Be kind on Human in this holy Month
इस पवित्र महीने में अधिक से अधिक मानव सेवा करें
بندوں کی د ل جوئی کا خاص خیال رکھیں
عبد المعید ازہری
عبد المعید ازہری
’’ چچا رمضان المبارک کے پاک وپاکیزہ مہینے کی قدر کیجئے ۔ یہ برکتوں کا مہینہ ہے۔ اسے یوں بے قدری سے ضائع نہ کیجئے ۔ذرا احتیاط سے کام لیجئے ۔ ایک تو آپ روزہ نہیں رکھتے اوپر سے یوں کھلے عام کھاتے پیتے نظر آ رہے ہیں۔اس مہینے میں تو غیر بھی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور روزہ دار کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک نوجوان روزہ دار نے ایک ضعیف العمر شخص سے سے کہا ۔بڑی سنجدگی ،اطمنان اور متانت سے اس معمر شخص نے جواب دیا ۔’’برخور دار میں بھی روزہ دار ہوں بس کھا پی لیتا ہوں ‘‘نوجوان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کافی دیر تک منہ کھلا رہا اور حیرت سے بزرگ کو تکتا رہا ۔انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی ۔’’جب ایک شخص پڑوسی کا حق مار کر اپنے خالق و مالک کی حقوق کو فراموش کرکے، بندو کا حق مار کر مسلمان رہ سکتا ہے تو میں کھا پی کر بھی روزہ دار کیوں نہیں رہ سکتا۔اس مسلم قوم کے بارے میں تو قرآن پاک اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ بہترین امت ہے جسے لوگوں کی ہدایت کے لئے منتخب کیا گیا ۔اچھی باتوں کی ترغیب اور برے کاموں سے چھٹکارا دلانے کے مامور کیا گیا ہے ۔ آج اسی کی رہبری پر سوال ہے ۔سماجی ذمہ داروں سے لیکر مذہبی رہنماؤ تک سب نے امت مسلمہ کے تابناک مستقبل پر سیاہی ڈالنے میں اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھا ۔تصادم ، تعصب ، منافرت اور منافقت کا ایساجال بچھ گیا ہے کہ مسلمان کی فکر محدود بلکہ مفلوج ہو کر رہ گئی ۔تایخ اس پر ہنستی ہے ۔مذہب کو’ جو انسانی ترقی کا نہ صرف ضامن ہے بلکہ انسانیت کا علمبردار ہے‘ اسے چند نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں نے بنی نوع انساں کے پیروں بیڑی اور فکر و بیان پر تالا بنا ڈالا۔سماج کے رشتے کٹے جا رہے ہیں اور ہم مذہب کی حفاظت کا ڈھونگ رچ کر قوم مسلم کو بے وقوف بناے میں پوری محنت کر رہے ہیں۔مذہب جو انسان کو تباہی ، بربادی اور ہلاکت سے محفوظ رکھنے کے لئے آیا آج اس کی حفاظت کے نام پر ہم خود ہی انسانی قیمت کو بازار کے حوالے کر رہے ہیں۔کون سا ایسا جر م اور گناہ ہے جس میں ہم ملوث نہیں ہیں ۔ ان تمام کمیوں اور عیبوں کے باوجود اگر تم مسلمان ہو تو محض کھانا کھاکر یا پانی پی کر روزہ دار کیوں نہیں رہ سکتا‘‘۔
رمضان کریم کا چاند نظر آ گیا ہے ۔ یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ یہ اپنے اپنے ساتھ بے شمار نعمتیں اور برکتیں لیکر آتا ہے ۔رمضان کاچاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے ۔رب تعالیٰ نے چونکہ اس ماہ مبارک میں زیادہ رزق اور اس میں اضافی برکتوں کا وعدہ کیا ہے اس لئے اس کی اپنی تاثیر ہے جو روزہ داروں کے چہروں سے صاف جھلکتی ہے ۔روزہ یوں تو نیت کے ساتھ صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے لیکن روزہ ایک طرح سے اپنے آپ کو خدا کریم کے آگے خود سپرد کر دینے کا نام بھی ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمت اس وقت تک حلق سے نہیں اتارنا ہے جب تک وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا شوق ہر عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ کیا غریب کیا امیر، کیا بچہ کیا بوڑھا سبھی بڑی سعادت مندی کے ساتھ روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس اہتمام میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ کھانے پینے کی اس پابندی کے پیچھے جو مقصدہے اس کو بھی حاصل کیا جائے ۔دنیا کی ہر تہذیب یافتہ قوموں نے روزہ کی اہمیت ، فضیلت اور ضرورت کا قرار کیا ہے ۔ مذہب اسلام نے اس کا باقاعدہ اہتمام کیا ۔انسانی رواداری اور اخوت کا اس سے بڑھ کر مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے کہ عالی شان محلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والا اورپھو س کی جھونپڑی میں دھوپ چھاؤں اور بوندوں میں اپنے دن کاٹنے والا ایک ساتھ رب کی رضا کی خاطر متعین وقت تک کھانے پینے کی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔کبھی بھر پیٹ کھانا نہ کھانے والا کبھی بھوک سے آشنا نہ ہونے والے کے ساتھ جب روزہ رکھتا ہے تو زمین کے دور کنارے پر جھکتا آسمان نظر آتاہے ۔
