا ہے ۔ پورے راستے جاننے والے اور کم جاننے والوں سے بھی حال خیریت دریافت کرتا رہتا ہے۔کچھ لوگوں میں یہ جزبہ خلوص کے ساتھ پیدا ہو جاتاہے ۔ کچھو لوگ رسما اس روایت پر عمل کرتے ہیں۔ تبلیغ کا بھی ایک الگ ہی ماحول ہوتاہے ۔ بڑے بھی اس ماہ میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ چھوٹے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں تبلیغ کا ایک الگ جزبہ بیدار ہوتا ہے ۔انہیں لگتا ہے اس دولت سے کوئی محروم نہ رہنے پائے ۔کچھ لوگ اس بات کا بھی بدلہ لیتے ہیں کہ سال کے باقی مہینے میں تبلیغ کا سارا زور ہم نوجوانوں پر ہی آزمایا جاتا ہے کیوں نہ اس مہینے ہم بھی اس کا ر خیر کے حصہ دار بن جائیں۔
ایسے ہی نوجوانوں کا ایک ٹولہ گاؤ کی گلیوں سے گزر رہا تھا ۔بازار شروع ہوتے ہی نکڑ پر ایک شخص پردے کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس جماعت کو اس شخص تک پہنچنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی ۔ قریب پہنچ کر اس شخص کے متعلق ہر فرد کے چہرے کا جغرافیہ بتا رہا تھا کہ انہیں بڑی تکلیف ہوئی ہے ۔عصر کی نماز کے بعد مغرب کی جانب گزرنے والا وقت ویسے بھی صبر آزما ہوتا ہے ۔ایسے میں اس جماعت نے دیکھا کہ وہ شخص لوگوں سے نظریں بچا کر کچھ کھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔نوجوانوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ’’ آپ روزہ نہیں ہیں کیا‘؟ اس شخص کو جواب سن کر سب کانپ گئے ۔ اس شخص نے کہا می’’ں روزہ دار ہوں بس کھاتا پیتا ہوں‘‘۔ نوجوانوں کی حیرت میں اضافہ ہو گیا ۔ اس شخص نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا ’’میں روزہ دار ہوں کیونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا ہوں ، غیبت سے باز رہتا ہوں ۔چغل خوری سے دور ہوں۔ نمازوں کا پبند ہوں۔لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں۔ حلال روزی کھاتا ہوں۔حرام سے اجتناب کرتا ہوں ۔ جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا انہیں کرتا ہوں اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان کے قریب نہیں جاتا ۔اس ماہ زیادہ سے زیادہ صدقہ دیتا ۔ اس مہینے اپنے آپ کو تیار کرتا ہوں پھر پورے سال اس تربیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔بس میں بیمارہوں مجھ سے بھوکا رہا نہیں جاتا ۔ اسلئے میں کھا پی لیتا ہوں لیکن اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ چھپ کر کھاؤ ں پیوں‘‘۔ اس شخص نے اپنی تقریر ختم کی اور نادم نگاہوں کو نوجوانو ں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا کہ معاف کرنا آپ لوگ تو روزہ دار ہونگے ۔ نوجوانوں نے نظریں نیچی کئے ہوئے جواب دیا’’ نہیں ہم روزہ دار نہیں ہے بس کھاتے پیتے نہیں‘‘۔
نبی کریم ؑ نے کئی مقامات پر رمضان میں روزوں کی فضیلت بیان فرمائی ۔روزہ کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اس روزہ کا بدلہ خود رب تعالیٰ دیتا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق روزے کے بدلے میں خود پروردگار مل جاتا ہے ۔ اس کی رضا اور قربت مل جاتی ہے ۔بیشک روزہ کھانے پینے اور خواشات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آخرمسلسل ایک مہینہ تک یہی عمل کیوں دہرا یا جاتا ہے ۔مقصد واضح ہے کہ یہ ایک مہینہ کی تربیت ہے تکہ پورا سال انسان دوست زندگی گزار سکیں۔اس ماہ انسان فطرت کے بہت قریب ہو جاتا ہے ۔بھوکا ہونا ،ایک دوسرے انسان کے لئے نفع بخش ہونا ، معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس کرنا، آسمان کی بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود زمین پر نظریں رکھنا فطرت ہے ۔ انسان کی کامیابی کے راستے بھی یہی ہیں۔