Tuesday, October 4, 2016

مناقب اہل بیت قرآن و حدیث کی روشنی میں अहले बैत की फ़ज़ीलत क़ुरान व हदीस की रौशनी में


مناقب اہل بیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
عبد المعید ازہری

ایمان کا تقاضہ ہے کہ اہل بیت سے محبت کی جا ئے ۔ اہل بیت سے عقیدت ان سے اظہار محبت شیعہ اور سنی کے ما بین فرق وامتیاز کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مؤدت تو اسلام میں مطلوب و مقصود ہے ۔ ہماری لا علمی نے ہمیں ایسے پیمانے پر لا کھڑا کیا ہے کہ اہل بیت اطہار سے اظہار عقیدت و محبت شیعت ہے اور باقی اصحاب رسول کی تعظیم و تکریم خارجیت ہے ۔ اہل بیت سے محبت نہ تو شیعہ کا خصوصی حصہ ہے اور رہے خارجی تو ان کو کسی سے محبت نہیں تھی۔ وہ تو خالص دین کے دشمن ہیں۔ علم میں وسعت و گہرائی نہ ہو نے کی وجہ سے اعتقاد کا اختلافی مسئلہ عقیدہ کی تفریق بن گیا ۔ دونوں گروہوں کی کم علمی نے اہل بیت اور دیگر اصحاب سے عقید ت و محبت کے اظہار کا پیمانہ بنا دیا ۔ جب کہ اسلام میں قرآن واحادیث کے ذریعہ مطلوب و مقصود یہ ہے کہ ان سے حد درجہ محبت کی جا ئے ۔ ان سے عقیدت و محبت ایمان کا حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے ۔ قرآن پاک کا ارشاد عظیم ہے کہ اے محبوب آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں اپنی رسالت کا بدلہ تم سے طلب نہیں کرتا ، تمہیں جو رشد و ہدایت میرے ذریعہ نصیب ہو ئی ہے۔ ر ب کی معرفت حاصل ہو تی ہے۔میں تم سے اس کے عوض میں کوئی اجرت اور بدلہ طلب نہیں کرتا ۔ البتہ اگر تم اس عظیم نعمت میں دوام چاہتے ہو۔گمراہی اور بے راہ روی سے آگے بھی محفوظ رہنا چاہتے ہو تو میری قرابت سے محبت کرو ۔ میری قرابت سے محبت تمہیں بے راہ روی اور گمراہی میں مبتلا نہیں ہو نے دے گی ۔ اسی مضمون کو واضح کرتے ہو ئے پیغمبر اعظم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ،ایک قرآن ،دوسرے اہل بیت ۔ اہل بیت کے دامن سے وابستہ لوگوں کے گمراہ نہ ہو نے کی ضمانت تو خود رسول گرامی وقار لے رہے ہیں ۔ پھر ایسے لوگوں پر کفر و شرک کا الزام کیا پیغمبر اعظم کے ارشاد میں شک و انکار نہیں ہے ۔ 
قرآن کی مذکورہ آیت میں وارد لفظ قرابت کی تفسیر میں علماء محدثین اور مفسرین نے بڑی تفصیل بیان کی ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ پڑوس بھی اہل قرابت ہیں ۔ اصحاب واحباب بھی قریبی ہیں ۔نسب وخون سے رشتہ رکھنے والے بھی اہل قرابت میں۔اسی لحاظ سے ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدار کر لو گے ہدایت پا جا ؤ گے ۔ 
قرآن کی دوسری آ یت اور حدیث کی دیگر چند روایتوں میں اہل بیت ،ذریت اور قرابت کو رسول اعظم نے مزید واضح فرمایا ۔ ایک روایت میں ہے کہ آ پ جب نما ز کے لئے تشریف لے جا تے تو اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ کے دروازے پر یا اہل بیت کہہ کر آ واز دیتے تھے۔۔ جب آیت نازل ہوئی ’بے شک اللہ پاک کا ارادہ ہے کہ وہ تم سے تمام طرح کی ناپاکیوں، برائیوں اور گناہوں کو دور رکھے اور تمہیں خوب خوب پاک و طاہر رکھے ۔جب یہ آیت تطہیر نازل ہو ئی تو رسول گرامی وقار نے سیدہ فاطمہ کو آواز دی ،وہ آ گئیں ،حسنین کریمین کو آواز دی وہ بھی آ گئے ،انہیں اپنی چادر میں ڈھک لیا پھر مولیٰ علی کو بلا یا۔انہیں بھی اپنی چادر میں ڈھک کر دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے فرمایا ’’اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے محبت فرما اور ان سے بھی محبت فرماجو ان سے محبت کریں اور ان پر تیرا غضب نازل ہو گا جو ان سے بغض وعناد رکھیں گے ‘‘آیت مباہلہ کے نزول کے وقت بھی آ پ نے انہیں نقوس قدسیہ کو پیش کیا تھا ، اہل بیت کا لفظ اور افراد کا تعین ان قرآنی آیات اور احادیث کی روایات سے واضح ہو جا تا ہے ،مناقب اہل بیت میں سینکڑوں روایات موجود ہیں ۔ 
حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جب قرابت سے محبت کی آ یت نازل ہو ئی تو آ پ نے رسول پاک سے عرض کیا ،یار سول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جن سے محبت ہم پر واجب کر دی گئی ۔آپ نے فرمایا وہ فاطمہ ہیں حسن و حسین ہیں ، میں ہوں اور علی ہیں ۔اسے حضرت بے دم وارثی نے نظم کر تے ہو ئے کہا کہ ’’بے دم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات ،خیر النساء ،حسین و حسن ،مصطفیٰ علی‘‘۔مناقب اہل بیت اسلام کا وہ حسین باب ہے جس کے ذکر محض سے آ نکھوں میں ایک چمک سی آ جا تی ہے ۔ دل مسرور ہو جا تا ہے ،طبیعت میں فرحت و شادمانی اور ایک کیف سا پیدا ہو جاتا ہے ۔ 
