یکساں سول کوڈ ،یو پی اسمبلی انتخاب اور مسلمان
تین طلاق کو عورتوں پر ظلم قرار دینے والے حلف نامے کی مخالفت کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔روزانہ ملک بھر میں ایک سے زائد نشستیں قائم کر کے خالص مذہبی معاملات میں حکومت کی غٖیر قانونی دخل اندازی کی سخت مذمت مسلسل جاری ہے ۔لا ء کمیشن کی طرف سے جاری کئے گئے فارم کو کچھ لوگوں نے سرے سے بائکاٹ کر دیاتو کچھ لوگ اسے بھرائے جانے کی مہم قائم کر چکے ہیں۔حکومت کے اس رویہ کے خلاف چھوٹے بڑ ے احتجاج ، مظاہرے اور نشستیں تو ہو رہی ہیں لیکن اب تقریبا بیس دنوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ مسئلے کا سیاسی رخ ایک بار پھر سے ۲۰۱۴ دہرانے کی کوشش کر رہاہے ۔مسلمانوں کی جانب سے متحد احتجاج اور کانفرنسیں جہاں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم کا خواب دکھا رہی ہیں وہیں دوسری طرف ان کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کے خواب کو شرمندہ تعبیر بھی کیا جا رہا ہے ۔ رام مندر کے مدعی کو کسی سیاسی مجبوری کے تحت جب پورا نہ کیا جا سکااور پی ڈی پی کے ساتھ مشترک حکومت کی وجہ سے کشمیر میں بھی ۳۷۰ پر کام نہ ہو سکا تو ایک آخری پتہ یکساں سول کوڈ ہی کا ہے جو حکومت اور بی جے پی کو ۲۰۱۷ کے انتخاب میں زندہ رکھ سکتا ہے ۔چونکہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا ہی معاملہ نہیں اسلئے اسے سیدھے نشانہ بنانے کی بجائے تین طلاق کو موضوع بنایا گیا ۔ دلت مسلم اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنے کے بعد اچانک حکومت کو مسلم عورتوں کے ساتھ ہمدردی، ضرورت سے زیادہ حیران کن ہے ۔ ویسے ایک حکومت کے ناطے ہمیں امید ہوتی اور رہنی چاہئے کہ وہ عام شہریوں اور باشندوں کے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ رکھے گی ۔ کسی کے ساتھ بھی ظلم ہونے نہیں دے گی ۔ کوئی بھی بھوکا اور بنا چھت کے رات نہیں گزارے گا ۔
اس میں صرف موجودہ حکومت ہی کا سیاسی فائدہ نظر نہیں �آرہا ہے ۔بلکہ عوامی مقبولیت کھو رہی کئی تنظیموں کو بھی اس کا فائدہ مل رہاہے۔ اسی لئے اب تک یہ مسئلہ بغیر کسی خاص عملی لائحہ عمل کے گرم ہے ۔ مسلم پرسنل لاء کی بگڑتی شبیہ کے لئے بھی یہ نقاب کا کام کرے گا۔ جس میں خالص مذہبی اغراض و مقاصد سے سیاسی گلیاروں میں چہل قدمی کے داغ چھپ جائیں ۔ مذہب کے نام ہر سیاسی سوداگری کا یہ کھیل جب مہنگا پڑ گیا تو اسے بھنانے کیلئے پھر سے عوامی حمایت و ہمدردی درکار تھی ۔ اس میں وہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا ۔ جمیعۃ علماء ہند بھی اس کا خوب فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں لگی ہے ۔ ابھی حال ہی میں وہابیت سے کنارہ کشی کا اعلان کرنے کے بعد ایک صوفی کی درگاہ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ۔ جب وہاں سے کچھ سوال اٹھنے لگے تو پھر اس معاملے کو لیکر سرگرمی سہارا دینے کیلئے کافی ہے ۔ جمیعۃ علماء ہند کے سرکاری بیان کے مطابق اجمیر شریف میں ہونے والا اجلاس علم و تعلیم سے منسوب تھا ۔ اسکے لئے وہاں سرکار غریب نواز کے نام سے ایک یونیورسٹی کھولنے کا بھی فریب رچا گیا تھا ۔ لیکن جب یہ دوسرا مدعی سامنے آگیا تو موضوع بدل گیا ۔جمیعۃ اہل حدیث بھی مسلم پرسنل لاء کی حمایت میں کھڑی نظر آرہی ہے ۔ جبکہ ان کے نزدیک تین طلاق کا مسئلہ جمیعۃ، پرسنل لاء بورڈ اور اہل سنت و جماعت کو موقف سے الگ ہے ۔ میدیا میں آنے والی خواتین کا تعلق بھی یا تو اہل حدیث، سلفی ، غیر مقلد سے ہے یا پھر دین سے بے زار افراد سے ہے ۔ اسے حکومت کی سازش کہہ کر روزانہ احتجاج اور کانفرنسوں سے سب کے اپنے ذاتی فائدے ہو رہے ہیں۔ عام مسلمان استعمال ہورہا ہے ۔ اس کا بدستور استحصال ہو رہا ہے ۔اگر یہ سیاسی سازش اور خطہ ہے تو ہمارے زوردار مظاہرے اس منسوبے کو انجام دینے میں پیش پیش ہیں۔
یہ بھی سچ ہو سکتا ہے کہ یہ ۲۰۱۷کی تیاری ہو لیکن یہ معاملہ صرف اسی حکومت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔یہ معاملہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے ۔ ۲۰۰۷ میں بھی تین طلاق کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا ۔ خود پرسنل لاء بورڈ کے ایک عہدے دار کی شمولیت کا بھی خلاصہ ہوا تھا لیکن اس وقت اتنا احتجا نہ تو جمیعۃ علماء ہند نے کیا تھا اور نہ ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کیا تھا۔ اس مخصوص شخص کے اخراج بھر سے سب کو تصلی ہو گئی تھی ۔ اس وقت حکومت کانگریس کی تھی ۔ اس سے بھی پہلے بی جے پی کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے دور حکومت میں کئی طرح کے مذہبی،سیاسی و سماجی چھیڑ چھاڑ کے معاملے سامنے آئے ہیں لیکن اسے کسی سیاسی بازی گری کا نام نہ دیکر متحد مظاہرے ہوئے ۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے یا اس حکومت کے آنے سے پہلے بھی انہیں مسلم تنظیموں نے کانگریس کی زبان اختیار کر لی تھی۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہویا کسی بھی ہندوستانی شہری کے ساتھ ظلم ، زیادتی یا حق تلفی ہو رہی ہو تو کیا حکومت کی شکل دیکھ کر احتجاج کا تیور بنایا جائے گا ؟ کیا کسی سیاسی حزب مخالف کی طرح ہمار ا رویہ ہوگا ؟ تین طلاق کا مدعی سیاسی کھیل کے ساتھ عام مسلمانوں کے لئے بھی لمحہ فکر بنتا جا رہا ہے ۔ وہ احتجاج تو کر رہا ہے لیکن وہ بھی ایک مستقل حل چاہتا ہے ۔ مسئلے کی مکمل وضاحت کا طالب ہے ۔ اس بار مفتیان کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خالص علمی اور فقہی مسئلے میں ایک متفق علیہ رائے قائم کریں ۔اس مسئلے کو لیکر ہندوستان کی اکثرمسلم ملی و مذہنی تنظیموں نے اتفاق کیا ہے کہ خالص مذہبی معاملات میں حکومت کی کسی بھی طرح کی دخل اندازنی قابل قبول نہیں ۔ملک کا آئین جب خصوصی حق دیتا ہے تو اسے ختم کرنے کا حق کسی کو نہیں ۔ ملک میں سیکڑوں برادریوں کو ملک کے آئین کے مطابق خصوصی حق ملا ہوا ہے ۔ وہ تمام پرسنل لاء زیر عمل بھی ہیں۔
اس سے انکار ممکن نہیں کہ اس طرح کے مسائل اسی وقت ہمار ے سامنے آتے ہیں جب ہمارے نام نہاد دینی رہنماء خدائی کا دعوہ کرنے لگتے ہیں۔ مسئلے کو صحیح طریقے سے سمجھانے کی بجائے اسے تھوپنے میں یقین رکھتے ہیں۔ کسی بھی طرح کے سوال کو دین میں دخل اندازی کہہ کر اسے اور تشویس ناک کر دیتے ہیں ۔یقیناًیہ معالمہ سراسر خالص دینی معاملات میں غیر قانونی دخل اندازی ہے ۔ آئین کی خلاف ورزی ہے ۔اس کے لئے آواز بلند کرنی ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ اس طرح کے حالات سے نمٹنے کیلئے ایک مضبوط لائحہ عمل کی بھی ضرورت ہے ۔ہر اہل و نااہل دین کا ٹھیکے دار نہیں بن سکتا ہے ۔ جس طرح ہم ہمارے اسلام کے نظام میں یقین ہے اسی طرح اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ ہم اس ملک کے آئین اور قانون میں نہ صرف یقین رکھیں بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں۔اسی سال فروری میں سپریم کورٹ نے ایک کیس کے فیصلے میں صراحتا اس بات کی وضاحت کی تھی کہ یہ ایک خالص دینی مسئلہ ہے اس میں جو بھی قرآن وحدیث کو روشنی میں نتیجہ نکلتا ہے اس پر عمل کیا جائے گا ۔ اسی طرح درگاہ حاجی علی پر عورتوں کے داخلے کو لے کر بھی سپریم کورٹ نے یہی کہا تھا کہ جو قرآن اورحدیث کے مطابق صحیح ہو اس پر عمل ہو ۔ابھی صدر جمہوریہ عالی جناب پرنب مکھرجی جی نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ خالص دینی معاملات میں غیر قانونی دخل اندازی سے گریز ضروری ہے ۔ نکاح و طلاق سے لے کر خلع اور حلالہ سب کی حکمتیں قرآن احادیث کے علاوہ سائنس اور لوجک کے ذریعہ بھی واضح ہے اسے اسی انداز میں واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اب صرف دست بوسی اور جی حضوری سے قیادت و ہدایت محفوظ ہونے والی نہیں۔ محدود فکر کے جاہل علماء کی کج فہمی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اتنا منتشر اور اسلام تنقید و تنقیص کے نشانے پر ہے ۔ ان کی ہٹھ دھرمی ضد اور اپنے علم پر غرور نے اسلام کی شبیہ اور انسانی وقار کو مجروح کیا ہے ۔انہیں بھی خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے ۔
الگ الگ برادریوں کے خالص دینی اور قومی رسم و رواج، عبادات و معاملات کے علاوہ ملک کے ہر باشندے کیلئے قانون یکساں ہے ۔ یکساں سول کوڈ تو پہلے ہی سے نافذ ہے ۔ جتنی ضرورت ہے، جتنے سے ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی ۔اتنی زیر عمل ہے۔ کسی بھی آئین کی مخالف نہیں ہوتی ۔ سبھی اسے مانتے ہیں ۔مسلمانوں کے نکاح طلاق اور وراثت کے معاملے میں خاص حقوق ہیں ۔ جنہیں ملک کا آئین اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح الگ الگ برادیوں کے ہیں اب اگر اس کو بھی ایک کر دیا جائے تو آسانی ہونے کی بجائے مشکل پیدا ہو جائے گی ۔یہ ملک ’انیکتا میں ایکتا‘ کیلئے جانا جاتا ہے ۔ مختلف مذاہب اور تہذیب ہونے کے باوجود ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ کیونکہ سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ اسے ختم کردیا گیا تو ملک کا یہ سرمایا بکھر جائے گا ۔ نفرتیں اور کدورتیں گھر کر جائیں گی ۔خالص دینی معاملات میں یکساں سول کوڈ موجود ہے ۔ جیسے کہ ایک مسلمان جوڑا جب اپنی شادی میں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت مندرج کر ا لیتا ہے تو اسے خصوصی قانون کی بجائے عام قانون ہی تحت دیکھا جائے گا ۔ہماری عدالتوں میں ویسے ہی لاکھوں کیس زیر سماعت ہیں ۔ کئی کیس کئی برسوں سے چل رہے ہیں۔ اگر شادی اور نکاح کے کیس بھی اسی فہرست میں آگئے تو زندگی کتنی مشکل ہو جائے گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
تین طلاق اور حلالہ جیسے مسئلوں کو سیاسی دخل اندازی کے ساتھ عوامی نظر سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جو خواتین مسئلے کی نزاکت اور سنگینی کو سمجھے بغیر بہک رہی ہیں انہیں بھی حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کو سمجھیں ۔ حکمت اور مقصد کو واضح کرنا ہمارادینی و ملی فریضہ ہے ۔ یہ ذمہ دار مفتیوں کو طے کرنا ہے کہ اس مسلئے میں کسی متفق علیہ موقف کو طے کریں ۔یہ کسی سیاسی ، ملی ، سماجی ، تعلیمی اور دیگر فلاحی تنظیموں کا مسئلہ نہیں ہے یہ ۔خالص دینی ، علمی اور فقہی مسئلہ ہے ۔ دین کے ٹھیکے
داروں کی خبر گیری کے ساتھ ذمہ دار مفتیان کرام اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں ۔ بحث اور سیمینار کی ضرورت ہو تو اس پر بھی عمل کریں۔ ایک تحریری اور تحقیقی موقف دلائل و براہین کے ساتھ حکمت و ضرورت کے ساتھ عوام و حکام کے سامنے رکھیں۔ورنہ ملک میں ہر سال کہیں نہ کہیں انتخاب ہوتے رہتے ہیں ۔ ہماری پوری زندگی صرف احتجاج میں مصروف ہو کر گزر جائے گی ۔ تعمیر و ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ پائیں گے ۔ اسے پورا کرنے کی تو بات دور کی ہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
یکساں سول کوڈ ،یو پی اسمبلی انتخاب اور مسلمان
یکساں سول کوڈ ،یو پی اسمبلی انتخاب اور مسلمان
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@






No comments:
Post a Comment