یہ مہینہ انسان کو انسان سے ملاتا ہے۔ اسے جاننے کا موقعہ دیتا ہے ۔سانئس نے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ اس پورے ماہ روزہ رکھنے سے انسان کا بدن اور قوی ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ماہ کئی بیماریوں سے حفاظت کا ضامن بھی ہوتا ہے ۔ جسم کے ساتھ روح کی پاکیزگی بھی اس ماہ کے اہم مقاصد میں سے ہے ۔صوفیوں کا طریقہ رہا ہے جب انہیں خدا کی یاد زیادہ شدت سے بے چین کرتی ہے تو وہ تیس سے چالیس روز تک روزے کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔
ایک مہینے کا جو دستور ہوتاہے در اصل یہی دستور انسان اور یہی دستور اسلام ہے ۔اسلام دین فطرت ہے ۔سحری سے لیکر افطاری اور تراویح تک ،تلاوت سے لیکر اعتکاف تک ہر لمحہ انسان فطرت کی خوبیوں سے روبرو ہوتا ہے ۔ کائنات کی فطری خوبیوں کا جو وقت ہوتا اور جو اس کا موقعہ ہوتا اس مہینے ہر روزہ دار اس کے لئے تیار رہتا ہے ۔صبح صادق کے وقت اٹھنا ، سحری کرنا ، نماز فجر کے بعد تلاوت کرنا اس کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کرنا‘یہ وہ نعمتیں ہیں جن سے عام دنوں میں انسان محروم رہتا ہے ۔صبح صادق اور فجر کے وقت کا جو موسم اور فضا ہے وہ کسی اور وقت میں میسر نہیں۔اس مہینے فجر کے بعد ایک الگ ماحول ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے سے جس محبت کے ساتھ ملتے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ مسجد میں موجود ہر نمازی ایک دوسرے کا رشتہ دار ہے ۔ کسی کے دل میں کسی کے خلاف کوئی خلش معلوم نہیں ہوتی ۔ اسی رشتہ کے بارے میں تو پیغمبر اعظم ؑ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مؤمن آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
صدقہ ،زکوٰۃ و خیرات کا شوق بھی پیدا ہوتاہے ۔ کبھی کبھی تو صدقہ و خیرات کی ہوڑ لگ جاتی ہے ۔ گھر کاہر فرد صدقہ کر رہاہوتاہے ۔ ورنہ دیگر ایام میں اس عمل کو گھر کے کسی بزرگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔غریبوں کی مدد اوریتیموں کے سروں پر ہاتھ بھی رکھے جاتے ہیں۔ بیواؤ کو تلاش کر کے ان کی حاجت پوری کی جاتی ہے ۔کسی فقیر اور مسکین کو جھڑکا نہیں جاتا۔ضرورت مندوں سے ایک قسم کی قربت ہو جاتی ہے ۔کھانا کھلانے کا اہتماکیا جاتا ہے۔ دعوتوں کا بڑے پیمانے پر اہتمام ہوتا ۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ ہمارے گھر پر زیادہ سے زیادہ لوگ افطارکریں۔بچے بھی افطار کرانے سے خوش ہوتے ہیں۔عورتیں بھی خوش ہوتی ہیں ۔ اگر چہ ان کا کام کافی بڑھ جاتا ہے لیکن جب لوگوں کو کھانا کھلانے کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ بھی اس کار خیر سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ پاتی ہیں۔ جس دن زیادہ لوگ نہیں ہوتے تو پڑوس میں افطار بھیجنا نہیں بھولتیں۔ دوچار لوگوں کا زیادہ افطار تیار کرتی ہیں۔
یہی وہ انسانی فطرت ہے جس کا تقاضہ اسلام کرتاہے۔یہ مہینہ ہماری تربیت کرتاہے ۔ ہمیں پورے سال کیلئے تیار کرتا ہے ۔ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ ہم اس خاک دان گیتی پر کس لئے آئے ہیں۔ حق کی معرفت اسی میں پوشیدہ ہے ۔ حق تک پہنچے کا یہی راستہ ہے ۔بھوک انسان کو بہکاتی ہے ۔ جب بھوک کی حالت میں انسان صبر اور شکر سے کام لیتا ہے تو عام دنوں میں نیکو کار ہو جاتا ہے ۔بھوک روح کی غذا ہے جس طر ح کھانا جسم کی غذا ہے ۔ روح کو قوی و تندرست رکھنے کیلئے بھوک بہت ضروری ہے ۔ یہی وہ حالت ہے جب روحانیت بڑھتی ہے او ر اسرار و معرفت کے دراوازے کھلتے ہیں۔ پھر ایک الگ انسان کا وجو د ہوتاہے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.comFacebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@





