Saturday, September 10, 2016

جنت میں دہشت Fear In the Paradise जन्नत में दहशत


 Fear In the Paradise
जन्नत में दहशत
جنت میں دہشت
عبدالمعید ازہری

چند ماہ کی جد و جہد کے بعد دنیا کی جنت کہی جا نے والی ریاست جموں وکشمیر نئی حکومت کی تشکیل سے ہمکنار ہوئی ۔ حکومت کی تشکیل میں جو مشکلیں تھیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ پی ڈی پی اور بی جے پی دو ایسی جماعتیں ہیں جنہوں نے تقریبا ایک دوسرے کے عین مخالف و مقابل نظریات اورامور پر انتخابی لڑائی میں ایک دوسرے کا سامنا کیا ۔ جس کے نتیجے میں جموں بی جے پی اور ایک کشمیر پی ڈی پی کے کھاتے میں آ یا ۔ دونوں کا ملنا دو الگ الگ سمت میں بہنے والے دریا کے ملن جیسا ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں نے رسک لیا اور کچھ شرائط اور سمجھوتوں کے ساتھ حکومت تشکیل کی۔ حکومت بنتے ہی پی ڈی پی کے سرپرست اور جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے سب کا شکریہ ادا کیا ۔ جن لوگوں کا شکریہ ادا کیا گیا ان میں جموں و کشمیر کے عوام و خواص کے ساتھ پاکستان اور پاکستان کے صدر بھی تھے۔ اور وہ جماعتیں بھی ہیں جن سے کسی بھی وقت تشدد پسندی کے اظہار کی امید تھی ۔ شکریہ اس بات کا تھا کہ اس پورے انتخابی عمل میں کہیں بھی کو ئی فرقہ وارا نہ حملہ یا تشدد و انتہا پسندی کا اظہار نہ ہو ا ۔ اس بیان سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہو ئی بالخصوص بی جے پی کا رکنوں کو جن کا انتخابی مہم میں زور رہا ۔ یہ ہنگامہ کچھ دنوں تک میڈیا کی زبانی صدائے باز گشت کی طرح گھومتا رہا ۔ وقت گذرا اور حالات دوبارہ سدھر گئے ۔ ابھی کچھ ہی دن ہو ئے تھے کہ ایک ملزم قیدی کی رہائی کامعاملہ سامنے آیا ۔ پھر سے ایک ہنگامی صورت پیدا ہو گئی ۔ بی جے پی کے لئے کافی مشکل حالات ہو گئے ۔ شاید انہیں اس اقدام کا اندازہ نہ رہا ہو یا اس حد تک سمجھوتہ کے لئے کسی خاص مقصد کی وجہ سے رضا مندی ظاہر ہو ئی۔ لیکن ایک سوال تو ابھرا۔ آخر بی جے پی حکومت کے مرکز میں آ تے ہی جو ماحول ہندوستان میں بنا وہ سب دیکھ رہے ہیں ۔ آ ج کا ہندوستان نفرت ، تشدد اور فرقہ پرستی کی آ گ میں جھلس رہا ہے ۔ اور حد تو یہ ہے کہ نفرت اور فرقہ پرستی کی تبلیغ مذہبی رہنماؤں کی زبانی رواں ہے اور یہ آ گ دھیرے دھیرے ناگا لینڈ تک پہنچ گئی ۔ان حالات میں بی جے پی نے کشمیر میں ان معاملات پر کیسے سمجھوتہ کر لیا ؟۔ حالانکہ جب حالات قابو سے باہر آ تے نظر آئے تو بی جے پی کے لیڈروں نے آواز اٹھا ئی اور ایک رسمی دھمکی کا اظہار کیا کہ اگر آ گے سے ایسا معاملہ پھر سے در پیش آ یا تو ہم یہ معاہدہ ختم کر دیں گے ۔ ایک وقتی تو تو میں میں کے ساتھ ایک باب بند ہوا جبکہ پی ڈی پی ذمہ داران کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا اور ہمارے نظریات،معاملات اور معاملات معاہدے سے پہلے سے واضح تھے ۔ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ دوران انتخاب جس عدم تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات نہ ہو نے کی بات کی گئی تھی وہی سامنے آ گیا ۔ ایک تھا نے پر حملہ اور دیگر کئی حملوں کی خبروں سے اخبار کے صفحات سرخ و سیاہ ہو گئے ۔ جیسے ایک ٹھہرے ہو ئے دریا میں طغیا نی آ گئی ہو ۔ حالا نکہ کہا تو یہ جا تا ہے کہ کسی بھی طغیا نی سے پہلے دریا کا سکوت خود آ نے والی لہروں کا اشارہ ہو تا ہے ۔ تو کیا ما ن لیا جا ئے کہ ایسا تو ہو نا ہی تھا ؟۔ یوں تو دہشت گردانہ حملے اور اس کے جواب میں فوجی اقدام ریاستِ جموں وکشمیر بالخصوص کشمیر کے لئے نئے نہیں ۔ فلسطین کی طرح ان کی بھی قسمت میں خو ف و دہشت لکھ دی گئی ہے ۔ ہر صبح کا اگتا سورج اپنی کرنوں میں روشنی کے ساتھ کسی بھی وقت در پیش خطرات لے کر آ تا ہے ۔ جب ہم کشمیر کے جغرافیا ئی کیفیت کی بات کریں تواس وادی میں قدرت کے عجیب و غریب کرشمے نظر آ تے ہیں ۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہو ئی وادی جو سینکڑوں میل تک مسطح ہے ۔ مختلف انواع و اقسام کے پھلوں اور میوں کے باغات کے درمیان جھیلم کے پانی اور زعفران کی کھیتی نے اس دادی کو مزید خوبصورت اور بیش قیمت بنا دیا ہے ۔ گردو نواح کے مناظر ایسے ہیں کہ ایک جھلک میں ہی تمام تر الجھنیں اور ذہنی تھکان کا فور ہو جا تی ہے ۔ دور درا ز سے لوگ دل بہلانے اور اپنے غموں کے ہلکان کے لئے کشمیر کا رخ کر تے ہیں ۔ بعض کا خیال ہے کہ جس جنت کا ذکر ہم کتابوں میں سنتے آئے ہیں وادئ کشمیر اس کی ایک جھلک ہے ۔ وادئ کشمیر کے دامن میں جنت سا سماں ہے ۔ یہ خوبصور ت وادی اپنے دلفریب اور خوشنما مناظر سے لوگوں کے غموں کو دور کرنے کا کام کرتی ہے ۔ اس وادی میں جہاں ایک طرف قدرت کے عجیب وغریب مناظر اور شاہکار ہیں وہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وادی میں بسنے والے ہر انسان کے صبح و شام خوف وحراس میں گزرتے ہیں۔ جب وہ رات کو سوتا ہے تو صبح کے بارے میں یہی فکر رہتی ہے کہ نہ جا نے صبح کس کی ہو اور کیسی ہو ۔ رات کی تاریکی اور سناٹے کو فنا کر نے والی صبح نہ جا نے کو نسی نئی مصیبت لے کر آ ئے اور اب کس کا گھر دھواں آ شیانہ خاکستر اورعزیز ہلاک ہوں ۔ یہ وہ وادی ہے جس کی ہر صبح دہشت زدہ اور رات غم آ لو د ہو تی ہے ۔ جب بچے والدین کو الوداع کہتے ہیں تو والدین اس وقت تک فکر والم میں رہتے ہیں جب تک بچے واپس نہ آ جا ئیں ۔ کیونکہ نہ بازار محفوظ ہے نہ اسکول ۔وہ تو بھلا ہوموبائل فون کاکہ ایک دوسرے کے زندہ ہونے کی خبر مل جا تی ہے۔ دنیا کی جنت کہی جا نے والی وادی میں عجیب سی دہشت گھر کئے ہو ئے ہے جو کسی بھی طرح سے جانے کا نام نہیں لیتی ۔یہ دہشت ایک کے بعد دوسری اس کے بعد تیسری نسل تک آ گئی لیکن خوف ودہشت کا ماحول اپنی جگہ قائم ہے ۔ کبھی دہشت گرد اور انتہا پسندوں کی بندوقیں ان بے گناہ شہریوں کی کنپٹیوں پر ہو تی ہیں تو کبھی جواب میں ان کے سینے فوجی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔ دونوں طرف سے عام بے گناہ شہری کا مرنا لازمی ہے ۔ وادئ کشمیر کا دورہ کرنے والوں پر یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ جتنی کشمیر کی آ بادی ہے اتنی ہی وہاں پر فوج دکھتی ہے ۔ ہر پانچویں گھر کی چھت پر فوجی بندوقیں تانے تیار کھڑے ہیں ۔ ہر گلی ،نکڑ اور چوراہے پر تنی ہو ئی بندوقیں دکھا ئی دیتی ہیں ۔ اتنے سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود دہشت گرد وں کی مسلسل آ مد اور حملہ ایک سوال کھڑا کر تا ہے جو کہ افسوس ناک اور باعث الم ہے ۔ کئی بار اعلان ہو تا ہے اور منصوبہ بنایا جا تا ہے کہ اب کشمیر، جو فوجی چھاؤ نی میں تبدیل ہو چکا ہے، کو مزید فوجیوں کے بار خرچ سے آزاد کیا جا ئے لیکن نہ جا نے کیسے عین اسی دوران یک بیک حملہ ہوتا ہے اور حالات پھر سے کشیدہ ہو جا تے ہیں ۔ نیتجتاً منصوبہ بالائے طاق چلا جا تا ہے جو اب تک بدستور جا ری ہے ۔ وہاں کی سیاسی نمائندگی بھی قابل غور ہے ۔ قتل وخون ،نفرت و تشدد کے کئی سال گزرنے کے بعد کشمیر میں بسنے والوں نے امید نہ چھوڑی ۔ آج حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں ۔ خوف و دہشت کا ماحول قدرے کم ہے ۔ لوگوں نے تعلیم کو ہتھیار بنا کر اس نفرت کے ماحول کے خلاف استعمال کیا ۔ اس میں قدرے کامیابی حاصل ہو ئی ۔ انہوں نے اپنے آ پ کو سنبھا لا اور دنیا کی جنت کہی جا نے والی اس وادی کی تعمیر و ترقی کے لئے اقدامات کئے ۔ امید ہے آ نے والے دن اچھی خبر کے ساتھ آئیں گے ۔دورِ حاضر کے ایک مفکر کا ما ننا ہے کہ یہ وادی اگر اتنی سرد نہ ہو تی تو شاید اس خطے کے لئے عالمی جنگ چھڑ جا تی ۔ میرا ما ننا ہے اگر اس وادی سے یہ دہشت اور خوف ختم ہو جا ئے تو پھر سے یہ وادی اسی جنت کا لطف دے گی جس کے لئے یہاں کے نظارے مشہور ہیں ۔
Abdul Moid Azhari Amethi U.P. Mob No: 09582859385 E mail:abdulmoid07@gmail.com