مناقب اہل بیت میں پیغمبر اعظم ﷺ کے ارشاد و عمل کے علاوہ دیگر اصحاب کے عمل نے اپنی اپنی عقیدت محبت کا اظہار فرمایا ۔ بڑے عظیم اور جلیل القدر اصحاب رسول علیہ السلام نے اہل بیت سے عقیدت و محبت کو سر آ نکھوں پر رکھا ۔ یہ تو آ ج کی کم نصیبی ہے کہ محرم الحرام کے موقعہ پر اہل بیت کے تذکرے عام ہو نے پر کچھ لوگوں کو تکلیف ہو نے لگتی ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ دیگر اصحاب کا بھی ذکر ہو نا چا ہئے ۔صرف اہل بیت ہی کا ذکر کیوں کیا جائے۔کیا کربلا میں شہیدوں کے علاوہ کوئی اور شہید نہیں ہوا۔ دیدہ و دانستہ ایک طرح کے فتنہ کو جنم دیتے ہیں ۔ یہ عجیب رویہ ہے ۔آکر یہ معاملہ اہل بیت اطہار ہی کے اذکار کے وقت کیوں سامنے آتا ہے ۔ان کی فضیلت اور اہمیت کا ذکر لوگوں کو ہضم کیوں نہیں ہوتا ۔ہمارے تمہارے ذکر کرنے اور نہ کرنے سے کسی کی شان گھٹنے اور بڑھنے والی نہیں ہے۔ صحابہ نے اہل بیت کی تعظیم کی اور اہل بیت نے صحابہ کرام کی عزت کی ہے ۔ 
دنیا میں تمام خاندان کا نسب ان کی اولاد یعنی بیٹوں سے چلتی ہے ۔اہل بیت اور سادات کا سلسلہ نسب یا پیغمبر اعظم کا سلسلہ نسب تاریخ میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ جو آ پ کی بیٹی ہماری ماں سیدہ فاطمہ سے چل رہا ہے۔ کفار و مشرکین رسول پاک کو یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ آ پ کا نصب آ گے نہیں بڑھے گا۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا اے محبوب آ پ رنجیدہ نہ ہوں آپ کو تو ہم نے کوثر عطا کیا ہے اور اور تمہارا دشمن بے نام و نشان رہ جا ئے گا ۔ پیغمبر اعظم کو رحمت میں کثرت دی گئی تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔امت میں بھی کثرت دی گئی ، چنانچہ کل حشر میں تمام امتیوں کی کم و بیش 120صفحوں میں 80صفیں امت محمدیہ کی ہوں گی ۔ آ پ کو اولاد میں بھی کثرت دی گئی ۔ چنانچہ سادات کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ آ پ کے دشمن بے نام و نشان ہو کر رہ گئے بلکہ اہل بیت کے دشمن بے نا م و نشان ہو گئے ۔
شہید ہو کر بھی ہر گھر میں زندہ ہیں حسین اور یزید کا نام لیوا آ ج دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔ حب اہل بیت ایمان کی سلامتی کا نام ہے ۔یہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ نہ ہی اعتقادی اور تاریخی اختلاف کا موضوع ہے۔ب اہل بیت ہر امتی کے ایمان کی سلامتی کی ضامن ح ہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ معرکہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ نہیں تھی اور نہ طاقت و سیاست کی زور آ زمائی تھی ۔وہ تو حق و باطل ،کفر وایمان کی جنگ تھی ، تبلیغ رسالت کا ایک اہم باب ہے کر بلا ۔ 
اہل بیت اطہار کے ہر فرد کے تعلق سے ان کی فضیلت میں روایات کثرت سے موجود ہیں جن کے لئے الگ سے باب کی ضرورت ہے ۔ غدیر خم کے موقعہ پر مولیٰ علی کرم اللہ کے تعلق کے پیغمبر اعظم کا عظیم ارشاد ہے کہ میں جس کامولیٰ ہوں علی اس کا مولیٰ ہے ۔پوری ولایت سونپ دی گئی ۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے ،علی مجھ سے ہیں کا مطلب ہے کہ علی کی ولایت ،شجاعت ،عبادت ،سیاد ت اور جملہ فضیلت میری بدولت ہے ، میری نبوت کا فیض ہے ، اور میں علی سے ہوں کا مطلب میری تبلیغ رسالت میں علی کا اہم کردار ہو گا جو کربلا میں پائے تکمیل کو پہنچے گا ۔ اور میرا سلسلہ نصب علی و فاطمہ کے سبب حسنین کریمین سے آ گے بڑھے۔اے ایمان والو ایمان کی سلامتی اور حفاظت چاہتے ہو تو حب اہل بیت کا اپنا شعار اور معمول بنا لو ۔کیوں کہ اہل بیت کی محبت میں موت شہادت کی موت ہے اور ان کے بغض میں موت کفر پر موت ہوگی۔ائے حسین ابن علی تیر شہادت کو سلام ، تم نے اپنے خون سے زندہ رکھا اسلام کو ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Mob: 09582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment