جمیعۃ علماء کا صوفی رنگ کیا رنگ لائے گا؟
عبدالمعید ازہری
جمیعۃ علماء ہند کی عمر سو برس ہونے کو ہے ۔ ان سو برسوں میں جمیعہ کا کوئی بھی سالانہ اجلاس کسی
خانقاہ یا کسی درگاہ سے منسوب نہیں کیا گیا ۔سیکڑوں اجلاس کی فہرست میں ایک بھی نام نہ اجمیر کا ہے اور ہی کسی بھی صوفی بزرگ ہے ۔ اچانک جمیعۃ کے اجمیرمیں طئے شدہ اجلاس نے پوی امت مسلمہ کو ایک عجیب سے پیش و پیش میں ڈال دیا ہے ۔ اپنے کے ساتھ غیروں نے بھی ’’بریلی دیوبندی اتحاد‘‘ پر حیر ت کا اظہار کیا ۔جبکہ بریلی کی بنیاد ہی ’’رد وہابیت‘‘ہے اور وہابی کی بنیاد بھی’’ رد سنیت‘‘ ہے ۔ ان سو برسوں میں جمیعۃ نے کبھی بھی اجمیریا غریب نواز کی حیات و خدمات ، تربیت و تعلیمات کا احساس نہیں کیا ۔ اب سو برس بعد انہیں اچانک ان صوفی بزرگ کی تعلیمات و خدمات کا اعتراف ہو گیا ۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہوگیا کہ ہندوستان میں امن و امان کے قیام کے پیچھے غریب نواز کی ذات سے جاری فیوض و برکات کا نتیجہ ہے ۔جمیعۃ نے پہلی بار اس بات کو تسلیم کیا کہ ہندوستان میں اسلام غریب نواز کی دعوت و تبلیغ سے پھیلا ہے ۔ آخر آٹھ سو سال کی قدیم ،واضح اور طویل تاریخ کو سمجھنے اور اس کا اعتراف کرنے میں سوسال کیسے لگ گئے ؟
یہ سچ ہیکہ غریب نواز کا در سب کیلئے کھلاہے ۔ اجمیر کی درگاہ ہر خاص و عام کے لئے برابر ہے ۔ وہاں ہر ایک سوال کرنے کا حق رکھتا ہے ۔لوگ سوال بھی کرتے ہیں ۔ انہیں تصلی بھی ملتی ہے ۔ بلا تفریق مذہب ملت ہر ایک کی اپنی عقیدت کے مطابق طمانیت ہوتی ہے ۔ہر اچھے برے کو اس در پر پناہ ملتی ہے ۔ یہ ایک ایسا دواخانہ ہے جہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں۔ کسی کیلئے کوئی پابندی نہیں۔ برے سے برا اور ہر جگہ کا دھتکارا اور پھٹکارا ہوا بھی اس در پر پناہ پاتا ہے ۔ لیکن ملتا اس کی اپنی توفیق سے ہے ۔ جس نے دل سے کسی کی چاہ کی ہے تو اسے راہ مل گئی ہے ۔ جس نے خود نمائی کی کوشش کی ۔ دکھاوا اور ریا کاری کا کار خانہ کھولا تو اس نے خود اپنے اوپر توفیق کے دروازے بند کر لئے ۔ پچھلے سو برسوں سے مسلسل سعودی بادشاہت کے قصیدے پڑھنے والی جمیعۃ نے اچانک سے غریب نواز کی چوکھٹ پر حاضری دی ہے ۔ محض حاضری سے کوئی حیرت نہیں ۔ یہاں ہر ایک کو فریاد کا حق ہے ۔یہ تو وقت ہی بتا ئے گا کہ آج جمیعۃ نے اپنے آپ کو وہابیت سے دور کر صوفیت کا لبادہ اوڑھنے کا جو فیصلہ کیا ہے ۔ یہ فیصلہ ان کے حق میں کتنا کار گر ہوتا ہے ۔
وہابیت آج بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے ۔ ہر خاص و عام اس کی دہشت و وحشت سے واقف ہے ۔ جمیعۃ علماء نے اب تک جس فکر کی ترجمانی کی ہے وہ کم سے کم صوفی آواز ، روایت ، تعلیم و تربیت تو نہیں تھی ۔ جمیعۃ اور ان کے حامیوں کی سعودی وفاداری کے قصوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ابھی ایک سال کا ہی عرصہ گزرا ہے جب سعودی بادشاہت کی اسلام پر اجارہ داری کے مسئلے کو لیکر ایک ہی فکر کے دو نمائندوں میں نورا کشتی کا منظر سامنے آیا تھا ۔ دارالعلوم ندو ۃ سے سلمان حسینی ندوی اور جمیعۃ سے ارشد مدنی نے سعودی اور قطر کی وفاداری کے مسئلے کو دعوت مباہلہ تک پہنچا دیا تھا ۔اس جمیعۃ سے جڑے ہوئے اکابر علماء اور اداروں کے اکابرین کے خود کے بیان موجود ہیں ۔جنہوں نے اپنے آپ تصوف سے نہ صرف الگ رکھا ہے بلکہ اپنی نسبت کو وہابیت سے جوڑا بھی ہے ۔اسی بنیاد پر اس جمیعۃ کی ترویج و اشاعت بھی ہوئی ہے ۔ اب اچانک صوفی فکر ، درگاہ، مزارات اور صوفیوں کی مخالفت کرتے کرتے انہیں کا سہارا لینے کی کیا ضرورت پڑ گئی ؟۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن حالات ان کے لئے ہیں جنہوں نے جمیعۃ کا دامن ان کی اپنی فکر کی وجہ سے تھاما تھا ۔ ان کا کیا ہوگا جنہیں محض صوفی مخالفت میں اپنا حامی بنایا گیا تھا ۔ اب پھر سے صوفی چادر پوشی انہیں کس خانے میں لے جائے گی؟۔
پوری دنیا میں بدناہ ہو چکی وہابیت کے خلاف جبب پوری انسانیت کھڑی ہوگئی تو اس فکر کے لئے زمین تنگ ہونے لگی ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے بھی پچھلی ایک دہائی میں اس فکر کے تئیں اپنی بے داری کا احساس دلایا ہے ۔ چونکہ یہ فکر ہمیشہ مذہب کی آڑ میں پھلتی پھولتی رہی۔ نفرت و قرقہ پرستی کی سیاست اسے پروان چڑھاتے رہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات نے اسے اور مضبوطی دی ۔ خانقاہوں کے خلاف دن بہ دن تیز ہو رہے حملوں نے خانقاہوں کو بھی بیدار ہونے پر مجبور کر دیا۔ پچھلی ایک دہائی میں تقریبا تمام خانقاہیں، درگاہیں اور آستانیں حرکت میں آگئی ۔ ان کے سجادگان اور ذمہ داران نے مسند نشینی چھوڑ کر عوام میں نکل کر ان کے حالات کا جائزہ لینا شروع کر دیا ۔ عوام کے صوفی روایت کا عادی بنانا شروع کر دیا دیکھتے دیکھتے مدارس سے علماء اور مساجد سے ائمہ نے بھی اپنی مذہبی اور ملی ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ۔ دس ہی برس میں ایسا انقلاب آیا کہ جس لفظ کو لوگ لبی آواز میں بولتے تھے اسے میڈیا اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچا دیا گیا ۔ ہندستانی مسلمانوں نے وہابی فکر کے ایک ایک مستقل محاذ کھول دیا ۔ ہندوستانی کے کونے کونے سے علماء ، مشائخ اور دانش وروں کی آوازیں ہر خاص و عام تک پہنچنے لگی ۔ وہ لوگ جنہیں اس فکر کی اصلیت پتہ نہیں تھی ۔ انہیں بھی سمجھ میں بات آگئی کہ مسلمانوں کے نام پر دہشت گردی کے ناپاک فعل انجان دینے والے اور وہابی ہیں اور وہ فکر وہابیت ہے۔ اس کا توڑ صوفی ہیں اور صوفیت ہے ۔علماء ، مشائخ اور دانش وروں کی اجتماعی آواز کا نام آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ ہے ۔ جس کا مرکز اجمیر ہے ۔