Sunday, September 4, 2016

What is behind "Karwan e Ittehad e Millat" by(Jameat Ulama e Hind) जमीअत उलमा ए हिन्द को "कारवाने इत्तेहादे मिल्लत" की आवश्यकता क्यूँ है ? جمیعۃ علماء ہند کو "کاروان اتحاد ملت" : کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


What is behind "Karwan e Ittehad e Millat" by(Jameat Ulama e Hind)
जमीअत उलमा ए हिन्द को "कारवाने इत्तेहादे मिल्लत" की आवश्यकता क्यूँ है ?
جمیعۃ علماء ہند کو "کاروان اتحاد ملت" : کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
عبد المعید ازہری

2014کے لوک سبھا انتخابات کے وقت ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی کہ بھگوا دہشت پسند تنظیم اور اس کی سرپرستی میں الیکشن لڑ رہی بھارتی جنتا پارٹی کو ہر حال میں ہرانا ہے ۔ مسلمانو ں کے قاتل، گجرات کے گنہگار کو کسی بھی قیمت پر کرسی حکومت پر نہیں بیٹھنے دینا ہے ۔نتیجہ جو ہوا ،وہ ہمارے سامنے ہے ۔ مسلمانوں کو متحد کرنے کے خوب نعرے لگائے گئے ۔مسلمان تو متحد نہ ہوا لیکن مسلمانوں کے خلاف اتحاد ضرور ہو گیا۔ اس کاخمیازہ پچھلے دو برس سے پوراہندوستان بھگت رہا ہے ۔کانگریس کے کچھ نمک خوار مسلمانوں نے’ قاتل، قاتل ‘ نعرہ دیکر مسلمانوں کو ایک عجیب سے ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا۔لیکن آج تک وہ کسی مسیحا کا چہرہ مسلمانوں کو دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک گجرات کا گناہ اور گنہ گار وں کی داستان مسلمانوں کے ذہنوں میں بھردیا گیا۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ہوئے الگ الگ جگہوں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اورمختلف دور اقتدار میں ہوئے تشدد ، ظلم و زیادتی کی داستان تاریخ کے صفحات سے غائب کر دئے گئے ۔پچھلی ایک دہائی سے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے ۔ چند نام نہاد مسلم رہنما پوری قوم مسلم کا سودا سیاسی جماعتوں سے کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد نعرہ بازی کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اب تو مسلمان سنجیدہ گفتگو نہ سننے کا اہل رہا اور نہ ہی سنجیدہ باتیں کرنے کے لائق رہا ۔وہ جذباتی ہے۔ صرف جذبات سمجھتا ہے۔اسی سے ہر بار دھوکہ کھاتا ہے ۔
یہ بات اسلئے ذکر کر دی گئی ہے کیوں کہ پچھلے کچھ مہینے سے پھر سے اتحاد ملت اور مسلکی اتفاق کی ہوا گرم ہے ۔کچھ ہی مہینوں بعد یو پی میں اسمبلی انتخابات آنے والے ہیں۔ اسلام پھر سے خطرہ میں آنے والا ہے ۔ یا یوں کہئے کہ آ گیا ہے ۔ آپسی رنجشوں کو مٹا کر ایک ہو جاؤ۔ ورنہ اسلام مٹ جائے گا ۔ گھر کے مسئلے کو گھر میں سلجھا لیں گے۔ پہلے باہری طاقتوں سے لڑ لیا جائے ۔ اس سے ملتے جلتے جملے اخباروں کی سرخیوں میں ہوتے ہیں۔ سوسل سائٹس پرتو اس سے بھی زیادہ کھل کر مہم چل رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کوئی ملک یا قوم مسلمانوں پر یک بیک حملہ کرنے والی ہے ۔ بچے ،بوڑھے اور بزرگ سبھی کو اب تیار ہو نے کی ضرورت ہے ۔ جام شہادت انتظار کر رہا ہے ۔دو مہینہ قبل بریلی سے توقیر رضا خاں نے اچانک دیو بند کا دورا کیا اور وہاں سے مسلکی اختلافات ختم کرکے مسلمانوں کے متحد ہو جانے کی نصیحت کی ۔ ان کو ان کے گھر سے جواب مل گیا ۔ اس لئے شاید اب دوبارا ایسی بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ اہل سنت و جماعت میں ان کے اس اقدام کی خوب مذمت ہوئی ۔ علماء ، مشائخ اور دیگر ذمہ داروں نے توقیر رضا خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ 
ابھی چند ہی روز قبل روزنامہ انقلاب میں ایک خبر پڑھی۔ جس کے بعد مجھے توقیر رضا خان کے اس اقدام اور 2014 کے لوک سبھا انتخابات کی تصویریں سامنے آگئیں۔خبر تھی کی جمیعۃ علماء ہند اپنا ۳۳واں سالانہ اجلاس اس بار اجمیر شریف میں منعقد کریگی ۔ اس بار کے سالانہ اجلاس کی خصوصیت یہ ہوگی کہ دیوبند سے لیکر اجمیر تک’ کاراں اتحاد ملت ‘کے نام سے ایک قافلہ روانہ ہوگا ۔اس کارواں کے لئے خصوصی ٹرین ہوگی ۔درگاہ اجمیر شریف کے دیوان کو اجمیر میں استقبالیہ کمیٹی کی صدارت کیلئے منتخب کیا گیا ۔جمیعۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری کے مطابق ایسا پہلا موقعہ ہوگا جب جمیتہ علماء کے بینر تلے پہلی بار نعتیہ مشاعرہ ہوگا ، پہلی بار صوفیوں کو مدعو کیا جائے ۔ پہلی بار جمیعۃ تمام مکتب فکر کے نمائندوں ایک ایک جگہ اکٹھا کرے گی اور ملی اتحاد کی کوششوں کو شرمندہ تعبیر کرے گی۔ جمیعۃ علماء ہند نے۱۰۰ سال بعد اس کا بھی اعتراف کیا کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری نے دین کی بے لوث خدمت کی ہے اور ان کی ہی برکت سے آج ملک میں گنگا جمنی تہذیب اور قائم اور امن و امان بحال ہے ۔کار وان اتحاد ملت کے عظیم سفر اور پروگرام میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہوں گے ۔کاروان اتحاد ملت کا ہر اسٹیشن پر زوردار استقبال کیا جائے ۔
جمیعۃ علماء راجستھان کے جنرل سکریٹری مولانا عبد الواحد کھتری قاسمی کے ذریعہ جمیۃ علماء ہند نے یہ بھی صفائی دی ہے کہ وہ وہابی نہیں ہیں۔ ان کا سلسلہ وہابیت سے نہیں چشتیت سے ہے ۔یہ خبر قابل غور ہے ؟ کیونکہ جمیعۃ علماء کو ہمیشہ دیو بندی مکتب فکر کا مانا گیا ہے ۔ صوفیوں اور درگاہوں کی حمایت کے برخلاف ہی انہیں دیکھا گیا ہے ۔اچانک سے صوفی دامن کو ہاتھ میں لینے سے تشویس پید ہونا فطری ہے ۔ اتحاد کی کوشش یا اس کا دعوی کرنے میں تو کئی لوگ لگے ہوئے تھے ۔لیکن اس موقف میں دم تھا ۔اتحاد کیلئے اس طرح کے اقدام کی جمیعۃ سے توقع نہیں کی جا رہی تھی ۔ جیسے ہی چشتیت اور وہابیت کا معاملہ سامنے آیا فورا ہی مارچ مہینے میں منعقد ہوئے ورلڈ صوفی فورم کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔۱۷ سے ۲۰ مارچ تک آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے ایک عالمی پیمانے پر بین الاقوامی صوفی کانفرنس کی تھی جس میں تقریبا ۳۰ ممالک کے صوفی اسکالرس اور مشائخ نے شرکت کی تھی۔ ملک کے وزیر اعظم نے بھی اس صوفی کانفرنس میں شرکت کی اور ایک تاریخی خطاب کیا ۔جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی ۔ اب جمیعۃعلماء کا اجمیر میں اجلاس کرنا اور درگاہ اجمیر کے دیوان سے اس اجلاس اور کاروان اتحاد ملت کا استقبال کرانے کے پیچھے کا مقصد صاف ہوگیا ۔جمیعۃ علماء کی تاسیس کے تقریبا ۱۰۰ سال پورے ہونے والے ہیں۔ اتنے برسوں کے طویل عرصے میں خواجہ غریب نواز کی تعلمات ، حیات و خدمات کا اعتراف نہیں کیا۔ اچانک سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا اور ان کی برکتوں کو بھی تسلیم کیا گیا ۔ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے منعقد کی گئی عالمی صوفی کانفرنس سے چند روز قبل ہی جمیعۃ علماء اپنے ایک پروگرام میں اس کا اشارہ دے چکا تھا ۔ دو مدنی گروپ میں منقسم جمیعۃ کو جوڑا گیا اس کے بعد ایک بڑا بیان دیا گیا کہ بریلوی بھی ہمارے بھائی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر انہیں ان کا حصہ دینے کے لئے ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد ایک منچ توقیر رضا خان الگ الگ مکتب فکر کے ساتھ دیکھے گئے۔ پھر جمیعۃ علماء کا یہ بڑ ا قدم ۔سب ملا کر ایک ایک تصویر نقش کرتے ہیں کہ اس بار کے انتخابات میں نیا اقدام کیا ہوگا۔ گذرے برسوں کی طرح مسلمانوں کی سودے بازی کی نئی صورت حال کیا ہوگی ۔
جمیعۃ علماء کی اس بیان بازی کے بعداسے ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ صوفی علماء و مشائخ نے جمیعۃ کے اس موقف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ سچ ہے کہ خواجہ کے دربارمیں سبھی آتے ہیں۔ ان کا دروازہ ہر ایک کے لئے یکساں کھلا ہوا ہے۔ سبھی یہاں پناہ لیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اپنا سلسلہ جبرا غریب نواز سے جوڑ لے ۔غریب نواز کی دینی اور سماجی خدمات کو انجام دئے ہوئے ۸۰۰ سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ ملک و بیرون ملک، ہر جگہ ان کی خدمات کو تسلیم کیا گیا ۔ ملک میں بھی ہر مذہب اور عقیدت نے ان سے اپنی عقیدت کا اعتراف کیا ۔ جمیعۃ علماء کو بھی وجود میں آئے سو سال ہونے کو ہیں۔ ان سو برسوں میں کبھی بھی انہیں غریب نواز کی خدمات دیکھنے اور پرکھنے کا موقعہ نہیں۔ اچانک سے اس کا اعتراف ہوگیا ۔اس کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ جو جماعت پورے ہندوستان میں مزار اور صوفی وتصوف مخالف سمجھی جاتی ہے ۔ آج سے نہیں برسوں سے لوگ یہی مانتے آئے ہیں۔اچانک سے انہیں درگاہوں سے کیسے دلچسپی ہوگئی ۔ یہ سوالا ت آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و صدر سید محمد اشراف کچھوچھوی نے اٹھائے ۔
انہوں نے جمیعۃ علماء کے اس اقدام کو سوالوں کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ آج کی وہابیت کی چال ہے ۔ تاریخ شاہد ہے انہوں نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ جب بھی ان کا چہرہ بے نقاب ہوا ۔انہوں نے ایک الگ نام اور چہرہ اختیار کر لیا ۔ بورڈ کے صدر نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ کیا یہ جمیعۃ کے لئے ممکن ہوگا کہ وہابیت کی تمام شکلوں کی مذمت کر سکے ؟ جن بیرونی ممالک سے اس فکر کی پرورش ہوتی ہے، کیا وہاں سے اپنے رشتوں کو الگ کر پائے گی ؟اجمیر کو منتخب
کرنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ اگر واقعی صوفی ہیں تو کیا صوفیا کی تعلیمات اور روایات پر عمل ممکن ہوگا ؟ ان کے عقائد و نظریات سے اتفاق ممکن ہوگا ؟ جن اکابر علماء دیوبند نے اپنے آپ کو وہابی کہا، کیا جمیعۃ ان سے اپنا رشتہ توڑ پائے گی ؟ کارواں کی ابتدا دیوبند کی جگہ کہیں اور سے کر پائے گی ؟خود جمیعۃ کے مطابق پہلی بار نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوگا ۔تو کیا اچانک چشتیت سے رشتہ جوڑنے کے بعد نعتیہ محفلوں کا پروگرام بنا لیا گیا؟اس سے پہلے کیا وجوہات تھیں؟ پہلی بار وہ درگاہوں کے ذمہ داران اور خانقاہوں کے سجادگان کو مدعو کریں گے۔ اس سے پہلے مدعو نہ کرنے کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
جمیعۃ علماء ہند سعودی بادشاہوں سے اپنے رشتوں کو کسی بھی صوت میں توڑنے کے حق میں نہیں ہوگی ۔ اسی سعودی وفاداری کی ایک لڑائی جمیعۃ علماء کے ارشد مدنی اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے سلمان ندوی کے بیچ ہوچکی ہے۔ جو اخباروں میں آج بھی محفوظ ہے ۔ وہ لڑائی دعوۃ مباہلہ تک پہنچ گئی تھی ۔سعودی بادشاہوں کی دینی خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے جمیعۃ کے ذمہ داراپیل کر چکے ہیں۔جب کہ دوسری طرف سعودی بادشاہوں کو ندوۃ العلماء کے ذمہ دار ڈاکو، اسلام دشمن ،دھوکہ باز اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نواز چکے ہیں۔اس کے علاوہ دیو بند کے کئی اکابر علماء درگاہوں ، خانقاہوں اور مزاروں کے تعلق سے اپنے موقف کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اپنے آپ کو وہابی بھی کہہ چکے ہیں۔ کیا جمیعۃ علماء کیلئے یہ ممکن ہوگا کہ ان اکابر علماء کی تحریروں سے اپنی برات کااظہار کر سکیں۔
وہابیت سے علیحدگی کی کیوں ضرورت پڑ گئی ؟یہ بڑا سوال ہے ۔ اس کے علاوہ صوفیت کی پناہ لینے کے پیچے کیا مقصد ہے؟ کیا ان سب کا کوئی ربط آنے والے انتخابات سے ہے ؟ اگر ہے تو کیا ہے ؟ پچھلے دو برسوں سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں دہشت گردوں کی فکر کو وہابیت سے متعارف کرایا گیا ۔ پوری دنیا میں دہشت گردی اور وہابی فکر کے خلاف بڑی مہم کا آغاز ہو گیا ۔ کسی بھی وہابی ادارے ، جماعت یا افراد سے کسی بھی طرح کے تعلقات رکھنے پر شک کی سوئی اس پرپڑجاتی ہے ۔ وہابی فکر کے عقائد و نظریات میں دو باتیں اہم ہیں۔ اپنے علاوہ کسی کوبھی سچامسلمان نہ سمجھنا ۔ سب کو کافر سمجھنا ۔ دوسرے درگاہوں ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کو زمیں دوز کر دینا ۔اسے شرک و بدعت کا اڈہ کہہ کر بم سے اڑادینا ۔پوری دنیا میں جہاد کے ذریعہ ایک اللہ کی حکومت قائم کرنا ۔ عام فہم زبان میں وہابی فکر کی پہچان یہ بتائی گئی کہ جو درگاہوں ، خانقاہوں اور صوفیوں میں کسی بھی طرح کا یقین نہیں رکھتے وہ وہابی ہیں ۔
ایسے مشکل کن حالات میں جمیعۃ علماء ہند کے اس اقدام کو کس اعتبار سے دیکھا جائے ۔ کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ جمیعۃ علماء اب صوفیوں اور درگاہوں کے قریب ہو کر اہل سنت و جماعت میں شامل ہونے کا ارادا کر چکی ہے ۔ ملت کے اتحاد کیلئے اس نے اپنے مسلمات توڑ دئے ہیں ۔ ایسی سورت میں اس کی ستائش ہونی چاہئے ۔ سب کو مل کر اس بات کی تائید کرنی چاہئے ۔ملت کو آج عالمی بحران سے نکالنا چاہئے ۔ یا پھر جمیعۃ علماء کی یہ کوئی سازش ہے ۔ جو پھر سے صوفی سنی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے رچی گئی ہے ۔ چہرہ بدل کر اہل سنت و جماعت کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے ۔ اس سورت میں پوری قوت کے ساتھ جمیعۃ علماء کی مخالف اور اس اقدام کی مذمت کر نی چاہئے ۔ صوفیوں سے اپنے جبری رشتہ کو جوڑ کر وہ اہل تصوف کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔اپنے کھوتے ہوئے اقتدار کے ڈر سے ایک بار چہرے پر نقاب ڈال کر اہل سنت کی صفوں میں داخل ہو کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


Friday, September 2, 2016

قبروں پر عورتوں کی ’حاضری‘ حرام یا ’غیر شرعی عمل‘ ؟ क़ब्रों पर औरतों का जाना हराम है या ग़ैर शरई अमल मना है ? A woman,s entry on grave is Prohibited or doing against the Islamic law is sin


قبروں پر عورتوں کی ’حاضری‘ حرام یا ’غیر شرعی عمل‘ ؟
عبدالمعید ازہری

آج کل درگاہ حاجی علیؓ پر عورتوں کی حاضری کو لیکر ایک بحث خواص سے لیکر عوام تک گرمجوشی کے ساتھ جاری ہے ۔ درگاہ حاجی علی ٹرسٹ نے ۴ سال قبل درگاہ کے مخصوص اور محدود علاقہ میں عورتوں کے داخلہ پر پا بندی عائد کردی تھی۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عورتوں کے حقوق  کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا تھا ۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی عدالت کا فیصلہ آیا کہ عورتوں کے داخلے کے خلاف درگاہ حاجی علی ٹرسٹ کی جانب سے عائد پابندی غلط ہے ۔ عدالت کا ماننا ہے کہ اس کا سیدھا تعلق شریعت سے ہے۔ اگر شریعت میں واقعی عورتوں کے مزارات اور درگاہوں پر جانے کی ممانعت ہے، تو عورتوں پر پابندی عائد کی جائے گی ۔ورنہ ان کو پابند کیا جانا غیر قانونی ہوگا ۔ اس فیصلہ کے بعد علماء کے درمیان ایک الگ قسم کا ماحول بنتا نظر آ رہا ہے ۔علماء کا ایک طبقہ عدالت کے اس فیصلہ کی مذمت پر اتر آیا ہے۔ وہیں سنجیدہ طبقے میں عدالت کے اس فیصلہ پر واویلہ نہ مچانے کی ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔ عورتوں کے مزارات پرداخلہ کو لیکر ابھی بھی کشمکش بنی ہوئی ہے ۔ کئی دار الافتاء سے باقاعدہ فتوے صادر ہوچکے ہیں۔ کہ عورتوں کا درگاہوں میں داخل ہونا غیرشرعی عمل ہے ۔ گناہ ہے ۔ حرام ہے۔جبکہ وہیں کئی اسلامک اسکالر اور مفتیان کرام قبروں پر عورتوں کے جانے کو فی نفسہ جائز و مباح مانتے ہیں۔
اس موضوع پر اگر چہ آج کے علماء و مفتیان کرام کا اختلاف ہو۔ لیکن عورتوں کے حقوق کو لیکر ہمیشہ سے ہی مذہبی بحث ہوتی رہی ہیں۔ درگاہ حاجی علی سے قبل کچھ مندروں میں بھی عورتوں کے داخلے پر پابندی کا کیس سامنے آ چکا ہے۔ وہاں پر بھی قانونی چارہ جوئی سے اس پابندی کو ختم کیا گیا ہے ۔ اب اس کے بعد اس تنظیم نے حاجی علی درگاہ کے معاملے میں بھی اپنی دلچسپی دکھائی ۔ عدالتی کاروائی کے ذریعہ فیصلہ عورتوں کے حق میں آیا ہے ۔ حالانکہ عدالت نے صاف طور پر اس کا انکشاف کیا ہے کہ اگر مذہب عورتوں کو پابند کرتا ہے تو قانون اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا ۔ اگر درگاہ حاجی علی ٹرسٹ کا اپنا موقف ہے تو اسے قانونی طور پر عورتوں کے داخلے پر پابند ی عائد کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ یہ درگاہ بلا تفریق مذہب و ملت اور جنس و نسل سب کے لئے یکساں عقیدت گاہ ہے ۔ سبھی اپنی عقیدت کی بنیاد پر آتے ہیں۔ سب کو آنے اور اپنی عقیدتوں کے اظہار کرنے کا حق ہے ۔جب تک وہ کسی شرعی جرم کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔
قرآن و احادیث کے اقوال اور بیانات کو دیکھنے کے بعد اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ عورتوں کے درگاہوں یا مزارات پر جانے میں فی نفسہ کوئی ممانعت نہیں ۔کوئی بھی ایسی روایت صحیح طور پر نہیں ملتی جس میں عورتوں کے قبروں پرجانے کی ممانعت ملتی ہے۔ عورتوں کے مزارات یا درگاہوں پر حاضری سے منع کرنے والی جتنی بھی دلیلیں اور علتیں ہیں ان میں کافی حد تک مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔ یعنی وہ غیر شرعی اعمال و حرکات جن سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ ان حرکتوں کے ارتکاب کی وجہ سے یکساں حکم مرد اور عورت دونوں پر عائد ہوتے ہیں۔جن وجوہات کی بنیاد پر قبروں پر حاضری کی اجازت وارد ہوئی ہے ان میں مرد و زن دونوں شریک ہیں۔ وہ حکم کسی ایک جنس کے ساتھ مختص نہیں۔ لہٰذا کسی بھی حکم شرعی کو بلاضرورت تفریق کے ساتھ کسی خاص جنس کے ساتھ مختص کرنا روا نہیں۔
سب سے پہلے اس بات کا خلاصہ ضروری ہے کہ مزارات اور قبروں پر حاضری شریعت میں فقہی نقطہ نظر سے محض جائز یا مستحب ہے ۔جس طرح اسے حرام کہنا غلط ہے اسی طرح اسے واجب یاضروری قرار دینا یا سمجھنا بھی درست نہیں۔پیغمبر اسلام علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا ، اب تم ان کی زیاعت کیا کرو‘‘ ۔ ان کی علت اور غرض و غایت کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا چونکہ قبروں پر حاضر ہونے سے آخرت کی یاد آتی ہے ۔ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ایک دن اس دار فانی کو کوچ کر جانا ہے ۔ سب کچھ یہیں رہ جائے گا ۔ ایک سے ایک اہل دولت و ثروت اور شہرت یافتہ انسان دو غز زمین کے نیچے ہیں۔کبر و نخوت، حرص وطمع ، غرور و تکبر، دھوکہ و فریب اور ہر طرح کی عیاری و مکاری کا نشہ اس زمین کے نیچے دفن ہو چکا ہے۔ اسلئے اعمال کو درست کرکے زندگی بسر کرنی ہے ۔اور آخرت کی تیاری کرنی ہے ۔اسی کے ساتھ جو اولیاء اللہ ہیں ۔ان کی درگاہوں پر حاضری سے بھی رب کی نعمت اور اس کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ رب کی رضا میں زندگی گذارنے والے کو رب تعالیٰ کبھی بے نام نہیں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کے اس دوست کی قبر پر ہزاروں لوگ ہمہ وقت کلمہ ،درود ، تسبیح تحلیل اور قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ ہمہ وقت رحمت الہٰی کا نزول ہوتا ہے ۔ اس سے خدا پر یقین اور اس کی رحمتوں پر اعتقاد مزید مضبوط ہوجاتاہے ۔ رحمت کی برسات کی چھینٹوں سے دلوں کو اطمئنان نصیب ہوتا ہے ۔
عورتیں پہلے مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھا کرتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے دور میں مسجدوں میں عورتوں کے نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ کیونکہ اس دور تک فتنہ شروع ہوچکا تھا ۔ عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی وجہ سے فتنے جنم لینے لگے تھے۔ اس لئے عورتوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کیلئے یہ فیصلہ لیا گیا تھا ۔اسی پر قیاس کرتے ہوئے مرد و عورت کے اختلاط سے پیدا ہونے والے فتنوں کی وجہ سے عورتوں کا مزارات پر جانا منع کر دیا گیا ۔لیکن دقت اس وقت ہوئی جب یہ پابندی مکمل طریقے عائد کر دی گئی ۔صرف مزاروں پر حاضری ہی کو مذکورو مرکوز کیا گیا ۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں پر عورت اور مرد کا اختلاط ہوتا ہے۔ وہاں کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہوئی ۔ بسوں میں ، ٹرینوں ، اسپتالوں ، اسکولوں،بازاروں کے علاوہ بہت سی جگہ ہیں جہاں یہ اختلاط پایا جاتا ہے ۔ لیکن اس پر کسی کا کوئی موقف فتوے کی شکل میں سر منظر نہیں۔صرف درگاہوں اور مزاروں کے داخلے کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی یہ سمجھ سے باہر ہے ۔
عورتوں کے مسجد میں داخلے کی ایک علت اور دلیل یہ بھی ہے کہ چونکہ فتنے کے شبہات کی بنیاد پر مسجد میں عورت کا داخل ہونا اور ساتھ میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ۔ جبکہ نماز فرض ہے ۔ لہٰذا مزاروں پر حاضری دینا بھی غیر شرعی ہے ۔ کچھ مقامات پر تو اس بات کی بھی وضاحت صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ عورت جب مزار پر جانے کا اراداہ کرتی ہے ۔ اس کے گھر سے نکلنے سے لیکر واپس گھر آنے تک اللہ ، اسکے رسول اور تمام فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔حالانکہ دونوں جگوہں میں حاضری کی نوعیت مختلف ہے ۔دونوں میں کئی بڑے فرق ہیں جو اسلام میں نہ صرف عورتوں کے مقام کو بلند کرتے ہیں بلکہ حکمت و دانائی کا بھی پتہ دیتے ہیں۔قبروں ، مزاروں ، درگاہوں اور مسجد میں داخل ہو نے میں کچھ واضح فرق ہے ۔ مسجد نماز کیلئے ہے ۔ جماعت کے ساتھ نماز کیلئے مسجد کو افضل بتایا گیا ۔ اس کے پیچھے کئی مقاصد اور مفادات ہیں۔ان میں سے ایک دوسرے کی خبرگیری اور حالات سے واقفیت بھی ۔ مشکل کن حالات سے نمٹنے ، مصائب کے حل و تدارک کیلئے تدبیر و سورت نکالنے کا بھی مقصد جماعت میں پوشیدہ ہے ۔جن کا سیدھا تعلق مردوں سے ہے ۔نماز کو گھر میں بھی پڑھنے کی اجازت ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ گھروں کو قبرستان نہ بنایا جائے ۔ یعنی گھروں میں بھی نمازیں قائم کی جائیں۔
نماز کی طرح قبروں کا مسئلہ نہیں ۔ قبروں پر جانے کے پیچھے جو مقصد ہے وہ وہیں جاکر حل ہوگا ۔ اسے گھر میں نہیں حاصل کر سکتے ۔ نماز کیلئے مسجد میں عورتوں کو نہ جانے دینے کے پیچھے عورتوں ہی کی حفاظت مقصود تھی ۔ پانچوں وقت ہر روز نماز پڑھنے کے بعد ان ایام حیض میں عورتوں کی مسجد میں غیر حاضری باعث شرم ہوگی جن میں ان پر نماز فرض نہیں ۔ مسجد کے ہر نمازی پر یہ واضح ہو جائے گا ۔ جس سے عورت کی لاج اور عزت میں قدرے کوفت لاحق ہو جائے گی ۔ قبروں پر جانے میں یہ معاملہ نہیں۔کیونکہ وہاں کبھی کبھی جانا ہوتا ہے ۔پھر جب پیغمبر اعظم علیہ السلام نے زیارت قبور سے پابندی ہٹائی تھی تو اس میں کسی خاص جنس کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ سب کے لئے اجازت تھی ۔ قبروں پر جانے کی جو پابندی تھی اس کی وجہ بھی دوسری تھی ۔اختلاط مرد و زن نہیں تھی۔ ایام جاہلیت میں جب عورتیں قبروں پر جاتی تھیں تو اپنوں کی قبر دیکھ کر اپنے بال نوچنے لگتی تھیں اور بسا اوقات اپنے کپڑے بھی پھاڑنے لگتی تھیں۔ غیروں کی قبروں پر خاص طورپرکسی دشمن کی قبروں پر لعنتی اشعار بھی لکھا کرتی تھیں ۔جس کے سبب بڑا فتنہ ہوتا تھا ۔ لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا تھا ۔ اسی وجہ سے منع کیا گیا تھا ۔ جب تعلیم و تربیت کر دی تو سبھی کو اجازت دے دی کہ اس سے آخرت کی یاد آئے گی ۔برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی اور تقوی کا راستہ اپنایا جائے گا۔انسان کے حقوق پامال نہیں ہوں گے۔
آج بھی حرم کعبہ میں عورت مرد ایک ساتھ طواف کرتے ہیں۔ دیگر ارکان بھی ایک ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اختلاط بھی ہوتا ہے۔ اسکے با وجود منع نہیں ۔اس میں ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کعبہ ہو یا روضہ رسول ﷺ ان پاک جگہوں پر نیت میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ اس لئے یہاں درست ہے ۔ یا پھر ان جگہوں پر عورت اپنے محرم کے ساتھ ہوتی ہے ۔اسلئے اجازت ہے ۔ اس لحاظ سے دیگر مقامات پر اگر نیت میں پاکیزگی ہو تو حاضری درست ہوگی ۔ قبروں پر حاضری کے وقت ایک عجیب سا کیفیت ہوتی ہے ۔ اس وقت دنیا بڑی بے معنی لگتی ہے ۔ لوگ موت اور آخرت سے بڑا قریب ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی فتنہ کے بارے میں تصور نہیں کر پاتے ۔اسی طرح کسی ولی کی درگاہ پر ایک الگ طرح کا کیف ہوتا ہے ۔ ایسی جگہوں پر پہنچ کر نیت میں پاکیزگی اولیں شرطوں میں سے ہے ۔ اس کے با وجود بھی اگر فتنہ گری ہوتی ہے تو وہ کہیں بھی ہو سکتی ہے ۔ گھر میں، محلے میں ،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ہو سکتا ہے ۔اس کی وجہ سے کسی جگہ آنے جانے پر پابندی لگانے سے اس کا حل نہیں۔ اس کا تعلق تعلیم اور تربیت سے ہے۔ اسی طرح اگر عورتیں اپنے محرموں کے ساتھ قبروں اور درگاہوں پر حاضری دیتی ہیں تو ازروئے شرع جائز ہوگا ۔ ان کے نزدیک بھی جنہوں نے پابندیاں عائد کی ہیں۔ کیونکہ جب علت ختم ہو گئی تو حکم بھی ساقط ہو جائے گا۔
