Monday, August 1, 2016

Zakir Naik: Mujrim Ya Mazloom


ذاکر نائک :مجرم یا مظلوم ؟
عبد المعید ازہری
ذاکر نائک کی مشکلیں کم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ حالانکہ حکومت کا موقف ابھی واضح نہیں ہواہے۔ پھر بھی ہندوستانی عوام اور مسلم رہنما کی جانب سے ذاکر نائک کے خلاف مظاہرے اور بیان بازیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ذاکر نائک کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کا یہ رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے ۔ جس کی بنیاد پر ذاکر نائک کی ساری دلیلیں بے بس و بے کار نظر آ رہی ہیں۔ذاکر نائک اور ان کے حامیوں نے پورا زور لگا دیا لیکن مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ۔ ذاکر نائک نے اپنے بچاؤ میں میڈیا پر سخت الزام لگاتے ہوئے کہاکہ یہ سارا معاملہ میرے خلاف ’میڈیا ٹرائل ‘ہے ۔’میرے بیانوں کو میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہے ‘۔ میں ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف رہا ہوں۔ ذاکر نائک نے داعش کو بھی غیر اسلامی بتایا ۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ذاکر نائک نے اپنے ایک انٹر ویو میں ہندوستان کے وزیر اعظم نرندر مودی جی کی تعریفوں کے پل بھی باندھے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم اک لوتے ہیں جنہوں نے دو سال میں اتنے مسلم ممالک کا دورہ کر کے ہندومسلم قومی یکجہتی کے لئے کوشش کی ہو ۔ میں وزیر اعظم کے اس عمل سے خوش ہوں اور ان کے ساتھ ہوں۔لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو ذاکر نائک کی یہ مودی نوازی ایک آنکھ نہ بھائی ۔ وہ لوگ جو ذاکر نائک کی حمایت کر رہے تھے انہیں بھی ذاکر نائک کا یہ رویہ پسند نہیں آیا ۔اس کے علاوہ ہندوستانی عوام کا بھی موقف تبدیل نہ ہو سکا ۔ ٹیلی ویژن پر بیسوں مباحثوں میں ذاکر نائک کی مخالفت حاوی رہی ۔ حالانکہ کہ ذاکر نائک کی حمایت میں بھی لوگوں کی آوازیں آئیں لیکن اس آواز کو اٹھنے نہیں دیا گیا ۔ 26 جولائی کو ذاکر نائک اور ان کے حامیوں کے لئے سخت آزمائش کا دن تھا ۔ مودی جی کی تعریف کرنے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید اب مخالفت میں کچھ کمی اور نمی آئے گی لیکن ہندوستانی صوفی سنی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے ذاکر نائک اور انتہا پسند فکر کے خلاف ملک گیر احتجاج اور مظاہر ہ کر کے ذاکر نائک اور ان کی فکر کو ہندوستان میں مکمل طور پر بند کئے جانے کی مانگ کی ۔ تقریبا 15 ریاستوں میں ایک ساتھ مظارہ کرکے پولیس محکموں کے ساتھ حکومت کو ایک میمورینڈم بھی دیا گیا جس میں ذاکر نائک ، پیش ٹی وی اور اسلامک رسرچ فاؤنڈیشن کو فورا بند کئے جانے کی مانگ کی گئی۔یہ احتجاج ہندوستان کی تین بڑی اور قدیم درگاہوں سے شروع ہوا ۔ درگاہ غریب نواز اجمیر ، درگاہ محبوب الٰہی دہلی، اور درگاہ مخدوم پاک کچھوچھہ سے شروع کیا گیا مظاہرہ پورے ہندوستان بھر میں دیکھا گیا۔ اس احتجاج کے بعد ایک بار پھر ذاکر نائک پر شکنجہ کستا چلا گیا ۔ ذاکر نائک کی مالی آمد پر سوال اٹھاتے ہوئے آ ل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے ذمہ داروں نے حکومت ہند سے جانچ کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے کہا خود ذاکر نائک کے ساتھ پیس ٹی وی میں کام کر چکے کا ر کنوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ذاکر نائک کو عرب ممالک سے بڑی رقم ملتی ہے ۔ اور ذاکر نائک اسلام کا مبلغ نہیں بلکہ ایک تاجر ہے جو دین کو بیچ کر دنیا کماتاہے ۔ذاکر نائک کے خلاف مسجدوں سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ذاکر نائک اور ان کی فکر سے ناراض طبقہ کسی بھی سورت میں ذاکر نائک کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ذاکر نائک پر جہاں دہشت گردوں کو متاثر کرنے کا الزام ہے وہیں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا بھی الزام ہے۔آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدر سید محمد اشرف کچھوچھوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ذاکر نائک اپنے آپ کو اسلامک اسکالر کہتا ہے جبکہ اسے اسلامی قوانین اور فقہی مسائل کا ذرا سا بھی علم نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ذاکر نائک تاریخ اسلام کے سب بڑے دہشت گرد یزید کی تعریف کرتاہے۔ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ان کی آل و اولاد کی توہین کرتا ہے ۔ مزاروں ، درگاہوں، امام بارگاہوں کو توڑنے کی وکالت کرتے ہوئے ان بارگاہوں میں حاضری دینے والوں کو مشرک مانتا ہے اور ان کا خون حلال جانتا ہے ۔ذاکر نائک جس وہابی /سلفی/انتہا پسند فکر کی ترویج اشاعت کرتا ہے اس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ملک ہندوستان کی تہذیب سے میل کھاتا ہے ۔ذاکر نائک نے اپنے ایک پروگرام میں وسیلہ جیسے قرآنی عقیدہ کا انکار کیا اور اس پر 25 دلیلیں دینے کی بات کہی لیکن آج تک وہ ایک بھی دلیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ذاکر نائک کی مخالفت خود ذاکر نائک کی فکر سے متفق لوگ بھی کر رہے ہیں۔ جمیعت علماء ہند کے جنرل سکریٹری عبد الحمید نعمانی نے ایک ٹی وی مباحثے میں بڑی بے باکی سے ذاکر نائک کی مخالفت کی ہے ۔ اسے اسلامی معاملات کا جانکار ماننے سے انکار کیا ہے ۔اسی فکر کے ایک اہم اور بڑے ادارے دارالعلوم دیو بند نے ذاکر نائک کے خلاف ایک فتویٰ بہت پہلے جاری کر دیا تھا۔2008 میں شیعوں نے بھی ا ن کے خلاف سخت مظاہر ہ کیاتھا جس کی بدولت ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ پو پی میں ان کے پروگراموں اور پیس ٹی وی چینل کی نشریات پر پابندی لگانے کی مانگ ہو چکی ہے ۔یو پی ، مہاراشٹرا ، بہار اور راجستھان کے علاوہ دہلی میں بھی ان کے خلاف مظاہرہ ہو چکا ہے۔ بیرون ممالک میں بھی انہیں کئی ممالک میں پانبد کیا گیا ہے ۔ذاکر نائک پر عائد کی گئی پابندی ذاتی اور شخصی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ وہ فکر ہے جس سے انتہا پسند فکر کو راہ ملتی ہے ۔ مسلمانوں کے مقدس مقام کعبہ کے سابق امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں ہماری انتہا پسند تحریروں اور تقریروں کا عملی نمونہ ہیں۔تقریبا 15 پندرہ سال قبل انڈونیشیا کے وزیر اعظم نے ایک بڑا بیا ن دیا تھا کہ آج پوری دنیا کو ایک ہوکر دور حاضر کے سب سے بڑے خطرے سے لڑنا چاہئے ۔ دور حاضر کا سب سے بڑا خطرہ وہابی فکر ہے ۔عراق کے سابق وزیر اعظم نے بھی اس بات کو قبول کیا اور بیان دیا تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں وہابی فکر کی فوجی شکلیں ہیں۔ذاکر نائک اور ان کے حامی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ وہ وہابی ہیں اور وہابی ہی سچے مسلمان ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے لیکن ان کے دل و دماغ سے ہندوتوا نہیں نکلا ہے ۔ذاکر نائک اسی سچے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ذاکر نائک جیسے دیگر وہابی اسلام کے مبلغوں کو دو ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ سعودی عرب اور قطر ۔ سعودی عرب وہ ملک ہے جہا ں سے وہابی فکر پید ا ہوئی ۔ابن عبد الوہاب نجدی کے ذریعہ اس فکر کو سعودی دیکھ ریکھ میں پوری دنیا میں بھیجا گیا ۔ AIUMB کے بانی و صدر سید محمد اشرف کے مطابق ابن عبد الوہاب یزید کے بعد دوسرا سب سے بڑا دہشت گرد تھا جس نے مسلمانوں کا خون بہایا ۔ مکہ و مدینہ پر حملہ کیا ۔ اس کا ذکر وہابی فکر کے مبلغ طارق جمیل نے بھی اپنی ایک تقریر میں کیا ہے کہ’ ۔۔۔پھر مکہ اور مدینہ کو فتح کیا گیا اور حجاز کا نام بدل کر مملکہ سعودیہ عربیہ رکھ دیا گیا ‘۔خانہ خدا ور مسجد نبوی کی توہین کی گئی۔یہ فکر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں پائی جا رہی ہے ۔ پوری دینامیں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے تار کسی نہ کسی طرح سے اس فکر سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابن عبد الوہاب نجدی اور اس کی فکر کی حمایت اور سعودی بادشاہت کی وکالت ہندوستان میں بھی پائی جاتی ہے ۔ دو برس پہلے تو یہ بھی منظر دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک ہی فکر کے دو بڑے اداروں اور اور اس کے پیشواؤ نے سعودی وفاداری، فرماں برداری اور وہاں سے ملنے والی مراعات کی دعوی داری میں ایک دوسرے کو دعوت مباہلہ تک دے ڈالی۔اس فکر کی حمایت نہ صرف مدارس کے نصاب میں بلکہ کالج اور یونیورسٹی تک بھی پہنچی ہوئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی موقعہ پر سعودی ایماء پر عرب ممالک میں ہونے والے واقعات کیلئے ہندوستان میں احتجاجی جھنڈے نظر آ جاتے ہیں۔ اپنی اپنی حقداری کو واضح اور ثابت کرنے کے نشے میں اتنا بہہ گئے کہ کسی نے داعش سرگنہ کو کھلا خط لکھ کر اسے امیر المؤمنین کہہ کر مخاطب کیا تو کہیں داعش کے جھنڈے لہرادئے گئے ۔ذاکر نائک سے ہندوستانی مسلمانوں کا اکثریتی طبقہ ناراض ہے اور وہابی /سلفی فکر کی مخالفت کرتاہے ۔ذاکر نائک پر جس چابک دستی سے شکنجہ کسا گیا تھا اچانک اس میں ڈھیل لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ لوگوں کا سوچنا ہے کہ کہیں حکومت کا منشاء صرف الزام لگا کر حراساں کر کے اپنی سیاسی مضبوطی حاصل کرنا تو نہیں تھا۔شاید اسی پہلو کو دیکھتے ہوئے چند لوگ ذاکر نائک کی حمایت میں اسلئے آ گئے کہ میڈیا نے ذاکر نائک پر لگائے گئے الزاموں کے ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے مجرم قرار دے دیا ہے ۔جس کی وجہ سے ذاکر نائک نے انگریزی ٹی وی چینل ٹائمس ناؤ پر 500 کروڑ روپئے ہتک عزت کا نوٹس جاری کر دیا ۔میڈیا نے اپنے بچاؤ میں یہ بات ضرور کہی ہے کہ میڈیا اپنا کام کر رہا ہے ۔ میڈیا نے جب ساکشی مہاراج ، یوگی آدیتیا ناتھ ، سادھوی پرگیا سنگھ اور پروین توگڑیا کو کٹگھرے میں کھڑا کیا تو کسی نے میڈیا ٹرائل کی بات نہیں کہی اور اسے مذہب سے نہیں جوڑا۔ اب جب ذاکر نائک کی انہتا پسند فکر کو سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کیا گیا تو اس پر ایک خاص مذہب کا ٹارگیٹ کرنے کا الزام درست نہیں ۔ جبکہ ہندوستان کے اکثریتی طبقے کا مسلمان بھی ذاکر نائک کے خلاف یہی بات کہتا ہے ۔اس اکثریتی طبقے صوفی سنی مسلمانوں میں سے بھی ایک دو لوگوں نے ذاکرنائک خلاف میڈیا ٹرائل کی مخالف کی ہے ۔ ان میں دو بڑے نام ہیں ۔ بریلی سے توقیر رضا خان جو اپنی سیاسی پارٹی ملی اتحاد کونسل کے صدر ہیں اور معروف قلم کار مولانا یٰس اختر مصباحی ۔ انہوں نے ملی اتحاد کی وکالت کی ہے ۔ اپنے اپنے عقیدے پر رہتے ہوئے آج متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہ حملہ ذاکر نائک پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہے ۔ مسلمان ہونے کے نعطے گھریلوں مسائل ہم گھر میں سلجھائیں گے ۔ اگر آج ہم نے ملی اتحاد قائم نہ کیا تو اگلا نمبر ہمار ا ہوگا ۔ یہ مسلمانوں کو بانٹنے کی موجودہ حکومت اور آر ایس ایس کی سازش ہے۔ان دونوں ہی ذمہ داروں سے صوفی سنی مسلمانوں نے سوال کیا کہ کیا موجودہ حکومت سے قبل مسلمانوں میں نظریاتی اختلاف نہیں تھا؟پچھلے پچاس سے زائد برسوں سے کیا ہم عقیدہ کی بنیا د پر لڑتے نہیںآ رہے ہیں؟ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے کہ اگلا نمبر ہمارا ہوگا ؟ پچھلے پچاس برسوں سے ہمارا نمبر نہیںآیا لیکن ہر بار ہم کو یہی سمجھایا جاتا ہے کہ ایک ہوجاؤ ورنہ اگلا نمبر ہمارا ہوگا ۔دوسری طرف اس فکر اور اس کے نمائندوں کی نظر میں ہماری حیثیت اب مشرک اور قبروں کی پرستش کر نے والوں کی ہے ۔کس سیاسی سماجی یا مالی مفاد کی آڑ میں اس ملی اتحاد کا طلسم مسلمانوں پر طاری کیا جار ہا ہے ؟یہ دونوں ہی لوگ اس کا جواب دیں۔جہاں تک ذاکر نائک کا مسئلہ ہے تو اس کی مخالفت نئی نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیں۔اب تک ذاکر نائک سے منسوب دو لوگوں کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے ۔ ذاکر نائک ہی کے ساتھ کام کرنے والے کچھ لوگوں کے بیان ذاکر نائک کے حامیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ذاکر نائک واقعی دین اسلام کا مبلغ ہے ؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com

No comments:

Post a Comment