رمضان کریم، علماء کرام اور اپنا محاسبہ
عبد المعید ازہری
رمضان یقیناًروحانی اور انسانی تربیت کا مہینہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ انسان ہمدردی کے نہایت ہی قریب ہوتا ہے۔ کسمپرسی کے حالات کم سے کم تر کئے جانے کی روایتیں کثر ت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔دل بڑا نرم ہوتا ہے۔ ضرورت مندوں کی فریاد رسی میں جلدی بھی کی جاتی ہے۔ صوفیا کہتے ہیں کہ رمضان احتساب نفس کا مہینہ ہے۔ جب اس مہینہ انسان اس قدر مہذب رہ سکتا ہے تو دیگر ایام میں وہ رب کی قربت کا متلاشی کیوں نہیں ہوتا۔آج کل تو سوشل میڈیا پر بھی اس ماہ مبارک کی مناسبت سے کار ثواب کی خوب کمائی ہوتی ہے۔ ایک روز اسی سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی صاحب کا ایک اسٹیٹس پڑھا ’جو قوم اپنے علماء کو رسیدیں لے کر در در بھٹکنے پر مجبور کرے، وہ قوم چین و سکون سے کیسے رہ سکتی ہے‘۔ واقعی جملہ تو اچھا تھا۔ دل پر اثر بھی ہوا۔ جس جماعت کی اہمیت و فضیلت میں قرآنی آیات و نبوی پیغامات کا نزول ہو ا ہو، اسے یوں گلی گلی گھمانا واقعی انصاف نہیں ہے۔بڑی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ممبئی جیسے شہرمیں تو باقاعدہ لائن لگتی ہے۔ اہل ثروت کے دروازے سیکڑوں کی تعدادمیں بڑی داڑھی ، اونچی ٹوپی اور سفید کرتا پجامہ رومال اور دیگر دیدہ زیب کیلئے ضروری ملبوسات کے ساتھ ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ انہیں بڑی ہی پر تکلف حالات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ہر اہل و نا اہل کی کھری کھوٹی سننی پڑتی ہے۔بڑی رقم لینے کیلئے بڑے سے بڑے جھوٹ اورمکر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اس سے بھی بڑے برے حالات ہوتے ہیں جو تحریر کی زد سے باہر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قطار بند جملہ اہل ٹوپی و کرتا کیا واقعی میں علماء ہی ہیں؟یا اگر ان میں کچھ علماء بھی ہیں تو آخر انہیں ایسی ذلت کا سامنا کرنے پر کیاچیز اکساتی ہے؟ایسا کیا مجبوری ہے جس کی وجہ سے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کو ملتی ہیں؟ایک اندازے کے مطابق قطار میں کھڑے لوگوں میں واقعی علماء کی تعداد نہ کے برابر ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر 30 فیصد سے لیکر 80فیصد یا پھر 100 فیصد والے لوگ ہوتے ہیں۔ فرضی ڈگری، فرضی مدرسہ اور فرضی شکل و شباہت والے ہوتے ہیں۔اس فرضی تجارت نے اصل حقدار کو محروم کر رکھا ہے۔ اسی کی وجہ سے انہیں بھی مکر و فریب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔آخر مدرسہ اور مسجد کی کمیٹی چندے کیلئے کیوں نہیں جاتی؟ مذہبی معاملات میں تو خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور کسی مفتی کی طرح فیصل فتوی داغتے ہیں۔ لیکن بوقت ضرورت وہ بھی اپنے مدرسین کو ایک ماہ کا اضافی نذرانہ دے کر انہیں رقم وصولی پر بھیجتے ہیں اور یہ لوگ نکل پڑتے ہیں۔ ان سب کیفیات و حالات سے قطع نظر اصل سوال یہ ہے کہ وصول کی جانے والی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ وہ یا تو زکوٰۃ وصولتے ہیں یا فطرہ۔ دونوں ہی رقموں کے حقدار کون ہیں؟ یہ جو لوگ اس رقم کو وصول کرتے ہیں اور پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں کچھ نہ کچھ مسائل سے علم بھی ہے۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اس مال کا صحیح حقدار کون ہے۔اگر انہیں پتہ اور اس کے باوجود اسے وصول رہے ہیں تو کیا یہ لوگ اہل حق کا حق نہیں مار رہے ہیں؟ یہی سوال ادائگی کرنے والوں سے بھی ہے کہ صرف پیسہ خرچ کر دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس مال کو اس کے حقدار تک پہنچانا بھی انہیں کی ذمہ داری ہے۔
یہ ایک نہایت ہی نازک اور حساس مسئلہ ہے ۔ بہت سے اہل مدارس یا پھر چندہ کے تاجروں کو اس تحریر سے سخت اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر صحیح معنوں میں غور کیا جائے تو یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اس روش سے نہ صرف جرم ، گناہ اور حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ قوم کا ہر میدان میں نقصان ہو رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق رمضان کے مہینے میں پورے ملک بھر میں زکوٰۃ اور فطرہ کے نام پر نکلنے والی رقم 30 ارب روپئے کم و بیش ہے۔ اتنی رقم مستحقین کیلئے نکلتی ہے۔ اب اس میں سے کتنی رقم مستحقین تک پہچنتی ہے، یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔اس پر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ رقم مستحقین تک نہیں پہنچی توکیا وہ زکوٰۃ اور فطرہ کے نام پر نکلنے والی رقم کی صحیح ادائکی ہو گئی؟
یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ دس برسوں میں قوم کا نقشہ بدلنے کیلئے کافی ہے۔ اب اس نظم اور سسٹم پر غور کریں کہ کس قدر بد عنوانی بھری پڑی ہے۔ اب اس میں رقم نکالنے والوں کی مجبوری ہے یا وصولنے والوں کی ہے۔ یہ آپ کے صواب دید پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن مسئلہ کی نزاکت بدستور باقی ہے۔قوم کی زبوں حالی، علمی و فکری زوال جاری ہے، پسماندگی مقدر بنتی جا رہی ہے۔جو دور ہو سکتی ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر یہ قوم اپنے مسائل حل کرنے کی اہل ہے۔بس ضروری ہے کہ یہ قوم ان مشکلوں سے خود نکلنا چاہے۔ گداگری اور کشکول برداری کی ذلت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہے، تو کچھ بھی مشکل نہیں۔
اتنی بڑی رقم میں اگر ہر سال دس ہزار گھروں کی کفالت کی ذمہ داری لے لی، اتنے نوجوانوں کیلئے روزگار مہیا کر دیا جائے، ان کے لئے چھوٹے کاروبار کا انتظام کر دیا جائے، تو ذرا غور کریں کہ یہ قوم کہاں ہوگی۔یہ قوم پڑگی لکھی ہوگی، اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔ کسی کے آگے مجبوری اور بے بسی کی فریاد نہ کر رہی ہوگی۔ یہ قوم کسی کے لئے تختہ مشق ستم نہ ہوگی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس و مساجد کی طرف سے یکسر منہ موڑ لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خدا کا گھر دوسرا اس کے محبوب کا گھر ہے۔ اب اس گھرمیں کس طرح کا پیسہ لگایا جائے۔ زکوٰہ جسے اہل ثروت کے لئے میل کہا گیا ہے۔ اب اگر اسے اپنی قوم کی مذہبی تعلیم میں لگایا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا! مسجد و مدرسہ قوم کی اپنی ذمہ داری ہے۔ خدا کریم نے مؤمن کی کمائی کو جن حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس میں ایک حق و حصہ مسجد و مدرسہ کا ہے۔ جس طرح خود کا ، اپنے اہل عیال، والدین اور تعمیرملک و معاشرہ کیلئے ہماری کمائی کا حصہ مختص ہے، اسی طرح خدا اور اس کے محبو ب کا بھی حصہ مختص ہے۔اس مال سے اس میں امدا د کی جانی چاہئے ۔ ایسا ممکن اور آسان ہے۔بس نیب ہونی چاہئے۔
علماء کرام میں تبلیغ دین اور تدریس علم دین کے علاوہ اگر روزی روٹی کیلئے اضافی ہنر کا، تجارت و کاروبار کا رجحان پیدا ہو جائے، تو خدمت میں خلوص کے ساتھ ضرورتوں کی بھی کافی حد تک تکمیل ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر انبیا ، صحابہ اور بزرگوں کی تاریخ زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اس کی تفصیلی وضاحت پھر کبھی۔
مال کی ادائکی جتنا زیادہ مستحقین کو ہوگی اتنی ہی جلد ان کی تعدام میں کمی آئے گی۔ خود کار طور پر ضرورتیں ختم ہوتی چلی جائیں گی۔سب خود کفیل ہوں گے۔ تعلیم و تربیت کے لئے خود خرچ کریں گے۔ مفت میں تعلیم کے خواہاں نہیں ہوں گے۔ یا دینی تعلیم کیلئے پھر رقم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دونوں طرف سے کوشش ہوگی۔ یہ راستہ کافی آسان ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ زکوٰۃ و فطرہ کے علاوہ اپنی اصل کمائی سے مال کی ادائکی نہیں ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق اتنی ہی رقم 30 ارب روپئے کم وبیش سالانہ جلسے جلوس، فاتحہ، نذر و نیاز، عرس و محافل میں خرچ ہوتے ہیں۔اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ پیسے کی ادائگی میں کہیں کوئی خاص کمی نہیں بلکہ سسٹم اور نظم و نسق میں کمی ہے۔
مجوزہ چندہ خوری کا نظام اگر بند ہوتا ہے اور اس کی جگہ صحیح نطام قائم ہوتا ہے، تو اس سے فراڈ اور فرضی چندہ خوروں کی تعداد میں بھاری کمی آئے گی۔جن کی تعداد تقریبا90 فیصد ہے۔ علماء کا وقار بھی برقرار رہے گا۔ انہیں در در بھٹکنا نہیں پڑے گا اور نہ ہی انہیں قطار بند ہو گر ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔
اہل ثروت اگر کروڑوں روپئے نکال سکتے ہیں، تو ان کیلئے کیا بعید ہے کہ وہ مستحقین کو تلاش کریں اور قوم کی پسمانگی کو دور۔ اس کی غریبی اور احتیاج کو ختم کریں۔ بھکاریوں کی تعداد سے اس قوم کو نکالیں۔ اور خود کو اس کا حصہ بننے کی لعنت سے نکلیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

No comments:
Post a Comment