جے این یو طلبہ میں گمشدگی سے بڑھی بے چینی
۱۲ دنوں سے کوئی سراغ نہیں، نجیب کہاں ہے ؟
عبد المعید ازہری
جواہر لعل یونیورسٹی ملک کے عظیم علمی مراکز میں سے ایک ہے ۔ اس یونیورسٹی کی علمی لیاقت ، ہنر مندی کے جوہر کے علاوہ سیاسی شعور کے ستارے پور ے دنیامیں روشن ہیں۔طلبہ کی غیر جانب دارانہ بے داری اور حساس طبیعت نے بھی اس ادارہ کو منفرد بنایا ہے ۔ ملک کے کسی بھی کونے میں ہونے والے غیر انسانی اور غیر قانونی حادثات کیلئے اس کیمپس نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے ۔ یہی بے باکی اور حق گوئی اس یونیورسٹی کو منفرد بنا دیتی ہے ۔ یہاں کبھی بھی فرقہ واریت یا برادری واد کو فروغ نہیں مل پایا ۔ نسلی تعصب اور تانا شاہی کو بھی ہمیشہ اس کیمپس کی تنقید کا سامنا کر نا پڑا ہے ۔سیاسی استحصال کے خلاف اس کیمپش کے طلبہ نے بلا تفریق نسل و مذہب متحد آواز اٹھائی ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی روایت کے ساتھ بڑی ہی حساسیت کے ساتھ چل رہا تھا ۔۲۰۱۴ کے لوک سبھا کے انتخابات کے بعد بھگوا تشدد کا شکار اقلیتی طبقہ کے ساتھ یہ ادارہ بھی ہوا ۔ جے این یو کی تاریخ میں پہلی بار حق گوئی اور بے باکی کو ملک کے غداری میں تبدیل کیا گیا ۔ کئی طلبہ میں خوف حراس کی زد میں لیا گیا ۔لیکن اپنی روایت پر قائم رہتے ہوئے جے این نے طلنہ یونین کا ایک نیا باب کھول دیا ۔لیکن تب تک کچھ ایسے باب کے اضافے ہو گئے تھے جو ماضی کے کامیاب کارناموں پر دیمک کا کام کرنے لگے تھے ۔ کنہیا اور خالد کا باب ابھی پوری طریقے سے بند بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک جے این کیمپس میں ایک ایسا حادثہ ہوا جسے کیمپس کی تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ بایو ٹیک انجینیرنگ کا ایک طالب علم دن کے اجالے میں غائب کر دیا گیا ۔ پولس محکمہ سے لیکن یونیورسٹی کی سیکیورٹی کو اب تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔ ۱۴ اکتوبر کی رات کو ماہی مانڈوی ہاسٹل کے انتخاب کی تیاری چل رہی تھی ۔ اسی دوران اے بی وی پی کے امید وار وکرانت ڈور ٹو ڈور ووٹ مانگ رہے تھے ۔ جب نجیب کے کمرے میں پہنچے تو کچھ ہی دیر میں ہاتھا پائی کی آواز باہر سنائی دی ۔ تھوڑی ہی دیر میں اے بی وی پی کے کچھ اور غنڈے اس لڑکے کو بری طرح پیٹ دیتے ہیں۔ کچھ دوسرے طلبہ کے بیچ بچاؤ کے بعد مار پیٹ کا یہ سلسلہ موقوف ہوتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا ۔ وارڈن اور سیکیورٹی گارڈ کے آنے کے بعد بھی اسے اتنا مارا گیا کہ ایمس میں داخل کرنا پڑا۔ صبح اسپتال سے واپس آکر طالب علم اپنی ماں کا انتظار کرنے لگا اس نے ایک دن قبل ہی اپنی ماں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ تقریبا ۱۱ بجے ماں کا فون آتا ہے کہ وہ آنند وہار پہنچ چکی ہیں۔ اپنے بیٹے کو کمرے ہی پر رہنے کو کہا ۔ ماں جب ہاسٹل پہچتی ہے ۔ تقریبا ۱۲ بجے سے وہ لڑکا ہاسٹل سے غائب ہے ۔ آج ۱۳ دن ہوگئے اب تک نجیب لا پتہ ہے ۔ وکرانت کے مطابق جب وہ ووٹ مانگنے کیلئے نجیب کے کمرے میں داخل ہوا تو نجیب نے وکرانت کے ہاتھ میں بندھے کلاوہ پر تنقید کرتے ہوئے اس کا مزاق اڑایا ۔ اس کے بعد وکرانٹ پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ جب کہ کیمپس ہی کی دوسری کچھ لڑکیوں کے مطابق اس نے نجیب کے ہاتھوں میں راکھی بھی باندھی تھی ۔اس کے علاوہ دسیوں ایسے لڑکے ہیں جنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ایسا لڑکا نہیں تھا کہ کسی سے بھی بلا وجہ الجھ جائے ۔
تقریبا ۲۵ لڑکوں نے نجیب کو ما رکھاتے دیکھا ہے ۔ انہوں نے تحریری طور پر پروکٹر اور شیخ الجامعہ سے شکایت درج کرائی ہے ۔ آج ۱۳ دن ہو گئے کوئی بھی محکمہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے لینے کو تیار نظر نہیں آ رہا ہے ۔ جے این یو کے حساس طلبہ کا احتجاج جاری ہے ۔ طلبہ یونین بھی مظاہرے کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے دفتر پر دھرنہ دیتے وقت گرفتاریاں بھی دی گئیں۔ دہلی کے گورنر نجیب جنگ کو بھی معاملے سے واقف کرایا گیا ۔ انہوں نے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ۲ ایس آئی ٹی افسر اس معاملے میں جانچ کریں گے ۔دیگر اعلیٰ افسروں سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے ۔ نجیب کے اہل خانہ بھی پچھلے دس دنوں سے آفس کے چکر لگا رہے ہیں ۔ ایک ہی سوال ہے ۔ میرا نجیب کہاں ہے ؟اس کا جواب نہ تو دہلی پولس کے پاس ہے اور نہ ہی جے این یو کے پاس ہے ۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کیمپس میں عدم تحفظ کی فضا بن گئی ہے ۔ کیمپس کی خاموشی کئی سوال کھڑے کر رہی ہے ۔ اب تک اس سلسلے میں کی گئی کاروائی کا بھی خلاصہ کرنے کو تیا رنہیں ۔ وارڈن اور گارڈ کے علاوہ درجنوں طلبہ کی موجودگی میں بری طرح سے حملہ آوروں میں سے تقریبا دس کی سناخت ہو چکی ہے ۔ اس کے باوجود اب تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے ۔اسے سب کے سامنے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ۔
سوال یہ ہے کہ نجیب کی گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟ ۱۲ دنوں سے لا پتہ نجیب کے لئے جواب دہ کون ہے ؟جے این یو کیا اس بات کی یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ ایسا حادثہ کسی دوسرے کے ساتھ نہیں ہوگا ؟دوسرے طلبہ کس حد تک محفوظ ہیں ۔ آخر جے این کی سیکیولر فضا میں تعصب کے پیچھے کس فکر کا ہاتھ ہے ۔ کیا اس کیمپس کی غیر جانبدارانہ حق پرستی کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کو جارہی ہے ۔ اس بار طلبہ یونین کے انتخاب میں اے بی وی پی کا پوری طرح صفایا ہو گیا اس کے باوجود کیمپس پر چڑھتا بھگوا رنگ اور اے بی وی پی کی بڑھتی جبری دخل اندازی کے پیچھے کون ہے ؟ آخر کیمپس کے پروکٹر سے لیکر وی سی تک اس معاملے کو لیکر سنجیدہ کیوں نہیں ؟ نجیب کی ماں ، بہن ، بھائی اور جے این یو کے تمام طلبہ کا ایک ہی سوال ہے ۔ نجیب کہاں ہے ؟ اس کا جواب کون دے گا ؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment