انسانیت کی آواز کا نام حسین اور احتجاج کا نام کربلا ہے
عبد المعید ازہری
اسلام انسانیت کا مذہب ہے۔ لفظ اسلام سے ہی اس مذہب کی پہچان ہوجاتی ہے ۔اسلام ایک انسان کی شخصی اور نجی زندگی سے لیکر خاندان، علاقہ ، ملک اور بین الاقوامی زندگی کا سلیقہ دیتا ہے ۔پوری دنیا میں نظام امن کے قیام کیلئے پیغمبر اعظم ؑ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ وہ پڑوسی خواہ کسی بھی مذہب ،ذات یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں۔ہر قوم یا مذہب سے منسوب کچھ منافق ہوتے ہیں جو اپنی ہی قوم اور مذہب کا نقصان کرتے ہیں مذہب اسلام میں اسلام کی بنیادوں کا سب سے بڑا مخالف،منافق اور دہشت گرد یزید تھا جس نے خود پیغمبر اسلام کے خاندان کو شہید کیا۔ اب اگر اسلام کو یزید کے نظرئیے سے دیکھا جائے تو اس میں دہشت ،و حشت ،عیاشی اور قتل و غارت گری ہے ۔ لیکن اگر اسی مذہب کو حسین اعظم ؑ کے کردار و عمل سے دیکھا جائے تو اس میں صبر ،استقامت ، خود داری ، وفاداری، حق پرستی، عدل، انصاف اور ظلم کے خلاف کھڑے ہو کر قربانی دینے کا جزبہ اور حوصلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یزید تو شام کے اندھیروں میں ڈوب گیا لیکن ہر صبح کے سویروں میں حسین آج بھی زندہ ہیں۔ آج امام حسین صرف حسین ابن علی ؑ نہیں رہے بلکہ قیامت تک کے لئے ہر مذہب اور قوم کی خاطر حق و باطل، سچ اور جھوٹ بلکہ کفر ایمان کے درمیان واضح فرق و امتیاز کا نام حسین ہے ۔قیامت تک کیلئے ظلم و بربریت ، دہشت و وحشت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز حسین کی ہے ۔ ظلم کے خلاف کھڑاہونے والا ہر شخص حسینی ہے ۔صوفیوں اور درگاہوں سے وابستہ علماء ،مشائخ اور دانش واران قوم و ملت نے ہمیشہ اسی حسینی مشن کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے ۔ اسلام کے نام پر ہورہی دہشت و حشت کی سیاست کے خلاف حیسنی آواز کے بلند کرنے کیلئے تمام خانقاہوں کے سجادگان، درگاہوں کے ذمہ داران، مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے ائمہ ملک میں قیام امن کی کوشش کر رہے ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ حیسنی کردار میں یقین رکھنے والے اس آواز کو اپنی آواز بنا کر ملک کے گوشے گوشے میں امن و محبت کے چراح جلائیں گے ۔ تشدد اور فرقہ پرستی کی سیاست کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے ۔ یہ ملک ہمارا ہے اورحسین ہمارے ہیں۔ حضرت امام حیسن ؑ نے فرمایا کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے قربانی اتنی زیادہ دینی پڑے گی ۔ کربلا میں حیسنی کردار نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ظلم کو برداشت کرنا بھی ظلم ہے ۔ برائی کے خلاف کھڑے ہوجاق اس کی پرواہ کئے بگیر کہ تنہا اور کمزور ہو۔ حق اور سچ کی آواز کبھی تنہا اور کمزور نہیں ہوتی ۔ آج یزید کا نام لیوا کوئی نہیں لیکن سچائی اور اچھائی کی خدائی آواز بن کر حسین ؑ آج بھی ہر انسان کے دلوں میں بستے ہیں۔مذہب و ملت کی حدود سے بے نیاز ہو کر ہر قوم حسین کو پکارتی ہے ۔آج بھی کچھ دہشت گرد اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنی دہشت گردانہ حرکتوں کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت تصور کرتے ہیں ۔ انہیں اور ملک کے ہر باشندے پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہی یزیدیت ہے ۔ یزید ختم ہو گیا لیکن آج بھی کچھ مذہب کو سودا کرنے والے انسانیت کے دشمن یزیدی فکر کو زندہ کئے ہوئے ہیں۔ دور حسین کی اسلام مخالف یزیدی فکر دور حاضر کی وہابی فکر ہے ۔ کل بھی پیغمبر اسلام کے گھر والوں نے اس فکر کا قلع قمعہ کیا تھا آج بھی اسی پاک گھرانے کے لوگ علماء اور دانش وروں کے ساتھ ملکر اس فکر اس کے حامل مفکرین کو ان کے انجام تک پہنچانے کیلئے نکلے ہیں۔
آج ملک کے گوشے گوشے میں حسینی تذکرہ ہوتا ہے۔ہر مذہب اور قوم کے لوگ حسین اعظم کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی یاد مناتے ہیں۔ غمگین اور غمزدہ ہوتے ہیں۔ اہل بیت اطہار پر ہونے والے مظالم کو یاد کرکے دل سوز کی شدت سے لرزتا ہے ۔ اس کے باوجود حسینی اخلاص و کردار ہمیں اسلام کی صحیح تصویر دکھاتا ہے ۔ اتنے مظالم برداشت کرنے کے باوجود حسین ؑ صبر و وفا کی مضبوط آہنی دیوار بنے رہے ۔ اپنے اہل و عیال کی شہادت کا بدلہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کیا۔ آپ نے ہر وقت یزیدی فوج کو نصیحت و ہدایت دی ۔ آپ نے پیغمبر اعظم کی اس سنت کریمہ کو ہمیشہ سامنے رکھا کہ ’’میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔آپ نے دین کی پاسدار کے تئیں تلوار اٹھائی ۔ گھر کے بچے ، جوان، بیٹے بھائی ،بھانجے ، بھتیجے سہید ہو جانے کے باوجود آپ یزیدی فوج کو سمجھاتے رہے۔ انہیں آگاہ کرتے رہے۔اسلامی وقار اور تقدس کے پامال ہونے سے روکتے رہے ۔ لیکن جب شمر و ابن زیاد کی قیادت والی فوج یزید نے اسلامی قانون سے بغاوت کرنے کی ٹھان لی تو ابن علی اور نواسہ رسول نے بھی شہادت کی تیاری کر لی ۔ جان و مال اہل و عیال سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے لیکن دین سے سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی حفاظت کی ذمہ داری رب کریم نے ہمارے اوپر رکھی ہے تو اسکی حفاظت خون کے آخری قطرے کے بہہ جانے تک کی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اعظم نے اپنی شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے خاندان والوں کو دی ۔ آپ نے فرمایا ایک وقت ایسا آئے گا جب حق و باطل کے درمیان فرق مٹ جائے گا یا مٹا دیا جائے گا۔ تو ایسے میں ہمارے اہل بیت کو دیکھ لینا وہ جس طرف ہوں گے حق ادھر ہی ہوگا ۔کیونکہ اس کا انتظام خود خالق کائنات نے کیا ہے کہ قرآن اور اہل بیت کو مضبوطی سے تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔ وہ راہ راست سے بھٹگے گا نہیں۔قرآن کے ساتھ اہل بیت کا ذکر واضح اعلان تھا اور ہے کہ اہل بیت کا انتخاب خود رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔اسی لئے حسین ؑ سب کچھ کر سکتے تھے لیکن دین کا سودا ہرگز نہیں کر سکتے تھے ۔ ظالم یزید کو اس بات کا احساس دلانا ضروری تھا کہ بھلے سے دولت و حکومت کے مالک بن گئے ہو لیکن خلافت و روحانی امامت کسی ظالم اور نا اہل کے ہاتھوں میں نہیں جا سکتی ہے ۔ جب تک اہل بیت کی رگوں میں خون کا ایک بھی قطرہ ہے وہ باطل کو حق کے ساتھ ملنے نہیں دے گا۔
آج دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے فتنوں کے سد باب کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ حسینی کردار ہی یزیدی فکر کو مٹا سکتی ہے ۔ لیکن اس کے لئے اخلاص، صبر، تحمل اور استقامت کے ساتھ دین داری ضروری ہے ۔ صرف نعرہ حسینی سے کوئی حسینی نہیں بنتا ہے ۔ جیسے کہ آج کے دہشت گرد اپنے آپ کو اسلام کا مبلغ کہتے ہیں ۔ اپنے فساد کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ محض نام لے لینے سے کوئی خادم اور مبلغ نہیں بنتا ہے ۔ اس کے لئے نیک عمل، صالح نیت اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس طرح حسین ؑ مذہت ملت کی حدود سے آزاد ہوکر ہر حق کی آواز کا نام ہو گئے ۔ اسی طرح کربلا بھی ہر اس آندولن ، تحریک اور احتجاج کا نام ہے جو ظلم کے خلاف ہو ۔ انسانیت کے حق میں ہونے والا ہر احتجاج کربلا ہے ۔ کربلا صرف عراق میں نہیں ہے بلکہ ہر اس مسلمان کا دل کربلا ہے جس میں خوف خدا بستا ہو ۔ جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت رکھتا ہو ۔
صوفیائے کرام نے فرمایا کہ حرص ، طمع، بغض،حسد کینہ اور نفس پرستی کا نام یزید ہے ۔عمل صالح، اخلاص، نیک نتی ،حسن ظن،خوف خدا دین سے محبت،دین سے وفاداری کا نام حسین ہے ۔مجبوری کا نام یزید اور صبر کا نام حسین ہے ۔ یعنی صبر کا نام زندگی اور ظلم کا نام موت ہے ۔ اسی لئے حسین آج بھی زندہ ہیں ۔قیامت تک اہل ایمان و وفا کے دلوں میں زندہ رہیں گے ۔ زندہ دلی کے صدقات و خیرات عطا کرتے رہیں گے۔
کربلا میں ہونے والی حق و باطل کی جنگ کو دو شہزادوں کی یا سیاسی جنگ کہنے والوں کو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہدایت بھی حاصل کریں کہ حسین کا مکہ و مدینہ سے سفر حق کی نشر و اشاعت کا سفر تھا ۔ آج کے جعلی ، جھولا چھاپ اور فتوی باز لوگوں پر یہ واضح ہوکہ کہ سیکڑوں خطوط اس بات کا تقاضہ کر رہے تھے کہ حسین ؑ سفر کرتے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ جان و مال کا خطرہ ہے ۔ جب بات دین کی ہو اور نانا کی شریعت کی ہو تو ایسے میں جان و مال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔ یہ بات صرف حسین اعظم ہی نہیں سمجھ رہے تھے ۔ نور بنی کے گھر کا ہر فرد اس فریضہ کو سمجھ رہا تھا اور آج تک سمجھ رہا ہے ۔ذرا سا ماحول خراب ہو تا دیکھ اپنے زبان و بیان کا لہجہ بدلنے والے اس بات کو نہیں سمجھ پائیں گے ۔ ماحول کے حساب سے تقریر فروشی اور فتوی نویسی کا کاروبار کرنے والوں کو اس کا اندازہ ہونا قدرے مشکل ہے ۔حالات کے پیش نظر اپنے ایمان و عقیدے کا سودا کرنا نہ تو حسین نے سیکھا تھا اور نہ ہی اسکی تعلیم دی ہے ۔ خاتون جنت اور مشکل کشا کے گلشن کا ہر پھول اس بات پر عمل کا پابند تھا۔ دین کی حفاظت تمام تر ذمہ داریوں سے بڑھ کر ہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Like Me On:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://plus.google.com/117060618306950549315
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://plus.google.com/117060618306950549315
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@


No comments:
Post a Comment