در اصل عورت کی جسمانی نزاکت کے ساتھ اس کے مسائل بھی بڑے نازک ہیں ۔ اس کی نزاکت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب اسے جہالت کی زبان اور نااہلوں کا بیان مل جاتا ہے ۔ دور اندیشی سے ناواقف لوگ جب حقوق کو بیان کرتے ہیں تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔نکاح ، طلاق، اسکول، کالج اور بازاروں میں آمد و رفت،پردہ ، حجاب ، لباس، کسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھناجیسے مسائل اسی سے متعلق اور منسوب ہیں۔ عورتوں کے انسانی رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے فطرت، نفسیات اور ماحولیا ت کا علم ہو نا بے حد ضروری اور لازم ہے ۔اس کے بغیر حقوق انسانی سمجھنا قدرے مشکل ہوگا ۔سمجھانا اور بھی مشکل ہوگا ۔افسوس آج ان رشتوں پر بات کرنے والے اسکالرس اور مفتیان کرام میں یہ علوم مفقود نظر آتے ہیں۔ ماخذ و مراجع ، دلائل و علل میں تحقیق و تخریج کی بجائے صرف نقل کرنے اور کسی بھی وقت اور حالات کے فتوے ذکر کردینے بھر میں دل چسپی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں حقوق نسواں کی بات تو سبھی کرتے ہیں لیکن اس کے لئے کوئی اطمئنان بخش متفق علیہ موقف اب تک تیار نہ ہو سکا ۔اس میں عورتوں کا بھی کافی دخل ہے ۔ عورتوں کے حققوق کے لئے لڑنے والی عورتوں کو بھی اس کی سمجھ ضروری ہے ۔ایک عورت کی فطرت ،ساخت اور بناوٹ کے واقف ہونے کے باوجودعورت سیاسی کھیل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی لڑائی بس ایک دکھاوا رہ جاتا ہے ۔مذہب اسلام نے صرف عورتوں کو ان کے حقوق دئے جانے کا دعوی ہی نہیں کیا ہے ۔ اس نے عملی طور پر کر کے دکھایاہے ۔عورت کی ہر شکل وسورت کو اس نے اس کا معیار اور مقام دیا ہے ۔
عورتوں کے تعلق سے مذہب اسلام کا موقف ہمیشہ سے مردوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہونے دینے کا رہا ہے ۔ اسی لئے عورتوں کو مردوں کی حفاظت میں رکھا ہے ۔ ان کی جان ، مال ، عزت و آبروکی حفاظت مردوں کی ذمہ داری ہے ۔ یہ مردوں پر عورتوں کے حقوق میں سے ہے۔ بازار ، اسکول کالج سے لیکر ہر جگہ اسکی حفاظت مردوں کے ذمہ ہے ۔ اس سے ایک مرد انکار نہیں کر سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بازار میں خرید و فروخت ہو یادیگر ضرورتیں ہو ں اس کے لئے مردوں کو ذمہ داربنایا ہے کہ عورتوں کی ہر ضرورت کو پوری کرنا مردوں ہی کی ذمہ داری ہے ۔اپنی بیوی سے بھی زبردستی نہ کپڑے دھلائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کھانا پکوایا جا سکتا ہے ۔ایک مرد کو عورتوں کے تئیں اتنی ذمہ داریوں میں باندھا گیاہے کہ وہ اسکے حقوق کے استحصال کے بارے میں سوچ نہ سکے ۔عورتوں کے پردے کے ساتھ مردوں کے بھی پردے کا حکم دیا ۔ خلاف ورزی کرنے پردونوں سزا کے مستحق ہیں۔معاملہ اس وقت مشکل کن سورت اختیا رکر لیتا ہے جب سہولت قید و بند لگنے لگتی ہے ۔مردوں پر عورتوں کی ذمہ داری اس کے ساتھ ظلم سے تعبیر کیا جانے لگتا ہے ۔وہیں سے ایسے فتنوں کا جنم ہوتا ہے ۔ اسکے بعد کم علمی ، کج فہمی ، نا عاقبت اندیشی جیسے صفات مسئلے کو اور سنگین کر دیتے ہیں۔اس سے ان کا کاروبار چمک جاتا جو عورتوں کی نمائش کی تجارت کرتے ہیں۔
مسجدوں کے ساتھ درگاہوں پر بھی عورتوں کے جانے کی وہی سورت ہے ۔ اگر وہ علتیں جن کی وجہ سے منع کیا گیا ہے وہ نہیں پائی جاتی ہیں تو بے شک عورتوں کے قبروں پر جانے میں کوئی قباحت نہیں۔درگاہوں پر جاتے وقت کی دھکہ مکی ، درگاہ کے اندر کی بھیڑ اور ازدہام، ایک عورت کی بے پر دگی کو نہیں روک سکتی ۔ وہ مردوں کے ساتھ مس ہوگی ۔ جو مردوں اور عوتوں دونوں کے لئے باعث گناہ ہیں۔جہاں تک تعلق غیر شرعی عمل کا ہے تو اس کا تعلق کسی خاص جنس سے نہیں ۔ جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوگا ۔ ہو گنہ گار ہوگا ۔ بے پردگی ، اختلاط اور فتنے کا شبہ جیسے وجوہات اگر ختم ہوجاتے ہیں تو عورتوں کے مزاروں کا قبروں پر جانے میں کوئی قباحت نہیں۔یہ چیزیں جہاں بھی پائی جائیں گی ، وہاںیہی حکم نافظ ہوگا ۔ وہ کسی مزار ، قبر یا درگاہ کیلئے مخصوص نہیں۔گھر کے اندر گھر کے باہر ، اسکول ،بازار ، اسپتال ہر جگہ کا ایک ہی حکم ہے جب تک کوئی معقول عذر نہ ہو ۔
کئی ایسی درگاہیں ہیں جہاں پر عورتوں کے آنے جانے اور زیارت و تلاوت کے لئے جگہ مخصوص ہیں۔ ایسی سورت میں بلا کسی تکلف اور حرج کے عورت حاضری دے اور جائز شرعی رسوم ادا کرے ۔ عبادت و تلاوت کرے ۔کسی محرم کے ساتھ جائے یا جو بھی اس طرح کی سور ت پید اکر دے جس میں ایک عورت کی عزت اور پردگی محفوظ رہے ۔
علتوں کا علاج کیا جانا ضروری ہے ۔ اس کی وجہ سے جائز کو حرام قرار دینا حل نہیں۔ آج فقہی مسائل اورماخذ کی نااہلی اس عروج پر بڑھ گئی ہے کہ فقہی احکام صرف دوسورتوں میں سمٹ گئی ہے ۔ حرام اور حلال۔ اس کے علاوہ واجب،جائز ، مباح، مستحب ، مکروہ اور خلاف ادب اور خلاف اولیٰ جیسے احکام نافذ ہی نہیں ہوتے ۔دور حاضر کے پیشہ ور مفتیوں نے افتاء کا مزاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔حکمت ، دانائی ،سوجھ بوجھ سے کوسوں دور ہیں۔ صرف گروہ بندیاں رہ گئی ہیں۔ اسی فرقہ پرستی کی بنیاد پر فتوے بنائے جاتے ہیں اور ان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کارکردگی کا اسلام کی شبیہ پر کیااثر پڑتا ہے اس بارے میں سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں۔ایک ہی مسئلے پر تین مختلف موقف اور فتوے مل جاتے ہیں۔ تطبیق کیلئے کوئی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں۔تحقیق کی ضرورت نہیں۔ کسی نے اگر ماخذ اور مراجع کی طرف رجوع کرنے کوکوشش کی تو وہ کافر اور غدار بنا دیا جاتا ہے۔ علم، تحقیق اور افتاء کا یہ معیار آج کے صاحبان علم نے بنا کر دکھ دیا ہے ۔ خداخیر کرے!
Abdul Moid Azhari (Amethi) E-mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385



