Saturday, April 29, 2017

غلط فہمی کی چادر سے باہر نکلیں


غلط فہمی کی چادر سے باہر نکلیں
عبدالمعید ازہری

کسی بھی کمپنی، فیکٹری، کارخانہ اور تجارتی شعبہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں ملازمت کیلئے جب انتخاب ہوتا ہے تو حسب لیاقت ذمہ داری دی جاتی ہے۔ جس میں اس مخصوص تجارت کا علم ایک عام اور ضروری بات ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ اہم ذمہ داری ہوتی ہے اتنا سخت انتخاب ہوتا ہے۔ ماہرین کی جماعت بیٹھ کر انٹر ویو لیتی ہے۔ پوری طرح جانچ پررکھ کر، علمی لیاقت و استعداد دیکھ کر، ڈگریوں کی توثیق کر کے، تجربہ یا تجربہ کی اہلیت کے بارے میں کامل یقین ہونے پر ہی اس عہدہ کیلئے انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یعنی وہ شخص فیلڈ کا ماہر، علم یافتہ، تربیت یافتہ، باذوق اور اسی میدان کے لئے حوصلہ مند ہوتا ہے۔ یہ ایک عام قانون ہے جو کسی بھی کمپنی یا تجارتی یا انتظامی شعبہ میں ہوتا ہے۔ ایک انجینئر سے ڈاکٹری نہیں کرائی جاتی اسی طرح ایک ڈاکٹر سے بلڈنگ کا نقشہ نہیں بنوایا جاتا۔ تعلیم و تربیت بھی اسی اعتبار سے الگ ہوتی ہے۔اسی بنیاد پر ان سے تقاضے بھی ان کی علمی صلاحیت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ایک ایم بی اے فارغ سے موسم کا حال دریافت نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح بایولوجی کے ماہر سے ٹکنالوجی کے سوال مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔یعنی جتنی بڑی ذمہ داری اتنی زیادہ علمی اور فکری لیاقت درکار ہوتی ہے۔ اس قانون کا اطلاق دنیا کی تقریبا ہر انتظامی امور میں ہوتا ہے۔
بس دور حاضر کے مسلمانوں کے یہاں یہ بے معنی ہے۔ ایک ہی فن اور اسلوب میں ہر میدان کا ماہر بنایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فارغ نوجوان کو بیک وقت ہر چیز کا ذمہ دار بنا دیا جاتا ہے یا پھر مان لیا جاتا ہے۔ نتیجہ فطری ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
امامت و تبلیغ اسلام کا سب سے اہم اور ذمہ داری بھرا نہایت ہی حساس شعبہ ہے۔ جن کے لئے ماہرین درکار ہوتے ہیں۔ قوم مسلم کی باگ ڈور انہیں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ہر انسانی شعبہ حیات کی تعلیم و تربیت انہیں کے ذمہ ہے۔ روحانیت و اخلاق سازی ہو یا تصوف و خدمت خلق یہ دونوں شعبے ہر جگہ نہ صرف کار گر ہیں بلکہ ذمہ دار بھی ہیں۔یہی دونوں شعبے قوم کا مستقبل اور اس کا اثاثہ ساز ہوتے ہیں۔آج ہم اپنی ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ ان شعبوں کی موجودہ صورت حال نے قوم کے مستقبل کی کیسی تاریخ لکھی ہے۔ امامت کیلئے الگ سے تربیت نہ ہونا اور اس کیلئے تجربہ نہ ہونا قوم کے حق میں زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ جہاں ایک طرف امامت کیلئے خصوصی نصاب تعلیم اور مخصوص تربیت کا فقدان ہے وہیں دوسری طرف ان ائمہ کا اتنخاب اور ان کی تقرری کا طریقہ کار بھی حیران کن ہے۔ بولی لگائی جاتی ہے۔ جو سب سے کم میں تیار ہوا، اسے تبلیغ و امامت کی نوکری پر رکھ لیا گیا۔ خریدار بھی خالص تاجر ہیں۔ انہیں علمی لیاقت، فکری صلاحیت اور قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کی اہلیت جانچنے کی ضرورت نہیں، پہلی بات تو وہ خود جاہل مطلق ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انہیں اپنا حامی چاہئے ہوتا ہے، مصلح یا واعظ نہیں۔تقرری خدمت کیلئے نہیں ہے،بس نوکری کرنی ہے۔ اب جب نوکر ی کیلئے رکھا گیا ہے تو نوکری کر ے گا۔ اسے قوم کی فکر کیوں کر ہونے لگی۔پانچ وقت کی نماز کیلئے مسجد کے مصلے پر ہوگا۔ مسجد کے باہر قوم کے معاملا ت کیسے ہوں۔ تجارت کیسے کرے۔ دیگر معاملات میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کیسی ہو۔ ان سب کے بارے نہ تو اسے علم ہے اور نہ ہی کوئی فکر ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علاقہ کے تجربہ کار علماء بیٹھتے، باقائدہ سوال و جواب کے ذریعہ علمی، فکری و اخلاقی طور پر جانچ پرکھ ہوتی۔ اس کے بعد امامت کے منصب پر فائض کیا جاتا۔ اسی لحاظ سے ان کی خدمت اور توقیر بھی کی جاتی۔لیکن کیا کیا جائے جب اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ ہو۔
مخصوص شعبوں میں علمی و تربیتی خصوصیت کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ نام نہاد مبلغین اور مقررین کو خود رشد و ہدایت درکار ہے۔دین ان کے لئے ذریعہ معاش ہے۔ معاشرہ بھی ویساہو گیا۔ یہ خود انہیں کا بویا ہوا سنیچر ہے جو، اب گاہے بگاہے کاٹ رہے ہیں۔مبلغین و مقررین نے اپنا ایک نقاطی پروگرام بنا لیا ہے۔ کس
مہینے میں کیسی تقریر کرنی ہے۔ کو ن سا نعرہ کہاں لگانے سے لوگ خوش ہوں گے۔ کب کس کے خلاف یا حمایت میں بولنے سے مقبولیت ہوگی۔ اس کا علم خوب رکھتے ہیں۔بلکہ حمایت و مخالفت میں بولنے کے لئے باقائدہ نذرانے لئے اور دئے جاتے ہیں۔تقریری پروگرام اب تو انٹرٹینمنٹ اور سامان تفریح ہونے لگے ہیں۔اصلاحی اور تبلیغی پہلو تو بہت دور ہو گئے ہیں۔ بلکہ معدوم و معزول ہو گئے ہیں۔اس کا ایک بھیانک اور افسوس ناک نتیجہ یہ بھی ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلکی تعصب و تشدد کی آگ دامن اسلام تک پہنچ گئی۔قوم مسلم اپنے ہی ہاتھو ں سے اپنا مستقبل جلانے لگی۔ایک عالم دوسرے عالم اور ایک پیر دوسرے پیر کو ایک امام اور مبلغ دوسرے مبلغ کو اپنا مخالف، مد مقابل اور دشمن سمجھنے لگا۔مذہب تو کہیں رہا ہی نہیں۔
محرم میں کیا جائز اور کیا ناجائزہے، یہ چائے خانوں اور سگریٹ نوشی کے نکڑوں پر طے ہونے لگے۔ کس مسلک کا کون سا عقیدہ ہے، یہ اپنے گھروں میں بننے لگے اور چٹخارے لے کر اس جھوٹ کی تبلیغ ہونے لگی۔شیعوں کے تعلق سے توہین آمیز، نہایت ہی گھٹیہ روایتوں کی تبلیغ عام ہونے لگی اسی طرح سنیوں کے خلاف اور اسی طرح وہابیوں کے خلاف اپنے اپنے گھروں میں عقیدے اور روایتیں، قصے، کہانیاں اور اس کے بعد خود کے جھوٹے مناظرے بننے لگے۔جن میں سے اکثر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ سب بے سر پیر کی باتیں۔ اصل اختلاف کیا ہے اور کہیں دور کسی بوسید ہ سی کسی پرانی کتاب کے چیدہ صفحوں میں مٹنے کے قریب ہو گیا۔ کہ اب ہماری کیا ضرورت ہے۔
دوسروں کی غلطیاں کفر سے کم نہیں لیکن خود کی حرام کاری کو عقید ت کا نام دیا جاتا ہے۔ جو بھی مستحبات یا عقیدت کے عمل ہیں اس میں اکثر و بیشتر بڑی سے بڑی غلطی عقیدت کے نام پر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ کوئی آواز اٹھائے تو اسے پہلے قوم سے پھر مذہب سے خارج کرنے کی بدتمیزی ہوتی ہے۔ خدایا تونے پھر سے اپنا نائب بھیج دیا کیا!؟ یہاں تو لوگ رجسٹر لے کر بیٹھ گئے۔ جانے انجانے خدائی کا دعویٰ کرنے لگے۔
خود پوری زندگی شاید ہی کسی سنت پر دوام و استقرار سے قائم ہوں لیکن اگر کوئی اس کا تارک غیر مسلک سے ہو تو اس کی سزا کفر سے کم ہے ہی نہیں۔
محفل و محفل کے آداب و اخلاق سے تو تقریبا بالکل ہی واقفیت نہیں۔اپنی رٹی رٹائی تقریر اور رٹے رٹائے جھولا چھاپ نعرے لگا دئے۔ اب ان سے بڑا دین کا محافظ کوئی نہیں۔ماہ ربیع الاول بغیر کربلا کی شہادت کے مکمل نہیں ہوتا۔ اب اگر محرم کی محفل ہورہی ہوتی ہے، اس میں شہدائے کربلا کا ذکر ہورہا ہو، تو ایک الگ سے محفل جشن عمرؓ،جشن معاویہؓ وغیرہ کی ہونی لازمی سمجھتے ہیں۔ جس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم اگر اہل بیت سے محبت کرتے ہو تو ہم عمر و معاویہ سے محبت کرتے ہیں۔ مقابلہ کر بیٹھتے ہیں۔ بھلے سے اسے خود کو فاروق و صدیق ، معاویہ، صدیقہ اور بو ہریرہؓ وغیرھم کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات نہ معلوم ہو۔
اس نرا جہالت نے ہی ہمیں ایسی ذلت و رسوائی سے ہم کنار کر دیا۔ یہ تو رب کا فضل عظیم ہے کہ ہماری ہدایت کے لئے ایک ایسی کتاب دی ہے جو تاقیات ہمیں آگہی اور ہدایت کے راستوں سے واقفیت کراتی ہے۔ ورنہ نام نہاد نمائندوں نے تو دین کو بیچ ہی دیا ہوتا۔وقت ہے فکر کر لیا جائے۔ ورنہ حالات ہمارے سامنے ہیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Cantact: 9582859385

No comments:

Post a Comment