Tuesday, June 20, 2017

مہمان کی رخصتی اورہزار مہینوں سے افضل را ت The Night better than thousand monthsहज़ार महीनों से अफज़ल रात


مہمان کی رخصتی اورہزار مہینوں سے افضل را ت 
عبد المعید ازہری

یہ مبارک مہینہ اپنے آخری ایام پورے کر رہا ہے۔ اس کی برکتیں اور سعادتیں ہر کسی کے لئے عام رہی ہیں ۔ جس کو جتنی توفیق ہوئی اس نے فائدہ حاصل کیا اور اب وہ ہم سے رخصت ہو رہا ہے ۔آنے والا جمعہ رمضان کا آخری جمعہ ہے ۔جسے ہم جمعۃ الوداع کہتے ہیں ۔ اس جمعہ کی اپنی ایک روایت ہے ۔چونکہ رمضان ایک مہمان کی حیثیت سے ہمارے درمیان آیا تھا اور جب تک رہا بڑا ہی سخی اور فیاض رہا ۔ ہر خاص و عام پر اس کا انعام ہوا ۔ سبھی نے اس کی برکتیں لوٹیں اور جس کا جتنا دامن تھا اس کے سوا حاصل کیا ۔آج رمضان جب رخصت ہونے کو ہے، ایک روزہ دار کا روزہ اس سے مخاطب ہے’’ الوداع اے ماہ مبارک الوداع ، الوداع اے ماہ رمضان الوداع، آنکھیں پر نم ہیں۔ دل غمگین ہے ۔ لب پر شکر خداہے کہ اے ماہ مبارک یہ تیرا احسان اور رب کا خاص فضل ہے کہ توہمارے درمیان آیا اور ہمیں تیرے ذریعہ رب کی قربت کا موقعہ ملا ۔ شکر ہے رب کا کہ اس ماہ مبارک میں اس نے ہمیں اپنے قریب ہونے کا خاص موقعہ دیا ۔شکر اس کا کہ اس نے ہمیں خدمت خلق کا عادی بنا یا۔شکر اس کاکہ اس نے انسانیت سے قریب کیا ۔ قرآن سے قریب کیا۔عبادت کا شوق دیا ۔بندگی اور نیاز مندی سے روشناس کرایا۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کا سلیقہ، طریقہ ،موقعہ اور اس کی ادائگی کا جزبہ دیا ۔اے خدا اس رمضان کے صدقہ میں تو نے وہ راستے کھولے جو فلاح و بہبود کے تھے ۔کامیابی و کامرانی کے تھے۔ تو نے ہمیں شر و فساد سے محفوظ کیا ۔ شیطان کو بند کیا تاکہ ہم بھٹک نہ سکیں۔اب یہ ماہ مبارک ہم سے رخصت ہونے کو ہے ۔اس کی بے بہا نعمت و تکریم کے باوجود ہم اس کی کما حقہ ضیافت نہ کر سکے ۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں تیری بدولت سحری و افطار ملی ، قرآن و تراویح ملی اور لیلۃ القدر جیسی عظیم رات کا تحفہ ملاجو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ شب قدر جو ہزار مہینوں سے افضل ہے‘‘(القرآن)
اس ماہ مبار ک کی رخصتی کے وقت ایک محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ بابرکت مہینہ ہمارے درمیان کیوں آیا۔ ہمیں کیا دے کر جارہے ۔ ہم سے کس بات کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اس عظیم مہینہ میں نازل نعمتوں کو ہم پورے سال تک کے لئے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جس تقوی اور بندگی کا شوق اس مبارک مہینہ میں پیدا ہوا ہے، کہیں وہ ہم اسی مہینہ تک محدود تو نہیں کر دیں گے۔جس اخلاص اور رواداری کا معاملہ ہم نے اس مہینہ میں کیا ہے، کیا ہم اسے آگے بھی کرنے کیلئے تیار ہیں۔اگر ہم متقی نہ ہوسکے ۔ خدا پرست نہ بن سکے، خلوص و للہیت کا جزبہ پیدا نہ ہو سکا، تو شاید ہم نے رمضان مبارک سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ رمضان میں حاصل کی گئی نعمتوں کا اظہار آئندہ ایام میں ہوتاہے ۔ اگر ہم نے وہی ایثار و عبادت کا ذوق قائم رکھا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ماہ مبارک سے ہم نے کچھ حاصل کیا۔ اگر ہم آئندہ کیلئے بھی صبرو رضا اور استقرار و استقلال کا پیکر بنے رہے، تو رمضان کی تعمتیں اب بھی جاری و ساری ہے۔تراویح کی لذتوں کو اب بھی محسوس کر رہے ہیں تو ہماری تربیت ہو گئی ہے ۔ ہماری جبینوں میں سجدوں کی تڑپ اور ہمارے دل میں خلق خدا سے محبت اور ان کی خدمت کا جزبہ آ گیا، تو ہم نے ہزار مہینوں سے افضل رات کے قیام کو پالیا ہے۔
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے رمضان کے آخری عشرہ میں تمہاری نجات کا پروانہ رکھ دیاہے۔ اسے تم آخری عشرہ کی تاک راتوں میں تلاش کرو۔دوسری جگہ فرمایا جو لیلۃ القدر کی رات پائے اور قیام نہ کرے تو وہ محروم وکم نصیب رہا۔ اور اس طرح کی کئی احادیث کریمہ ہیں جو لیلۃ القدر کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں۔ ویسے رمضان کریم کے مہینہ میں یہ اللہ کا خاص فضل ہی ہے کہ بظاہر ایک جیسی رات ہے۔ اس کا وقت اور اسکی چال وہی عام راتوں جیسی ہے۔روز کی طرح آج بھی سورج غروب ہوتے ہی اس رات کی شروعات ہوگئی تھی ۔ لیکن اس کی فضیلت اتنی کی یہ ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ یہ رب کا ہی کما ل ہے کہ وہ بسا اوقات بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی چیزوں میں بھی اتنا فرق پید کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کی ضد معلوم دینے لگتی ہیں۔اسلام میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو نسبت کی وجہ سے الگ اور ممتاز نظر آتی ہیں۔ صفاء و مروہ جیسی پہاڑی جو محض پتھر ہیں لیکن اسے اپنی نشانی قرار دے دی۔ مقام ابراہیم جو ایک پتھر ہے اس کے سامنے دورکعت نماز ادا کرنے کو حج کا حصہ بنا دیا۔ حجر اسود جو ایک پتھر ہے اس کا بوسہ ضروری ہے۔ اس طرح کی کئی ایسی چیزیں ہیں جو بظاہر ایک جیسی نظر آتی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی کا رتبہ اتنا بلند کر دیا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی اصل میں باقی رہتے ہوئے اصل سے الگ ہے۔یہ ایک آزمائش بھی ہو سکتی ہے کہ یہ رب کی قدرت ہے کہ ایک انسان مزدوری کرتا ہے دوسرا انسان ملک کا حاکم ہوتا ہے بظاہر ایک جیسے ہیں لیکن زمین آسمان کا فرق ہے ۔اسی طرح سے رمضان مبارک کی ہر رات اہم اور عام راتوں سے افضل ہے لیکن شب قدر وہ رمضان کی بھی عام راتوں سے افضل ہے ۔ اس کی عظمت کا اندازہ رب کے فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہزار راتوں سے افضل ہے ۔ یعنی عام دنوں میں اگر ایک بند ہ ہزار راتوں تک عبادت کرے اور ایک شب قدر کی رات کو عبادت کرے تو شب قدر کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے ۔
اس رات کاذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔ ’’بے شک ہم نے قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا ، یہ قدر والی رات ہزار مہینوں سے افضل ہے(القرآن)یہ عبادت کی رات ہے اس رات کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہئے۔ کیونکہ پھر یہ موقعہ سال بھرنہیںآئے گا اور کیا خبر سال بھر کے بعد واپس آئے تو ہم اس کے لئے موجود ہوں نہ ہوں۔ اس لئے مؤمنوں! ایک عزم مستقل کے ساتھ اس رات کااستقبال کرو اور اپنے گذشتہ گناہوں کی مغفرت طلب کرو۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ اس قدر والی را ت قیام اور عبادت سے ماضی کے گناہوں کی معافی مل جایا کرتی ہے۔اس رات کو اپنی ہی نہیں بلکہ اپنوں کی مغفرت کا ذریعہ بناؤ کہ اس دار فانی سے کوچ کر جانے والے آباو اجداد و جملہ مؤمنین و مؤمنات کو اس بات کا انتطار رہتاہے کہ کوئی تو ہو جو انکے لئے اس
مبارک رات میں مغفرت کی دعا کر دے جس سے رب انکے گناہوں کو معاف کردے۔
یہ رب سے حد درجہ نزدیکی کی رات ہے۔ اس رات رب کی خاص قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس کی خاص تجلی نازل ہوتی ہے۔اس رات وہ اپنے بہت سے راز افشا کرتا ہے۔ اہل معرفت کو دیدار الٰہی بھی نصیب ہوتاہے۔ اس لحاظ سے یہ ان کے لئے معراج کی رات ہے ۔
ہمیں چاہئے کہ اس رات کو ہم خالص عبادت کی رات بنائیں ۔ نوافل اور وظائف کی کثرت کریں۔ رب کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آنسو بہائیں ۔ یاد رہے! رب پکار کر کہتا ہے ائے میرے بندوں !تمہیں معاف کرنے کیلئے میرے پاس بہت وقت ہے۔ کیا تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہے کہ تم اپنی نجات چاہو، توبہ و استگفارکرو؟ائے مسلمانوں !یہ ایک موقعہ ہے۔ اس کو استعمال کر لو۔ اس رات کی قدر کر لو کہ پھر ہاتھ ملنے اور پچھتانے کے سوا کچھ نہیں رہیگا۔کل کے پچھتاوے سے آج کی رات کا قیام بہتر ہے ۔ کیونکہ اب یہ مبارک رمضان کا مہینہ بھی ہم سے رخصت ہونے کو ہے۔ اسے ہمیں الوداع کہنا ہے۔ یہ جاتے جاتے اپنی عظیم ترین نعمت دیکر جانا چاہتاہے۔ اس لئے مؤ منوں اسے ٹھکراؤ نہیں اس کی قدر کرو کہ پھر یہ موقعہ باربار نہیںآئے گا ۔
لیلۃ القدر کے بارے میں کئی روایتیں ہیں۔۲۱ ویں رات سے لیکر ۲۹ تک کی تاک راتوں کاذکر ہے۔ لیکن ۲۷ کی رات کے بارے میں زیادہ اقوال ہیں۔ لہٰذا اسے اپنی عبادت کے لئے لازم پکڑلو۔یہ نجات کی رات ہے ۔قربت الٰہی کی رات ہے ۔ پچھلے و پچھلوں کے گناہوں کی مغفرت کی رات ہے ۔ قرآن کی رات ہے ۔ فرشتوں کے بھی نزول کی رات ہے ۔ اس را ت رب خود تم سے قریب ہوتا ہے ۔ بس تم اس کے لئے تیاری کر لو۔ قیام و عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ پھر دیکھو ساری راتیں کیسے سکون سے گزرتی ہیں۔اے لوگوں!اس مہمان کے باقی بچے ہوئے چند دنوں کی خوب ضیافت کرلو۔ اب تک جو نہ کر سکے
ہوں، وہ اب کرلیں۔ جنہوں نے کیا ہو وہ اور کر لیں۔دو دنوں بعد یہ مہمان چلا جائے گا۔یعنی کہ ماہ مبارک رمضان چلا جائے گا۔آنکھیں نم ہیں دل غمگین ہے۔لب پہ خدا کا شکر ہے ۔الوداع اے ماہ مبارک الوداع۔ *****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

No comments:

Post a Comment