دعوت وتبلیغ کے چند فراموش پہلو
عبد المعید ازہری
تاریخ انسانی میں جب کبھی بھی حق و باطل کی بات ہوتی ہے اس میں چند نام بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں۔ جیسے ابراہیمؑ کے ساتھ نمرود کا اور موسیٰؑ کے ساتھ فرعون کا۔ یوں ہی حسین ؑ کے ساتھ یزید کا۔ مشہور کہاوت ہے ’لکل فرعون موسیٰ‘۔ایسے اشعار بھی ہیں۔ ’ہر دور میں اٹھتے ہیں یزیدی فتنے، ہر دور میں شبیر جنم لیتے ہیں‘ ،’ فرعون کا سر جب اٹھتا ہے کوئی موسیٰ پیدا ہوتا ہے‘۔ان کہاوتوں اور مثالوں کے پیچھے کچھ مثالی روایتیں ہیں۔ در اصل وہی سب کودعوت فکر دیتی ہیں۔قرآن ان افکار و روایات کا امین ہے۔قرآن اور اس کی دعوت ہر دور میں، از ازل خدائی فرمان اور اس کا محبوب عمل رہا ہے اور تا ابد یہ رہے گا۔ جب تک قرآن کی بقا ہے، اس وقت تک اس کی دعوت کا تسلسل ہے۔ خدا کریم قرآنی آیات و نبوی ارشادات کے ذریعہ اپنے محبوبین کو اس کار خیر کیلئے منتخب کرتا رہتاہے۔اسے خیر امت سے یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ امت کے اچھے لوگ ہیں جو اچھی باتوں کی ترغیب دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔ ان کی اچھائی پہلے ان کی سیرت کو نکھارتی ہے۔ ان کے قلب کو صاف کرتی ہے۔ وہاں جب حق کا نور پہنچتا ہے تو ان کے اخلاق و کردار سے اس نور کی ضو فشانی ہوتی ہے۔ اسی کا اثر ہوتا ہے۔ ورنہ ایک ہی بات کو دسیوں لوگ کہتے ہیں لیکن اثر کسی ایک کا ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے اپنی زندگی نبوی تعلیمات کے نور سے روشن کرتے ہیں اس کے بعد انعام خداوندی ہوتا ہے کہ اب بولو! زبان تمہاری ہوگی بولنا رب کا ہوگا۔آنکھیں تمہاری ہوں گی نظر رب کی ہوگی۔ اقدام تمہارا ہوگاتکمیل اس کی ہوگی۔
دعوت کی فکری تصویر اس کی حکمتیں بڑی آسان ہیں لیکن اس پر عمل اتنا ہی مشکل ہے۔ لیکن ارادہ کرنے والوں کیلئے وہ بھی آسان ہے۔ قرآن نے سیدھا اس کا ایک طریقہ بتایا ہے۔ ’رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی وعظ ونصیحت کے ساتھ بلاؤ۔جب جدال کی نوبت آئے تو سب سے احسن طریقے سے کرو۔ اس کے عملی ثبوت پیغمبرروں کی زندگیوں میں ملتے ہیں۔ان سے ان کے محبوبین نے سیکھ کر خدا کے بندوں تک پہنچایا۔ پیغمبر اسلام کی مکمل زندگی کو رب کریم نے زندگی کے لئے بہترین نمونہء عمل قرار دیا ہے۔اس عظیم محسن انسانیت کی زندگی کے ہر ہر لمحے سے زندگیوں کی سوگات ملتی ہے۔ یہ خداکا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے محبوب کی زندگی کے ہر شعبے کو اس کی امت کیلئے بقید تحریر و بیان کر دیا ہے۔جن کے نقوش ہر قدم پر نسل انسانی کی رہنمائی کر رہے ہیں۔آپ کے اوپر کوڑا پھینکے والی ضعیفہ کے ساتھ آپ کا حسن سلوک ایک واحد نمونہ نہیں ہے۔ ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ایک واضح اور غالی منافق کی قبر میں اپنی چادر ڈال کر انسانی کرامت کے تئیں اعلیٰ معیار کی حکمت عملی کی مثال پیش کی۔ اعلان نبوت سے پہلے مکی زندگی میں کعبہ کی زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی حفاظت کیلئے ایک جماعت ترتیب کی گئی تھی جس میں آپ کا بھی نام تھا۔ اعلان نبوت کے بعد مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد ملی مسائل اور خدمت خلق کے جزبے کی ترغیب کی خاطر آپ نے فرمایا اگر آج بھی اس جماعت میں شریک ہونے کا موقعہ ملے تو خوشی سے شامل ہو جاؤں۔ اسی طرح جن اہل مکہ نے آپ اور آپ کے اصحاب پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئے ان پر غلبہ پانے کے بعد نہ تو آپ نے ان کو جبرا اسلام میں داخل کیا اور نہ ہی ان سے بدلہ لیا۔ بلکہ سب کو انتم الطلقاء کہہ کر آزادی کا پروانہ دے دیا۔زکوٰۃ و عطیات کا مال ان کو دیا جنہوں نے آپ کے اصحاب کے خلاف سازشیں کی تھیں۔
