Wednesday, June 7, 2017

زکوٰۃ:غربت ، افلاس اور پسماندگی دور کرنے کا حل ज़कात: ग़रीबी एवं पिछड़े पन का इलाज Zakaat: the absolute solution of poverty and backwardness


زکوٰۃ:غربت ، افلاس اور پسماندگی دور کرنے کا حل
عبد المعید ازہری

رمضان ایک خاص کیفیت اور انسانی و انسانیت سے پر احساسات و جذبات کا مہینہ ہے ۔مکمل انسانی قدر و منزلت کا مہینہ ہے ۔ جسے ہم اسلامی یا انسانی مہینہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جس رویہ اور زندگی کے طرز عمل کی تعلیم اسلام دیتا ہے، رمضان اس کا ایک عملی نمونہ ہے ۔خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھانا کھلانے کا مقدس جذبہ اس مہینے کی خصوصیت ہے ۔ خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھلانے میں خوش ہونا بھی اس ماہ کی خاص دین ہے ۔ ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی مجلس، نماز کی صفوں کے بعدبھی اس مہینے کے دیگر معمولات میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔شاہراہوں پر شربت پلانا ، سبیل لگانا ، کھانے پینے کی دوسری اشیاء کو تقسیم کرنا اس ماہ عام طور پر دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔افطار کے وقت راستے میں پھنسے مسافروں کے لئے افطار کا انتظام بھی نظروں سے گزرتاہے ۔بڑا پر خلوص میل جول اور آپسی اخوت و رواداری پائی جاتی ہے ۔بلا تفریق مذہب و ملت لوگ افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ وہ مقدس و بابرکت مہینہ ہے جس کی وجہ سے آج پورے ملک کے ہزاروں سرکاری وغیر سرکاری مدارس چل رہے ہیں۔ اس ایک مہینہ کی آمدنی سے پورا سال نکل جاتاہے ۔ہزاروں مدارس میں پڑھنے والے لاکھوں طالب علموں کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام اسی مہینے میں کیا جاتاہے ۔جواز و عدم جواز ،مستحق و غیر مستحق ایک الگ مسئلہ ہے ۔اس ایک مہینہ میں بہت بڑی رقم جمع کی جاتی ہے ۔ ہزاروں مدارس میں صرف ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگا کر رقم کی قیمت کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ا س مہینے میں کتنی برکت ہے ۔اساتذہ ، ملازمین و دیگر کارکن کی تنخواہ ، کتابوں اور دفتر میں کے اخراجات ، تعمیری کام کے الگ سے اخراجات اور مطبخ کا خرچہ الگ سے ہے ۔ اس طرح کل ملا کر ایک بہت بڑی رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مہینے پوری بھی کی جاتی ہے ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں صدقات و خیرات کی کثرت ہوتی ہے۔ جس سے کئیوں کے کارخانے چلتے ہیں۔
اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نعمت رکھی ہے ۔ وہ زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے ۔حالانکہ کہ زکوۃ اس ماہ کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔ زکوٰۃ کی فرضیت الگ ہے ۔ اس کی ادائگی کا کوئی خاص مہینہ بھی مختص اور مقرر نہیں ہے ۔چونکہ ماہ رمضان میں صدقات و خیرات کی کثر ت ہوتی ہے اسلئے عام طور پر لوگ اسی مہینے میں خاص فرض عبادت زکوٰۃ کی بھی ادائگی کرتے ہیں۔زکوٰۃ بھی ماہ صیام کی مانند ایک نہایت ہی اہم فریضہ ہے ۔ زکوٰۃ امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم نعمت ہے جو فقر اور احتیاج سے نجات دلاتی ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پر تالا ڈال دیتی ہے ۔ اگر زکوٰۃ کی ادائگی صحیح طریقے سے کی جائے اور اس کا مال مستحق لوگوں تک پہنچایا جائے یا ضروری عمل میں صرف کیا جائے تو دور حاضرمیں مسلمانوں کی غربت ، مفسلی اور پسماندگی بڑی آسانی سے دور کی جاسکتی ہے ۔
زکوٰۃ سال میں کسی بھی وقت ادا کی جانے والی ایسی عبادت ہے جو سب پر فرض نہیں ہے ۔یہ صرف مالک نصاب افراد پر ہی فرض ہے ۔ مالک نصاب کے بارے میں فقہاء نے فرمایا ہے کہ انسانی ضرورت کے سوا باقی بچی دولت اگر ساڑھے سات طولہ سونا یا ساڑھے باون طولہ چاندی کی مقدار میں ہے اور جمع رقم ایک سال تک آپ کے پاس موجو د رہی تو آپ ملک نصاب ہیں ۔ آپ پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ایک طولہ دس سے بارہ گرام کا ہوتاہے ۔نصاب کی رقم کے بارے میں فقہاء نے مزید توضیح فرمائی ہے ۔ سونا چاندی کی مقرر مقدار نہ پائے جانے کی صورت میں اگر دونوں کو ملاکر مقدار پوری ہوتی ہے تو بھی زکوٰۃ فرض ہے ۔ اسی طرح اگر سونا چاندی نہیں ہے بلکہ پیسہ یا ضرورت سے سوا زمین ،جائداد یا گاڑیاں ہیں جن کی قیمت مقررہ سونا چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔آج کے وقت میں کم و بیش تیس ہزار کی قیمت پر آدمی مالک نصاب ہو جاتا ہے ۔ اگر آپ کے پاس آپ کی ضرورت کے سوا کم و بیش تیس ہزار روپئے محفوظ ہیں ۔ یہ رقم ایک سال تک محفوظ رہی تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔مزید مسائل اور تفصیلات کیلئے علماء ، فقہاء اور مفتیان کرام سے رابطہ کرنا چاہئے ۔
زکوٰۃکی مقدار اس محفوظ مال کا ڈھائی فیصد ہے ۔ سوروپئے میں سے ڈھائی روپئے ۔عام طور پر مسلمان زکوٰۃ کے معاملے میں سستی سے کام لیتا ہے ۔ آج کے شئر مارکٹ کو دیکھتے ہوئے سونا اور چاندی کی قیمت میں کافی فرق ہے اسلئے ایک غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ جب تک ساڑھے ساتھ طولہ سونا نہیں ہوجاتا زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ۔ جبکہ سونے کی قیمت کو دیکھتے ہوئے تقریبا دو طولہ سونا ہی سے چاندی کے نصاب کی مقدار پوری ہوجا تی ہے ۔ زمین جائداد اور گاڑیوں کے معاملے میں بھی سستی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب بڑی کوتاہی گھروں میں موجود عورتوں کے زیورات کو لیکر ہوتی ہے ۔ اکثر ہم ان کے زیورات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہمیں خوب خیال رکھنا چاہئے۔ اپنے علماء سے تفصیلی معلومات حاصل کر کے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ اسلام کے فرائض میں سے ہونے کے علاہ کسی دوسرے کا حق ہے جو ہم نہیں کھا سکتے ہیں۔ اللہ کے حق کے ساتھ بندوں کے حق مارنے کا جرم ہم پر عائد ہوتا ہے ۔
زکوٰۃ کے مستحقین کے بارے میں قرآن نے بیان کیا ہے ۔ زکوٰۃ فقراء ، مساکین ،غرباء، یتیم او ر بیوا وغیرہ کو دیا جانا چاہئے ۔اس میں بھی اکثر غلطی کر تے ہیں ۔ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد مستحق کو نہیں پہنچاتے ہیں ۔ اس سے مال تو چلا جاتا ہے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے ۔زکوٰۃ کی قیمت ،صورتوں کے ساتھ مستحق کی تلاش بھی اشد ضروری ہے ۔کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد مال صرف کرنا نہیں ہے بلکہ اس مال سے دوسروں کی ضروتوں کو پورا کرنا مقصود ہے ۔اس معاملے میں بڑی بے راہ روی کا معاملہ بھی در پیش ہے ۔ آج کل کچھ لوگ زکوٰۃ کی رقم کو الگ الگ وجوہات کے نام پر وصولنے کا کاروبار کر رہے ہیں ۔ جس سے نہ تو مال خرچ کرنے والے کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے اور نہ ہے وہ مال صحیح و مستحق جگہ پہنچ کر اپنا مقصد پورا کر پاتا ہے ۔افسوس اس کاروبار میں دین کے ذمہ داروں کا نام بدنام کیا جاتا ہے ۔ چند نام نہاد علماء نما بہروپئے اس قبیح عمل کو انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے پوری علماء برادری سوالوں کے گھریے میں آ جاتی ہے ۔
ایک با ت ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کی گئی عبادتوں میں سے کوئی بھی عبادت ایسی نہیں جس کسی حکمت سے خالی ہو۔اس حکمت میں انسان کے جسمانی و روحانی ، فکری و عملی ہر پہلو ملحوظ خاطر ہوتا ہے ۔ جس طر ح نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے باز رکھتے ہے اور روزہ انسان کی روح کو عیبوں اور برائیون سے پاک رکھتا ہے اسی طرح زکوٰۃ انسان کے مال کو پاک کرتا ہے ۔اس مال کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس زکوٰۃ کا بھی فلسفہ روزہ جیسا ہے ۔ جس طرح بھوکا رہنے سے انسان کی روح غذا پاتی ہے اسی طرح جب مال سے زکوٰۃ اداکر دی جاتی ہے تو اس میں اور برکت پیدا ہو جاتا ہے ۔ روزہ کا جسمانی فائدہ ہے ۔ زکوٰۃ کا بھی جسمانی فائدہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت کو پوری کرتاہے ۔یہ نظام قدرت ہے ۔ آپ کے مال میں دوسروں کا حق ہے ۔ وہ آپ کے یہاں سے جائے گا ۔ ہر حال میں جائے گا۔ اگر بتائے ہوئے راستے سے اس کو روانہ نہیں کریں گے تو وہ اپنے راستے خود بنا لے گا جو بسا اوقات بلکہ اکثر تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ لیکن شاید ہماری عقلوں پر دولت کی وجہ سے پردہ پڑ جاتا ہے ۔ ہم دیکھ نہیں پاتے۔
انسان کی تخلیق بھی اس نے ہی کی ہے ۔ اس کو علم و ہنر بھی اسی نے دیا ہے ۔ اس کے ذریعہ دولت مند بھی اس نے بنایا ہے ۔ اب وہی کہتا ہے ائے کھالی ہا تھ پیدا ہونے والے انسا ن اور واپس خالی جانے والی مخلوق، کمائی ہوئی دولت سے زکوٰۃ کا حصہ ضرورت مندوں کو پہنچا دو اور باقی بچی ہوئی دولت اپنے پاس رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے نظام کے ذریعہ امت مسلمہ پر عظیم احسان فرمایا ہے ۔ آج سماج و مذہب کے ذمہ داروں کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ آج ہماری قوم مسلم جس علمی و لیاقتی پسماندگی کا شکار ہے ۔ جس کی وجہ سے ذلت خوارگی اس قوم کا مقدر بنتی جار ہے ہے ۔ اس کا حل اسلام نے پہلے ہی دے دیا ہے ۔تعلیم ، صحت ، تجار ت ، روزگار اور دیگر ضرورتوں کو اہم اس عظیم نظام کے ذریعہ پورا کر سکتے ہیں۔ ہر وہ وسائل اور ذرائع ہمارے پاس ہونگے جن کی ہمیں ضرورت ہے ۔کالج، یونیورسٹیا ، اسپتال ، کارخانے اور ہر قسم کی تجارت میں ہمارا حصہ ہوگا ۔ہر طرح کی پسماندگی دور ہوسکتی ہے ۔ دور خلافت میں اسی زکوٰۃ و صدقات کے کے پیسوں سے بنا بیت المال تما م مسلماون کی کفالت کیا کر تاتھا ۔ آج تو اور آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے فکر پیدا ہو ۔ فرائض کی ادائگی کا جذبہ بے دار ہو ۔ ہم خود اپنے آپ کو پسماندگی کے دلدل سے نکلنے کیلئے ذہنی و فکر ی طور پر تیار ہوں۔ اقدام کی ہمت ہو اور فکر میں اخلاص کے ساتھ گیرائی و گہرائی ہو تو کوئی میدان ہماری دست قدرت سے دور نہیں ۔ یہ ماہ صیام ہمیں اس نظام کے بہت قریب کرتاہے ۔ باقی دنوں کی بنسبت اس مہینے ایک قسم کی فکر پیدا ہو جاتی ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ زکوٰۃ ادر کرتے ہیں۔ آج دونوں چیزوں کی ضرورت ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرنے کی فکر اور مستحق تک پہنچانے کی جستجو۔ ایک ادنی سی تو جہ پوری قوم کا رخ بدلنے کیلئے کافی ہے ۔البتہ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ ہم خود کو بدلنے کیلئے تیار ہیں کہ نہیں ۔ کیونکہ خود رب تبارک و تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ ’ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود ہی بدلنے کا شعور فکر نہ ہو ‘(القرآن : ترجمہ)۔
یہ ایک لمحہ فکریہ کے ساتھ موقعہ ہے ۔ توجہ ،اخلاص اور اقدام ہمیں بدلنے کیلئے تیار ہے ۔ کیا ہم کمر بستہ ہیں؟

No comments:

Post a Comment