Wednesday, May 10, 2017

قوم مسلم: چند غور طلب پہلو


قوم مسلم: چند غور طلب پہلو
عبد المعید ازہری

آج ہندوستان کی جمہوریت اپنے آپ کو پابند سلاسل محسوس کر رہی ہے۔ جس جہوریت کو پوری دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے اورجس جمہوریت کی خاطر جان و مال عزت و وقار کے نذرانے پیش کئے گئے آج انہیں مجاہدین کا خواب خاک و خون میں لت پت نظر آ رہا ہے۔ایک خاص فکر اور ایک خاص جماعت نے بیرونی افکار کی تربیت میں ملکی ترقی کے معانی بدلنے کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنا لیا ہے۔ آج کے حالات تو شاید یہی کہہ رہے ہیں کہ کسی کو کسی کے دھرم سے یا خود اپنے دھرم سے کوئی خاص لگاؤ یا دلچسپی نہیں ہے۔ سب اپنی اپنی قیادت بچانے یا دکھانے میں لگے ہیں۔ جس طریقے سے ایک خاص فکر پوری دنیا کو قبضے میں کئے ہوئے ہے، اس کے اثرات ملک کے موجودہ صورت حال میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملک کے جمہوری نظام میں یقین رکھنے والا ہر ہندوستانی آج اپنے آپ کو بے بس و مجبور محسوس کر رہا ہے۔یہ ایک ایسی فکری سنامی ہے جس نے فی الوقت ہر ذی شعور کے افکار و اذہان کو مفلوج کر دیا ہے۔ زبانوں کو گنگ کر دیا ہے۔ یا معزول کر دیا ہے۔ اس فکر کا اثر سب سے زیادہ ملک کی دو قوموں پر نظر آرہے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرا دلت۔دونوں کی حالت تقریبا ملک میں ایک جیسی ہے۔ بلکہ بسا اوقات دلت کچھ حد تک محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن مسلمان اس وقت سب سے زیادہ ہراساں اور خوف زدہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان خود اس بات کو یقینی طور پر واضح نہیں کر پایا ہے کہ وہ پریشان کس بات سے ہے۔یو پی ریاست میں موجودہ سرکار سے خائف ہے یا مرکزی حکومت کی بے اعتنائی سے مضطرب ہے۔ اپنی علمی و فکر نااہلی سے پس پشت ہے یا جھوٹی قیادت کے ختم ہو جانے سے پشیماں ہے۔ ابھی تک کسی بھی یکجہتی پہلو کا خلاصہ نہیں ہو پایا ہے۔ امید ہے کہ فی الحال کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن بھی نظر نہیں آتا ہے۔
یوپی میں یوگی راج کے آتے ہی مسلمانوں کاسب سے پہلاکام یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے پر اس قدر زبانی حملہ آور ہوگئے کہ مانوایک دوسرے نے عصمت دری کر دی ہو۔ایسے لوگوں کے پاس سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالنے کے لئے بڑا وقت ہوتا ہے اور کار ثواب سمجھ کر اس کا م کو انجام دیتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ سوشل میڈیا پر لکھی گئی ہر تحریر کا استعمال آپ کے بس میں نہیں ہوتا۔اس کا کبھی بھی کیسا بھی استعمال ممکن ہے۔ وہ ایک پبلک پلیٹ فارم ہے۔ایسی طوفان بد تمیزی کہ حکومتیں پلٹ دینے کا جوش نظر آجائے۔ اسی کا بھرپور استعمال خود انہیں کے خلاف ہوتا ہے اور ہوا بھی ہے۔ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے قبل اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر کیوں نہیں دیکھتے۔ ہم جس پر الزام لگا رہے ہیں ہمارا اس پر یقین کتنا ہے۔ ہم اس کی کتنا سنتے ہیں۔ اسے کس حد تک اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔کوئی ایسا شخص جس نے پورے علاقے میں آگ لگا دی ہو۔ آخرم ہم نے کیا کیا ہے؟ ہم نے کچھ بجھانے کا کام کیا ہے یا اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ فلاں نے آگ لگائی اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم لگاتے تو اس کے بجھانے کے بارے میں سوچ بھی لیتے ۔