@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Thursday, September 1, 2016

लचर क़ानून व्यवस्था से मुजरिम के हौसले बुलंद Due to lack of Strong System Criminals are so confident

लचर क़ानून व्यवस्था से मुजरिम के हौसले बुलंद
तुरंत करवाई और कड़ी सज़ा बड़े पैमाने पर अपराध ख़त्म करने के लिए आवश्यक
[ अब्दुल मोइद अजहरी ]

कभी कभी इन्सान का सामना कुछ ऐसे हादसों से हो जाता है जिस के बारे कुछ बताने के लिए शब्दों का चुनाव मुश्किल हो जाता है ऐसे हादसे जज़्बात को इतना ज़्यादा उभार देते हैं कि उन जज़्बात का इज़हार करने के लिए शब्दों का चयन उनका उद्बोधन और उच्चारण सब व्यर्थ लगने लगते हैंऐसा नहीं है कि इस तरह के हादसे नए होते हैं दुनिया के किसी कोने में कोई न कोई इस तरह के हादसों का शिकार होता रहता है। इस स्रष्टि को बनाने वाले ने प्रकृति बना कर मानव जाति पर बड़ा उपकार किया है। समय जो बड़ा बलवान होता है। सरे सुख दुःख का वाहक होता है। समय की खास बात यह है कि वो गुज़र जाता है। चाहे अच्छा हो या बुरा हो। ऐसे हादसों की हम खबरें सुनते हैं और सुनने के बाद कुछ पल या कुछ दिनों में वक़्त गुजरने के साथ भुला देते हैं। हाँ जब खुद या कोई अपना इस का शिकार होता है तो दिमाग में उस की छवि कई दिनों तक रहती है आत्मा को बेचैन करती रहती है कभी कभी तो ऐसा भी लगता है की जीवन बेकार है ‘जब पीड़ित या पीडिता के लिए कुछ कर नहीं सकते तो जीने का क्या अर्थ है’ जैसे ख़याल भी आते हैं फिर भी हम जीते हैं क्यूंकि हम इन्सान हैं
आज कल कुछ बिगड़े बेरोज़गार नौजवानों ने ठान लिया है कि कोई चीज़ हमें सीधे तरीक़े से नहीं मिलती तो उस के लिए उंगली टेढ़ी करनी पड़ेगी और हर हल में इच्छा पूरी करनी है यह इच्छा अगर इन्सान के खुद के अधिकार पाने की हो तो कोई गलत नहीं लेकिन अगर यह इच्छा किसी की ज़िन्दगी और इज्ज़त लेने की हो तो सोच कर ही रूह कांप जाती है आखिर किसी की जान की कीमत इतनी सस्ती कैसे हो जाती है कि उसे सिर्फ़ अपनी इच्छा की प्राप्ति के लिए ले ली जाती है हवस की भूक इतनी शिद्दत क्यूँ अख्तियार कर लेती है कि अपनी खुद की माँ, बहन या बेटी नज़र नहीं आती है आखिर किसी लड़की या औरत की ज़िन्दगी पर खुद उसका कुछ अधिकार है कि नहीं एक लड़की माँ की कोख से बाहर आने के लिए लड़े उस के बाद शिक्षा के लिए संघर्ष करे फिर किसी के भी साथ शादी कर दिए जाने के बाद पूरा जीवन अपने आप से लड़ाई करती फिरे। घुट घुट कर जीवन व्यतीत करने के लिए मजबूर हो जाये। घर से बाहर निकलने के लिए हजारों मुश्किलें सामने आती हैं किसी मनचले की एक छोटी सी नादानी पूरे जीवन को तहस नहस करने के लिए काफी है। माँ बाप की, घर परिवार की, ससुराल की और पुरे समाज की इज्ज़त की ज़िम्मेदारी एक औरत के कंधे पर डाली जाती है। परुषों को बिना नकेल के खुला छोड़ दिया जाता है। वो कुछ भी करें उस से घर परिवार या समाज की मान मर्यादा को कोई ठेस नहीं पहुँचती। धिक्कार है ऐसी सोच और ऐसे समाज पर जो न तो महिलाओं को उनका सम्मान दे सकता और न ही अधिकार बस सिर्फ लेना जानता है। उस का मान, सम्मान, अधिकार, इज्ज़त, आबरू, सपने, यहाँ तक की उस का जीवन भी।
यूँ तो रोज़ अख़बार की काली स्याही समाज के बे जान ढांचे की कहानियां सुनाती हैं। हर रोज़ ही किसी बेटी का सपना, किसी बहन का अधिकार तो किसी माँ का आंचल हवा में उड़ता है। इस तरह महिलाओं के शोषण और तिरस्कार की यह परंपरा चली आ रही है। समाज के इस किताब के काले पन्नों की एक कहानी मुझे हर रोज़ झिन्झोरती है। रोज़ जिस्म के साथ रूह कांपती है जब मुझे उस की याद आती है। यह दर्द एक सच्ची घटना का है जो मेरे एक खास और क़रीबी दोस्त की बहन के साथ घटी है जिस की उमर सिर्फ 9 साल की है समाज के बिगड़े रीति रिवाज और बे जान परम्पराओं से लड़ कर माँ बाप ने उसे पढ़ाने के लिए स्कूल भेजा ट्युशन लगवाया सब कुछ अच्छा चल रहा था। लोगों में एक हौसला था। दूसरों घरों में बेटिओं के लिए एक उदाहरण बनती जा रही थी। बिहार के एक छोटे से गावं का यह माहौल देख कर लोग जागरूक होने लगे थे।
मिडल क्लास मुस्लिम परिवार की इस बेटी को घर परिवार और पड़ोस के साथ स्कूल में भी बड़ा स्नेह मिलता था।  घर की लाडली बेटी थी सब को उस से लगाव था पढाई के साथ काम काज में भी मान लगाती थी माँ बाप के साथ अपने भाई बहनों की भी लाडली थी किसी से कोई झगड़ा या मनमुटाव नहीं था। माँ बाप ने उसे उस की इच्छा के अनुसार पढ़ाने की ठान चुके थे। मेरी बेटी पढ़ेगी, आगे बढ़ेगी, माँ बाप और देश का नाम रौशन करेगी, उस की माँ अपनी बेटी के लिए ऐसे सपने देख रही थी। उस के भाई ने भी अपनी बहन को गावं के बाद अच्छे स्कूल में पढ़ाने के लिए अभी से तयारी करने लगे थे। सब ने उस बेटी के सपनों से अपने आप को जोड़ लिया था। उस अकेली बेटी की शराफत के चलते परिवार के दूसरों लोगों ने भी अपनी बेटिओं को स्कूल भेजना शुरू कर दिया था। उसे लेकिन यह नहीं मालूम था कि एक दिन उस की यह तहज़ीब और शराफत खुद उसी की दुश्मन बन जाएगी इंसानों की बस्ती और इंसानों की भेस में जब से जानवर बसने लगे हैं शरीफ इंसानों की ज़िन्दगी मुश्किल हो गई है एक दिन कोचिंग सेंटर से लौटते वक़्त मोहल्ले ही के एक लड़के ने हाथ पकड़ने की कोशिश की लड़की के वही किया जो एक शरीफ लड़की को करना चाहिए था उसने हाथ झटक कर तेज़ी से घर का रास्ता लिया और घर आ कर सारा क़िस्सा घर वालों को कह सुनाया
घर वालों ने लड़के की इस नादानी पर उस के घर वालों को खबर करना उचित समझा लेकिन यहाँ तो खून ही ख़राब निकला बच्चे को उस की नादानी पर डांटने फटकारने की जगह खुद लड़की वालों से उलझ गए हाथा पाई की नौबत आ गई घर के बड़े बूढों ने बीच बचाव किया। मामले को वहीँ रफा दफा किया। लड़की के घर वाले निसंकोच थे। दूसरे दिन बच्ची अपने घर में बाहरी दरवाज़े से लगे एक कमरे में सो रही थी आम तौर पर देहात में बाहरी दरवाज़े दिन में बंद नहीं होते किसी भी चीज़ का डर खौफ़ भी नहीं था तो दरवाज़ा बाहर का खुला था वही मनचला लड़का घनी दोपहर को चुपके से घर में घुसता है सो रही 9 साल की मासूम लड़की पर तेजाब डाल देता है.....