جمیعۃ نے بھی اسی مرکز میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کا دل سعودی بادشاہت سے نہیں اجمیر کی فقیری سے دھڑکتا ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوستان میں اسلام کی تاریخ کسی بادشاہ یا حاکم سے نہیں بلکہ غریب نواز سے ہے ۔ ہر ایک بزرگ کی انفرادی خدمات کے اعتراف کے ساتھ آج ہندوستانی مسلمانوں کا اسلامی مرکز اجمیر ہے ۔خاص طور پر اہل سنت و جماعت کی پہچان اجمیر سے ہے ۔ پچھلے بیس سے زیادہ برسوں سے جبرا اس سنی جماعت کی قیادت کا سوانگ رچنے والی جماعت کو جب اس بات کا احساس ہوگیا کہ ہم نے اتنے برسوں سے جن کی قیادت بنا رکھی تھی اب ان میں سے قائد پیدا ہونے لگے ہیں۔ لھٰذا اب انہیں کے جیسا بننا ضروری ہو گیا ۔ حکومتوں کو بھی دکھانا ہو گا کہ ہمارا تعلق اجمیر سے ہے ۔ ورنہ اتنے برسوں سے اجمیر کی مخالفت میں روٹی چل رہے تھی ۔ اب اس اجتماعی آواز نے ہماری جڑوں کو کھودنا شروع کر دیا ہے اسلئے اس مسخ چہرے پر چشتی رنگ ضروری ہو گیا ہے ۔
کسی بھی درگاہ سے وابستگی ہر کسی کا حق ہے ۔ کسی درگاہ ، آستانے یا مزار سے اپنا سلسلہ جوڑنے کیلئے کسی پر دروازے بند نہیں۔ درگاہوں ، آستانوں یا خانقاہوں پر کسی کی ذاتی اجارہ داری نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی سے بھی درگاہ سے منسوب ہو سکتا ہے ۔ اسے اختیا ر کر سکتا ہے ۔ لیکن صرف زبانی بیان بازی سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔اگر واقعی وہابیت سے توبہ کر کے صوفی رنگ میں آنے کا من بنا لیا ہے تو کیا صوفی روایتوں پر عمل ممکن ہوگا ؟ زیادہ ممکن ہے کہ صوفی روایت پر عمل ماضی کی سیاسی اور مذہبی تجارت کو نقصان ضرور پہنچائے گی ۔صوفی کہنا آسان ہے لیکن صوفیت میں یقین رکھنا مشکل ہے ۔ اس پر عمل کرنا اس سے بھی مشکل ترین کام ہے ۔ صوفیوں کے عقائد نظریات سے ہم آہنگی ممکن ہو سکے گی ۔ جلوس و محفل ، میلاد و سلام، استغاثہ و توسل جیسے اہم عقائد و نظریات سے ہم آہنگی کس قدر آسان ہو گا ؟۔کیا ان مساجد سے دست براداری ممکن ہوگی جن پر خاص فکر کو قبضہ دلا یا گیا ؟۔ یوں ہی کیا ان مسلم باڈیوں میں صوفیوں کے لئے جگہ ہوگی جن پر کئی برسوں سے اہل سنت و جماعت کا حق ہونے کے باوجود محروم ہیں؟۔سرکاری و نیم سرکاری باڈیوں میں مسلم نمائندگی کو ان کی فکراور اس کے حاملین کی تعداد کے اعتبار بحال کیا جا سکے گا ۔ بدنامی سے بچنے کیلئے اپنے آپ کو صوفی کہنے اور صوفی ہونے میں بہت بڑا فرق ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ پورا ہندوستان دیوبند اور جمیعۃ کو جس فکر کا حامل اور ترجمان سمجھتا ہے اس صوفیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جس وہابی فکر کو ہندوستان میں فروغ دینے کیلئے کھلے عام یا در پردہ کوششیں کی گئی ہیں اور اب تک کی جارہی ہیں۔ وہ صوفی روایتا ت اور تعلیمات کے بالکل مخالف ہیں۔ہاتھ سے پھسلتی اقتدار کی کرسی اور دیگر اقوام کے ساتھ قوم مسلم میں بھی اپنا کھوتا ہو وقار دیکھ کر رنگ بدلنے کی یہ منافقانہ کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔
*****
#Jamiat #ajmer #sufism #wahabism
#Jamiat #ajmer #sufism #wahabism
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@




No comments:
Post a Comment