یہ مہینہ رحمت ، مغفرت اور نجات کے ساتھ انسان کے اندر ایک قسم کی خود اعتمادی پیدا کرتا ہے ۔دیگر مہینوں سے زیادہ خوشحالی اور شادمانی کا یقین ہوتا ہے ۔ زرق دینے والے پر بھروسہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔ جب کوئی کہتا ہے کہ سحری کا ارادہ کرو افطار کا انتظام وہ خود کر دیگا اس بات پر آنکھوں دیکھی جیسا یقین ہو جاتا ہے ۔اس مہینہ کی خاص برکت ہے کہ بندہ بندے کے قریب ہو جاتا ہے ۔ بندے سے قربت کا انعام یہ ملتا ہے کہ خود پروردگار بھی قریب ہوجاتا ہے ۔اس سے ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ بندوں کی قربت ، خدمت اور دلجوئی سے رب تعالیٰ کی خاص قربت حاصل ہوتی ہے ۔اسیے موقعہ پر رسول کریم کا ایک واقعہ کا ذکر مناسب ہوگا۔
ایک دن رب کے محبوب نے اپنی سب سے زیادہ عزیز بیوی حضرت عائشہ سے کہا کہ’’ آج جو پوچھنا چاہتی ہو پوچھ لو ‘‘۔ ماں عائشہ کہتی ہیں کہ’’ اگر اجازت ہوتو والد محترم سے مشورہ لے لوں‘‘ ۔ آپ نے اجازت دی ۔ حضرت عائشہ نے سارا حال اپنے والد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کہہ سنایا ۔ صدیق اکبر نے مشورہ کہ’’ بیٹی نبی رحمت ؑ سے معلوم کرلو کہ شب معراج خاص قرب خداوندی میں کچھ خاص باتیں ہوئی تھیں ان میں سے کوئی بات بتا دیں۔‘‘ چنانچہ ماں عائشہ واپس آکر عرض کرتی ہے ہیں۔ نبی اقدس مسکراکر فرماتے ہیں’’ ابو بکر سے یہی امید تھی‘‘ ۔ آگے فرمایا’’ اس خاص گفتگو میں رب کریم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو بھی بندہ دو مؤمنوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑے گا اس بخشس ہوگی‘‘ ۔جب یہ خبر صدیق اکبر سنتے ہیں تو زارو قطار رونے لگتے ہیں ۔ حضرت عائشہ بے چین ہو جاتی ہیں کہ اس خوش خبری پر ایسا تاثر کیونکر ہے ۔ آپ فرماتے ہیں’’ ائے بیٹی عائشہ! غور کرو کہ ٹوٹے ہوئی دل جوڑنے سے اگر رب کریم کی رضا حاصل ہوتی ہے تو جو دلوں کو توڑتا ہو اس پر کس قدر غضب نازل ہوگا ۔ وہ عذاب الہٰی سے کیسے بچ سکتا ہے‘‘۔
اس خاص برکت والے مہینے میں بندوں کی دلجوئی کا خاص خیال رکھنا اور ان کی خدمت کرنا رب کی خاص رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کر نا ہے ۔اس خاص مہینے کی خصوصیت ہے کہ اس کے شب و روز ،صبح و شام اور ہر لمحے میں ایک الگ نعمت ہے ۔ اس کا خاص فضل ہے ۔غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی ، یتیموں اور بیواؤں کا خیال کرنا اس ماہ مبارک کے اہم مقاصد میں سے ہے ۔ اس کے علاوہ خود کی تزکیہ نفس اشد ضروری ہے ۔ہماری زندگی کے شب و روز کہاں اور کیسے گزرتے ہیں اس احتساب لازم ہے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 09582859385
رمضان کریم کا چاند نظر آ گیا ہے ۔ یہ ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ یہ اپنے اپنے ساتھ بے شمار نعمتیں اور برکتیں لیکر آتا ہے ۔رمضان کاچاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے ۔رب تعالیٰ نے چونکہ اس ماہ مبارک میں زیادہ رزق اور اس میں اضافی برکتوں کا وعدہ کیا ہے اس لئے اس کی اپنی تاثیر ہے جو روزہ داروں کے چہروں سے صاف جھلکتی ہے ۔روزہ یوں تو نیت کے ساتھ صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے لیکن روزہ ایک طرح سے اپنے آپ کو خدا کریم کے آگے خود سپرد کر دینے کا نام بھی ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمت اس وقت تک حلق سے نہیں اتارنا ہے جب تک وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا شوق ہر عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے ۔ کیا غریب کیا امیر، کیا بچہ کیا بوڑھا سبھی بڑی سعادت مندی کے ساتھ روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس اہتمام میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ کھانے پینے کی اس پابندی کے پیچھے جو مقصدہے اس کو بھی حاصل کیا جائے ۔دنیا کی ہر تہذیب یافتہ قوموں نے روزہ کی اہمیت ، فضیلت اور ضرورت کا قرار کیا ہے ۔ مذہب اسلام نے اس کا باقاعدہ اہتمام کیا ۔انسانی رواداری اور اخوت کا اس سے بڑھ کر مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے کہ عالی شان محلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والا اورپھو س کی جھونپڑی میں دھوپ چھاؤں اور بوندوں میں اپنے دن کاٹنے والا ایک ساتھ رب کی رضا کی خاطر متعین وقت تک کھانے پینے کی اشیاء کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔کبھی بھر پیٹ کھانا نہ کھانے والا کبھی بھوک سے آشنا نہ ہونے والے کے ساتھ جب روزہ رکھتا ہے تو زمین کے دور کنارے پر جھکتا آسمان نظر آتاہے ۔
یہ مہینہ رحمت ، مغفرت اور نجات کے ساتھ انسان کے اندر ایک قسم کی خود اعتمادی پیدا کرتا ہے ۔دیگر مہینوں سے زیادہ خوشحالی اور شادمانی کا یقین ہوتا ہے ۔ زرق دینے والے پر بھروسہ بھی بڑھ جاتا ہے ۔ جب کوئی کہتا ہے کہ سحری کا ارادہ کرو افطار کا انتظام وہ خود کر دیگا اس بات پر آنکھوں دیکھی جیسا یقین ہو جاتا ہے ۔اس مہینہ کی خاص برکت ہے کہ بندہ بندے کے قریب ہو جاتا ہے ۔ بندے سے قربت کا انعام یہ ملتا ہے کہ خود پروردگار بھی قریب ہوجاتا ہے ۔اس سے ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ بندوں کی قربت ، خدمت اور دلجوئی سے رب تعالیٰ کی خاص قربت حاصل ہوتی ہے ۔اسیے موقعہ پر رسول کریم کا ایک واقعہ کا ذکر مناسب ہوگا۔
ایک دن رب کے محبوب نے اپنی سب سے زیادہ عزیز بیوی حضرت عائشہ سے کہا کہ’’ آج جو پوچھنا چاہتی ہو پوچھ لو ‘‘۔ ماں عائشہ کہتی ہیں کہ’’ اگر اجازت ہوتو والد محترم سے مشورہ لے لوں‘‘ ۔ آپ نے اجازت دی ۔ حضرت عائشہ نے سارا حال اپنے والد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو کہہ سنایا ۔ صدیق اکبر نے مشورہ کہ’’ بیٹی نبی رحمت ؑ سے معلوم کرلو کہ شب معراج خاص قرب خداوندی میں کچھ خاص باتیں ہوئی تھیں ان میں سے کوئی بات بتا دیں۔‘‘ چنانچہ ماں عائشہ واپس آکر عرض کرتی ہے ہیں۔ نبی اقدس مسکراکر فرماتے ہیں’’ ابو بکر سے یہی امید تھی‘‘ ۔ آگے فرمایا’’ اس خاص گفتگو میں رب کریم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ جو بھی بندہ دو مؤمنوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑے گا اس بخشس ہوگی‘‘ ۔جب یہ خبر صدیق اکبر سنتے ہیں تو زارو قطار رونے لگتے ہیں ۔ حضرت عائشہ بے چین ہو جاتی ہیں کہ اس خوش خبری پر ایسا تاثر کیونکر ہے ۔ آپ فرماتے ہیں’’ ائے بیٹی عائشہ! غور کرو کہ ٹوٹے ہوئی دل جوڑنے سے اگر رب کریم کی رضا حاصل ہوتی ہے تو جو دلوں کو توڑتا ہو اس پر کس قدر غضب نازل ہوگا ۔ وہ عذاب الہٰی سے کیسے بچ سکتا ہے‘‘۔
اس خاص برکت والے مہینے میں بندوں کی دلجوئی کا خاص خیال رکھنا اور ان کی خدمت کرنا رب کی خاص رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کر نا ہے ۔اس خاص مہینے کی خصوصیت ہے کہ اس کے شب و روز ،صبح و شام اور ہر لمحے میں ایک الگ نعمت ہے ۔ اس کا خاص فضل ہے ۔غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی ، یتیموں اور بیواؤں کا خیال کرنا اس ماہ مبارک کے اہم مقاصد میں سے ہے ۔ اس کے علاوہ خود کی تزکیہ نفس اشد ضروری ہے ۔ہماری زندگی کے شب و روز کہاں اور کیسے گزرتے ہیں اس احتساب لازم ہے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 09582859385
Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@


No comments:
Post a Comment