लड़की तेज़ से चीख़ मार कर उठती है घर वाले इकठ्ठा होते है किसी को कुछ भी समझ नहीं आ रहा था जल्दी से करीब के अस्पताल ले जाया गया उसकी एक बहन ने चेहरे पर थोडा पानी का छींटा मर दिया था जिस की वजह से चेहरे से थोडा तेजाब धुल गया था लेकिन बायीं तरफ का पूरा जिस्म सर से ले कर पैर तक जल रहा था दूसरे दिन जब हालत बिगड़ते चले गए तो उसे तुरन्त दिल्ली के अपोलो अस्पताल में दाखिल कर दिया गया यह  जून के पहले हफ्ते का वाक़या है तब से वो लड़की अस्पताल में अपने आप से लड़ रही है उस लड़की आंखे एक ही सवाल करती हैं एक सवाल जो आँखों में आंसू की जगह खून भर देता है मेरी गलती क्या थी? एक देहात में पैदा हुई वहीँ पली बढ़ी 9 साल की मासूम लड़की आखिर क्या करती? उस ने वही किया जो उसे घर वालों ने और इस समाज ने सिखाया और पढाया था हर हाल में अपनी इज्ज़त की हिफाज़त करनी है इस तरह के हादसों का शिकार लड़कियां आज समाज से भी सवाल करती हैं कि अगर अपनी इज्ज़त का सौदा भी कर ले तो भी यह समाज उसे नहीं अपनाता और अगर उसे बचाने के लिए लडती है तो भी उसे सज़ा मिलती है आखिर करे तो क्या करे? लेकिन इन दरिंदों के साथ समाज क्या करता है? उन्हें प्रताड़ित क्यूँ नहीं करता है? उन्हें सज़ा क्यूँ नहीं देता है? क्यूंकि वो पुरुष हैं?
पिछले तीन महीने से वो लड़की जल रही है सिर्फ तेजाब से नहीं जल रही है समाज के रवैये से जल रही है नौजवानों के अन्दर पनप रही जानवरों की सोच से जल रही है सिर्फ वो लड़की ही नहीं जल रही है उस का पूरा परिवार जल रहा है। हर वो लड़की जल रही है जो समाज में खड़े हो कर जीना चाहती है। जो पढना चाहती है। जो हर ज़ुल्म और अत्याचार के बाद भी परिवार की मान मर्यादा को बचाती है। इस समाज और खानदान की मान मर्यादा को बचाने के लिए अपने सपने बेच देती है। अपना बचपन बेचती है। अपने अरमानों का गला घोट देती है। खुद की इज्ज़त और आत्म सम्मान को दावं पर लगा देती है। पिछले तीन महीनों से पूरा परिवार ठीक से सो नहीं पाया है उस का एक नौजवान भाई जब भी अपनी बहन को देखता हैं उस से ऑंखें नहीं मिला पाता है उसकी मासूम आँखों में सूखे हुए सफ़ेद आंसू भाई को बेचैन कर देती हैं एक तरफ बहन को दिलासा देता हैं दूसरी तरफ हर लम्हा अपने आप को सज़ा देता है आज उस के सामने इस दुनिया का अजीब सा नक्शा है हर आदमी उसे बुरा लगता है उस मुजरिम लड़के के ख़िलाफ़ FIR हो चुका है उसे जेल भी हो गई है उस का साथ देने वाले परिवार भी जेल गए लेकिन महीने के बाद ही उन का एक एक कर के जेल से वापस आना शुरू हो गया
हर एक आदमी के जेल से छूटने पर ऐसा लगता है मानो यह छूटने वाले उस पीड़ित लड़की और उस के भाई से कह रहे हों मेरी बात न मानने का अंजाम यही है यह बात सिर्फ उस लड़की के लिए नहीं बल्कि हर लड़की के लिए हैं जो अपनी इज्ज़त बचाने की कोशिश करेगी यह पुरुष प्रधान समाज का फ़ैसला है लड़की सिर्फ हवस की प्यास बुझाने के लिए पैदा की गई है उस अपनी ज़िन्दगी अपने ढंग से जीने का कोई हक़ नहीं हैवो सिर्फ पुरुषों के एंटरटेनमेंट के लिए हैंयह आज़ादी, बराबर का अधिकार, स्त्री शसक्तीकरण, महिला अधिकार, आयोग और आन्दोलन सब बेकार हो गए हैं सब धोका और छल है इस के पीछे अपनी ही इच्छा पूर्ति मकसद समझ में आ रही है मुजरिम की हर मुस्कुराती सांसे एक तीर चलाती हैं जो तरफ से वार करती है उस तीर की सनसनाती हुई आवाज़ यही कहती है हम तो एक एक करके ऐसे ही जुर्म करते रहेंगे जिस लड़की ने भी हमारी बात न मानी उस का यही हाल होगा कोई भी कानून हमारा कुछ नहीं कर सकता
हमारी सरकार की बेबसी भी पीड़ितों के ज़ख्मों पर मरहम की बजाये तमाचे का काम कर रही है उस के पास कोई ठोस कानून नज़र नहीं आ रहा है जिससे न सिर्फ मुजरिम को कड़ा सबक मिले बल्कि ऐसे जुर्म की सोच रखने वालों के लिए भी एक सीख हो कोई भी शख्स ऐसे जुर्म के बारे में सोच भी न सके उस पीड़ित लड़की के साथ क्या इंसाफ किया जा सकेगा? क्या उसे उसकी मुस्कुराती ज़िन्दगी वापस मिला जाएगी? क्या ज़िन्दगी भर वो इस दर्द से निकल पाएगी आज के आधुनिक दौर में उसके जिस्म के घाव तो भर जायेंगे लेकिन उसकी आत्मा पर लगे ज़ख्म क्या भर पाएंगे? आखिर इस जहन्नम बन चुकी जन्दगी का ज़िम्मेदार कौन है? मजबूर और बेबस सरकारें? बेरुखा और बेदर्द पुरुष प्रधान समाज या फिर इंसानों के भेस में जानवर? ज़िम्मेदार जो भी हो उस के साथ क्या किया जायेगा? क्या उसे उस के गुनाहों की सज़ा मिलेगी ?
आज रोज़ाना सैकड़ों बेटियां अपनी इज्ज़त खो रही हैं माओं का आंचल हवा में उछाला जा रहा रहा है 3 साल की मासूम बेटी से लेकर 70 साल की वृधा माँ के साथ बलात्कार की घटनाएँ घट रही है समाज भी देख रहा है सरकार को भी इस की खबर है लेकिन मुजरिमों की खबर लेने के लिए कोई नहीं न समाज इंसाफ कर पा रहा है न ही सरकार इस का इलाज कर पर रही हैऐसे हालात में अगर पीड़ित का भाई या कोई उस का सगा कोई क़दम उठा लेता है तो उस के विरुद्ध सरकार भी सक्षम है और समाज भी तैयार है रोज़ाना अपनी बहन की मासूम और मायूस आँखों के देखने के बाद अगर वो भाई यह चाहता है की जिस दर्द से मेरी बहन गुजरी है उसी दर्द से मुजरिम को भी गुज़ारना चाहिए तो क्या गलत है कोई और सज़ा उस संतुष्ट नहीं कर पायेगी। मुजरिम को उस के जुर्मों का अहसास कराया जाना अत्यन्त आवश्यक है। जब तेजाब की हर बूंद से उसका जिस्म और आत्मा जलेगी और दर्द और चीख़ से खुद के कान सुनना बंद कर देंगे तब पता चलेगा कि उस का जुर्म कितना बड़ा था। यह जेल की सलाखें उस के लिए इंसाफ नहीं हैं। मुजरिम नहीं जुर्म को मरना है। जुर्म सोच बन कर हर गली नुक्कड़ पर मौजूद है। मौके की तलाश में है। लचर क़ानून उन्हें मौके पर मौके दिए जा रहा है।
जिस दिन तेजाब का बदला तेजाब होगा। बीच चौराहे पर उस की चीख़ से दूर दूर तक सन्नाटा छा जायेगा। हर मुजरिम के दिल में पनप रहे जुर्म दम उस के दिल में ही घुट जायेगा। एक की दर्द से यह चीख़ सैकड़ों को जुर्म करने से रोक देंगी और सैकड़ों बेटिओं का सपना जलने से बाख जायेगा।

Abdul Moid Azhari (Amethi) E-mail: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385