نبیوں کی آمد کے تعلق سے جو حکمت بیان کی گئی ہے وہ بھی دعوت ہی بتائی گئی ہے۔ فرعون کا شر جب برھ گیا۔ جرم وجرئت، گستاخی و بد عنواکی حدوں کو جب فرعون نے عبور کر لیا، تو رب تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو بھیجا۔ بھیجتے وقت فرمایا ۔ ائے موسیٰؑ و شعیب ؑ فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ باغی ہو گیا اورخدائی کا دعویٰ کر چکا ہے۔ اور ہاں اس سے نرمی سے گفتگو کرنا۔کیونکہ نرم گفتگو اصلاح کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ اس واقعہ پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ فرعون کی شر انگیزی کو آج کون پہنچ سکتا ہے۔ اور پیغمبروں کی سیرت بھی ہماری رسائی میں نہیں۔ رب کو خوب معلوم ہے کہ فرعون سدھرنے والا نہیں۔ اس کے باوجود پیغمبروں کو فرعون کے پاس بھیجنے کی تلقین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ نرمی سے گفتگو کرنا۔ آج اس سے تمام داعیوں کو سیکھ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جرم و گستاخی کی انہتا جس کی وضاحت قرآن کرتا ہے کہ انہ طغی۔ دوسری طرف پیغمبران خدا جن کی عصمت کا ضامن خود خدا کریم ہے، اس کے باوجود نرم گفتگو کی تلقین! بہت کچھ بیان کرتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں نہ ہی موسیٰؑ و ہارون ؑ جیسے کردار ہیں اورنہ ہی فرعون جیسی بغاوت ہے اس کے باوجود ہمارے معاملات ہمیں دعوت فکر دے رہے ہیں۔ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
جبر کا بدلہ اور اس کی اصلاح کبھی جبر سے نہیں ہوئی اسی طرح گستاخی کو گستاخی سے ختم نہیں کیا گیا ہے۔کسی کی گستاخی پر ہمارا آج کا رد عمل اور اصلاح کا طریقہ ہمیں خود بھی گستاخ بنا رہا ہے۔ایک سوال امت کے ہر ذمہ دار فرد سے ہے کہ کسی کے جرم کی داستان بیان کرنے یا اسے مجرم قرار دینے سے پہلے کیا ہم نے کبھی اس سے اس کے جرم کے بارے میں بات کی ہے۔ اسے دعوت اصلاح دی ہے۔اگر ایسا نہیں تو کیا ہمیں اسے برا کہنے اس کی برائی کا اعلان کرنے اور اس میں اپنی ساری محنت صرف کرنے کا حق ہے؟
ایک مسئلہ اور بھی پریشان کن ہے۔ عام طور پر گستاخوں اور مذہبی مجرموں کے تعلق سے الگ الگ روایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کسی کی صحت اور یا عدم صحت کے بارے میں بات کرنے کی بجائے ہمیں اس بات کی وضاحت طلب ہے کہ ایسی روایت کب ،کیوں اور کہاں بیان کرنی چاہئیں۔ گستاخون کے بارے میں اکثر مقررین کا خیال ہے اور اب تو دھڑلے سے یہ سوشل میڈیا پر بھی تحریر نظر آئی ہے کہ ہر گستاخ کی نسل خراب ہوتی ہے۔اسیے کئی پیغمبر اور ان کے اہل و عیال گذرے ہیں جن کے اہل خانہ نے ایمان لانے سے انکار کر دیا ۔ اب ان کی نسل کے بارے میں اس روایت کے ساتھ کہاں تک انصاف کر پائیں گے۔ گستاخی یقیقنا جرم عظیم ہے۔ لیکن اسے ثابت کرنے اور اسے اطلاق کرنے کا حق کس کو ہے؟
پیغمبر اسلام کی زندگی اور ان کی نمائندگی کرنے والے صوفیاء کی زندگی ہمیں اس بارے میں فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جرم کو جرم سے اور گستاخی کو گستاخی سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔’گستاخ نبی کی ایک سزا ، سر تن سے جدا سر تن سے جدا‘ کا نعرہ دینے کے ساتھ اس بات کی کی وضاحت اشد درکار ہے کہ اس کا حق کسے اور کب ہے۔کو ن گستا خ ہے اور کس کی گستاخی کس درجے کی ہے اس کے کیا اصول ہیں، اس بارے میں کوئی متفق علیہ لائحہ عمل یا کیا حکمت عملی ہے؟
اصحاب کرام میں کئی اسیے لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں دور نبوی میں بھی آپ کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کیا۔ شدت کا رخ اختیار کیا۔ یہ اس وقت کی بات تھی۔ اس میں ایک نام حضرت عمرؓ کا ہے۔ لیکن انہیں عمر کی زندگی کے ان پہلوؤں سے ہماری نظر ہٹ گئی جب انہوں نے گھر میں پوچھا کہ کھانا پڑوسی کو پہنچا دیا گیا۔ جواب ملا وہ تو دین کا دشمن اور نبی کا گستاخ ہے۔ آپ نے فرمایااس کا معاملہ الگ سے نپٹیں گے لیکن چونکہ وہ ہمارا پڑوسی ہے اسلئے پڑوسی والا معاملہ بھی ادا کریں گے۔ آج شاید تشدد کی جگہ تصلب کی ضرورت ہے۔
دیگر قوموں میں قوم مسلم کے تعلق سے بڑھتی نفرتوں کی وجہ یہ بھی ہے اس قوم نے نبوی سیرت کے مطابق خدمت خلق میں اپنی نمایا حصہ داری ختم کر دی۔ اپنے معاشرے کے ملی مسائل اور قوم ہم آہنگی میں اس قوم کی شرکت واضح نہیں ہے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیم ہے۔ جس قوم کی بنیاد ہی اقراٗہو اس میں علمی فقدان
!ہیف سد ہیف!
علم و تربیت ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔نبوی تعلیم و سیرت کی تربیت ہی علم کے صحیح استعمال اور اس سے مستفید ہونے کا راستا ہموار کر سکتے ہیں۔اصل دین کی طرف رجوع وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ صوفیاء اور بزرگوں کے طرز عمل کو پھر سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی میں امن ہے۔

No comments:
Post a Comment