ایسا نہیں ہے کہ علم نہیں یا فکر و وجدان نہیں۔ بس ایک دوسرے کو قبول کرنے والا دل و دماغ نہیں۔ ہر شخص کو قیادت چاہئے۔ دوسرا برا اور صرف برا ہے۔ اخلاقی اور اعتقادی طور پر اتنا گر گئے ہیں کہ شاید خدا پر بھی بھروسہ نہیں رہا۔ اس نے جن باتوں پر بھروسہ کرنے کو کہا، ہم جب تک اس کا اندازہ لگا کر یقین نہیں کر لیتے اس وقت تک ہمیں اس بات پر بھروسہ نہیں ہوتا۔لاکھوں کروڑوں علماء و مشائخ کی قرآنی باتیں ایک وقت سب بے معنی لگتی ہیں۔ آخر ہمیں ان پر یقین کیوں نہیں۔ مبلغ کی تبلیغ، مقرر کی تقریر، امام و مدرس کی وعظ و نصیحت اور پیران عظام کی تربیت سب یہی کہتی ہے کہ قرآن میں سبھی مشکلات کا حل ہے۔ پیغمبر اسلام نے ہر آنے والی مشکلوں سے سامنا کرنے کیلئے واضح حل فرما دیا ہے۔پوری دنیا قرآنی افکار اور نبوی تعلیمات کے نظریات سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آخر یہ بات ہمیں سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ ہماری سمجھ میں فرق ہے۔ سمجھانے میں کوتاہی ہے یا بات ہی سرے سے خارج ہے۔ محض باتیں ہیں؟ پوری قوم کی
علمی، فکری،اقتصادی طاقتیں صرف خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔یہی طاقت اگر اس قوم کی فکر و علمی تعمیر میں خرچ جاتی شاید آج نتیجے کافی حد تک بر عکس ہوتے۔سیاسی شعور کا اس قدر فقدان ہے کہ ہمیں سجبھ میں ہی نہیں آتا کہ کب کس سے کیسی اور کیوں گفتگو کر نی ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم ہو کر آواز اٹھاتے ہیں اور مجرم ہو کر واپس آتے ہیں۔
یا تو سیاست ہمارے لئے شجر ممنوعہ ہے یا پھر ہم دین کی بھی سودا بازی کر لیتے ہیں۔ اپنی ہی قوم کے کسی کو ہم آگے بڑھتا ہو ا نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی تمام تر اچھائیوں اور محنتوں کو در کنار کر کے بس اس میں کسی بھی طرح سے کمی بلکہ کفر کی حد تک غلطی نکال کر دنیا کاسب سے ذلیل ترین انسان ثابت نہیں کر دیتے، اس وقت تک ہم چین نہیں لیتے۔ اس ذمہ داری کو کسی بھی قیمت پر ادا کرتے ہیں۔نبوی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم ہے اگر کسی کے ساتھ اچھا نہ کر سکو تو کم سے کم برا نہ کرو۔ اچھی اور تعمیری باتیں نہیں کر سکتے تو خاموش رہو۔ کسی کی اصلاح یا اس پر تنقید اسے ذلیل کر کے نہیں کی جاتی۔ اس سے مل کر بات کر کے سمجھا کر کی جاتی ہے۔اگر واقعی ہمیں فکر ہے تو مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
قوم مسلم بالعموم اور اہل سنت میں بالخصوص شخصیتیں بہت ہیں۔ لیکن بس نام کی ہیں۔قوم کے مفاد میں تو بالکل نہیں۔ ایک سیدھا سا قائدہ ہے۔ لوگ یا تو قوم کے لئے مفید ہوتے ہیں یا مضر ہوتے ہیں۔اگر ایک دوسرے کو قائد تسلیم نہیں کر سکتے تو کم سے کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ قومی مفاد میں قومی اقدام کی تائید کا جائے۔ ہر میدان عمل کی الگ قیادتیں ہوں۔بلکہ ایک میدان میں بھی متعدد قیادتیں ہوں۔اگر ہم قوم کے مفاد میں ایک دوسرے کی تائید نہیں کر سکتے تو پھر جھوٹی ہیں یہ قیادتیں، قوم کی خدمت کا دکھاوا، درد کا ڈھونگ اور محافظت کی عیاری ۔ یہ ادنیٰ ہے کہ کم سے کم ہم ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں نہ ہوں۔ اگر اتنا بھی نہیں ہو سکتا تو مزید تباہی کیلئے تیار رہیں۔ اور ہاں! ایک دوسر پر الزام رکھنے کیلیئے سوشل میڈیا پر مصنع اور مزین جملے تیار رکھیں۔ وہی تو ہمارا جہاد ہے۔ قومی ذمہ داری سوشل میڈیا پر بد اخلاقی اور بد تمیزی کا ثبوت پیش کر کے ہی ادا کر سکتے ہیں۔اب ایسی قوم تباہ برباد ذلیل وخوار نہیں ہوگی تو کیا ہوگی۔ جو اپنے میں سے ہی کسی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پہلے مسلمان تھے۔ پھر شیعہ سنی بنے۔ پھر سنی شیعہ اور وہابی بنے۔ اب ہر گروہ مین درجوں اور سیکڑوں گروہ ہیں۔جو ایک دوسرے کو غلط اور خود کو صحیح ثابت کرنے میں کتابیں بوسیدہ کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو مذہب سے خارج کرنے والی قوم دوسروں سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ انصاف کرے۔اسے عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ اسے عہدہ و ذمہ داری دے۔
اگر ایک دوسرے کے پیچھے نہیں چل سکتے تو کم سے کم ایک دوسرے کے ساتھ تو چل سکتے ہو۔ اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے، تو مرو شور مچاتے کیوں ہو!
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385

1 comment: